مغرب (مغربی یورپ اور امریکہ) کے معاشروں کو اکیسویں صدی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ ان میں سے ایک روایتی ازدواجی رشتوں کی شکست و ریخت اور نتیجتاً خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا مسئلہ ہے۔ ’’تغیرجنس کا معاشرہ: نسوانیت زدہ برطانیہ اور مردانگی سے محروم مرد‘‘ (The Sex Change Society - Feminized Britain and the Neutered Male)جدید دنیا کے اس رجحان کا ایک تحقیقی اور نہایت سنجیدہ مطالعہ ہے۔ مصنفہ میلینی فلپس (Melanie Phillips)نے اگرچہ اپنی اس تحقیقی کوشش کو بڑی حد تک صرف برطانوی معاشرے کے مطالعے ہی تک محدود رکھا ہے‘ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جس رجحان کی طرف برطانوی معاشرے کی حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے‘ وہ کسی طرح بھی صرف برطانیہ تک محدود نہیں‘ بلکہ آج کی دنیا کا قائد مغرب دنیا کے سبھی معاشروں کو اسی سمت میں کشاں کشاں لے جا رہا ہے‘ اور عموماً اس رجحان کو ’’ترقی‘‘ کی علامتوں میں سے ایک علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
آزادیِ نسواں کا تصور نیا نہیں‘ لیکن اب اس کے ساتھ جو ایک نیا تصور اُبھارا گیا ہے‘ وہ مرد کی مذمت ہے۔ جدید مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ‘ نوعِ انسانی کا ’’مذکّر‘‘ہے۔ انھیں کام اور پیشے کی پروا نہیں‘ بے روزگار‘ بے کار اور لڑکیوں اور عورتوں سے چالاکی میں فزوں‘ یہ نوجوان لڑکے اور مرد اپنے فطری رجحان‘ یعنی عصمت دری اور غارت گری میں ہر جگہ مصروف نظر آتے ہیں۔ اسکول سے نکلتے ہی وہ شراب اورمنشیات میں اور دوسرے جرائم میں مشغول اور ’’گرل فرینڈز‘‘ کو قطار اندر قطار اولاد کی نعمت سے بہرہ ور کرتے پائے جاتے ہیں۔ آج کتابوں اور مضامین کا انبار ان موضوعات (لڑکے‘ مرد اور مردانگی) سے اٹا پڑا ہے۔ ’’لونڈاپے کا رویہ (Laddish behaviour) ‘برطانوی حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیرداخلہ جیک اسٹرا (Jack Straw) فرماتے ہیں: ’’بے ہنر‘ کم تعلیم یافتہ نوجوانوں سے نمٹنا ہمارے لیے اہم ترین‘ واحد نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ جس سے ہم دوچار ہیں‘‘۔
نوجوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ سنجیدگی اختیار کریں‘ اپنی ذمّہ داریاں محسوس کریں‘ اور اینڈی برن کے رویے سے گریز کریں‘ جس نے ۱۵ سالوں میں بے قید نکاح سے نوکم سن لڑکیوں سے نو بچے پیدا کرلیے‘ جن کی اس پر کوئی ذمّہ داری نہیں‘ کیوں کہ اس کا بوجھ تو حکومت اُٹھاتی ہے۔ اب وہ ۳۱ سال کا ہے‘ اور کہتاہے کہ ’’میں صرف بچے پیدا کرنے ہی کے کام آسکتا ہوں‘ اور کوئی کام مجھ سے ہونہیں سکتا!‘‘ اس کا خیال ہے کہ اس طرح سے وہ ایک سماجی خدمت انجام دے رہا ہے‘ کیوں کہ ’’ان مائوں‘‘ کو سرکاری فلیٹ کے حصول میں ترجیح حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان دوسرے کارنامے بھی انجام دیتے ہیں‘ جن میں لوٹ مار‘ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ‘ توڑپھوڑ،’’گینگ وار‘‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں سے لڑائیاں‘ڈکیتیاں‘ اور عورتوں کو مارنا پیٹنا اور قتل جیسی وارداتیں شامل ہیں۔
