اگست ۲۰۰۳

فہرست مضامین

اُردن کے انتخابات میں اسلامک فرنٹ کی کامیابی

عزیر صالح | اگست ۲۰۰۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بحرین ‘ مراکش ‘یمن‘ ترکی اور پاکستان کے بعد اب اُردن میں بھی اسلام پسندوں نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اخوان المسلمون نے’’اسلامک ایکشن فرنٹ‘‘ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور ۱۰۴ عام نشستوں میں سے ۱۶‘ اور خواتین کی چھ مخصوص نشستوں میں سے ایک پر کامیابی حاصل کی۔ اسلامک ایکشن فرنٹ اُردن کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اتنی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔

کامیاب ہونے والوں میں سے اکثر نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کا تعلق بدوی قبائل سے ہے‘ یا یہ وہ ارکان ہیں جو گذشتہ حکومتوں میں وزیر رہے ہیں اور ان کو حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ بعض ایسی سیاسی جماعتیں جن کا عالم عرب میں بڑا نام تھا‘ ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکیں۔ بائیں بازو کی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے انتخابات میں ۱۴نمایندے نامزد کیے لیکن ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح تحریکِ اصلاح جمہوریت نے ۲۳ نمایندے نامزد کیے جن میں سے صرف تین کامیاب ہوسکے‘ ان میں سے دو عیسائی ہیں۔

اخوان المسلمون نے ۱۹۹۷ء کے عام پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حالیہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح‘ ۱۹۸۹ء سے جاری اس براے نام جمہوری نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ‘یعنی ۵۹ فی صد رہی۔ کل رائے دہندگان کی تعداد ۲۳لاکھ ۲۵ ہزار ہے۔ یہ انتخابات شاہِ اُردن عبداللہ الثانی کے دورِ حکومت میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات ہیں۔ انھوں نے اسلامی تحریک کے انتخابات میں حصہ لینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اخوان المسلمون اُردن کے سیاسی و معاشرتی دھارے کا حصہ ہے‘‘۔

اسلامک ایکشن فرنٹ کے قائدین نے انتخابی عمل کے شفاف ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فرنٹ کے سربراہ منصور حمزہ کہتے ہیں: ’’اگر ہمارے ہاں منصفانہ قانون ہوتا تو ہم بہ آسانی اکثریت حاصل کر سکتے تھے‘‘۔ ایک ووٹ کے قانون پر تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے‘ جس کی وجہ سے آزاد اور قبائلی اُمیدواروں کو بے حد فائدہ پہنچا جو حکومت کو مطلوب تھا۔ فرنٹ کے سربراہ نے اس قانون کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس قانون کی وجہ سے ہماری نشستوں میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ انتخابی حلقہ بندی اس طریقے سے کی گئی جو اسلام پسندوں کی کامیابی میں رکاوٹ بنے۔ اُردن کو ۴۶ انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا لیکن حلقوں کی حدبندی حقیقت پسندانہ نہیں تھی۔ کہیں ضلع کی سطح پر حدبندی کی گئی توکہیں تحصیل کی سطح پر۔ حدبندی کرتے وقت آبادی کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا۔ کہیں ۱۰ہزار شہریوں کے لیے ایک نشست مقرر کی گئی تو کہیں ایک لاکھ ۱۵ ہزار شہریوں کے لیے ایک نشست‘‘۔ اس طرح کی ترکیبوں سے ہم لوگ پاکستان میں اچھی طرح واقف ہیں۔

