اگست ۲۰۰۳

فہرست مضامین

خارجہ پالیسی کی حالیہ ناکامیاں اور قلابازیاں

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

کسی ملک اور حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنے کے دو ہی پیمانے ہوسکتے ہیں--- ایک ملکی اور ملّی مفادات کا موثر تحفظ اور مطلوبہ مقاصد و اہداف کا حصول اور دوسرے عالمی برادری میں ساکھ‘ دوستوں اور حلیفوں کی تعداد میں اضافہ اور دشمنوں اور مخالفین میں کمی یا کم از کم ان کے شر کی تحدید۔ ویسے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی بہت کامیاب نہیں رہی البتہ جنرل ایوب کے دور میں امریکہ کی حاشیہ برداری کے آغاز سے تو ہم نے اپنے  ایک آزاد اور دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے کو نظرانداز کر کے امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک خادم کی حیثیت سے اپنے اثرونفوذ اور کارفرمائی کے امکانات کو بہت محدود کر لیا۔ اس طرح دوسروں پر انحصار اور محتاجی ہمارا مقدر بن گئی جس کا سب سے تکلیف دہ نشیب ۱۹۷۱ء کی شکست اور نصف ملک سے محرومی تھا۔

اس تاریک ریکارڈ کے باوجود گذشتہ پچاس سالہ خارجہ سیاست میں کچھ روشن پہلو بھی رہے جن میں اُمت مسلمہ کے مسائل کے بارے میں ہمارا کردار‘ چین سے دوستی‘ برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلمان اور دوسرے ممالک کی جنگ آزادی میں معاونت‘ افغانستان میں روسی جارحیت کے مقابلے میں برادر ملک کے عوام سے تعاون‘ وسط ایشیا کے مسلمان ملکوں کی آزادی میں کردار‘ اور بوسنیا اور کوسووا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نمایاں ہیں۔

معروضی جائزے کی ضرورت

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے جو پالیسیاں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اختیار کی گئی ہیں اور جن کا سلسلہ دستور کی نامکمل بحالی اور جمالی حکومت کے قیام کے باوجود جاری بلکہ روز افزوں ہے‘ اس کے نتیجے میں ملک بیرونی دبائو اور اندرونی انتشار کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جو تاریک ترین ہونے کے ساتھ مستقبل کے لیے اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ یہ ناکامی اور نامرادی کی ایک ہولناک تصویر پیش کر رہا ہے۔ اگر ایک طرف بے اصولی‘ تضادات اور ایڈہاکزم کا وہ منظرہے جو قلابازیوں اور یو ٹرنز کا ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری طرف ملک نہ صرف یہ کہ دوستوں اور عالمی عوامی تائید سے محروم ہو رہا ہے بلکہ دوسروں پر انحصار ہر دور سے زیادہ ہو گیا ہے۔ خصوصیت سے امریکہ کی حاشیہ برداری نے تو وہ رنگ اختیار کرلیا ہے کہ اب ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ نظریۂ حیات‘ تہذیبی تشخص‘ دفاعی صلاحیت‘ معاشی خودانحصاری اور علاقائی مفادات سب معرضِ خطر میں ہیں۔

یہ حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ خارجہ سیاست کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ پالیسی سازوں میں اصول اور مفادات دونوں کا واضح ادراک پیدا کیا جائے اور خالص معروضی انداز میں بین الاقوامی اور علاقے کے حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کے خطوط پر قومی اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔

بلاشبہہ یہ جائزہ اور تجزیہ زیادہ سے زیادہ معروضی انداز میں ہونا چاہیے۔ اس بارے میں جنرل پرویز مشرف کی یہ بات درست ہے کہ ان معاملات کو جذباتی انداز میں طے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر ایک طرف حقائق کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کی یہ تشکیل صرف اور صرف قومی مقاصد‘ اہداف اور مفادات کے محوری حوالے سے ہونی چاہیے۔ اور اسی کسوٹی پر موجودہ روش کا جائزہ بھی مطلوب ہے۔ یہ کام نہ جذباتی انداز میں ہونا چاہیے اور نہ دوسروں کے دیے ہوئے احکامات اور تصورات کے فریم ورک میں۔ ضروری ہے کہ یہ کام غلامانہ اور مرعوب ذہن کے ساتھ نہ ہو بلکہ صحیح معنی میں آزاد ذہن کے ساتھ اور خود اپنے ملکی اور ملّی مفادات‘ ضروریات اور سب سے بڑھ کر حق و انصاف کے مسلمہ اصولوں سے وفاداری کے جذبے سے ہو۔ نیز پوری قوم اور اس کے سیاسی اداروں اور خصوصیت سے پارلیمنٹ اور میڈیا کی بھرپور شرکت سے ہو۔ جہاں ہم الزام تراشی کو گناہ سمجھتے ہیں‘ وہیں حقائق کے بے لاگ جائزے سے فرار کو بھی ایک قومی جرم تصور کرتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے ذریعے اور کثرتِ تکرار کے سہارے ایک منکر کو معروف بناکر پیش کرنے کو بددیانتی اور قوم سے بے وفائی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اخلاص‘ علمی دیانت اور حقائق کی پاسداری کے ساتھ ہر قسم کی مداہنت سے دامن بچاتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جائے اور قوم‘ پارلیمنٹ اور قیادت کو ہمالیہ کی برابری کرنے والی غلطیوں سے بچانے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے لائق بنانے والی پالیسیوں اور اہداف کو دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے   ع

