جناب طالب ہاشمی کا شمار معاصر دینی ادب کے معروف مصنفین میں ہوتا ہے--- انھوں نے تاریخ اسلام کے مختلف شعبوں‘ خصوصاً اسلامی اور دینی و مذہبی شخصیات پر ۵۰ سے زائد نہایت وقیع تصانیف و تالیفات شائع کی ہیں۔ وہ تاریخ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ‘ بنیادی مصادر سے براہِ راست اخذ و اکتساب کا سلیقہ رکھتے ہیں اور زبان و بیان پر بھی انھیں پوری دسترس اور قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں نبی آخرالزماںؐ، خلفاے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ عظام، صلحاے اُمت‘ ارباب سیف و قلم اور دیگر مشاہیرِ تاریخِ اسلام کے تذکروں سے ایک خوب صورت کہکشاں مرتب کی ہے۔
زیرنظر کتاب ۱۲ برگزیدہ خواتین (حضرت حواؑ،حضرت سارہؑ،حضرت ہاجرہؑ،حضرت مریمؑ وغیرہ)‘ ۱۰۰ سے زائد صحابیات‘ چند تابعیات اور قریبی زمانے کی چند صالحات (والدہ علامہ اقبال‘ والدہ سید مودودی‘ والدہ میاں طفیل محمد‘ والدہ حکیم محمد سعید وغیرہ) کے تذکرے پر مشتمل ہے۔
مصنف نے یہ تذکرہ نہایت محنت و جاں فشانی اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ مستند مآخذ (زیادہ تر قرآن و حدیث اور مسلّمہ ارباب سیر و مورخین) کو ترجیح دی ہے۔ اس طرح بیسیوں صالحات کے مفصّل حالات‘ صحت و جامعیت کے ساتھ سامنے آگئے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے خوش بیاں واعظین نے اسرائیلیات کے زیراثر ان نفوسِ قدسیہ کے حالات میں بہت کچھ رطب و یابس شامل کر دیا ہے۔ مصنف ِ محترم نے حسبِ ضرورت مفید ومعلومات افزا حواشی کا اضافہ بھی کیا ہے۔ آخر میں شامل کتابیات‘ مصنف کی علمیت پر دال ہے۔
جناب طالب ہاشمی ‘ اپنے اسلوب میں صحت ِ زبان کا خاص خیال رکھتے ہیں‘ بلکہ املا‘ رموزِ اوقاف اور اعراب وغیرہ کے اہتمام خصوصاً اعلام و اسما کے صحت ِ تلفظ کے لیے ان کے ہاں خاصا تردّد ملتا ہے‘ جس سے دورِحاضر کے اکثر لکھنے والے بے نیاز و تہی دامن نظر آتے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اس کائنات کا سب سے دل چسپ موضوع انسان ہے ‘مگر انسانوں میں عورت کئی اعتبار سے بحث ‘ سوال اور تحیّرکا موضوع بنا دی گئی ہے‘ حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ عورت بنیادی طور پر تخلیق‘ شفقت ‘ توازن‘ محنت اور ایثاروقربانی کا پیکر ہے لیکن اس کے وجود کو بے جا طور پر بحث اور استحصال کا ہدف بنایا گیا۔ مختلف مذاہب اور قبائل نے اپنے روایتی قوانین کے شکنجے میں اسے کسا اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت سے کم تر درجے پر معاملہ کیا۔ اب سے چودہ سوسال قبل اسلام نے عورت کی اس درماندگی و بے چارگی کو دُور کر کے اسے جاہلیت کے قوانین سے آزاد کرایا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ آج اسی جاہلیت کے طرفدار‘ اسلام پر عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام دھرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب‘ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے‘ جس میں تحقیق کار نے عرق ریزی اور جاں کاہی سے ان اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا ہے اور موضوع کی مناسبت سے‘ وسیع پیمانے پر ماخذ و مراجع سے ایک ایک چیز کو حسنِ ترتیب سے یکجا بھی کر دیا ہے‘ اس لیے اسے کتاب یامقالہ کہنے کے بجاے ’’اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے پر انسائی کلوپیڈیا‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کتاب عورت پر اسلام کے احسان اور رحمت کی تفصیل پیش کرتی ہے جس سے مسلمان عورت کے اعتماد کو سہارا اور ایمان کو تقویت ملتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت نے‘ عورت کے مقدمے کے جملہ نظائر و دلائل کو خوبی‘ مہارت اور لیاقت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس طرح ایک اہم دینی خدمت انجام دی ہے‘ جس سے یہ کتاب اسلام میں عورت کے امتیازات کا تذکرہ اور اعتراضات کا شافی جواب بن گئی ہے۔ کتاب کا موضوعاتی اشاریہ مطالعے کے لیے خاصا معاون ہے۔ (سلیم منصور خالد)