ایک اور انتخابی قانون کا براہِ راست منفی اثر اسلامک ایکشن فرنٹ پر پڑا۔ اس قانون کی رُو سے باپردہ خواتین کے لیے ووٹ ڈالتے ہوئے چہرے سے نقاب اُتارنا لازمی قرار دیا گیا۔ فرنٹ نے اس قانون کی شدید مخالفت کرتے ہوئے تجویز دی کہ انتخابی عملے میں عورتوں کو شامل کر دیا جائے تاکہ باپردہ خواتین کو ووٹ ڈالنے میں کوئی دشواری نہ ہو لیکن اُردن کی حکومت نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وزیرداخلہ سے جب اس ظالمانہ قانون کے بارے میں سوال کیا گیا کہ گذشتہ انتخابات میں تو خواتین پر انتخابی عملے کے سامنے نقاب اُتارنے کی پابندی نہیں تھی۔ اب ایسا کیوں کیا گیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہم نے اس بارے میں شرعی مجلسِ فتاویٰ سے رائے لی ہے‘ جس نے ووٹ ڈالتے ہوئے خواتین کو انتخابی عملے کے سامنے نقاب اُتارنے کی اجازت دی ہے۔ یہ گواہی کی ہی ایک قسم ہے‘ اس لیے اس میں کوئی گناہ نہیں‘‘۔

اُردنی حکومت نے اسلامک ایکشن فرنٹ کی کامیابی کوانتخابی عمل کے شفاف ہونے کی دلیل قراردیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابی عمل شفاف نہ ہوتا تو فرنٹ کو اتنی نمایاں کامیابی نہ ملتی۔ بالخصوص وہ شخصیات انتخابات میں کامیاب نہ ہوتیں جو حکومت کی شدید ترین مخالف ہیں۔ ان میں ڈاکٹر محمد ابوفارس‘ ڈاکٹر علی العتوم‘ الشیخ عبدالمنعم اور انجینیرعلی ابوالسکرکے نام قابل ذکر ہیں۔

اسلامک ایکشن فرنٹ نے ملکی سیاست میں عورت کے کردار کی مسلمہ اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر الحیاۃ المسیمی کو خواتین کی مخصوص نشست کے لیے نامزد کیا‘ جنھوں نے چھ مخصوص نشستوں کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے ۷ ہزار ایک سو ۳۳ ووٹ حاصل کیے‘ جب کہ باقی پانچ کامیاب ممبرخواتین نے مجموعی طور پر ۵ ہزار ۵ سو ۴ ووٹ حاصل کیے۔ ان نشستوں پر خواتین امیدواروں کی کل تعداد ۵۴ تھی۔ اس طرح محترمہ ڈاکٹر المسیمی الحیاۃ نے تمام خواتین امیدواروں کوملنے والے ووٹوں کا ۵۶ فی صد حاصل کیا۔

ان انتخابات کو اعداد و شمار کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ منظرنامہ ترتیب پاتا ہے:

  •   اسلامی تحریک کے نامزد کردہ ۳۰ نمایندوں میں سے ۱۷ نے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح تحریک کی کامیابی کا تناسب ۵۷ فی صد رہا۔
  •   فرنٹ نے پارلیمنٹ کی کل ۱۱۰ نشستوں میں سے ۴. ۱۵ فی صد کے تناسب سے ۱۷نشستوں پرکامیابی حاصل کی‘ جب کہ عام (لسٹ) انتخابی قانون کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات میں۱۹۹۳ء میں ۱۶ اور ۱۹۸۹ء میں ۲۲نشستیں حاصل کی تھیں۔ حالیہ انتخابات میں حکومت نے (ایک ووٹ) کا قانون متعارف کرایا جس سے تحریک کی کارکردگی پر گہرا اثر پڑا۔اس قانون کی رو سے تحریک کوئی انتخابی اتحاد بھی نہ بنا سکی۔
  •  فرنٹ کے کامیاب ارکان نے ایک لاکھ ۳۹ ہزار ۲ سو ۲۹ ووٹ حاصل کیے جو پارلیمنٹ کے تمام کامیاب ارکان کے حاصل کردہ کل ووٹوں کا ۲.۲۸ فی صد ہے۔
  •  فرنٹ کے تمام نمایندوں (کامیاب و ناکام) کو کل ایک لاکھ ۶۶ ہزار ۸ سو ۴۷ ووٹ ملے جو کہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد کا ۵.۱۲ فی صد ہے۔
  •  حالیہ انتخابات میں فرنٹ کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ۱۹۹۳ء میں حاصل کردہ ووٹوں سے ۸۱ ہزار (۴۵ فی صد) زیادہ ہے۔
  •  جن ۱۴ حلقوں میں فرنٹ کے نمایندوں نے کامیابی حاصل کی‘ ان میں سے انھوں نے ۱۱ حلقوں میں پہلی‘ چار میں دوسری اور دو میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
  •  اسلامی تحریک نے اُردن کے دارالحکومت عمان اور دیگر بڑے شہروں زرقا‘ اربد اور رصیفہ پر توجہ مرکوز رکھی اور عمان کی ۲۳ میں سے سات‘ اربد کی ۱۶ میں سے دو اور زرقا کی ۱۰ میں سے تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

