دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

زلزلے کے بعد بحالی اور جماعت اسلامی

سلیم منصور خالد | دسمبر۲۰۰۵ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

۳ رمضان المبارک کی صبح زلزلے سے آزاد جموں و کشمیر میں مظفرآباد‘ باغ‘ کوٹلی اور  راولا کوٹ کے ساتھ نیلم وادی اور لائن آف کنٹرول کا علاقہ بری طرح متاثر ہوا اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ وادی نیلم اور وادی جہلم کے بے شمار دیہات اور پہاڑوں پر بستے گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں مانسہرہ‘ ایبٹ آباد‘ بالاکوٹ‘ بٹگرام‘ شانگلا کے طول و عرض پر موت کے سائے حکمران ہوئے۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں ۳۵لاکھ سے زیادہ لوگ بری طرح متاثر ہوئے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جاں بحق اور ۳لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جہاں پر ۴ لاکھ ۷۱ ہزار ۶ سو ۹۰ مکانات تباہ ہوئے۔ ان میں سے ۲لاکھ ۳۰ ہزار اور ۷۷ گھر صوبہ سرحد میں‘ جب کہ ۲لاکھ‘ ۴۱ ہزار ۶ سو ۱۳ گھر آزاد کشمیر میں تباہی سے دوچار ہوئے۔ ان علاقوں میں ایک ہزار بارہ کلومیٹر (چھوٹی بڑی) سڑکیں تباہ ہوئیں‘ جن میں  سے کشمیر کی ۵۹۸ کلومیٹر اور سرحد کی ۴۱۴ کلومیٹر طویل سڑکیں شامل ہیں۔ اب تک حاصل شدہ   اعداد و شمار کے مطابق ۶ ہزار ۴ سو ۹۲ اسکول‘ دینی مدرسے اور کالج تباہی کا نشانہ بنے‘ جن میں آزادکشمیر کے ۴ ہزار ایک سو ۷ اور صوبہ سرحد کے ۲ ہزار ۳سو ۹۰ تعلیمی ادارے تباہ ہوئے۔

زلزلے کی تباہ کاریوں کا حال جوں ہی ذرائع ابلاغ سے نشر ہوا‘ یوں محسوس ہوا کہ خیبر سے کراچی تک پوری پاکستانی قوم میں بجلی کی طرح یہ جذبہ سرایت کرگیا کہ ہر فردِ قوم کو ‘بچے اور جوان کو‘ مرد اور عورت کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ یہ تاثر عام تھا کہ سنہ ۶۵ء کی یاد تازہ ہوگئی۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں‘ سبھی جاگ اٹھے۔ صرف پاکستانی ہی نہیں اسلام کے رشتے سے بندھی اُمت مسلمہ بھی جاگ اُٹھی۔ استنبول اور جدہ میں اسی طرح مہم چلی جس طرح کراچی اور لاہور میں۔ معاشرے میں جتنا خیر تھا سامنے آگیا۔ ہر ادارے اور ہرتنظیم نے اپنی بساط سے بڑھ کر کارگزاری دکھائی۔ انفرادی حیثیت میں بھی بڑے بڑے منصوبے روبۂ عمل آگئے۔ ذرائع ابلاغ نے اس لہرکو آگے بڑھایا گویا اپنا فرض ادا کیا۔ کوئی فہرست بنائی جائے‘ شمار کیا جائے تو بظاہر ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اور الخدمت فائونڈیشن نے جو کچھ کیا اس کا ایک تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔

قاضی حسین احمد‘ امیرجماعت اسلامی پاکستان کی ہدایت پر مرکز جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن نے تمام اضلاع کو متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی۔ پہلے ہی روز شام تک ایبٹ آباد کے راستے بالاکوٹ تک اشیاے صرف کی فراہمی اور طبی امداد کی ترسیل کا آغاز ہوا۔ ابتدائی مشاورت کے بعد راولپنڈی میں آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں کا بیس کیمپ قائم کرکے علی الترتیب ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور مشتاق احمد خاں کو متعلقہ کیمپوں کا نگران مقرر کیا گیا۔ نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ کی سربراہی میں مجموعی طور پر رابطہ کاری کا نظام قائم کیا‘ جب کہ الخدمت فائونڈیشن کے جنرل سیکرٹری سیداحسان اللہ وقاص جملہ اشیا کی ترسیل‘ اور منصوبہ سازی کے لیے سرگرم کار ہوئے‘ پاکستان کے بیسیوں صنعتی و تجارتی اداروں کے ساتھ ۵۰ممالک کی مختلف دینی و رفاہی تنظیموں اور مؤثر شخصیتوں سے رابطہ کیا۔

پہاڑی علاقے میں سڑکیں بند ہوچکی تھیں جس کے باعث ترسیل و رابطے کا نظام قائم کرنے میں سخت دشواری پیش آرہی تھی‘ تاہم ۲۴ گھنٹے کے بعد راستے بننے اور امدادی و طبی کارکنوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ دوسرے روز جماعت کے مرکزی نظم اور حلقہ خواتین کی مرکزی قیادت نے اپنے اپنے ہنگامی اجلاس طلب کر کے منصوبہ سازی کی۔ مثال کے طور پر ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر پاکستان بھر میں امدادی کیمپوں نے کام شروع کردیا اور صرف کراچی شہر میں اس نوعیت کے ایک سو سے زائد کیمپ کھڑے ہوگئے‘ جب کہ لاہور میں ۸۰ مقامات پر اشیا کو جمع کرنے کا انتظام کیا گیا۔

مقامی کارکنوں نے زلزلے سے متاثر ہونے اور اپنے عزیزوں کے کفن دفن میں مصروفیت اور رنج و الم کا پہاڑ اٹھانے کے باوجود جس حوصلہ مندی کے ساتھ متاثرین کی امداد کے لیے ہاتھ بٹایا‘ وہ تاریخی کردار کا حامل پہلو ہے۔ زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ باہر پڑے زخمیوں کا علاج کرنے اور بھوک و خوف سے نڈھال انسانوں کی مدد سب سے فوری اہمیت کے نہایت مشکل اہداف تھے۔ محدود وسائل اور بے لوث کارکنوں کی پرعزم ٹیم کے ساتھ اس جانب پیش رفت ہوئی۔ ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر مختلف جگہوں پر ۲۵ ہزار انسانوں کے لیے کھانے اور افطار کی ترسیل کا نظام بحسن و خوبی قائم کر دیا گیا۔ کارکنوں نے ملبہ ہٹانے‘ لاشیں نکالنے اور ان کی تدفین کے سخت تکلیف دہ فریضے کو بڑی جاں فشانی سے انجام دیا۔ نیز ہر علاقے میں عارضی خیمہ بستیوں کی تنصیب اور امدادی سامان کی فراہمی کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں۔ تباہی جس پیمانے پر وسعت پذیر ہے‘ اس میں لوگوں کی مدد کر کے انھیں بحال کرنا بڑا صبرآزما کام ہے۔ تاہم جماعت کے ۱۲ ہزار کارکنوں نے مختلف اوقات میں یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی‘ جن میں کشمیر کے مقامی ایک ہزار اور پنجاب و کراچی سے ۵ہزار کارکنوں نے‘ جب کہ صوبہ سرحد میں ۲ہزار مقامی اور پورے صوبہ سرحد سے ۳ہزار کارکنوں نے دادرسی کی کاوشوں میں حصہ ادا کیا۔

