حضرت ربیعہ بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دن بھر خدمت کرتا یہاں تک کہ عشاء کی نماز ہوجاتی۔ آپؐ اپنے گھر میں چلے جاتے تو میں آپؐ کے دروازے پر بیٹھ جاتا کہ شاید حضوؐر کو کسی خدمت کی ضرورت پیش آجائے۔ میں رسولؐ اللہ کی تسبیحات سبحان اللّٰہ وبحمدہ کی آواز سنتا رہتا۔ تھک جاتا تو واپس آجاتا‘ یا نیند آجاتی تو سو جاتا۔ میری خدمت اور اپنے اوپر میرے حق کے پیش نظر‘ ایک دن آپؐ نے فرمایا: کعب! مجھ سے جو مانگنا چاہو مانگو‘ میں دوں گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے سوچنے کی مہلت دیجیے کہ میں سوچ لوں کہ کیا مانگوں‘ پھر آپؐ سے عرض کر دوں گا۔
کہتے ہیں اس کے بعد میں نے سوچ بچار کی۔ میں نے سوچا کہ دنیا تو ختم ہونے والی چیز ہے۔ دنیا میں مجھے اتنا رزق مل جائے گا جس سے میرا گزارا ہو۔ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آخرت کے لیے سوال کرنا چاہیے۔ آپؐ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اُونچا مقام ہے۔ میں یہ سوچنے کے بعد حاضر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: ربیعہ! فیصلہ کرلیا؟ میں نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! میں آپؐ سے سوال کرتا ہوں کہ میری شفاعت کریں کہ دوزخ کی آگ سے آزاد ہوجائوں۔ آپؐ نے پوچھا: ربیعہ ! آپ کو اس سوال کا مشورہ کس نے دیا؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کسی نے نہیں۔ جب آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ سوال کرو‘ میں دوں گا‘تومیں نے آپؐ کے مقام پر جو اللہ کے ہاں ہے نظر ڈالی اور اپنے بارے میں سوچا‘ تو میں نے سمجھا کہ دنیا زائل ہونے والی چیز ہے۔ دنیا میں بقدر گزارا مجھے رزق مل رہا ہے‘ مل جائے گا۔ میں رسولؐ اللہ سے اپنی آخرت کے لیے سوال کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے طویل خاموشی اختیار کی۔ پھر فرمایا: میں شفاعت کروں گا۔ آپ کثرت سے سجدے کر کے اس سلسلے میں میری اعانت کریں۔ (مسنداحمد‘البدایہ والنہایہ‘ ج ۵‘ ص ۳۳۵‘ طبرانی فی الکبیر)
۱- کوئی بہت بڑی ہستی جو سب کچھ دے سکتی ہو آپ سے کہے: مانگو‘ کیا مانگتے ہو‘ دیا جائے گا--- تو آپ کا کیا جواب ہوگا‘ آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن حضرت ربیعہؓ کا جواب‘ جو فوری ردعمل نہ تھا‘ سوچا سمجھا جواب تھا‘ آپ نے دیکھ لیا۔ دنیا کے بارے میں خوب سوچا‘ تولا‘ پھر آخرت میں آتشِ جہنم سے آزادی کو ترجیح دی۔
۲- طویل خاموشی کے دوران حضرت ربیعہؓ کے دل پر کیا کیا نہ گزر گیا ہوگا۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ شفاعت ہوگئی تو کتنے ہی گناہ کیوں نہ کیے ہوں‘ بیڑا پار لگ گیا--- لیکن رسولؐ اللہ خود فرماتے ہیں کہ ربیعہؓ! طویل سجدوں سے میری اعانت کرو۔
اہل اللہ کی‘ والدین کی‘ اساتذہ کی خدمت کو اپنا طریقہ بنایئے کہ ان کی دعائوں سے آخرت سنورنے کا امکان ہے۔
مگر یہ کافی نہیں۔ اپنے اعمال ‘ اللہ سے تعلق‘ نوافل‘سجدے ضروری ہیں۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں پر تمھارے رب کی طرف سے حق کے دلائل اس وقت تک آشکارا ہوتے رہیں گے‘ جب تک دو نشوں کی بیماری تم پر حاوی نہ ہوجائے۔ ایک جہالت کا نشہ‘ اور دوسرا زندگی سے محبت کا نشہ۔ تم معروف کا حکم کرو گے‘ منکر سے روکو گے‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے لیکن جب تم پر دنیا کی محبت غالب ہو جائے گی تو معروف کا حکم کرو گے‘ نہ منکر سے روکو گے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہ کرو گے۔ ایسے وقت میں کتاب و سنت کی بات کرنے والے اُن مہاجرین اور انصار کی مانند ہوں گے جو السابقون الاولون کا مصداق بن گئے۔ (مسند بزاز‘ مجمع الزوائد ۷/۲۷۱)