فوری حل طلب مسائل: پارلیمنٹ کی تشکیل کے بعد فوری حل طلب مسائل یہ سامنے ہیں:

                ۱-            ان قوانین کا جائزہ لینا جوگذشتہ دو برس کے دوران پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے بعد نافذ کیے گئے۔ جن میں (ایک ووٹ) کا قانون اور بلدیاتی اداروں کے بارے میں نافذ کیے گئے قوانین سرِفہرست ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ میئر اور بلدیاتی اداروں کے آدھے ممبران نامزد کرے۔

                ۲-            عراق کی موجودہ صورت حال اور اُردنی معیشت اور عالم عرب پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا۔

                ۳-            فلسطین کے نقشۂ راہ (روڈمیپ) میں اُردن کا کردار اور صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانا۔

                ۴-            اُردن کے معاشی و معاشرتی حالات کے تناظرمیں نعرہ ’’اُردن سب سے پہلے‘‘ کے مضمرات کا جائزہ۔

فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور نے ان مسائل کے بارے میں اپنے اراکین کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے سیاسی و معاشرتی طرزِعمل کی نگرانی‘ صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کا سدباب اور فلسطینیوں اور عراقیوں کی جدوجہد اور مزاحمت میں ان کی مدد کرنا ہمارا اولیں فرض ہوگا۔ہم ان قوانین کے خلاف ووٹ دیں گے جن کے ذریعے عام شہریوں کی آزادی کو سلب کیا گیا ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور شہریوں کو ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں گے۔

اسلامک ایکشن فرنٹ نے اعلان کیا ہے کہ ہم صرف اپنی شرائط پر شریکِ اقتدار ہوسکتے ہیں‘ دوسروں کی مسلط کردہ شرائط کے ساتھ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم ایک ایسی حکومت میں شامل ہوسکتے ہیں جو ’’معاہدہ وادی عربہ‘‘ کی مخالف اور صہیونی استعمار کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات نہ کرے۔ یہ شرائط آیندہ حکومت کے لیے تسلیم کرنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

فرنٹ کے کامیاب امیدوار بیشتر نوجوان ہیں۔ اس حوالے سے منصور حمزہ نے کہا کہ: ’’ہم نے ایک ایسا سیاسی قدم اٹھایا ہے جو شاید تمام عرب سیاسی جماعتوں کے لیے مثال ہو۔ ہم نے پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی مدت انتخاب دو سال کر دی ہے۔ اس مدت میں صرف دو سال کی اور توسیع ہو سکتی ہے‘ اس کے بعد اس کو اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کرنا ہوگی۔ یہ چیز ہم نے اس سیاسی مطلق العنانیت کے جواب میں کی ہے جو ہم عالم عرب میں پاتے ہیں۔ ہم نے انتخابات میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی شرکت یا عدمِ شرکت کے بارے میں غور کیا اور فیصلہ کیا کہ اعلیٰ قیادت کو پارلیمانی عمل سے دُور رکھا جانا چاہیے‘ کیوں کہ ایک تو یہ عمل مکمل فراغت کا متقاضی ہے اور دوسرا یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ تنظیمی قیادت ہی پارلیمانی گروپ کا مرجع ہو۔ پارلیمانی قیادت کو پارلیمنٹ میں مختلف دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کے فیصلے متاثر ہو سکتے ہیں‘‘۔