اس طرح کی بہت سی کہانیاں ہر روز اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مرد کی تصویرکشی یوں کی جا رہی ہے کہ وہ پیدایشی طور پر عورت باز‘ سفّاک اور نامعتبر ہوتا ہے۔ یہی ان کا اصلی کردار ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت سدا کی دکھیاری‘ صبروبرداشت کا پیکر اور مرد کی زیادتیوں کا شکار رہی ہے‘ اور ہے۔ اب خواتین مردوں کی جو تصویرکشی کر رہی ہیں بہت سے حلقے انھیں ایک فطری ردعمل قرار دیتے ہیں۔ مردوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انھیں بہ نظر تحقیر دیکھا جاتا ہے: یہ معاشرے کے اُس احمق طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہر شعبے میں خواتین کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے۔ نہ صرف وہ خواتین کے مقابلے میں کم عقل‘ بلکہ کم تر درجے کے اخلاق کے حامل‘ کندذہن‘ اُجڈ‘ بدتمیز‘ حسِ لطیف سے عاری‘ خودغرض‘ محدود مقاصد کے پرستار‘ سماج دشمن اور حد یہ کہ جنسی طور پر بھی پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیںاور پھر پیدایشی طور پر وہ متشدد بھی ہیں۔ گویا وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں‘ اور یہاں صرف انسانوں کی آبادی بڑھانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ بھلا ہو جدید سائنس کااب ان کا یہ کردار بھی محدود ہوچلا ہے۔ نئی فنّیات نے ان کے وجود کو بے مصرف بنا دیا ہے‘ کیوں کہ نسل کو چلانے کے لیے ہمیں ’’اسپرم فارم‘‘ پر صرف چند ہی معطی درکار ہوں گے‘ جہاں انھیں تھوڑا سا پیزا‘ تھوڑی سی شراب اور ’’پلے بوائے‘‘ میگزین جیسی چند چیزوں کی ضرورت ہوگی اور بس۔ نسل کُشی کے لیے ان کروڑوں مردوں کی کیا ضرورت ہے؟
میڈیا‘غلط نہیں کہتا۔ اب لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ (انگلستان میں) ۱۹۹۶ء میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین طبّی تعلیم کے اداروں میں داخل ہوئیں‘ اور ۱۹۹۱ء میں قانون کے پیشے میں داخل ہونے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔ سبھی تعلیمی اداروں میں لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں آگے ہیں‘ اب وہ کسی بھی میدان میں کیوں پیچھے رہیں؟
صاف نظرآرہا ہے کہ مرد سخت دبائو کا شکار ہیں۔ مرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کی مردانگی خطرے میں ہے۔ مگر دبائو کا شکار تو خواتین بھی ہو رہی ہیں۔ اب ان کی ذمّہ داریاں گھر تک محدود نہیں رہیں۔ کام کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ اور ان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ انھیں گھر اور بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ‘ اور اپنے کام (پیشے) کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہوتا ہے‘ تاہم ان کی جسمانی ساخت ہی ہر ماہ انھیںیاد دلاتی ہے کہ وہ مختلف ہیں۔ پھر فطری طور پر بچے بھی انھی کو پیدا کرنے ہوتے ہیں‘ اگرچہ بہت سی خواتین اس بچے پیدا کرنے کے رول سے اب انکاری ہوتی جا رہی ہیں۔ ’ایک زمانہ تھا کہ کچھ کام مردوں کے کرنے کے ہوا کرتے تھے‘ اور کچھ عورتوں کے۔ اب عورتیں‘ مردوں کے کام کر رہی ہیں‘ مگر مرد عورتوں کے کام نہیں کر رہے‘ (ایک ۱۴ سالہ لڑکی)۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۶ء سے غیرشادی شدہ تنہا مائوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں غیرشادی شدہ مائیں ۹ فی صد تھیں‘ ۱۹۹۶ء میں ۳۶ فی صد ولادتیں بلانکاح ہوئیں‘ اور اب انگلستان میں نصف حمل شادی کے بغیرہی قرار پاتے ہیں (ص ۳۶)۔ پہلے اس طرح کی مائوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا‘ اب اس طرح کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ عورت کا حق ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے ماں بن جائے (یا نہ بنے)۔