جماعت اسلامی نے ۱۰ اکتوبر کو کراچی سے ایروایشیا کی چارٹر فلائٹ کے ذریعے امدادی سامان راولپنڈی بھیجا گیا۔ لاہور جماعت نے پہلے ہی چند روز میں ڈھائی کروڑ اور کراچی میں جماعت اسلامی نے ۳۵کروڑ روپے سے زیادہ رقم جمع کی یا اس مالیت کی اشیاے صرف متاثرہ علاقوں کو بھیجنا شروع کیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر شہر اور قصبے سے جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ٹرکوں‘ ویگنوں اور جیپوں کے ذریعے نہایت تسلسل کے ساتھ سامان اور رضاکار کارکنوں کو جاے تباہی پر بھیجنے کا نظام قائم کیا اور دُور دراز پہاڑی مقامات کے لیے خچر اور گدھوں کے ذریعے باربرداری کا کام لیا گیا۔ اب دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے رسل و رسائل کا کام لیا جا رہا ہے۔

کراچی‘ لاہور‘ مرکز جماعت اور راولپنڈی میں امدادی اشیا کو چھانٹ کر مناسب پیکٹ تیار کرنے کا انتظام کیا۔ اشیاے ضرورت کی ترسیل کے مراکز میں راولپنڈی‘ مظفرآباد‘ ایبٹ آباد‘ باغ‘ مانسہرہ‘ بٹگرام‘ بالاکوٹ‘ راولا کوٹ‘ دھیرکوٹ‘ سیراں وغیرہ شامل ہیں۔

امدادی کاموں کے لیے ۵۵ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے۔ ۱۵ نومبر تک ایک ہزار ۸سو ۵۳ ٹرکوں میں سامان بھیجا گیا‘ جن میں ۱۸ ہزار خیمے‘ ۱۶ ہزار ترپال‘ ۲۰۰پلاسٹک رول‘ ایک لاکھ کمبل/لحاف‘ ۶ہزار جیکٹس‘ ۱۶ ہزار کفن شامل تھے۔

جن اشیاے خوردونوش کی فراہمی کی جارہی ہے ان میں: آٹا‘ چاول‘ گھی‘ کوکنگ آئل‘ چینی‘ دالیں‘گڑ‘خشک دودھ‘ پیکٹ دودھ‘ بسکٹ‘ جوس‘ منرل واٹر‘ کھجور‘ جام شامل ہیں۔ اشیاے صرف میں: گرم کپڑے‘ جوتے‘ صابن‘ ٹارچ‘ چولہے‘ گیس سلنڈر‘ موم بتیاں‘ ماچس‘ لالٹیں‘ چارپائیاں‘ برتن‘ وہیل چیئر‘ بیساکھیاں‘ واکر‘ اسٹریچر‘ پھاوڑے‘ کسیاں‘ گینتیاں‘ بیلچے‘ چھتریاں‘ جنریٹر 25KV شامل ہیں۔ خصوصی مہمات کے طور پر عیدگفٹ اسکیم پیکٹ ۱۳ ہزار اور راشن پیکج اسکیم کے تحت ۳۵ہزار پیکٹ تقسیم کیے۔

  • پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوی ایشن: طبی امداد کے لیے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کا عملی کردار سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے‘ ۹ اکتوبر کو پروفیسر ڈاکٹر محمداقبال خاں کو طبی امداد و بحالی کے وسیع کام کی رابطہ کاری اور منصوبہ بندی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جس کے تحت ۵۴۲ ڈاکٹروں اور ۴ ہزار ایک سو سولہ پیرامیڈیکل اسٹاف نے چھے ایمبولینسوں اور نجی ٹرانسپورٹ کے استعمال سے خدمات انجام دیں۔ فوری طور پر ایوب میڈیکل کمپلیکس میں الخدمت فائونڈیشن کیمپ کھولا‘ جب کہ بالاکوٹ‘ مظفرآباد‘ باغ‘ ایبٹ آباد‘ فیلڈ ہسپتال قائم کیے۔

