دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| دسمبر۲۰۰۵ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

طلحہ داؤد ‘ لاہور

’’بچوں کی تربیت: بزرگ والدین کا کردار‘‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) اپنی نوعیت کی منفرد تحریر لگی۔ دادا دادی اور نانا نانی نئی نسل کی تربیت میں کیسے مؤثر کردار ادا کریں‘ بہت سے عملی نکات سامنے آئے۔ ابتدا میں اقبال کا ایک شعر بھی دیا گیا ہے جس میں حضرت موسٰی ؑاور حضرت شعیب ؑکا تذکرہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے کہ حضرت موسٰی ؑ نے جس خاتون سے شادی کی‘ وہ حضرت شعیب ؑکی بیٹی تھیں۔ قرآن مجید میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی۔ (ملاحظہ فرمایئے: تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۶۲۷-۶۲۸)


عمیر ہاشمی‘  سرگودھا

’’امریکی قیادت اور عالمی ضمیر‘‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) میں ایک پرانی کہاوت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھنا چاہیے اور جسے زمانہ برا کہے اسے برا سمجھنا چاہیے۔ یہ دوسری بات کچھ محل نظر ہے۔


حفیظ الرحمٰن احسن‘لاہور

مولانا مودودیؒ کے درس قرآن سورئہ مزمل (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) پر آپ کا ادارتی نوٹ نظر سے گزرا جس میں دروس قرآن کو مرتب کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ کے   دروس قرآن و حدیث مرتب کرنے کا کام باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت جاری ہے۔ اب تک کتاب الصوم اور فضائل قرآن جو کہ درس حدیث ہیں ‘مرتب کرکے شائع کیے جاچکے ہیں۔

دروس قرآن کو کاغذ پر محفوظ کرنے کا کام بحمداللہ جاری ہے۔ یہ درس مرتب ہوچکے ہیں اور اشاعت  کے لیے تیار ہیں:  ا: الفاتحہ، قٓ، الرحمٰن، الواقعہ، الحدید۔ ان میں سے الفاتحہ ادارہ   ترجمان القرآن کی طرف سے شائع کی جاچکی ہے باقی درس بھی ادارہ ترجمان ہی شائع کرے گا۔ ب: النبائ، النازعات، عبس‘ التکویر‘الانفطار‘ المطففین اور الانشقاق، یہ درس بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ ج: جو درس مرتب ہوچکے ہیں‘ تاہم ابھی طباعت کا مرحلہ نہیں آیا: الصف، الجمعۃ، المنافقون، التغابن، الطلاق، التحریم اور الملک۔ د: ان کے بعد القلم سے المرسلٰت تک کے دروس کا کام  پیش نظر ہے (مزمل بھی انھی میں شامل ہے)۔ ھ: ان کے علاوہ بھی بہت سے دروس موجود ہیں اور ان پر کام   پیش نظر ہے۔


پروفیسر عبدالماجد ‘مانسہرہ

حالیہ زلزلہ رب العالمین کی طرف سے اہل پاکستان خصوصاً ہزارہ اور آزاد جموں و کشمیرکے لیے ایک آزمایش اور تنبیہہ سے کم نہیں۔ ہزاروں لوگ اس میں جاں بحق ہوئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ لیکن اُن لوگوں نے بظاہر کوئی سبق حاصل نہیں کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت سے محفوظ رکھا‘ حالاں کہ ہم سب کے لیے جو اس میں زندہ سلامت رہے‘ بڑا سبق ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی سابقہ باغیانہ روش سے باز آجائیں‘ خدا اور رسولؐ کے احکامات و فرامین کی پابندی کریں۔ سود‘ جھوٹ‘ دھوکا دہی‘ عہدشکنی‘ خیانت‘ چوری‘ ملاوٹ اور ناقص تعمیر وغیرہ قسم کی برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کریںاور سچے دل سے اپنے رب کے حضور توبہ کریں۔

توبہ کا مطلب ہے کہ ہم اپنی غلط اور باغیانہ طرزِزندگی سے واپس پلٹیں اور اپنے رب سے سچا تعلق استوار کریں‘ اس کے دین سے چمٹ جائیں اور آیندہ ہر قسم کی برائی سے بچنے کا ارادہ کریں۔ صرف زبان سے وقتی توبہ توبہ کہنا حقیقی توبہ نہیں جب تک ہم عملی طور پر توبہ کا اظہار نہیں کریں گے۔ اصل ضرورت اجتماعی توبہ کی ہے‘ نیز دعوت و تبلیغ اور نصیحت کا فریضہ ضرور انجام دیا جانا چاہیے (کیونکہ روزانہ اس دنیا سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد چلے جاتے ہیں‘ اور ہم میں سے ایک کو بھی معلوم نہیں کہ آیندہ ۲۴ گھنٹوں میں میرا نام ان مرنے والے ڈیڑھ لاکھ افراد کی لسٹ میں ہے کہ نہیں)۔

قمرحسین چغتائی ‘مریدکے

’’۸ اکتوبر ___ گرفت‘ آزمایش اور انتباہ‘‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) میں آپ نے جس مسئلے کو موضوعِ نگارش بنایا وہ وقت کی آواز ہے۔ اس موضوع پر مزید لکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ گوناگوں مغالطوں کا شکار ہیں۔ آپ نے موضوع کے مختلف پہلوئوں پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ ایک توجہ مبذول کرانا بھی مقصود ہے۔ ص ۶ اور ۷ پر تین روایات پیش کی گئی ہیں۔ ان کی سندضعیف ہے۔ جس طرح دوسرے قومی و سماجی امور کے متعلق مباحث میں ترجمان القرآن اپنی استنادی حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے‘ اُسی طریقے سے اِس اہم پہلو میں بھی اُسے اپنی استنادی حیثیت اور اپنے مقام و مرتبے کا احساس ہونا چاہیے اور وہی بات لکھنی چاہیے جس کے ثبوت اور صحت میں ادنیٰ سا تامل بھی نہ ہو۔


سردار ظفر حسین ‘فیصل آباد

سرکاری تجزیہ نگار اور خود جناب مشرف امریکی اور مغربی ممالک کی امداد کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں اور مسلم ممالک کی امداد کو خاص حیثیت نہیں دیتے۔ اسرائیل اور بھارت کے لیے نرم گوشہ چھپائے نہیںچھپتا۔ ڈونرزکانفرنس میں سعودی عرب‘ ایران‘ امارات‘ کویت اور ترکی کے اعلانات ۹۹کروڑ ڈالر‘ جب کہ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ جرمنی‘ فرانس کے کل ۹۳ کروڑ ڈالر ہیں!