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

۱۱ ستمبر کے بعد

قوم اور قیادت کو اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی صدر اور وزیرخارجہ کی دھمکی کے تحت جو قلابازی کھائی ہے اس نے ہماری خارجہ پالیسی کو بالکل پٹڑی سے اُتار دیا ہے۔ بش صاحب نے تو بلاشبہہ یہ کہا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردی کے ساتھ--- اگر ہمارے ساتھ ہو تو سیدھے سیدھے نہ صرف یہ کہ اپنی زمین اور اپنے ہوائی راستے ہمارے حوالے کر دو بلکہ اپنے دل اور دماغ بھی ہمارے قبضے میں دے دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر پتھر کے دور کی طرف واپس جانے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ صدر بش‘ جن کی پالیسیوں کے اصل کارساز امریکہ کے عیسائی بنیاد پرست اور عالمی صہیونی لابی کے شاطردانش ور اور سیاست کار ہیں‘ دنیا کو ایک نئے امریکی استعمار کے جال میں گرفتار کرنے اور ایک جدید سامراج کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ عالمی راے عامہ کے برعکس چند ممالک کی قیادتیں جن میں اسرائیل‘ برطانیہ‘ اسپین‘آسٹریلیا اور پولینڈ پیش پیش ہیں اپنے اپنے مخصوص مفادات اور عزائم کی خاطر ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ لیکن اس نئے سامراجی کھیل میں مسلمان ممالک کی قیادت میں سب سے پیش پیش جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جن عرب ممالک نے طوعاً و کرہاً امریکہ کا ساتھ دیا ہے انھوں نے کچھ پردہ رکھا ہے لیکن جنرل صاحب کا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ انھوں نے سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ بش صاحب سے شاباشی‘ جرأت مندی کے سرٹیفیکیٹ اور کیمپ ڈیوڈ کی چند گھنٹے کی ملاقات! ان کی گفتار کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ  ع

انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زبان میری ہے بات ان کی

اور اگر پالیسی اوراس کے حاصلات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات جو ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کے دعوے سے شروع ہوئی تھی‘ وہ ’’مُش فرسٹ‘‘ سے ہوتی ہوتی ’’بش فرسٹ‘‘ تک پہنچ گئی ہے اور اب عالم یہ ہے کہ جس تین بلین ڈالر کی دھوم تھی اور جنھیں امریکی بجٹ ۲۰۰۴ئ-۲۰۰۵ء سے شروع ہو کر پانچ سال میں نازل ہونا تھا‘ ان کے بارے میں کانگرس میں نیا بل آگیا ہے اور اس رقم کو جہادِ آزادی کا گلا گھونٹنے اور نیوکلیر استعداد کو قابو کرنے سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جہاں بات صرف ہفتوں میں معاملہ ختم ہونے کی تھی‘ دو سال ہونے کو آرہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہم بھی دلدل میں پھنسے جا رہے ہیں‘ کابل میں سفارت خانے پر حملہ اور    دو ہفتے اس کے بند رہنے کی نوبت آگئی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی کم ہونے کا نام   نہیں لے رہی بلکہ لفظوں کی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے اور پاکستان میں تخریب کاری کے ڈانڈے سرحد پار دیکھے جا سکتے ہیں۔

کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے بارے میں ہر مشکل کے باوجود ہم اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے ہیں‘ اب امریکہ اور اس کے حلیف ہی بھارت کی زبان استعمال نہیں کر رہے بلکہ ساری کہہ مکرنیوں کے باوجود خود جنرل صاحب کی تقاریر اور سفارت کاریوں میں ’’جنگ آزادی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کا فرق مٹتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی حاشیہ برداری اب اس مقام پر پہنچتی نظر آ رہی ہے جہاں اس کی خوشنودی کی خاطر عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے   منہ پر ملی جانے والی کالک میں سے اپنا حصہ نکالنے کے لیے پاکستانی فوج کی ترسیل اور فلسطین میں خاک و خون کی ہولی کے گرم ہونے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں   ع

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

ان حالات میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ اہم مسائل کے بارے میں صحیح موقف کو دلائل سے بیان کیا جائے اور قوم اور قیادت دونوں کے باب میں حق نصیحت ادا کرنے کا فرض انجام دیا جائے۔ قرآن نے حق کی شہادت کی یہی ذمہ داری اسلام کے علم برداروں کے لیے لازم کی ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلوتہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النساء ۴:۱۳۵)

پارلیمنٹ اور کابینہ بے تعلق

اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو لیا جائے یا داخلہ پالیسی کو‘ اس کا المیہ یہ ہے کہ فوج کی جس قیادت نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے باوجود اقتدار چھوڑنے اور انتخابی نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور محض جبر‘ قوت اور عسکری طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے ملک کی قیادت پر اپنی گرفت اسی طرح جاری رکھنا چاہتی ہے جس طرح اسے فوجی حکمرانی کے دور میں حاصل تھی۔ معاشی ترقی اور مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کو پالیسیوں کے تسلسل کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے اور اس کی کوئی فکر نہیں کہ عملاً معیشت کس بگاڑ کی گرفت میں ہے اور عام آدمی کی زندگی کس تباہی سے دوچار ہے۔ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں اگر آبادی میں اضافہ سوا دو فی صد سالانہ ہے تو غریبوں کی آبادی میں اضافہ دس فی صد سالانہ کی رفتار سے ہے (بحوالہ ڈان‘  ۱۶جولائی ۲۰۰۳ئ‘ ڈاکٹرشاہد جاوید برکی کا مضمون)۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ء کو شائع ہونے والی UN Human Development Report 2003 کی رو سے Human Development Index کے باب میں پاکستان کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے۔ چند سال پہلے ہم دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں ۱۲۰ نمبر پر تھے جس سے گر کر اس رپورٹ کے مطابق اب ہمارا نمبر۱۴۴ ہے۔ یعنی ۲۴ مزید ملکوں سے ہم پیچھے آگئے ہیں۔ جو ملک سیاسی اور معاشی اعتبار سے اندرونی قوت و استحکام سے محروم ہو‘ وہ بین الاقوامی دنیا میں اچھی ساکھ کا حامل کیسے ہو سکتا ہے۔

محض امریکہ کی قیادت کی خوشنودی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ امریکہ تو اپنے مفاد میں ہر دور میں اپنے اپنے ملکوں کو تباہ اور کمزور کرنے والے آمروںکی سرپرستی کرتا رہا ہے اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتا رہا ہے۔ ویت نام کے تھیو‘ ڈومینکن  ری پبلک کے جنرل ٹروجیلو‘ فلپائن کے مارکوس‘پاناما کے مینویل نوریجو ‘ ایران کے رضاشاہ‘ مصرکے انورالسادات اور حسنی مبارک سے لے کر پاکستان کے فوجی حکمرانوں (ایوب خان سے پرویز مشرف) تک کو امریکہ کی آشیرباد حاصل رہی ہے اور وہ ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ۱۱ستمبرکے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جس طرح امریکہ کے مفادات کے تابع کردیا گیا ہے اس سے ملک کی آزادی‘ سالمیت اور نظریاتی تشخص کو شدید خطرہ ہے۔