تاریخِ اسلام کے مطالعے کا آغاز عموماً دورِ رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ لفظ اسلام کی زیادہ اصولی تعبیر کرلی جائے تو نبی اول حضرت آدمؑ کی بعثت تک بات جاسکتی ہے۔ لیکن سید علی اکبر رضوی صاحب نے خالق کائنات ‘ خلقت کائنات اور ارتقاے کائنات پر بھی بحث کی ہے اور پہلا عنوان ہی یہ ہے کہ ’خدا کب سے ہے؟‘ اس سے اس سفر کی ’وسعت‘ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ابھی آگے بھی جاری رہنا ہے۔
اس کے بعد کتب سماوی اور دیگر مذاہب کے بنیادی تصورات کا تذکرہ ہے جس میں ہندومت کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ قرآن میں جن انبیا کا ذکر ہے‘ ان کے مختصر حالات جو بیشتر قرآن کے حوالے سے ہیں‘ بیان کیے گئے ہیں۔ ۶۵۵ صفحات کی کتاب (علاوہ اشاریہ) میں ٹھیک نصف‘ یعنی ۳۲۸ صفحات دورِ رسالتؐ سے قبل تک کے اِن مباحث پر مشتمل ہیں۔
اس حصہء کتاب میں جو مباحث اٹھائے گئے ہیں‘ ان پر گفتگو کا یہ تبصرہ‘ متحمل نہیں ہوسکتا۔ کائنات کی تخلیق اور انسان کی تخلیق بجاے خود نہایت وسیع موضوعات ہیں‘ آسان اور سادہ نہیں۔ صاحب ِ کتاب نے قرآن اور تفاسیر کی بنیاد پر جدید سائنسی بیانات کی روشنی میں کلام کیا ہے۔
کتاب کا نصف آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے بیان پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر منظوراحمد نے اپنی تقریظ میں لکھا ہے کہ ’’آگے چل کرغالباً کچھ سخت مقامات آئیں گے‘‘، لیکن تبصرہ نگار کی رائے میں ان مقامات کا آغاز اسی حصے سے ہو گیا ہے۔ صاحب ِ کتاب اہل تشیع سے ہیں۔ بقول سلطان احمد اصطلاحی: ’’وہ اپنے مسلک کے مخلص پیروکار ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ ان کا سراپا جس قدر جدید اور سیکولر نظر آئے لیکن اپنے مسلکی خیالات میں وہ بالکل قدیم اور خالص ہیں۔ تاریخ اسلام میں اس نقطۂ نظر کے مظاہر کا جابجا سامنے آنا فطری ہے۔ چنانچہ حسب ِ موقع اس کے نمونے کتاب میں دیکھے جا سکتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۳۰)
صاحب ِ کتاب نے سنی ماخذ سے بھی استناد کیا ہے۔ تفاسیر بھی تمام علما کی سامنے رہی ہیں۔ ہمارا دامن فکرونظر تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کا نقطۂ نظر جان کر ہی وسعت فکروذہن پیدا ہوسکتی ہے۔
کتاب بہت عمدہ‘ رواں اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ علمی‘ تحقیقی امور خشک انداز کے بجاے پُرکشش انداز سے بیان ہوئے ہیں اور خوب صورت اشعار نے لطف دوبالا کر دیا ہے۔ کتاب نقشوں اور تصاویر سے بھی مزین ہے جو قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ اعلیٰ معیار کی پیش کش ہے۔(مسلم سجاد)