۱۶ ممالک (سعودی عرب‘ کویت‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکا‘ برطانیہ‘ ہالینڈ‘ ناروے‘ سنگاپور‘ ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ جنوبی افریقہ‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ کینیا) سے ۱۸۰ ڈاکٹروں نے الخدمت میڈیکل ایڈ پروگرام میں ہاتھ بٹایا۔۱۰ کروڑ روپے کی ادویات فراہم کیں‘ جب کہ ۲کروڑ روپے کے طبی آلات خریدے گئے۔ معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضا کی فراہمی کا نظام وضع کیا گیا۔ تین فیلڈ ہسپتالوں (مظفرآباد‘ باغ‘ بالاکوٹ) اور گیلانی ہسپتال ایبٹ آباد میں ۵ہزار ۷ سو ۵۳ بڑے آپریشن اور ۳۵ہزار ۸سو ۷۰ چھوٹے آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ ۱۵ ہزار ۴ سو ۳۹ مریضوںکا علاج کیا گیا۔ ۴۷۱ موبائل ٹیمیں جو دُورافتادہ علاقوں بہ شمول کاغان‘ شنکیاری‘ شیام‘ الائی‘ وادی نیلم میں پہنچیں اور ۴۹ ہزار ۹ سو ۷۰ مریضوں کا علاج کیا۔ اس وقت الخدمت فائونڈیشن یا پیما کے ہسپتالوں میں ۳۱۲ ڈاکٹر‘ ۱۷۸ ڈسپنسر‘ ۷۴۰ طبی کارکن کام کر رہے ہیں۔

راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ ایبٹ آباد‘ پشاور‘ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں الخدمت کیمپ  قائم ہیں۔ راولپنڈی‘ ایبٹ آباد‘ اسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔  متحدہ عرب امارات کے فوجی ہسپتال بالاکوٹ سے تعاون کرنے کے ساتھ الہجری ہسپتال مظفرآباد اور کشمیر سرجیکل ہسپتال مظفرآباد کی تعمیرنو کا آغاز کیا گیا ہے۔ ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے  ’گودام ہائوس‘ کا بندوبست کیاگیا ہے۔

  • اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان: جمعیت نے باغ‘ بالاکوٹ اورمظفرآباد میں ۱۰ خیمہ بستی اسکول قائم کیے جہاں ۱۶۰۰ بچے زیرتعلیم ہیں۔ ان کی فیسیں‘ کتب‘ یونیفارم اور تدریسی اخراجات کا بندوبست کیا گیا ہے۔ کھاریاں کی اورسیز اکیڈمی میں میٹرک کے ۲۰۰ طلبہ کی امتحانی تیاری کے لیے تین ماہ کا اقامتی اسٹڈی سنٹر قائم کیا ہے‘ جہاں رہایش‘ خوراک‘ تدریس و تربیت کی جملہ ذمہ داری کو ادا کیا جا رہا ہے۔ بالاکوٹ اور مظفرآباد میں دو ریلیف کیمپ قائم ہیں جہاں جمعیت نے اپنے انتظام سے ۶۸۴ ٹرک سامان اکٹھا کرکے تقسیم کیا ہے۔ باغ کے دُور دراز مقامات پر سرگودھا اور فیصل آباد سے جمعیت کے کارکنوں نے امدادی اشیا تقسیم کیں۔ طبی امداد کے دو کیمپوں میں ۱۵۵ زیرتعلیم ڈاکٹروں نے مسلسل طبی خدمات انجام دیں ‘اور یہ سلسلہ منظم انداز میں تاحال جاری ہے۔

حلقہ خواتین‘ جماعت اسلامی پاکستان

تباہ شدہ علاقے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ بچوں اور مردوں کی اموات‘ گھربار کی بربادی اور زخمیوں کی بے چارگی نے منظر کو اور بھی زیادہ دردناک بنا دیا تھا۔  عدمِ تحفظ کا احساس اور خوفناک مستقبل اس پر حاوی تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے پردہ دار خواتین کے لیے گھر سے نکل کر ان عورتوں کی مدد کے لیے جانا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن الحمدللہ اس باب میں جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین نے جو پیش قدمی کی اپنی اہمیت کے پیش نظر اس کے کچھ پہلو الگ سے پیش کیے جا رہے ہیں۔