جنرل صاحب نے پالیسی کی تمام باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اور وزیراعظم‘ کابینہ‘ پارلیمنٹ سب غیر متعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ دستور کا جس طرح حلیہ بگاڑا گیا ہے وہ خود ایک المیہ ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ دونوں پالیسیوں کی باگ ڈور جنرل صاحب ہی کے ہاتھ میں ہے اور اپنے جن غیرمنتخب پسندیدہ افراد کو چاہتے ہیں اعتماد میں لیتے ہیں اور خود ان کے سیاسی طنبورے کچھ بھی کہتے رہیں وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو خود کرنا چاہتے ہیں اور جس کا سلسلۂ نسب بش انتظامیہ کی خواہشات سے ملتا ہے۔ ایک ماہ میں چار مغربی اور تین عرب ممالک کا دورہ وہ صدر فرماتے ہیں جن کی صدارت کی قانونی حیثیت (legality) بھی معتبر نہیں اور اگر  بہ فرض محال اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی خارجہ سیاست دستور ہی نہیں‘ خود ایل ایف او کے تحت بھی صدر کی ذمہ داری نہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ اور پارلیمنٹ سب غیرمتعلق ہو کر    رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس طرح ایک فردِ واحد کو دستور میں ترمیم کا حق نہیں دیا جا سکتا اسی طرح خارجہ یا داخلی سیاست بھی کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پالیسیوں کے افلاس اور حالات کی خرابی کا بڑا سبب پالیسی سازی اور حکمرانی کے اس پورے عمل (process) کا بگاڑ ہے‘ جس کی اصلاح کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔


اس اصولی بات کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ان سات ملکوں کے دوروں سے قبل‘ ان کے دوران اور ان سے واپسی پر خارجہ سیاست کے سلسلے میں جن بنیادی ایشوز کو اٹھایا ہے ان پر مختصر کلام کریں اور قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ خود ان کو اور ان کے قریبی رفقا کو دعوت دیں کہ اپنے موقف اور اس کے مضمرات پر ازسرنو غور کریں اور ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے صرف حقائق اور دلیل و برہان کی بنیاد پر پالیسی سازی کے اصول کو تسلیم کریں اور صحیح جمہوری اور قانونی عمل (process) کے ذریعے پالیسیاںبنانے اور ان پر احتساب کا راستہ اختیار کریں۔

امریکی امداد کی شرم ناک شرائط

ہم نے جنرل صاحب کے امریکہ کے دورے کے بارے میں پہلے بھی لکھا ہے اور ایک بار پھر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محض ’’درمدح خود می گوید‘‘ سے نہ حقائق تبدیل ہوتے ہیں اور نہ تلخ نتائج پر دھول ڈالی جا سکتی ہے۔

کیمپ ڈیوڈ میں پاکستان کے لیے کیا حاصل کیا جا سکا اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے کیا کچھ قربان کر دیاگیا ہے؟ اس کی بیلنس شیٹ کو بہت عرصے تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ امریکہ میں پاکستانی جن مصائب کا شکارہیں ان میں کوئی کمی آئی ہے؟ گنٹاناموبے کے عقوبت خانے میں جو پاکستانی آج بھی قید ہیں اور دو سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن ہر داد رسی سے محروم ہیں ان کے بارے میں کیا حاصل ہوا؟ کشمیرکے مسئلے پر ہمارے موقف کو کہاں کوئی پذیرائی حاصل ہوسکی اور کہاں ہم خود کشمیرکی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اس زمرے میں شامل کرنے کے مرتکب ہوئے جو امریکہ اور بھارت نے دہشت گردوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ افسوس کہ پہلی مرتبہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیرنے امریکی کانگریس کے سامنے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے terrorists کا لفظ استعمال کیا اوریہ جنرل صاحب کے امریکہ اور برطانیہ دونوں کے دورے کے بعد ہوا۔ تین بلین ڈالر کے معاشی پیکج کی بڑی دھوم ہے لیکن ایک سال کے بعد شروع ہونے اور پانچ سال پر پھیلے ہوئے اس انتظام کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ امریکی کانگرس میں بل آگیا ہے کہ ہر سال صدر امریکہ کو تصدیق کرنا ہوگی کہ:

۱-            کشمیر میں تمام ٹریننگ کیمپ بند ہیں۔

۲-            لائن آف کنٹرول سے کوئی آر پار نہیں ہو رہا۔

۳-            پاکستان جنگ آزادی کے فرزانوں کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔

۴-            پاکستان کی نیوکلیر استعداد قابو میں ہے اور امریکہ کے احکام کی (یعنی جوہری عدم پھیلائو جس میں خود اپنی صلاحیت کا بہتر کرنا اور up-grading بھی شامل ہے) مکمل پاسداری کی جا رہی ہے۔

جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ امداد غیر مشروط ہے حالانکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے تین شرائط کا ذکر اس وقت بھی کیا تھا۔ اب ان میں سے جمہوریت کی طرف پیش رفت خارج کر دی گئی ہے اورکشمیر کی ناکہ بندی کی ہر تدبیر شامل کی جا رہی ہے۔

کیا اسی کا نام خارجہ سیاست کی کامیابی ہے؟

افغان پالیسی کے ’’نتائج‘‘

جنرل صاحب نے افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے پاکستان کا کندھا فراہم کرتے وقت کہا تھا کہ امریکہ کا یہ آپریشن مختصر ہوگا اور صرف متعین اہداف تک محدود ہوگا۔ اس کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ ہزاروں معصوم افغان شہید کیے جا چکے ہیں‘ سیکڑوں شہر اور دیہات بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں‘ ملک دوبارہ بدنظمی اور وار لارڈز کے قبضے میں ہے۔ امریکی فوجیوں‘ سرکاری افواج اور عوام کے درمیان مسلسل تصادم ہے اور وہ روز افزوں ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر وہ پاکستان جس کے جہادِ افغانستان میں تعاون کے سبب پوری افغان قوم ممنونیت کے جذبات سے معمور تھی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری سرحدوں پر سکون تھا اور دونوں ممالک میں بھرپور تعاون کی فضا تھی--- وہ سکون درہم برہم ہوگیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے‘ پاکستان کی سفارت خانے پر سنگ باری ہو رہی ہے‘ سرحدوں پر کشیدگی ہے‘ قبائلی علاقے میں فوج لگا دی گئی ہے اور دونوں طرف سے فوجیں صف آرا ہیں۔ امریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہم ۵۰ فی صد تعاون پر مطمئن نہیںہیں‘ ۱۰۰ فی صد اطاعت مطلوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کرزئی صاحب نے اپنے تازہ انٹرویو میں جنرل صاحب پر بے اعتمادی کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ لندن کے روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کرزئی صاحب نے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے ’’مہذب رویے‘‘ کے متوقع ہیں۔ ان کے الفاظ جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے چند ارشادات بطور آئینہ پیش خدمت ہیں:

