’’مشرف‘طالبان اور سرحد میں شریعت بل کا نفاذ‘‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) اگرچہ ہر لحاظ سے جامع ہے‘ تاہم ایک اہم نکتے کے حوالے سے بہت تشنگی محسوس ہوئی ‘اور وہ ہے ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق مشرف کا بیان‘‘۔ اس اہم نظریاتی معاملے پر سیرحاصل گفتگو کی ضرورت ہے--- تاکہ کارکنان و عامۃ الناس کے سامنے اس معاملے کے تمام پہلو نمایاں ہوجائیں۔حکمت مودودیؒ : ’’موجودہ مسلم معاشرے کا تاریخی پس منظر‘ کام کی راہیں‘‘بہت بروقت ہے ۔
’’امریکہ کا المیہ‘‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) کے زیرعنوان سروے رپورٹ پر تبصرہ خاصا معذرت خواہانہ سا ہے۔ امریکہ کی اصل خامی جو درحقیقت تہذیب مغرب کی امتیازی خصوصیت ہے‘ وہ مادہ پرستی‘ مال و دولت کی کشش اور حرص ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو پوری دنیا پر تسلط کی خواہش کا محور اور محرک ہے۔ ان خواہشات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب اور معاشرے کی اخلاقی پابندیاں ہیں‘ اور ان پابندیوں سے نجات کے لیے تہذیب مغرب کا نعرہ ہے: آزادی۔ مسلم اُمہ کے لیے تو ہرگز یہ آئیڈیل نہیں ہو سکتا۔ دولت کی حرص و ہوس کا سرمایہ دارانہ چکر جو امریکہ اور اُس کی تہذیب کے زیراثر پوری دنیا میں پھیل رہا ہے‘ اسی کا مظہریہ رائے ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ امریکہ کی دولت اور آزادی کو پسند کرتا ہے۔
یہاں ایک صاحب کے ذریعے ہر ماہ ترجمان القرآن پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ دل و دماغ تازہ ہوجاتے ہیں اور ایمان میں پختگی آتی ہے۔ رسالہ صرف میں ہی نہیں پڑھتا ہوں بلکہ اس سے بہت سے دوسرے حضرات بھی مستفید ہوتے ہیں۔ یہ رسالہ گردش میں رہتا ہے۔ ان صاحب کو اسلام اور اُردو سے بہت محبت ہے۔ ہر وقت مسلمانوں کے حالِ زار پر فکرمند رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے محلے میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ قائم کر رکھا ہے جہاں ذریعۂ تعلیم اُردو ہے۔ لڑکوں کے لیے بھی اُردو اسکول کے لیے کوشاں ہیں مگر اہل ثروت آگے نہیں آتے۔ ان کی بے حسی پر رونا آتا ہے۔
جون ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ’’پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر‘‘ فکرانگیز ہے اور وقت کی اہم ضرورت۔ خرم مراد کا ’’قوموں کا عروج و زوال‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ محمد ایوب منیر کا ’’ذرائع ابلاغ کی جنگ‘‘ مسلمانوں کو پیش رفت کی دعوت دیتا ہے۔ بنگلہ زبان میں ترجمان القرآن جیسا ایک بھی رسالہ نہیں ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کا بنگلہ ایڈیشن ہونا چاہیے۔
’’رسائل و مسائل‘‘میں بعض جوابات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ روایتی دینی فکر کے بجاے دورِ جدید کے تقاضوں کی خاطر نسبتاً لبرل نقطۂ نظر اختیار کیا جا رہا ہے (خصوصاً خواتین کے حوالے سے)۔ یہ میرا تاثر ہے‘ میں مثال دانستہ نہیں دے رہا۔
ہمارا معاشرہ خود بھی لبرل ہوتا جا رہا ہے ۔ دینی گھرانوں تک میں فرق پڑ گیا ہے۔ اس صورت حال میں اگر جواب دینے والے محترم حضرات یہ انداز رکھیں کہ مثالی صورت تو یہ اور یہ ہے‘ تاہم مجبوری کے لیے کوئی اس سے کم تر روش جس کی گنجایش نکل سکتی ہے اختیار کرنا چاہیے تو ایسا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن احسن یہ ہے کہ مثالی طریقہ اختیار کرے۔
دونوں باتیں سامنے آجائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں جو خواتین عظمت کا مینار ہیں وہ عظمت کی راہ اپنا کر مزید اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جائیں‘ اور جو ابھی اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتیں‘وہ ممکنہ اجازت کو استعمال کرلیں اور بہتر کی کوشش جاری رکھیں‘ مطمئن نہ ہو جائیں۔