اکیلی مائوں (Lone mothers) کی تحقیر کی بجاے تعظیم کی جاتی ہے اور ان کی رُوح حرّیت کو بہ نظراستحسان دیکھا جاتا ہے۔ اب عورتیں یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ انھیں بچوں کی پرورش کے لیے مردوں کی ضرورت نہیں‘ پرورش تو بعد کا مرحلہ ہے‘ انھیں ’’بارور‘‘ہونے کے لیے بھی کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ کیرول فاکس (Carol Fox) --- اسکاٹش پارلیمان کے لیے لیبرامیدوار --- نے خود کو دوسرے بچے کی ماں بنانے کے لیے ۱۵ ہزار پائونڈ خرچ کیے اور بارھویں کوشش کے بعد مصنوعی طور پر بارآور ہونے میں کامیاب ہوئی (اس کی پہلی بیٹی نتاشا بھی یونہی پیدا ہوئی تھی)۔بلاشوہر بچوں کی پیدایش (اگر خواہش ہو) اب شرم کی بجاے فخرکی بات ہے‘ اور مشہور خواتین اسے ایک بلند درجے کی علامت (status symbol) کے طور پر لیتی ہیں۔ بہت سی خواتین برملا کہتی ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو ایک ’’ذریعے‘‘ یا ’’آلۂ کار‘‘کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتیں۔ ایک نیا رجحان یہ بھی ہے کہ مصنوعی تخم کاری سے پہلے کئی مردوں کے تخم یوں باہم آمیز کر دیے جائیں کہ پتا ہی نہ چل سکے کہ ہونے والے بچے کا باپ کون ہے!
خواتین میں آزادی کی یہ لہرکم سن لڑکیوں کو بھی اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔ صرف انگلستان میں ہر سال (۱۹۹۹ئ) ۹۰ ہزار نوبالغ لڑکیاں (teenagers)حاملہ ہوتی ہیں‘(ان میں سے ۷ہزار ۷ سو کی عمر ۱۶ سال سے کم ہوتی ہے)‘ اور۵۶ ہزار بچے پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر خود بھی ’’تنہا مائوں‘‘ کی اولاد ہوتی ہیں۔ فطری طور پر وہ اپنے بچوں کی اس سماجی ماحول میں پرورش نہیں کرپاتیں (نہ انھیں اس کی تعلیم دی گئی تھی) کہ وہ متوازن ذہنی اور نفسیاتی اٹھان کے ساتھ پرورش پائیں۔ ۹ سے ۱۵ سال کی عمر کی ان مائوں کے بچے ظاہر ہے مسائل کا انبار ہوتے ہیں۔
مردوں پر انحصار سے آزادی کے نتیجے میں نہ صرف شادی کے بندھن کمزور ہوئے ہیں‘ بلکہ طلاقوں کی بھی کثرت ہوئی ہے۔ وکیلوں کے مطابق طلاق کی بڑی وجہ بُرا کردار نہیں‘ بلکہ میاں بیوی میں گفتگو اور رابطے کی کمی‘ شوہر کا توقعات پر پورا نہ اُترنا اور ایسی ہی چھوٹی موٹی اور نامعلوم وجوہ ہوتی ہیں۔ تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع نے خواتین کی توقعات بڑھا دی ہیں‘ اور اب وہ کم پر گزارہ کرنے پر تیار نہیں۔
مابعد الطلاق کلچر میں (خصوصاً جہاں خواتین مناسب روزگار سے بہرہ ور ہوں) ’’ہم خانگی‘‘ نے بھی فروغ پایا ہے۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۵ء کے درمیان انگلستان میں غیرشادی شدہ مرد کے ساتھ ایک ہی گھر (فلیٹ) میں رہنے والی عورتوں کی تعداد ۱۱ فی صد سے بڑھ کر ۵۵ فی صد تک پہنچ گئی۔ یہ غیرشادی شدہ جوڑے میاں بیوی کے مقابلے میں خود کو زیادہ آزاد‘ زیادہ ’’محفوظ‘‘اور طلاق اور وراثت کے قانونی جھمیلوں سے دُور محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ ان تعلقات کا دورانیہ اوسطاً دو سال سے زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن اس دوران بچوں کی پیدایش سے اس تعلق کی بقا پر عموماً منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔ چوں کہ ہم خانگی کے اس تعلق میں دونوں فریق عموماً معاشی طور پر آزاد ہوتے ہیں‘ اور اس طرح کوئی کسی کا ’’قوام‘‘نہیں ہوتا‘ یہ تعلقات زیادہ دن نہیں چلتے۔ جہاں مرد ہی کماتے ہیں‘ وہ جلد ہی ’’نکھٹو اور بے روزگار ساتھی‘‘ سے بے زار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کلاسیکی عیسائیت نے ساری عمر کے لیے جس بندھن کی رِیت ڈالی تھی وہ ٹوٹ چکا ہے‘ اور اس میں نقصان عورت ہی کا ہوا ہے۔