پاکستان کو افغانستان کے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز رہنا چاہیے اور انتہاپسندوں کی جانب سے سرحدپار حملے بند ہوجانے چاہییں۔ ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ کرزئی نے واضح کیا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کو ذاتی طور پر دھوکا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کا رشتہ پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان دونوں کو اس سلسلے میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کے موجودہ رویے کے ساتھ ممکن نہیں۔ (ڈیلی ٹیلی گراف‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ئ)

واضح رہے کہ طالبان کے سات سالہ دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بھی سرحدی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے سلسلے میں جو بھی تحفظات دونوں طرف سے ہیں‘ وہ تعلقات کو متاثر کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔ لیکن امریکہ کے احکامات کے تحت سرحد کو بند کرنے کا اقدام اور علاقہ غیر میں فوجیں بھیجنے کے نتیجے میں جو صورتِ حال رونما ہوئی ہے وہ بالآخر دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جنرل صاحب کے کیمپ ڈیوڈ کے سفر سے دو ماہ قبل پاکستان کے سیکرٹری داخلہ امریکہ سے سرحد بند کرنے کا معاملہ طے کر آئے تھے اور اس پر عمل کا شاخسانہ ہے کہ دوست دشمن میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی بری طرح ناکام ہیں اور کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ شمالی علاقوں کی قیادت اور پشتون عوام میںبعد بڑھ رہا ہے۔ کابل حکومت کا اثر و رسوخ چند شہروں تک محدود ہے۔ امریکہ مخالف رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بیرونی افواج اور ان کے افغان معاونین کے خلاف تحریکِ مزاحمت زور پکڑ رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرات بڑھ رہے ہیں اور اسرائیل بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو جلال آباد اور قندھار تک میں سفارتی دفاتر قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی جس strategic depthکی باتیں ہو رہی تھیں وہ اب strategic dearth میں تبدیل ہو گئی ہے۔ پاکستانی فوج کی ایک معقول تعداد (ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ) اب شمالی سرحد پر پابند ہوگئی ہے اور ہماری ساری خدمات اور کارگزاریوں کے باوجود کابل کے حکمران اور افغانستان میں امریکی فوجی قیادت دونوں ہم سے ناخوش ہیں‘ افغان عوام تو پہلے ہی کبیدہ خاطر اور مایوس تھے۔ یہ ہے ہماری ۱۱ستمبر کے بعد کی افغان پالیسی کا حشر!

کشمیر پر پسپائی

دوسرا بڑا مسئلہ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پایدار حل کا ہے۔ یہاں جو بھیانک غلطی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دن سے ہم نے ’’terrorism‘‘ کے بارے میں اپنے موقف کی نہ موثر وضاحت کی اور نہ امریکہ اور بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں ان کے اور اپنے موقف کے فرق کو تسلیم کرایا۔ آنکھیں بند کر کے تائید کر دی گئی اور اس کا نتیجہ ہے کہ جنیوا میں اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کا کمیشن تو اپنے ۲۰۰۳ء کے اجتماع میں یہ کہتا ہے کہ جنگِ آزادی کے مجاہد اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا اور ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول سے کوئی نام نہاد دراندازی نہیں ہونے دیں گے اور اپنی زمین کو کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ عملاً بھی مجاہدین کے سارے کیمپ ختم کر دیے جاتے ہیں اور مجاہدین کو عملاً دہشت گردوں کے زمرے میں شامل کر دیا جاتا ہے بلکہ جہاد کی بات کو بھی ترک کر دیا جاتا ہے اور وہ فوج جس کا موٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے اس کے سربراہ کی زبان جہاد کی بات کرتے ہوئے گنگ ہو جاتی ہے۔

بھارت نے اس صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ایک ردعمل کی (reactionary) صورتِ حال کے اسیرہوگئے ہیں۔ بھارت میں امریکی سفیر کھل کر اور غالباً پہلی مرتبہ کشمیر کی جنگِ آزادی کو دہشت گردی اور پاکستان کو اس کا پشتی بان قرار دیتا ہے اور ہمارے احتجاج میں بھی کوئی جان باقی نہیں رہی ہے۔ مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اصل ایشوز پر کوئی واضح موقف باقی نہیں رہا ہے۔ جنرل صاحب یہاں تک چلے گئے ہیں کہ کشمیر کے دس بارہ حل کی بات کرتے ہیں اور لچک کے نام پر تجویز دیتے ہیں کہ process of elimination کو بروے کار لایا جائے اور جو حل دونوں کے لیے بالکل قابلِ قبول نہ ہو اس کو ترک کر دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میںاگر بھارت یہ کہے کہ استصواب راے اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو یہ راستہ ترک کر دیا جائے۔ اگر اسی کا نام سیاست خارجہ ہے تو پھر ’’کار عقلاں تمام خواب شد‘‘۔

اس تمام ژولیدہ فکری اور سمجھوتہ کاری سے ہم جموں و کشمیر کے عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں--- ان عوام کو جو ۵۵سال سے بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہیں‘ جنھوں نے تقسیم کے فوراً بعد تین لاکھ جانوں کی قربانی دی اور جو ۱۹۸۹ء سے جہادِ آزادی کے دورِ نو میں ۸۰ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور بھارت کی سات لاکھ فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں اور کسی قیمت پر بھی اس کے قبضے (occuption)کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اصل ایشو ہی ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز اور محض مبنی بر جبر تسلط کا ہے۔ مسئلے کا کوئی حل وہاں کے عوام کی مرضی سے ان کے مستقبل کو طے کرنے کے سوا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہم تعلقات کو معمول پر لانے (normalization) کے فریب میں ایک بار پھر مبتلا ہوگئے ہیں اور اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے لیے آمادہ ہیں جس سے ۱۹۴۷ء کے بعد سے برابر ڈسے جا رہے ہیں--- کیا یہی جنرل صاحب کی خارجہ پالیسی کا کارنامہ ہے۔