’’معاشری مسائل میں راہ صواب‘‘ (بحث و نظر‘ جولائی ۲۰۰۳ئ) میں مضمون نگار نے بین السطور بلکہ غالباً سطورمیں یہ تاثر دیا ہے کہ گویا کہ اب ترجمان القرآن کے ’’رسائل و مسائل‘‘ میں نصوص شرعی کی بنیاد پر جواب نہیں دیے جاتے۔ مجھے ان کی یہ بات کچھ زیادتی محسوس ہوئی۔ یقینا جوابات کا معیار وہ نہیں ہے‘ اور غالباً نہیں ہو سکتا‘ جو محترم مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے دور میں قائم کیا تھا لیکن کوشش قرآن و سنت کا نقطۂ نظر ہی معلوم کر کے بیان کرنے کی نظر آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر حضرات اپنے تصورِ دین کو (بلکہ مخصوص مراسم اور رواجوں کو)ہی دین سمجھ لیتے ہیں اور اس حد تک سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن و سنت کو بھی اس کا پابند بنا دینا منشاے دین سمجھتے ہیں۔ قرآن و سنت میں بنیادی طور پر جو وسعت اور ہر دور اور بدلتے ہوئے حالات کے لیے رہنمائی کے اصول ہیں‘ وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ انھوں نے لکیرپیٹنے کے بجاے زمانے کے تقاضوں کے مطابق دین کو سمجھا اور سمجھایا۔ ان کے جوابات ان کے دور کے لحاظ سے ماڈرن ہوتے تھے اور روایت پسندوں کو پسند نہ آتے تھے۔ ان کا حقیقی سبق یہ نہیں ہے کہ ہم ان کی باتوں کو دہرائیں‘ بلکہ یہ ہے کہ درپیش مسائل میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں۔ میرے خیال میں تو ’’رسائل و مسائل‘‘ میں آج بھی یہی کوشش احسن طریقے سے کی جاتی ہے‘ اور دورِحاضر کے مسلمانوں کے لیے گرہ کشائی کا سبب بنتی ہے۔ دین نے جو وسعت دی ہے‘ وہ دین کا حصہ ہے اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا‘ دین کا منشا نہیں بلکہ فائدہ اٹھانا دین کا منشاہے۔ راہِ صواب کی تلاش اسی ذہن سے ہونا چاہیے۔
آج کل مغرب کی کتابی دنیا میں ہیری پوٹرکا غلغلہ ہے۔ ’’پوٹرمینیا‘‘ کی اصطلاح چل پڑی ہے۔ آپ کے قارئین کے لیے کچھ دل چسپ معلومات: ہیری پوٹر‘۳۷ سالہ برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ کا تخلیق کردہ کردار ہے جو پہلے ناول میں ۱۱ سال کا تھا‘ اب پانچویں میں ۱۵ سال کا ہوچکا ہے۔ مصنفہ کے وعدے کے مطابق کل سات لکھنا ہیں‘ یعنی ابھی دو اور آئیں گے۔ چار ناول ۱۹ کروڑ ۲۰ لاکھ کی تعداد میں ۵۵ زبانوں میں شائع ہوکر ۲۰۰ممالک میں فروخت ہوئے۔پانچواں ‘پبلشرنے ۸۵ لاکھ شائع کیا ہے جو ۲۰ جون سے فروخت ہو رہا ہے۔ لاہور تک میں ۱۰ ہزار کا جعلی ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔۷۰۰ سے زائد صفحات کا ناول ہے۔ اشاعت کے دوران حفاظت مسئلہ رہا کہ کوئی جعلی شائع نہ کر دے۔ ایک ٹرک سے ۷ ہزار ایک سو ۸۰ چوری ہوئے۔ ایک اخبار نے کچھ حصہ شائع کیا تو اس پر ۱۰۰ ملین ڈالر کا مقدمہ مصنفہ اور پبلشرنے کیا ہے۔ ایک پریس کے ملازم کو کچھ صفحے فروخت کرنے کی کوشش کے الزام میں سزا دی گئی۔
پہلے تین ناولوں پر فلمیں بن چکی ہیں اور پوٹر کے لباس‘ مشاغل اور عادات و اطوار کی خوب نقلیں ہورہی ہیں۔ مصنفہ کو کبھی یہ فکر ہوتی تھی کہ فریج میں کھانے کے لیے کچھ ہے یا نہیں‘ یا اب وہ ملکہ الزبتھ سے زیادہ مال دار ہے‘ ۵۰۰ ملین ڈالر کی مالک ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں رہتی ہے۔ ناول میں کیا ہے؟ سبب قبولیت کیا ہے؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ میں نے ہاتھ میں لیا‘وزن کیا‘ پھر پڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ گمان ہوتا ہے کہ کچھ طلسم ہوش ربا قسم کی چیز ہے جس نے مغرب کو دیوانہ بنا دیا ہے۔ اُس دنیا کا اندازہ کروانے کے لیے یہ کچھ باتیں آپ کو لکھنا مناسب محسوس ہوا۔ اور اس لیے بھی کہ ہم اپنی دعوتی کتب کے ساتھ کیا کرتے ہیں‘ اس طرف بھی توجہ ہو۔