مولانا عامر عثمانی کا ماہنامہ تجلّی تقریباً ربع صدی تک علمی و ادبی اور مذہبی دنیا میں اپنے جلوے بکھیرتا رہا۔ مولانا نہ صرف دین و دنیا کا نہایت گہرا شعور رکھتے تھے بلکہ قدرت نے انھیں حسِّ مزاح بھی نہایت معقول پیمانے پر ودیعت کر رکھی تھی۔ تجلّیکے ایک مستقل کالم ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ میں اس کا خوب صورت مظاہرہ نظرآتا ہے۔ وہ ابن العرب مکی کے فرضی نام سے نہایت شگفتہ افسانے رقم کیا کرتے تھے۔ بعضعلماے دین کی بے ذوقی بلکہ کور ذوقی کی بنا پر تبلیغ دین اور مذہبی مباحث نہایت خشک اور یبوست زدہ بیانات بن کر رہ گئے جس کی وجہ سے ہمارا دینی مبلغ (الاماشاء اللہ) واعظ ِ خشک کے مرتبے پر فائزہوگیا۔ ایسے میں مولانا عثمانی کی یہ لطافت و خوش گوئی بہار کے تازہ جھونکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اُردو ادب کے ناقدین نے مولانا کی دینی وابستگی اور مقصدپسندی پر ناک بھوں چڑھایا لیکن وہ ان کے طنزومزاح کے اعلیٰ معیار کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اُردو شاعری میں ملا و مسٹر کی روایتی کش مکش کے حوالے سے کتاب کا عنوان گہری معنویت لیے ہوئے ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں خوب صورت اور دل چسپ افسانے معلوم ہوتے ہیں جن میں مزاح اور طنز کا تڑکا نہایت تناسب اور فن کاری کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں پیری مریدی کا ’’ادارہ‘‘ اس شدت سے لوگوں کے اذہان و قلوب میں جاگزیں ہوچکا ہے کہ لوگ پیر کی بُری سے بُری حرکت کو بھی معجزے سے تعبیر کرتے ہیں۔ مولانا عثمانی نے ایسے نام نہاد بزرگوں کے ’’کشف‘‘ کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑا ہے۔
یہ تمام کہانیاں کسی نہ کسی اخلاقی درس پر منتج ہوتی ہیں لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اچھوتے کہانی پن‘ رنگا رنگ کرداروں‘ مزے مزے کے مکالموں‘ شگفتہ اسلوب‘ بھرپور تجسس اور سب سے بڑھ کر تجاہلِ عارفانہ سے اسے تبلیغ یا پروپیگنڈا بننے سے صاف بچا لے گئے ہیں۔ ان کہانیوں کی سب سے خاص بات مصنف کی کردار نگاری ہے۔ اس کتاب میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ دل چسپ اور زندگی سے بھرپور کرداروں سے پڑتا ہے۔ وہ کردار شیخ اصرار حسین کا ہو یا قاری سماعت علی کا‘ منشی مروارید علی ہوں یا مولوی منقار الدین‘ وہ خواجہ مسکین علی ہوں یا صوفی غمگین‘ وہ حاجی بردبار علی ہوں یا صوفی ھل من مزید‘ صوفی ٹاٹ شاہ بریلوی ہوں یا پیرجنگل شاہ‘ حاجی دلدل ہوں یا خواجہ قالوبلیٰ‘ یہ سب اپنے ناموں ہی کی طرح دل چسپ ہیں‘ بلکہ خود ملا اور ملائن کے کردار بھی قدم قدم پر پھلجھڑیاں چھوڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ مولانا عامرعثمانی کے طنز کا تیر عین نشانے پہ لگتا ہے اور ان کا مزاح دل کے غنچوں کے لیے بادِ نسیم کی خبر لاتا ہے۔ مولانا عثمانی نے تہذیبی و دینی افراط و تفریط کا خوب نوٹس لیا ہے۔ یہ کتاب دینی ادب میں فکاہیات کی صنف میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ (ڈاکٹر اشفاق احمد ورک)
مولف نے کفار‘ اہل کتاب اور مسلمانوںکے بارے میں ان کے رویے‘ اسلام میں ان کے حقوق‘ اور مسلمانوں کے لیے ان کے طرزِ زندگی سے بچنے کے خدائی احکامات و فرمودات نبویؐ کو محنت اور عرق ریزی سے جمع کیا ہے۔ یہ ایک لائق تحسین کوشش ہے جس سے ان موضوعات پر نئے لکھنے والوں کو سہولت حاصل ہوگی۔
اسلام کے نزدیک مسلم اور کافر کے درمیان فرق انسانی حقوق اور معاشرتی تعلقات میں مزاحم نہیں ہے۔ دورِ نبوت و خلافت میں خصوصاً اور بعد کے ادوار میں بھی‘مسلم معاشروں اور حکومتوں نے غیرمسلموں کے ساتھ حتی الوسع حسنِ سلوک سے کام لیا۔