بلاشبہہ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ محض سرحدی تنازع یا زمین کا جھگڑا نہیں۔ سوا کروڑ مسلمانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے اور جس اصول پر پاکستان قائم ہوا تھا اس کے اطلاق اور تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مسئلہ ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے ان کی خواہشات کے مطابق حل ہو جائے تو بھارت سے دوستی کے حقوق کے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ تقسیم کے اصل منصوبے کے مطابق دونوں ملک عزت و احترام سے اپنے تعلقات استوار کریں لیکن جیساکہ چیئرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل عزیزاحمد خاں نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات کا انحصار علاقے کے تمام ممالک کی حاکمیت کے احترام پر مبنی ہے۔ اگر بھارت کے رویے اور عزائم پر علاقے میں بالادستی کا بھوت سوار رہتا ہے اور چھوٹے ممالک کو وہ اپنا      باج گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے‘ نیز پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر عامل رہتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت کر رہا ہے: بھوٹان اور نیپال کے بعد بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ پر گرفت مضبوط کرنے‘ چین سے بظاہر دوستی استوار کرنے‘ ایران سے تعلقات کا وہ آہنگ جس میں پاکستان کو بائی پاس کیا جاسکے‘ افغانستان میں اثر و رسوخ کا ایسا نظام جس کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈالا جا سکے‘ وسطی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ قدم جمانے کی کوشش‘ امریکہ سے ایسے تعلقات جن کی زد پاکستان پر بھی پڑتی ہو‘ اسرائیل سے اسٹرٹیجک گٹھ جوڑ‘ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا حصول‘ ایٹمی صلاحیت کا عالمی طاقت بننے کے لیے استعمال‘ عسکری قوت میں مسلسل اضافہ جو علاقے کے فوجی توازن کو تہہ و بالا کر دے--- یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کو پاکستان اور علاقے کے دوسرے ممالک نظرانداز نہیں کرسکتے۔

دوستی کے خالی خولی نعرے اور اعتماد بنانے والے نام نہاد حربے علاقائی حقائق کو نہ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ان سے پیدا ہونے والے خطرات کے مقابلے کی کوئی سبیل پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ٹھوس حقائق‘ دوسرے ممالک کے عزائم کے حقیقی ادراک اور خود اپنے مقاصد‘ مفادات اور اہداف کی روشنی میں ایک اقدامی پالیسی کے جملہ پہلوئوںکا احاطہ ہی پاکستان کے تحفظ اور ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی میں ان تمام پہلوئوں کے شعور کی کوئی جھلک دیکھی جا سکتی ہے؟

نظریاتی رُخ کی تبدیلی

جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ دوروں میں خارجہ پالیسی کے سلسلے میں تین نئے موضوعات کو چھیڑا ہے۔ یہ موضوعات اور ان پر بحث کا یہ وقت دونوںاہمیت کے حامل ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد امریکہ کی خوشنودی ہے‘ جو ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ لیکن اگر گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو یہ دراصل پوری خارجہ پالیسی ہی نہیں‘ پاکستان کے نظریاتی رخ کی تبدیلی کا پیش خیمہ اور اس کے لیے اولیں اقدام ہوسکتا ہے۔ اس لیے گربہ کشتن روزِ اول کے اصول پر یہی وہ وقت ہے کہ ان خطرناک feelers کا سرتوڑ دیا جائے اور پوری قوم کو ان کے خطرات اور مضمرات سے آگاہ کر کے اپنی نظریاتی سرحدوں‘ اپنے سیاسی‘ دفاعی اور تہذیبی وجود کی حفاظت اور تاریخی قومی عزائم کی تکمیل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔

پہلی چیز کا تعلق دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی جنگ میں ہمارے کردار کا ہے۔ جنرل صاحب اور ان کے رفقا نے ملک کو ایک ہیجانی انداز میں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد‘ اس سانحے کے اسباب اور ذمہ دار افراد کے بارے میں کسی معروضی تحقیق کے بغیر‘ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کی کوئی انتہانہیں‘ جس کا کوئی واضح ہدف اور متعین منزل نہیں‘ جس کی قیادت ایک ایسے ملک کے ہاتھ میں ہے جو کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا‘ جس کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور جس پر ایک مذہبی بنیاد پرست گروہ چھایا ہوا ہے جو حق و انصاف اور سچ اور جھوٹ سب سے بالا ہوکر محض اپنے مذموم مقاصد کے لیے سب کچھ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ہم نے اپنے کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا ہے اور اب امریکہ کی دم سے بندھے‘ بے بسی کے عالم میں اس کے پیچھے پیچھے گھسٹ رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ   ع

نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں

امریکہ دہشت گردی کے عنوان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اسامہ بن لادن پہلا ہدف تھا مگر اس پر کوئی جرم ثابت کیے بغیر اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔ وہ آج تک نہیں پکڑا گیا مگر اس کے نام پر دوسرا سال ہے کہ ایک عالمی جنگ کا بازار گرم ہے۔ طالبان نے کوئی جرم نہیں کیا تھا مگر اسامہ کو پناہ دینے کے الزام پر ان پر فوج کُشی کی گئی اور اب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خدمت انجام دی جا رہی ہے اور ایک ایسا ملک‘ جو چاہے غریب اور غیرترقی یافتہ تھا مگر آزاد اور پُرامن تھا‘مسلسل جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیاہے اور پاکستان اور افغانستان کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا گیا۔ ملاعمر اب بھی گرفت سے باہر ہیں اور طالبان کا ہّوا سروں پر منڈلا رہا ہے۔ عراق پر صریح جھوٹ اور اب خود اپنے اعتراف کے مطابق محض راے عامہ کو ساتھ ملانے کے لیے غلط اور بے بنیاد الزامات کو ہوا دے کر حملہ‘ ملک کی تباہی اور اس کے وسائل پر قبضے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔ شمالی کوریا پردبائو جاری ہے‘ ایران اور شام پر بندوقیں تانی جا رہی ہیں‘ اسرائیل کو کھل کھیلنے کا ہر موقع دیا جا رہا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چند مغربی اقوام (برطانیہ‘ اسپین‘ آسٹریلیا‘ پولینڈ) کے علاوہ بھارت اور اسرائیل اس نام نہاد جنگ سے مستفید ہونے والے (beneficiaries)اصل فریق ہیں۔ البتہ ہم دم چھلے کی طرح امریکہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی‘ مالی‘ سیاسی‘ ہر اعتبار سے نقصان اٹھا رہے ہیں مگر امریکہ سے نتھی ہیں۔