اپنے آس پاس بلکہ اپنے اندر بھی دیکھیں تو یہ دونوں نشے نظر آئیں گے۔ جو لوگ اس میں مدہوش ہیں‘ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر تو کجا‘ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھ رہے ہیں۔ اقدار بدل گئی ہیں۔ برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ خوش قسمت ہیں وہ جو ان حالات میں کتاب و سنت کی بات کرتے ہیں۔ اس سے بڑا رتبہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ السابقون الاولون مہاجرین و انصار کی مانند قرار پائیں۔ وفی ذٰلک فلیتنافس المتنافسون (یہی وہ چیز ہے جس کے لیے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی حرص کریں)۔
حضرت عبداللہ بن حارثؓ سے روایت ہے: فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ‘ عبیداللہ اور کثیربن عباسؓ کو ایک صف میں کھڑا کرتے پھر (ان کی دوڑ لگواتے) فرماتے‘ جو میرے پاس پہلے پہنچے گا‘ اسے یہ اور یہ انعام ملے گا۔ وہ دوڑ کر آپؐ کی طرف پہنچتے۔ آپؐ کی پیٹھ اور سینے پر چڑھتے۔ آپؐ ان کے بوسے لیتے اور انھیں سینے سے لگاتے۔(مسنداحمد‘ مجمع الزوائد)
ہمارے گھروں میںیہ مناظر عام ہونا چاہییں۔ اس طرح جو معاشرت تشکیل پاتی ہے‘ وہی اسلامی معاشرت ہے۔ بچوں سے پیار اور محبت ان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ ان پر بے جا سختی کرنا اور انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہنا‘ ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور کرنے کا سبب ہے۔ محبت اور پیارکو تربیت کا ذریعہ بنایئے۔ یہی نبیؐ کا طریقہ ہے۔ آپؐ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے۔ ڈانٹنے ڈپٹنے والے نہ تھے۔
بچوں پر تشدد‘ ان سے جبری مشقت لینے‘ یا ان کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھنے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ ارویٰ بنت اوس نے حضرت سعیدؓ بن زید پر دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان کی زمین کا کچھ حصہ غصب کرلیا ہے۔ ان کو مروان بن حکم کی عدالت میں فیصلہ کے لیے بلایا گیا۔ حضرت سعیدؓ بن زید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس کے بعد میں کیسے اس کی زمین کا کچھ حصہ دبا سکتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ میں نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو زمین کی ایک بالشت ظلم سے لے گا‘ اسے اللہ تعالیٰ سات زمینوں تک کا طوق ڈالے گا۔ اس کے بعد سعیدؓ بن زید نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کی زمین میں بنا دے۔
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ اسے اس وقت تک موت نہ آئی جب تک وہ نابینا نہ ہوگئی۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اندھی تھی‘ دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر چلتی تھی‘ اور کہتی پھرتی تھی کہ مجھے حضرت سعیدؓ بن زید کی بددعا لگ گئی۔ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ اس کا گزر ایک گڑھے پر ہوا‘ اس میں گر کر مر گئی۔ وہ گڑھا اس کی قبر بن گیا۔ (بخاری و مسلم)
ہر رسالے میں‘ ہر اخبار میں بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی قرآن کی آیات اور رسولؐ کی احادیث ہم تک پہنچائی جاتی ہیں‘ مسلسل‘ اور کتنے ہی درس و وعظ ہم سنتے ہیں: احکامات‘ تعلیمات‘ ترغیبات‘ منہیات--- لیکن حضرت سعیدؓ کی سادہ دو ٹوک بات: رسولؐ اللہ کی کوئی بات علم میں ہو تو اس کے خلاف کرنے کا کیا سوال ہے؟ یہ منزل مطلوب ہے۔ مسلمان کی یہی کیفیت ہونا چاہیے۔ حضرت سعیدؓ نے اپنے اوپر الزام کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ بددعا بھی دے دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے ظالموں کو ہمیشہ کے لیے تنبیہ کر دی۔
ظلم کے ان سب دائروں کو چھوڑیں جہاں ظلم خوب پھل پھول رہا ہے‘ صرف جایداد اور زمین کے معاملات میں ہی کیا کچھ‘ ہر کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘ جب کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے---