اگست ۲۰۰۳

فہرست مضامین

قازقستان کی صورت حال

امجد عباسی | اگست ۲۰۰۳ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

وسطی ایشیا کے مسلمان آزمایش کے مرحلے میں

وسطی ایشیا‘ پانچ ریاستوں(قازقستان‘ کرغیزستان‘ ازبکستان‘ترکمانستان اور تاجکستان) پرمشتمل ۱۵ کروڑ سے زائد مسلمان آبادی کا یہ خطہ تیل‘گیس اور قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ امریکہ اور یورپ کی حریص نگاہوں کا مرکزبنا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طور جلد از جلد یہاں رسائی حاصل کرکے اس کے قدرتی وسائل کو من مانے طریقے پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کے اس خطے میں ان کے عزائم کی راہ میں اگر کوئی بڑی رکاوٹ ہے تو وہ اسلام پسند مسلمان ہیں جو ان کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔

۱۹۹۱ء میں سابق سوویت یونین سے رسمی آزادی حاصل کرنے کے بعد سے یہ ریاستیں جمہوری لبادے میں کمیونسٹ آمریت کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں۔ مقتدرطبقے کو روس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آج بھی یہ خطہ باقی دنیا اور اس کی مارکیٹوں سے زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے کٹا ہوا ہے‘ اور اس کی معیشت کا بڑی حد تک انحصار روس پر ہی ہے۔ ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۲ء کے درمیان باقی دنیا کے مقابلے میں ان کی برآمدات بہت ہی محدود ہیں۔ قازقستان کی صورتِ حال استثنائی ہے ‘اس لیے کہ بحیرئہ کیسپین سے تیل کی برآمد سے اس کی معیشت میں تیزی سے بہتری آئی ہے لیکن یہاں کے عوام کو جابرانہ آمریت کا سامنا ہے۔ (رپورٹ‘ یورپین بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ برطانیہ‘  امپیکٹ انٹرنیشنل‘ جون- جولائی ۲۰۰۳ئ)

مسلمانوں کی دلی خواہش نفاذِ اسلام ہے۔ آزادی کے بعد ہی سے اس پورے خطے میں احیاے اسلام کی ایک لہر پائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت بڑے پیمانے پر مساجد کا قیام اور دین اسلام کو سیکھنے کا جذبہ اور اسلام سے بڑھتی ہوئی دل چسپی ہے۔ مگر اس جذبے کے علی الرغم ایک اجنبی کلچرمسلط کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم و تشدد‘ ریاستی جبر‘قیدوبند اور ہر طرح کا جبرواستبداد روا رکھا جا رہا ہے۔ عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی آزادی نہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح وسطی ایشیا میں ایک مسلسل جدوجہد اور کش مکش جاری ہے۔

ازبکستان : ازبکستان وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کی کیفیت عملاً ’’جیلستان‘‘ کی سی ہے۔ صدر اسلام کریموف کے دورِ امارت میں ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے زائد افراد قیدوبند سے دوچار ہیں۔ ان میں سے بیش تر اسلام پسند ہیں اور اپنے مذہبی و سیاسی نظریات کی بنا پر گرفتار ہیں۔ حزب التحریر خلافت کی علم بردار اسلامی تحریک ہے۔ ازبک جیلوں میں پابندسلاسل ۶ ہزار ۵سو افراد میں سے نصف کا تعلق اسی تحریک سے ہے۔ بیش تر کا قصور یہ ہے کہ وہ پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے یا ان کے گھر سے عربی عبارت پر مبنی اوراق ملے ہیں۔ تحریک اسلامی ازبکستان(IMU) کو۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے شدید دبائو کا سامنا ہے۔ کارکن خوف و ہراس کی بنا پر منتشرہیں‘ سامنے آنے کی جرأت نہیں کرپاتے۔ حکومتی جبر اور آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ کے تحت باپردہ خواتین کو تو پابندسلاسل کر دیا جاتا ہے‘ جب کہ مسیحی راہبات اپنے مذہبی لباس میںامن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں۔ ازبکستان کے مفتی محمد صادق کا کہنا ہے کہ غیر حکومتی اسلام کی اجازت نہیں ہے۔

کرغیزستان اور ترکمانستان: کرغیزستان کس ابتری کا شکار ہے اور اس سے اس کی عملاً صورتِ حال کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ۲۰ فی صد عوام فقروفاقہ کی حالت سے دوچار ہیں‘ جب کہ نصف آبادی کو قحط و افلاس کا سامنا ہے۔ ترکمانستان بھی کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اس کی معاشی ترقی کا بڑی حد تک انحصار گیس کی برآمد پر ہے۔

تاجکستان: تاجکستان میں بظاہر جمہوریت ہے مگر روس نواز صدر امام علی رحمانوف کی ذات میں تمام اختیارات مرتکز ہیں۔ آزادی کے پہلے روز ہی سے مسلمانوں نے اس جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور بتدریج یہ تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔ بالآخر ۱۹۹۷ء میں ایک معاہدے کے تحت اسلامک ریوائیول پارٹی (IRP)کو قانونی جواز دیا گیا۔ انتخابات کے ذریعے حکومت کا قیام عمل میں لایاگیا۔ لیکن صدر اختیارات کے ارتکاز کے لیے جو دستوری ترامیم کر رہے ہیں اس پر اپوزیشن کو تشویش ہے اور وہ جمہوریت کی بحالی‘ آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔


وسطی ایشیا کے مسلمان فی الواقع کن حالات سے دوچار ہیں اور عملاً انھیں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے‘ اس کی ایک واضح تصویر قازقستان کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے۔

بحیرئہ کیسپین کے کنارے واقع قازقستان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں ۱۰ بلین ٹن تیل اور ۲ ٹریلین کیوبک میٹر گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ کل ذخائر کا ایک حصہ ہے (روس کے کل تیل کے ذخائر ۶.۷ بلین ٹن ہیں)۔ گیس کے کل معلوم ذخائر ۷.۵ ٹریلین کیوبک میٹر ہیں‘ جب کہ نامعلوم کا اندازہ ۳۰ ٹریلین کیوبک میٹر ہے (ترکمانستان میں تیل کے ذخائر ۳۷ بلین بیرل ہیں)۔ انھی ذخائر پر امریکہ‘ مغرب اور روس کی نظریں ہیں۔

قازقستان آزادی کے بعد ۱۹۹۱ء سے مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا استحصال عام ہے۔ صدر نورسلطان نذربایوف کا دورِ حکومت اس کی بدترین علامت ہے۔ ظلم و جبر‘ قیدوبند‘ اذیت‘ غیرقانونی گرفتاریاں‘ ماوراے عدالت قتل‘ اپوزیشن رہنمائوں پر حملے اور میڈیا کو مختلف حربوں سے خوف و ہراس میں مبتلا رکھنا‘ روز مرہ کا معمول ہے۔

صدر نذربایوف کی شہرت ایک بدعنوان‘ نااہل اور غیرمقبول صدر کی ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق قازقستان کو دنیا کے ۲۰ کرپٹ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔

وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی آمریت کا دور دورہ ہے۔ حکومت کو اگر کسی سے کوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام پسند ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر نے مسلمانوں اور اسلام کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ قومی سطح پر حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مفتی کی سربراہی میں ایک نیشنل باڈی بنائی گئی ہے۔ اس باڈی کے دائرے سے باہر اسلامی تنظیموں کو حکومتی غضب اور قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کے اس رویے کے ہاتھوں تنگ آکر جون ۲۰۰۱ء میں نیشنل باڈی کے سربراہ نے استعفا دے دیا۔

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد حکومت نے بیرونی اشارے پر کئی اقدامات اٹھائے۔ دہشت پسندوں کی گرفتاری کی آڑ میں مقدس مقامات اور مساجد کی توہین کی گئی۔ بیرونِ ملک دینی تعلیم پانے والے تمام قازق طلبہ کو ملک واپس بلا لیا گیا۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں سنٹرل ایشین کوآپریشن آرگنائزیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر نذر بایوف نے مذہبی انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کے نام پر اسلام پسندوں کے خلاف خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے ذریعے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔

اسلامی تحریک کو قازقستان میں کن مصائب کا سامنا ہے‘ اس کا کچھ اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے۔

۱۹۹۹ء میں‘ تاراز میں پولیس نے ایک اسلامی تنظیم کے ان ۷۰ ارکان کو تشدد کا نشانہ بنایا جنھیں عارضی طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔ گذشتہ دو برسوں میں حزب التحریر کے ۲۵ سے زائد کارکنان کو محض پمفلٹ تقسیم کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں چار سال تک سزا سنائی گئی اور بھاری جرمانے کیے گئے۔ ازبکستان سے وابستگی رکھنے والی تنظیموں کے کارکنان کو گرفتار کر کے ازبکستان بھیج دیا گیا جہاں انھیں قیدوبند اور جبروتشدد کا سامنا ہے۔

قید کیے جانے والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ نومبر ۲۰۰۱ء میں حزب التحریر کے ایک کارکن Kanat Beiembetov کی تشدد کی وجہ سے ہسپتال میں ہلاکت ہے۔ خود Beiembetovکے بیان اور اس کے اہل خانہ کے دستخط شدہ بیان کے مطابق اس کی موت کا سبب KNB (خفیہ ایجنسی)کے اہل کاروں کا تشدد ہے۔ اب بھی کے این بی والے اس کے گھر والوں کی نگرانی کرتے ہیںاور اس کے بچوں کو ہراساں کرتے ہیں۔