اس سے بھی زیادہ خطرناک وہ نظریاتی جنگ ہے جو اسلام‘ اور اس کے دین و دنیا اور مذہب اور ریاست کی یک جائی کے تصور کے خلاف امریکی دانش وروں اور سیاست کاروں نے شروع کی ہوئی ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ایسا اسلام تو قبول ہے جو گھر اور مسجد تک محدود ہو لیکن اسلام کا یہ تصور کہ زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی ہدایت کی روشی سے منور کیا جائے‘ قابلِ قبول نہیں۔ اس تصورِ دین کا نام بنیاد پرستی‘ انتہاپرستی‘ رجعت ‘ جہادی کلچر اور دہشت گردی رکھا گیا ہے۔ دینی تعلیم کا نظام اس تصور کامنبع ہے اس لیے اس نظام کی تبدیلی نئی صلیبی جنگ کا ہدف ہے۔

اس نظریاتی جنگ میں بھی معلوم ہوتا ہے کہ جرنیل پرویز مشرف صدر بش کے ہم رکاب ہیں اور اس پورے سفر میں اسلام کے ایک ترقی پسند اور لبرل تصور کے داعی کے طور پر اُبھرے ہیں۔ یہ وہی راستہ ہے جو استعمار کے پہلے دور میں ماڈرن اسلام کے نام پر اختیار کیا گیا تھا اور جسے اُمت نے علامہ اقبال‘ جمال الدین افغانی‘ محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد‘ سید مودودی‘ حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘محمدعبدہ‘ رشید رضا‘ مالک بن نبی اور سید قطب جیسے مفکرین اور مجاہدین کی سرکردگی میں دفن کر دیا تھا۔ شیطان اپنے اسی حربے کو ایک بار پھر اختیار کر رہا ہے اور افسوس ہے کہ جنرل پرویز مشرف غالباً سوچے سمجھے بغیر اور تمام عواقب و مضمرات کا ادراک کیے بغیر     اس صلیبی جنگ میں بھی شریک ہوگئے ہیں اورترقی پسند اسلام کو بھی خارجہ پالیسی کا ایک   نظریاتی ستون (plank) بنانے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ ایک المناک غلطی ہے۔ پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اس تصور کو بار بار رد کر چکی ہے اور خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیکولر عناصر نے یہ بازی کھیلی ہے انھیں بری طرح شکست ہوئی ہے۔

اسلام وہی ہے جو قرآن و سنت کے ذریعے اس اُمت کو ملا ہے اور جب تک قرآن و سنت محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کی ضمانت خود زمین و آسمان کے مالک نے دی ہے‘ اسلام کے چہرے کوکوئی مسخ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے جسم پر کوئی دوسرا چہرہ نصب کرسکتا ہے۔ البتہ اس کوشش کا ایک نتیجہ ضرور نکل سکتا ہے اور وہ ہے ملک و ملّت کے درمیان نظریاتی کش مکش اور تصادم اور قوم کی صلاحیتوں کا ضیاع۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جنرل صاحب اس لاحاصل تصادم سے اپنے کو بھی بچائیں اور قوم کو بھی اور امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اسلام میں تراش خراش اور ایک قابلِ قبول وژن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں اور یاد رکھیں کہ    ؎

نورِ حق ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا  نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸)

یہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام پر جو بھی ضرب لگی ہے اور اُمت کو جس نشیب سے بھی سابقہ پیش آیا ہے‘ اسلام پھر قوت بن کر اُبھرا ہے اور اُمت نئے فراز سے شادکام ہوئی ہے    ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

امریکہ کی مدد کے لیے پاکستانی فوج

دوسرا شوشہ جو اس زمانے میں چھوڑا گیا ہے‘ وہ عراق میں امریکہ کی دعوت پر اور ان کی مدد کے لیے پاکستانی افواج کو بھیجنے کا ہے۔ ستم ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کسی مشورے‘ کسی قومی مشاورت‘ کسی پارلیمانی بحث کے بغیر اس سے ’’اصولی اتفاق‘‘ کااعلان بھی کر دیا اور صرف ’’مصارفِ لام بندی‘‘ اور کمانڈ کی بات کر کے مسئلے کو الجھانے کی کوشش کی۔

بات بہت صاف ہے۔ اگر پاکستانی فوج محض بھاڑے کے ٹٹو کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ایک آزاد اور اسلام کی علم بردار قوم کی وہ فوج نہیں جو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے آدرش کی دین ہے تو وہ اسے جہاں چاہیں بھیجیں اور جس جہنم میں جھونکنا چاہیں جھونک دیں لیکن نہ پاکستان کی فوج کسی ایسے بکائو مال (mercenaries)کا طائفہ ہے اور نہ پاکستانی قوم ایسی بے ضمیراور بے غیرت قوم ہے کہ اپنے شاہینوں کو امریکہ کی ایک ناجائز جنگ کی آگ میں جھونکنے دیں۔ یہ فوج کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ جہاں چاہے بھیج دے اور جس جنگ کا چاہے اسے ایندھن بنا دے۔ ایک مسلمان فوج اور ’’ضمیرفروشوں‘‘ میں یہی فرق ہے کہ وہ حق کے لیے تو جان کی بازی لگا دیتی ہے لیکن محض پیسے کی خاطر ظالموں کا آلہ کار نہیں بنتی۔ مولانا محمد علی جوہر نے خوب کہا تھا کہ   ؎