پہلامرحلہ سمت کا تعین اور افراد کار کو لائحہ عمل دینے کا تھا۔ جس کے لیے حلقہ خواتین کی سیکرٹری ڈاکٹر کوثر فردوس (ممبر سینیٹ) کی قیادت میں سرحد و کشمیر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ کارکنوں کی خیریت دریافت کی‘ ریلیف کے کاموں میں رہنمائی دی‘ متاثرین کی ضروریات اور مشکلات کا اندازہ لگایا اور تباہ حال علاقوں کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان علاقوں میں خواتین کے کسی بھی ادارے کی جانب سے یہ پہلی رابطہ کاری تھی۔

امدادی اشیا اور فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے گھروں‘ مخیر لوگوں اور فیکٹری مالکوں سے رابطے کیے۔ ایک ہفتے کے اندر دو کروڑ روپے جمع کر کے مرکز جماعت کو دیے گئے۔ جمع ہونے والے سامان کو نئے سرے سے چھانٹی کر کے ضروریات کے مطابق پیک کیا‘ لیبل لگائے اور ریکارڈ مرتب کیا۔ جو کپڑے صاف نہیں تھے یا سامان کی نقل و حمل کے دوران خراب ہوگئے تھے انھیں دھلوایا اور  استری کر کے تیار کیا گیا۔

  • اسلامی جمعیت طالبات نے معمول کی تمام سرگرمیوں کو معطل کرکے پوری توجہ امدادی کاموں پر مرکوز کر دی۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسٹال لگاکر فنڈ اکٹھا کیا اور الخدمت فائونڈیشن کو جمع کرایا۔ حلقہ خواتین کے امداد و بحالی کے شعبے کو خدمات پیش کیں‘ امدادی سامان کی پیکنگ اور ریکارڈ رکھنے میں مدد کی۔ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ایبٹ آباد‘ پشاور کے ہسپتالوں اور خیمہ بستیوں میں زخمی خواتین اور بچوں کی نگہداشت کے لیے ہاتھ بٹایا۔
  • اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (خواتین) نے ڈاکٹر سعدیہ ہارون     (رابطہ کار) کی رہنمائی میں طبی امدادی سرگرمیوں کو مربوط بنایا۔ ۱۲ اکتوبر کو ۲۰ ہزار میٹر کپڑا کفن دفن کے لیے فراہم کیا۔ لاہور‘ کھاریاں‘ کراچی‘حیدرآباد‘ فیصل آباد‘ گجرات‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ گوجرانوالہ سے لیڈی ڈاکٹروں نے خدمات پیش کیں۔ جن میں سے ۴۵ ڈاکٹر اور ۳۶ پیرامیڈیکل خواتین متاثرہ علاقوں میں گئیں۔ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ باغ‘ مظفرآباد‘ بالاکوٹ اور ایبٹ آباد کے ہسپتالوں میں خصوصی طور پر خدمات انجام دیں‘ جہاں خواتین پر مشتمل عملہ نہ ہونے کے برابر تھا اور پردہ دار خواتین اس تکلیف کے عالم میں بھی مرد معالجوں سے علاج کرانے میں متردد تھیں۔

ملایشیا‘ سعودی عرب‘ برطانیہ اور امریکا سے آنے والی خواتین ڈاکٹروں نے علاج معالجے کے لیے ہاتھ بٹایا۔ مستقبل کی منصوبہ سازی میں حصہ لیا۔ خواتین ڈاکٹروں اور طبی عملے (ملکی اور غیرملکی) کی رہایش اور نقل و حرکت کے جملہ امور نبٹائے۔ طبی ضروریات کی فراہمی‘ مریضوں کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں جماعت اسلامی خواتین‘ جامعۃ المحصنات اور اسلامی جمعیت طالبات نے بڑی توجہ اور اخلاص سے تعاون کیا۔