عورت (خصوصاً ماں) تنہا اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ نکاح‘ صرف مردکے ساتھ اختلاط ہی نہیں۔ وہ آنے والی نسل (جس کی پیدایش صرف عورت ہی کے ذمّے ہے) کا محافظ اور ایک خاندان کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن ۱۹۷۲ء میں امریکی مفکرۂ سماجیات جیسی برنارڈ (Jessie Bernard) نے کہا تھا کہ ’’شادی‘ عورت کے لیے نقصان دہ‘ خطرناک ہوسکتی ہے‘‘۔ حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیموں نے اس کو خوب اُچھالا‘ مگر حقیقت اس کے خلاف ہے۔ شادی شدہ خواتین میں بیماریوں اور ناوقت اموات کا تناسب کم ہے۔ ذہنی‘ جسمانی اور سماجی طور پر وہ زیادہ متوازن اور خوش و خرم رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فطری تقسیمِ کار ایک زمانے سے موجود اور اب بھی قائم ہے کہ مرد کو بنیادی طور پر معاشی بوجھ اُٹھانے والا‘ اور عورت کو بنیادی طور پر گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کا رول دیا گیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی‘ جسمانی اورنفسیاتی ساخت کے عین مطابق ہے۔ بدقسمتی سے غیر فطری طور پر خواتین کی آزادی کے نام پرتقسیمِ کار کے اس توازن کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ عورتوں کو کام کرنے اور روزی کمانے پر راغب کیا جا رہا ہے کہ وہ معاشرے کی ’’مفید‘‘ اور ’’کارآمد‘‘شہری بن سکیں‘ تاہم انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ملکوں میں بچوں کو پالنے اور اُن کا خرچ اُٹھانے کی بیشتر ذمہ داری باپ کی بجاے ریاست نے سنبھال لی ہے۔ کیوں کہ بے شوہر کی ایسی بیشتر مائیں کم یافت کے پیشوں سے منسلک ہیں‘ اور وہ بچوں والے گھر کا پورا بوجھ نہیں اُٹھا سکتیں۔ بے باپ کی ان کی یہ اولاد بھی شفقت و تربیت ِ پدری سے محروم اُٹھتی ہے‘ اور ایک ’’بے راہ رَو‘‘ اور خاطی نسل ہی کو جنم دیتی ہے۔کیوں کہ معاشی طور پر مصروف ماں کے پاس باپ کے خلا کو پُرکرنے کا وقت نہیں ہوتا‘ اور نہ وہ ایسے وسیع تر خاندان کی باسی ہوتی ہے‘ جہاں دوسرے لوگ اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں لے لیں۔ اس طرح ریاست بھی اس نئے رجحان کے فروغ میں اپنا کردار اداکر رہی ہے۔
تحریکِ نسواں کے کئی رنگ ہیں۔ جیسا کہ شروع میں کہا جا چکا ہے‘ مردوں کو خلقی طور پر غیرذمّہ دار‘ بدخو‘ تُندمزاج اور غبی دکھایا گیا۔ ایک دوسرے رنگ میں ان کی تصویرکشی یوں کی گئی کہ وہ عیاری سے عورتوں کا استحصال کرنے والے‘ انھیں غلام (لونڈی؟) بنانے والے اور کسی بھی اخلاقی معیار سے عاری ایک مخلوق ہیں۔ مظلوم عورتوں کو خاندان کے ’’بیگار کیمپ‘‘ سے چھٹکارا پالینا چاہیے‘ اور اپنی خواہش اور ضرورت پر ہی ان سے مرضی کے مطابق تعلق قائم کرنا چاہیے۔ پہلے ’’مساوی حقوق‘‘ اور صنفی برابری کی بات ہوئی اور پھر ’’نسائی برتری‘‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا‘ اور تحریک نے اب ایک جارحانہ روش اختیار کرلی ہے‘ جس میں مردوں کا مقام شہد کی مکھیوں کے نکھٹّو نر(drones) سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ’’معتدل‘‘رجحان یہ بھی تھا کہ صنفی رول کا اختلاف فطرت کا پیدا کردہ نہیں‘بلکہ مصنوعی اور معاشرے کا پیدا کردہ ہے۔ ’’نہ ہر زن است و نہ ہر مرد‘ مرد‘‘ (ہر عورت‘ عورت نہیں‘ اور نہ ہر مرد‘ مرد ہوتا ہے)۔ جسمانی اور خلقی فرق بہت معمولی سا ہے‘ جسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو شروع سے امتیازی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے‘ جو درست نہیں۔ باروری کو مانع حمل طریقوں سے روکا جا سکتا ہے‘ اور ضرورت ہو تو مصنوعی طریقوں سے اولاد بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
امریکہ کے ماہرین عضویات اور ماہرین نفسیات اب انسانوں کی ایسی نوع کی بات کرنے لگے ہیں‘ جو صنفی امتیازات سے بلند ہو‘ یا جس میں دونوں اصناف کی خصوصیات موجود ہوں! اس طرح باپ اور ماں کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے۔ اولگا سلورسٹین (Olga Silverstein) ’’صنفی اختلاف کے خاتمے‘‘ کی بات کرتی ہیں‘ اور سوسان مولر اوکن (Susan Moller Okin) ایک ایسے ’’عادلانہ مستقبل‘‘ کی نوید دیتی ہیں‘ جو ’’صنف ]کی آلایش[ سے پاک ہوگا‘‘۔ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ مردوں کا کچھ اس طرح علاج کیا جائے کہ ان میں عورتوں کی خصوصیات پیدا ہوجائیں۔ اس طرح مردوں نے نسوانیت کے جس جال میں طبقۂ اناث کو پھانس رکھا ہے‘ اس سے آزادی‘ ایک مثالی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ (ص ۱۷۴-۱۷۵)
یہ تو تھی نسائی تحریکوں کی بات۔ مغرب میں خود ریاست اور سرکاری مشینری بھی ’’ماضی کی غلطیوں‘‘ کی اصلاح کرنے میں پیچھے نہیں۔ ۱۹۹۹ء میں برطانیہ کے وزیرخزانہ گورڈن برائون (G.Brown) نے بجٹ پیش کرتے ہوئے نوید سنائی کہ یہ ’’خواتین کے لیے بجٹ ہے‘‘۔ ساری تنہا مائیں کام کرنا چاہتی ہیں‘ اور ریاست بھی انھیں مفید کام پر لگانا چاہتی ہے۔ بے شادی والی مائیں‘ سرکاری امداد وصول کرنے والا سب سے بڑا گروہ بن چکی ہیں‘ اس لیے انھیں روزی کمانے پر آمادہ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ جاب مارکیٹ میں آسامیاں تو محدود ہیں‘ اور امیدوار زیادہ۔ حکومتی پالیسی یہ ہے کہ تنہا مائوں کو شادی شدہ پر‘ اور کام کرنے والی مائوں کو خواتین خانہ پر ترجیح دی جائے۔ یہ بھی ایک طرح کی سماجی انجینیرنگ ہے۔ اگرچہ ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’جدید لیبر‘‘ دونوں گروہ‘ شادی خانہ آبادی کی اہمیت پر وعظ کہتے رہتے ہیں‘ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ بقول فائننشل ٹائمز (Financial Times) حکومت کی پالیسی کے مطابق بچے کے سارے فوائد ماں ہی کے حصے میں جاتے ہیں‘ اور آج کی مائیں مردوں سے آزاد اور کل وقتی ماں کے تصور سے دُور ہٹتی جا رہی ہیں۔
مصنفہ کہتی ہیں کہ کوئی مہذب معاشرہ یہ توقع نہیں رکھے گا کہ عورت روزی کمانے اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی دُہری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے۔ لاکھوں نوجوان خواتین کو روزی کمانے کے لیے بازار میں بھیج کر نہ صرف مسابقت میں اضافہ کر دیا گیا ہے ‘ بلکہ اس طرح تنخواہ/مزدوری کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے (سرمایہ داری میں طلب و رسد کا قانون)۔ نوجوان مردوں کی کم یافت‘ انھیں شادی کو ملتوی کرنے (یا اس سے دست بردار ہونے) پر مجبور کر دیتی ہے‘ اس سے پھر ’’بلانکاح ازدواج‘‘ اور ’’ہم خانگی‘‘، ’’یک زوجی‘‘ یا ’’تنہا مادری‘‘ کے مسائل جنم لیتے ہیں‘ اور پھر وہی سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں‘ جنھیں حل کرنے یا کم کرنے کے لیے یہ تدبیریں کی گئی تھیں۔ برطانیہ میں’’شعوری طور پر‘ تدریجاً‘ پدریّت کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔اور اس کے نتیجے میں مردوں اور لڑکوں میں مایوسی‘ غیرذمّہ دارانہ رویے اور تشدد کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لڑکے‘ اب اسکول میں پس ماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مردوں کے گروہ اور تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں‘ جنھیں حکومت اور معاشرے سے بڑی شکایتیں ہیں۔ مردوں نے اپنی نئی نسل میں دل چسپی لیناکم کر دی ہے۔ نئی فنیّات نے خواتین کو بڑی حد تک مردوں سے مستغنی کر دیا ہے۔
’’عورتوں کی آزادی اور مردوں کی غیرذمّہ داری‘‘ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ خاندان کی شکست و ریخت‘ معاشرے کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہے‘ اگرچہ اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ خواتین کی حقیقی شکایات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے تدارک نے اب نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ ریاست اور ابلاغ کے سارے ذرائع مردوں کو دوسرے‘ بلکہ تیسرے درجے کی صنف سے بڑھ کر کوئی درجہ دینے کے لیے رضامند نظر نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق بہت پیچیدہ اور نازک ہے۔ انسانی معاشرے نے ہزاروں سال کے تجربے کے بعد ایک خاندانی نظام وضع کیا ہے‘ جس میں باپ کا ایک کردار ہے‘ اور ایک کردار ماں کا۔ مرد اور عورت صنفی طور پر مختلف ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ دونوں کے حقوق مساوی ہیں‘ مگر یکساں نہیں۔ان کے درمیان تقسیمِ کار عین تقاضاے فطرت ہے۔ سبھی سماجوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کچھ بوجھ وہ ہیں‘ جو عورتیں نہیں اُٹھا سکتیں اور کچھ وہ ہیں‘ جن کے لیے مرد بنائے ہی نہیں گئے اور صرف عورتیں ہی انھیں اٹھا سکتی ہیں۔ مردو زن کی کلّی مساوات کا تصور بھی اسی قدر احمقانہ ہے‘ جس قدر عورت کی برتری کا۔
بدقسمتی سے ’’بے خدا‘‘ معاشروں میں توازن کم ہی نظرآتا ہے۔ کہیں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ’اے عورت‘ تیرا ہی نام کمزوری ہے (شیکسپیئر)‘ اور ’وہ آدمی کتنا بے وقوف ہوتا ہے‘ جو ایک عیار عورت کا شکار ہو کر بیوی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے‘ (شوپنہائر)۔ کہیں اُسے محض خادمہ اور لونڈی سے بڑھ کر کوئی درجہ نہیں دیاجاتا‘ اور حیوانوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور پھر جب پنڈولم دوسری سمت میں حرکت کرتا ہے‘ تو نئی آزاد عورت وجود میں آتی ہے‘ جو قیدِنکاح ہی نہیں‘ خود کو ہرقیدسے آزاد تصور کرتی ہے--- شاید اُسے معلوم نہیں کہ اس کی یہ آزادی بھی ایک عیار اور سفاک مرد کا دامِ تزویر ہے! (Melanie Phillips: The Sex-Change Society - Feminised Britain and the Neutered Man; The Social Market Foundation, London, 1990.)
سوشل مارکیٹ فائونڈیشن‘ برطانیہ کا ایک خودمختار ادارہ ہے‘ جو معاشیات اور دوسرے سماجی مسائل پر تحقیق کے لیے اہل فکر کو دعوت دیتا ہے‘ اور ان کی نگارشات کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے۔ میلینی فلپس ایک سماجی محقق‘ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں‘ ایک برطانوی شہری ہیں۔