مصلحت کوش مری فطرت پاکیزہ نہ تھی

قول انشا کو کبھی حکمِ الٰہی نہ کہا

گر یہی میری خطا ہے تو خطا کار ہوں میں

میں نے شمشیرفروشوں کو سپاہی نہ کہا

عراق کی جنگ کی حقیقت کونظرانداز کر کے‘ اور آج عراق میں جو کھیل امریکہ کھیل رہا ہے اور اس کی جو قیمت اسے ادا کرنا پڑ رہی ہے اس کے ادراک کے بغیر محض جناب بش کے ارشاد عالی کی تعمیل میں اپنی فوج بھیجنے اور اسے اصولی طور پر ایک صحیح بات کہنے کی جسارت وہی شخص کر سکتا ہے جو یا حالات کا کوئی ادراک نہ رکھتا ہو یا پھر قوم اور فوج دونوں کو دھوکا دینے کی جسارت کر رہا ہو۔

عراق کی صورتِ حال

عراق کی جنگ کے بارے میں حقائق یہ ہیں:

۱-  یہ جنگ امریکی قیادت کے ہوسِ انتقام اور سامراجی عزائم کی جنگ ہے جس کی ساری دنیا کے عوام نے مخالفت کی‘ ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک نے اس میں شرکت سے انکار کیا‘ دنیا کی آبادی کے ۹۰ فی صد نے اسے ناجائز قرار دیا‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی امریکہ اس کی تائید حاصل نہ کر سکا اور اس کے سہارے ایڑی چوٹی کے زور لگا دینے کے باوجود جنگ کے بعد بھی اسے سلامتی کونسل سے جواز نہ مل سکا اور کونسل نے اپنی قرارداد ۱۴۸۳ کے ذریعے امریکہ اور برطانیہ کو قابض طاقت (occupying power) قرار دیا۔ ایسی ناجائز اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کی جانے والی فوج کُشی میں شرکت کا کوئی قانونی‘ اخلاقی اور سیاسی جواز ممکن نہیں۔

۲-  جنگ کے بعد اب اس بات پر خود امریکہ اور برطانیہ میں کھلے بندوںاحتساب ہورہا ہے کہ جنگ کے لیے جن وجوہ کو سندِجواز بنایا گیا تھا وہ محض کذب اور دھوکے پر مبنی تھیں اور امریکی اور برطانوی قیادت نے اپنی پارلیمنٹوں اور اپنے عوام کو صریح دھوکا دیا۔ بش صاحب کی جنوری ۲۰۰۳ء کی State of the Nation تقریر جھوٹ پر مبنی تھی اور یہی حالت اس قرارداد کی تھی جو برطانوی پارلیمنٹ میں منظور کرائی گئی۔ دونوں ملکوں میں اب عوام اور سیاسی قوتیں احتساب اور جواب دہی کی بات کر رہی ہیں اور راے عامہ کے جائزوں میں قیادت کی ساکھ برابر روبہ زوال ہے۔ جنگ کے مبنی برباطل ہونے کے ان واضح اعترافات کے باوجود یہ سوچنا بھی ایک گناہ اور انسانیت کے خلاف ظلم ہے کہ ایسی جنگ برپا کرنے والوں کی معاونت کے لیے ایک مسلمان ملک کی فوج بھیجی جائے۔

۳- عراق میں یکم مئی کو جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد بھی امریکی اور برطانوی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو روز بروز بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے ۱۵۰ سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں اور برطانیہ کے ۳۰ سے زائد۔ فوج میں شدید بے چینی ہے اور ہر میت جو امریکہ یا برطانیہ جا رہی ہے ایک کہرام کو جنم دے رہی ہے۔ امریکہ کے ایک لاکھ ۴۸ ہزار فوجی عراق میں اسیر ہیں اور وہ ان میں سے بیشتر کو جلد از جلد واپس بلانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ بھاڑے کے ٹٹوں کو عراقی عوام کی مزاحمت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے ۱۷ ہزار فوجیوں کے لیے مزید کمک بھیجنے سے انکار کر دیا اور امریکہ اس کے تھرڈ ڈویژن کو واپس بھیجنے اور متبادل افواج کو لانے کو مشکل پا رہا ہے۔ اس نے فرانس سے فوج طلب کی جس نے انکار کر دیا۔ بھارت سے طلب کی اس نے انکار کر دیا۔ پاکستان سے طلب کی اور وہ جرأت انکار سے بھی  محروم ہے اور چور دروازے تلاش کر رہا ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ناحق جنگ‘ ایک ظالمانہ اور سامراجی جنگ اور ایک ایسی صورت حال میں جہاں ایک مسلمان عرب ملک پر امریکہ قابض ہے اس بات کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ اس خونی کھیل میں اپنے فوجیوں کو جھونک دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عراقی عوام درخواست کریں یا وہاں کی امریکہ کی نامزد کونسل درخواست کرے تو غور کرسکتے ہیں۔ کونسل ایک امریکی نامزد ادارہ ہے جس میں اعلیٰ اختیار عراق کے نئے امریکی وائسرائے پال بریمر کو حاصل ہے۔ امریکہ نے عراق کے انتظام کو اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وہاں فوجی اور سیاسی دونوں نظام دونوں امریکہ کے تحت ہیں۔ ایسے حالات میں کسی آزاد اور غیرت مند ملک کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی فوج وہاں بھیجے۔ بھارت نے پوری جرأت کے ساتھ انکار کر دیا لیکن ہماری قیادت حیص بیص کا شکار ہے۔

۴-  تمام تجزیہ نگار اس بات کا اب کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ عراق میں ایک قومی تحریک مزاحمت وجود میں آگئی ہے۔ امریکہ ویت نام جیسے حالات سے دوچار ہونے کے خطرات سے بچنے کے لیے دوسروںکو اس آگ میں جھونکنے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔  ولیم شوکراس نے لندن کے اخبار ایوننگ اسٹینڈرڈ کی ۲۵مارچ ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں جنگ سے پہلے ہی اس کی پیش گوئی کر دی تھی اور اب عالم گیریت کے مطالعے کے ییل مرکز کے ایک مطالعے میں جو یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے پروفیسر آر ویل اسکیل نے مرتب کیا ہے صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:

ہمارا واسطہ ایک منتشر بھوت سے ہے جو دہشت گردی اور گوریلا جنگ سے مل کر بناہے۔ اس کا صفایا کرنا ہندچینی میں ہمارا جن گوریلا فوجوں سے واسطہ پڑا تھا‘ اس سے زیادہ سخت ہوگا۔ (ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۱ جولائی ۲۰۰۳ئ)

کیا اس جہنم میں ہم محض امریکیوں کے نقصانات کم کرنے کے لیے اپنے مجاہد فوجیوں کو بھیجنے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

۵-  عراق میں خود امریکیوں نے جس گورننگ کونسل کو نامزد کیا ہے اس تک نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود صدر بش کا شکریہ ادا کرنے اور اسے عراق کا نجات دہندہ قرار دینے سے انکار کر دیا اور عراق کی سڑکوں اور گلیوں میں جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ امریکی کالم نگار نیل میک فرگوارہر کے بیان کے مطابق یہ ہیں:

"No to America! No to Colonialism

No to Tyranny! No to Devil".