  • امید نو: زلزلہ زدہ علاقوں میں بالخصوص خواتین اور بچوں پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ زندہ بچ جانے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد صدمے‘ خوف اور ناامیدی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ حلقہ خواتین نے انھیں زندگی میں واپس لانے کے لیے ’امیدنو‘ کے نام سے ایک مربوط پروگرام کا آغاز کیا ہے‘ جس کے لیے نفسیاتی معالجین کی اعانت اور دینی تعلیمات سے حوصلہ مندی پیدا کرنے میں حکمت و دانش رکھنے والی خواتین سے مدد لی جارہی ہے‘ جو      بات چیت‘ مشاورت (کونسلنگ) اور مادی سہارے سے ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کارکنان کو تربیت دے کر ۲۰گروپوں پر مشتمل ٹیمیں تیار کی ہیں۔ ایسی ہر ٹیم میں دو ڈاکٹر‘ دوپیرامیڈیکل اور دو رضاکار خواتین شامل ہیں۔
  • گوشہ سکون: زلزلے سے بچوں اور خواتین میں سے بہت سارے لوگ بے سہارا ہوگئے ہیں۔ انھیں معقول‘ محفوظ اور تعمیری ٹھکانہ فراہم کرنے کے لیے حلقہ خواتین نے ’گوشہ سکون‘ کی صورت میں مراکز قائم کرنے شروع کیے ہیں۔ جہاں بے سہارا‘ معصوم بچوں اور عورتوںکو  فوری ٹھکانہ فراہم کر کے ان کے عزیزوں کی تلاش‘ تعلیم کا انتظام‘ کفالت کا بندوبست اور علاج معالجے کے ساتھ خواتین کو چھوٹے بڑے ہنرسکھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
  • مستقبل کے نقشہ کار کے لیے اھداف:
  • مساجد اور شیلٹر ہائوسوں کی تعمیر
  • یتیم بچوں کے لیے ایک سے زیادہ یتیم خانوں کا قیام
  • مواخات اسکیم کے تحت اس مہم کا   آغاز کہ پاکستان کی مختلف گھرانے کسی ایک ایک متاثرہ گھر کو پانچ سے ۷ہزار روپے ماہانہ کی کفالت کی ذمہ داری لیں
  • سیلف ایمپلایمنٹ اسکیم (self employment) کی تحت لوگوں کو پولٹری فارمنگ کی سہولت‘ مگس بانی (شہید) کی تربیت‘دوچار بھیڑبکریوں کی فراہمی‘ کھیت میں بوائی کے لیے بیج‘ ٹھیلاریہڑی کی فراہمی کے لیے امدادی پروگرام کی تشکیل
  • ویمن ووکیشنل سنٹرز کا قیام جہاں خواتین کی دینی اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست تاکہ وہ گھر پر روٹی روزی کا کوئی کام کرسکیں اور ابتدائی طبی امداد اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرسکیں
  •   گھروں کی تعمیر کے لیے لوہے کی چادروں اور سیمنٹ کی فراہمی اور تعمیراتی عمل میں رہنمائی کے نظام کا قیام
  • چار ہسپتالوں (بالاکوٹ‘ مظفرآباد‘ باغ‘ اسلام آباد) کی تعمیر‘ مرمت اور سہولیات کی فراہمی‘ ۲۵موبائل یونٹوں کی تشکیل و تنظیم‘ مصنوعی اعضا سازی کے مرکز کے قیام‘ سیٹلائٹ کلینک کی تنصیب اور فیلڈہسپتالوں کی صلاحیت کار کو بہتر بنانے کے لیے ۲۳ملین امریکی ڈالر (یا‘ ایک ارب ۳۸کروڑ روپے) درکار ہیں۔
  • معذوروں اور بیماروں کی بحالی کے لیے میڈیکل سنٹرز کا قیام جہاں فزیوتھراپی‘ سایکاٹری اور حوصلہ مندی کے ذریعے لوگوں کو فعال زندگی گزارنے کے لیے تیار کرنا۔