اُردن کے انتخاب میں آزاد امیدوار بہت زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے جن کا تناسب پارلیمنٹ میں ۸۰ فی صد ہے۔ اس طرح آیندہ حکومت بھی ایسے آزاد ارکانِ اسمبلی ہی تشکیل دیں گے جن کا کوئی سیاسی منشور ہے نہ ایجنڈا۔

ان انتخابات میں اسلامک ایکشن فرنٹ کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت قابلِ ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ حتیٰ کہ دارالحکومت عمان میں کسی بھی قومیت پسند یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کی نسبت دوسری سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی کچھ صورتِ حال مصر‘یمن‘ ترکی اور پاکستان کے انتخابات سے بھی ظاہر ہے۔ جہاں پر روایتی جماعتیں (قومیت پسند‘ اشتراکی‘ لبرل اور لادینی جماعتیں) عام شہری کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔

اگر ان انتخابات کو علاقائی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عوام میں اسلامی تحریک کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں اور اسلامی تحریکوں کی دعوت کے میدانِ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔

آیندہ لائحہ عمل: اسلامک ایکشن فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور نے تحریک کے آیندہ لائحہ عمل کے بارے میں کہا کہ: ’’تحریک ملک اور پارلیمنٹ میں موجود اچھے عناصر سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے گذشتہ گیارھویں پارلیمنٹ میں ’’پارلیمانی یونٹی‘‘ کے نام سے اتحاد بنایا تھا۔ جس میں اسلامی‘ سیاسی‘ نیشنلسٹ‘ لبرل اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے افراد موجود تھے اور جس کے نتیجے میں اسلامی فرنٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبداللطیف تین سیشنوں کے لیے پارلیمنٹ کے اسپیکرمنتخب ہوئے۔ ابھی ہم ارکان پارلیمنٹ کی صورتِ حال کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں کیوں کہ اس پارلیمنٹ میں ۸۰ ایسے ممبران ہیں جو پہلی دفعہ منتخب ہوکر آئے ہیں۔ ہم ایسے افراد کو ساتھ رکھیں گے جن سے تعاون ممکن ہے۔ چاہے ان کا تعلق کسی وسیع تر گروپ سے یا اتحاد کی کسی بھی شکل سے ہو۔ ہم ہر اس شخص سے تعاون کے لیے تیار ہیں جو ملک و ملّت کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔

بعض دیگر امور کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’ہمارے پاس ایک اعلان کردہ منشور ہے جو ہم نے اپنے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ ہم چند محوروں کے گرد کام کررہے ہیں۔ پہلا محور قانونی ہے‘ جس سے ہماری مراد قانونی اور دستوری دونوں پہلو ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی زندگی میں پارلیمنٹ کا وجود ناگزیر ہے اور کسی بھی طرح کے حالات میں اس کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا سیشن پورا سال جاری رہنا چاہیے‘ جب کہ ہمارے ہاں پارلیمنٹ کا سیشن چار ماہ کا ہوتا ہے۔ باقی آٹھ ماہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سال میں گیارہ مہینے کام کرے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقتدار کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہیے اور اکثریتی پارٹی کو حکومت تشکیل دینے کا حق ہونا چاہیے۔ ملک بہت سے ایسے جزوقتی قوانین سے متاثر ہوتا ہے جو ہماری رائے میں غیردستوری ہیں۔ اگر ہمارے ہاں کوئی دستوری عدالت ہوتی تو وہ معاملات کا فیصلہ کرتی۔ ہم سب سے پہلے ایک دستوری عدالت قائم کریں گے جو اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کون سا قانون دستور کے مطابق ہے اور کون سا قانون خلافِ دستور ہے‘‘۔