(نیویارک ٹائمز‘ ۲۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)

یہ ہے عراق کی عوامی فضا ۔ ہم کس کا ساتھ دینا چاہتے ہیں--- عوام کا یا ان پر تسلط حاصل کرنے والی امریکی افواج اور اس کی نامزد انتظامیہ کا؟

۶-  ہمیں ان تاریخی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ برطانوی استعمارکے دور میں پہلی جنگ کے بعد برطانیہ کی افواج میں شامل برعظیم کے سپاہیوں نے عراق کے لوگوں پر گولیاں چلائی تھیں اور جہادِ آزادی کے متوالوں کو کچلنے کی جنگ میں برطانوی استعماری افواج کے شانہ بشانہ شرمناک کردار ادا کیا تھا جس کی یادیں آج بھی موجود ہیں۔ کیا آزادی کے بعد اور اس دور کی پہلی آزاد مسلم مملکت کا شرف رکھنے والے پاکستان کی فوجوں کو پھر اس کی قیادت ایک ایسی ہی شرمناک جنگ میں جھونکنا چاہتی ہے؟ اس طرح پاکستانی قوم اور عراقی قوم میں محبت کا رشتہ استوار ہوگا یا نفرت کا؟ امریکہ کے فوجی تو عراقی عوام کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کے منہ پر یہ کالک ملنے کی خدمت انجام دینا چاہتی ہے۔

۷-  امریکہ کے جو عزائم عراق میں سیاسی بندربانٹ‘ اس کے تیل پر قبضے‘ تعمیرنو کے نام پر امریکی کمپنیوں کے تسلط کے قیام اور ہمیشہ کے لیے عراق کو عسکری اعتبار سے ایک غیرموثر ملک بنانے والے ہیں ان سے ہم ناواقف نہیں۔جو نقشہ کل کے لیے بن رہا ہے وہ عراق‘ عرب دنیا اور عالمِ اسلام سب کے مفاد کے خلاف ہے۔ کیا ہم میں اتنی بھی سیاسی فراست نہیں کہ نوشتہ دیوار کو پڑھ سکیں؟ اور امریکہ کے اس خونی کھیل میں محض چند پیسوں کی خاطر شریک نہ ہوں۔

۸-  انگلستان میں ابھی جولائی کے دوسرے ہفتے میں ان ۱۴ ممالک کے سربراہوں کا اجتماع ہوا جو سوشل ڈیموکریسی کے علم بردار ہیں۔ ٹونی بلیر نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح ان کو عراق کی جنگ اور غربت کے خاتمے اور تعمیرنو کے نام پر کیے جانے والے منصوبوں میں شریک کریں لیکن سب نے بہ اتفاق اس میدانِ جنگ میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس اصول کو بھی تسلیم کرنے سے انکارکر دیا کہ ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹانے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور جابر حکومتوں کے خاتمے کے لیے کسی بھی ملک کو اقدام کا اختیار دیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا‘ امن کو جو بھی خطرہ ہو اس کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے ذریعے‘ بین الاقوامی قانون کے مطابق۔ ان کا اعلامیہ بہت واضح ہے:

ہم اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ اس نوعیت کے انسانی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی کارروائی کی اجازت دینے والا واحد ادارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)

کیا اس اعلامیے میں پاکستان کی قیادت کے لیے کوئی پیغام نہیں؟

۹-  آخری بات یہ ہے کہ عراق پر قبضے کے جملہ مقاصد میں ایک اہم مقصد اسرائیل کی تقویت اور اسے علاقے کا چوکیدار بنانا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کرتے ہیں۔امریکہ کی صہیونی لابی اور اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے عراق کی جنگ کو حقیقت بنانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا اور عراق کی تباہی پر سکھ اور چین کا سانس لیا۔  دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں اس کا کھل کر اعتراف کیا ہے:

عراق میں جنگ کا ایک سبب یہ تھا کہ علاقائی خطرے کا خاتمہ کیا جائے‘ اور امید کی جائے کہ اس طرح شرق اوسط میں امن فروغ پائے گا۔ عراق کے اندر داخلی سلامتی کتنی ہی غیراطمینان بخش ہو اور اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تنازع کتنا ہی بھڑک رہا ہو‘ اس جنگ نے اسرائیل کے لیے ایک خطرے کاخاتمہ کر دیا ہے اور خطے کے دوسرے ممکنہ جنگ کرنے والوں کے لیے تنبیہ کا کردار ادا کیا ہے۔ اب اسرائیل کے لیے دنیا ایک نسبتاً زیادہ محفوظ جگہ ہو گئی ہے۔ (اداریہ ‘ ۱۵جولائی ۲۰۰۳ئ)

یہ ہے عراق پر امریکی قبضے کی اصل حقیقت۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت اسرائیل کی تقویت کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرنے کی حماقت کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ کیا اب اس ملک کی قیادت میں اس کھیل کو سمجھنے والا کوئی موجود نہیں۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْد؟


اس خطرناک کھیل کا ایک اور شاخسانہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے امریکی دبائو اور ترغیبات سے عبارت ہے۔ جنرل صاحب کے دورے سے پہلے ہی اس کے شوشے چھوڑے جانے لگے تھے اور دورے کے دوران اور اس کے بعد اس بارے میں نت نئے نکتے تراشے جارہے ہیں جن کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسرائیل ہی نہیں اُمت مسلمہ اور عالم انسانیت کے تمام ہی مسائل کے بارے میں مبنی برحق خارجہ پالیسی کے خدوخال متعین کیے جائیں۔ یہ موضوعات مستقل بحث کا تقاضا کرتے ہیں‘ اس لیے ان شاء اللہ ان پر آیندہ کبھی گفتگو ہوگی۔