  • جمع شدہ کپڑوں اور چیزوں کو ضائع ہونے سے بچانے اور حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے راولپنڈی اور مانسہرہ میں اسٹور قائم کیے جائیں۔
  • توجہ طلب امور: بلاشبہہ متاثرین کی بحالی کا ایک قابلِ قدر کام ہے ‘لیکن اس دوران چند پہلو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں:
  • پہلا یہ کہ عوام میں مدد کے لیے جو فوری جوش و خروش پیدا ہوا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ وہ کم ہوگا‘ جب کہ متاثرین کی مشکلات آنے والے وقت‘ بڑھتی جائیں گی اور ضروریات کے نئے چیلنج سامنے آتے جائیں گے۔ اس صورت حال میں متاثرہ شہریوں کی عزتِ نفس کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مدد دینا اور سرکاری شعبوں کی جانب سے روایتی بے اعتنائی کا سدباب کرکے سرکاری وسائل سے مدد بہم پہنچانا ہر مؤثر اور باخبرفرد کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں سرکاری یا نجی سطح پر جو تساہل یا لاتعلقی دکھائی دے اس پر متعلقہ حکام یا ذمہ داران سے رابطہ کر کے اصلاح احوال کی کوششوں کے ساتھ‘ تحریکی سطح پر دست گیری کرنا ہوگی۔
  • دوسرا یہ کہ متاثرین کودُور دراز مقامات پر خیمہ بستیوں میں بسانے کے بجاے‘ انھی متاثرہ علاقوں سے قریب پناہ گاہیں بنانے میں مدد دینا چاہیے۔ مہاجرت اور اس میں خیموں کی معاشرت بہت سارے سماجی‘ اخلاقی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
  • تیسرا یہ کہ ان متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی غیرملکی این جی اوز اور عیسائی مشنریوں کے کام پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے (جنھوں نے ۱۹۹۵ء سے پاکستان کو عیسائیت کے لیے ضروری ترین ملک قرار دے رکھا ہے)۔ غربت اور مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کے دوران ایسی    بے شمار تنظیمیں اپنے مذہبی‘ فکری اور سیاسی اہداف کو سامنے رکھتی ہیں جس میں تبدیلی مذہب یا تہذیبی تبدیلی کا بیج ڈالنے پر وہ توجہ دیتی ہیں۔ کشمیر اور سرحد کا یہ علاقہ اپنی اسٹرے ٹیجک حیثیت میں بڑی نزاکت رکھتا ہے۔ اس لیے بھی مغرب کی معاون قوتیں یہاں کے تعلیمی اداروں کو اپنا خصوصی ہدف بنائیں گی۔ اہلِ خیر کو اس نازک صورت حال سے آگاہ کر کے یہاں پر دینی مدرسے اور قومی تعلیمی ادارے قائم کرنے کو اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی اہمیت خوراک‘ علاج اور رہایش کو دی جارہی ہے‘ کہ اسی پر یہاں کی نسلوں کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ ایک سطح پر تو بیٹھک اسکول اور مسجدمکتب اسکیم کو روبہ عمل لایا جائے اور دوسری سطح پر تعلیم کے باقاعدہ اسکولوں کو قائم کیا جائے‘ تیسری جانب میٹرک اور انٹر کے طلبہ و طالبات کو امتحانی تیاری کے لیے مفت تدریسی سہولت بہم پہنچائیں جس کے لیے تنظیم اساتذہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات اپنے منصوبوں میںہم آہنگی پیدا کریں۔