چند فروعی مسائل (بالوں کی کٹنگ‘ تہہ بند و پاجامے ‘ پینٹ شرٹ‘ داڑھی اور مونچھ اور چمڑے کے موزے وغیرہ) پر بحث کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ نہیں کرتی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے سے حضرت عمرؓ اور محمد بن سعد بن ابی وقاص نے منع کیا تھا (ص ۳۱۳)۔ یہ اس وقت کی حکمت و مصلحت ہوگی‘موجودہ دور میں غیرمسلم‘ نومسلم اور خود مسلمانوں میں دین کی اشاعت و تبلیغ‘ سفارت کاری ‘ معلومات کے تبادلے و فراہمی اور ترقی یافتہ قوموں کے تعلیمی و اقتصادی اور جدید ٹکنالوجی کے نظاموں سے استفادے اور دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنے کے لیے ان کی زبانیں سیکھنا ضروری ہی نہیں بلکہ واجب و فرض ہے۔ اسی طرح دشمن کی زبان پر عبور کیے بغیر زبان کے ذریعے کیسے جہاد ہوگا؟
ہماری راے میں کتاب کی تدوین کو اور بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ کئی مقامات پر الفاظ اور جملے اصلاح طلب ہیں اور ایک ہی موضوع سے متعلق آیات و احادیث کی تکرار سے اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ بہرحال مولف کا جذبہ قابلِ قدر اور کوشش بھی اچھی ہے۔ (عبدالجبار بھٹی)
کلیار والا‘ جھنگ سے کوئی ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک انتہائی پس ماندہ گائوں تھا۔ یہاں کے باشندوں کو شہروں کی کوئی سہولت میسرنہیں تھی۔ اس قصبے کے ایک سپوت حاجی حکیم اللہ بخش کلیار کی ربع صدی کی ان تھک جدوجہد کے نتیجے میں سڑک بن گئی‘ قریبی نہر پر پل تعمیر ہوا اور اب اس گائوں کا رابطہ شہروں سے ہو گیا ہے اور یہاں بچوں اور بچیوں کے لیے کئی تعلیمی ادارے بھی قائم ہوگئے ہیں۔ انھی میں سے ایک ادارے کا یہ پہلا میگزین ہے جس میں گائوں اور علاقے کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ کچھ علمی اور معلوماتی مضامین بھی ہیں اور منظومات بھی۔ بہت سی تصاویر اور اساتذہ و طلبا کی سرگرمیاں وغیرہ۔
اُردو اور انگریزی دونوں حصے بڑی خوب صورتی سے مرتب اور شائع کیے گئے ہیں۔ یہ ادارہ اور اس کے پس منظر میں کی جانے والی کاوش میں پس ماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے‘ سبق آموز اور عبرت انگیز۔ نیت نیک ہو اور حوصلہ بلند ہو تو ہر مشکل اور ہر عقدہ حل ہوسکتا ہے۔ (ر-ہ)
مصنف‘ حیوانیات کے استاد اور ایک مجلے اسلام اور سائنس کے مدیر ہیں۔ انھوں نے اپنے وہ تمام مضامین جمع کر دیے ہیں جو مضمون نویسی کے مختلف مقابلوں کے لیے لکھے گئے تھے۔ عدمِ برداشت کا قومی و بین الاقوامی رُجحان‘عصرِحاضر کے مسائل اور اُن کا حل‘ نیز فلاحی مملکت کے قیام کے لیے عملی تجاویز‘اچھے مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ سیرت‘ اسلامی ثقافت اورمثالی نظامِ تعلیم کے موضوع پر بھی تحریریں شامل ہیں۔ ’’وقت: انسان کی سب سے قیمتی متاع‘‘ ایک اہم مضمون ہے۔
جناب قاری محمد طیب‘وحیدالدین خان‘ باوا محی الدین کے مضامین اور مدیر افکارِ معلم کے نام مصنف کا ایک خط بھی شامل ہے۔ اس طرح مضامین میں تنوع تو پیدا ہوگیا ہے لیکن ہمارے خیال میں‘ ’’مسائل کا حل‘‘ مزید محنت کا متلاشی ہے اور اس موضوع پر اُمت کے اہل دانش و بینش ہی کو نہیں بلکہ اداروں اور انجمنوں کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔
افراد اُمت کو دین سے ناواقفیت‘ جہالت‘ پس ماندگی‘ سیاسی و فوجی زیردستی‘ غیریقینی مستقبل اور ذلّت و نکبت کے تاریک دور کا سامنا ہے۔ ضروری ہے کہ اصحابِ علم و دانش ان مسائل پر قارئین کی رہنمائی کریں تاکہ تاریک رات‘ روشن صبح میں تبدیل ہوسکے۔
حالاتِ حاضرہ اور اسلام کو درپیش چیلنج جیسے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک معلوماتی کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)