ملکی وسائل کو نذر بایوف اور ان کے اہل خانہ کے ہاتھوں اس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے کہ قازقستان کو ’’نذربایوف اینڈ سنز لمیٹڈ‘‘کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تمام اہم سرکاری محکموں اور عہدوں پر اس کے گھرانے کے افراد یا اقربا متمکن ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن اور کانگرس آف قازقستان جرنلسٹ کی سربراہ صدر کی بیٹی ڈوریگو ہیں۔ اس طرح انکم ٹیکس‘کسٹم دیگر اہم سرکاری ادارے بھی اقربا پروری کے کھلے ثبوت ہیں۔

ملکی سرمایہ بیرونِ ملک میںکس طرح منتقل کیا جا رہا ہے‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکی تیل کمپنی Exxon Mobil سے وصول کردہ تیل اور گیس کے ایک ارب ڈالر ریونیو کو نذربایوف اور ان کے رشتے داروں کے سوئس بنک اکائونٹس میں خاموشی سے منتقل کر دیا گیا۔ کچھ سوئس اکائونٹس منجمد کیے جانے پر صدر نذر بایوف نے خود دورہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ سرکاری خرچ پر کیا جانے والا یہ دورہ دراصل اکائونٹس کی بحالی کے لیے کیا گیاتھا۔ اسے ’’قازق گیٹ‘‘ سکینڈل کہا جاتا ہے۔

اپوزیشن کو ہراساں کرنا معمول ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ مخالفین کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور نمایاں رہنمائوں کو جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ ۱۹۹۹ء کے انتخاب میں صدر دوبارہ منتخب ہوئے لیکن کھلی دھاندلی سے۔

اپوزیشن کو غیرمستحکم کرنے کے لیے بھی صدر نذر بایوف نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں انتخابی ضابطے میں تبدیلی کی گئی جس کے نتیجے میں نمایاں اپوزیشن رہنمائوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اسی سال آرٹیکل ۷ کے تحت مذہبی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں پارٹی رجسٹریشن کے قانون میں تبدیلی کردی گئی۔ نمایندوں کے لیے قازق زبان کا ایک امتحان لازم قرار دے دیا گیا۔ رجسٹریشن کے لیے بہت بھاری فیس عائد کر دی گئی۔ ۲۰۰۲ء میں سیاسی پارٹیوں کے قانون میں مزید تبدیلی کر کے پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے ۵۰ ہزار ممبران کی شرط لازم قرار دے دی گئی۔ اس طرح ملک کی نمایاں جماعتوں‘ جیسے ڈیموکریٹک چوائس آف قازقستان اور ری پبلکن نیشنل پارٹی آف قازقستان پر عملاً پابندی عائد ہو گئی۔ اس کے علاوہ مختلف حربوں اور دبائو سے جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو ہراساں کیا گیا‘ جرمانے عائد کیے گئے‘جیل میں ڈالا گیا اور قاتلانہ حملے کیے گئے۔ سابق وزیراعظم اور RNPK کے سربراہ پر ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا گیا اور انھیں بھاری جرمانہ کیا گیا۔

اپوزیشن کی سرگرمیوں کو جبراً روکا گیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا اور گھروں پر حملے کروائے گئے۔ ۱۹۹۹ء میں اپوزیشن رہنما الیکسی مورٹینوف کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں ‘ مجبوراً انھیں ملک چھوڑنا پڑا۔ قازقستان کے پریس اور میڈیا کو ہراساں کرنے کا حکومتی ریکارڈ بھی اچھا خاصا طویل ہے۔

ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے جرنلسٹ ایڈوائزری کونسل تشکیل دی تاکہ آزاد میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے۔ گذشتہ چند سالوں میں کئی اخبارات‘ پرائیویٹ ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ معروف صحافی لوزی مفک ایک ٹریفک حادثے کی نذر کر دیے گئے اور ان کی جان چلی گئی۔ محض اس لیے کہ وہ ’’قازق گیٹ‘‘ سکینڈل کے کئی رازوں سے واقف تھے۔ صحافیوں کا اغوا‘ تشدد‘ قتل اور مختلف پابندیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس ضمن میں بیان کی جا سکتی ہے۔

قازقستان انٹرنیشنل بیورو فار ہیومن رائٹس اور رول آف لا کی رپورٹس کے مطابق پولیس گردی اور قید میں جبروتشدد بہت عام ہے۔ امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے۔ حکومت توجہ دلانے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ ۲۰۰۱ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تسلیم کیا کہ نصف سے زیادہ گرفتاریاں غیرقانونی تھیں۔ ۲۰۰۱ء کے ابتدائی چند ماہ میں ۳ ہزار ۵ سو افراد کو بغیر کسی جرم کے قید کر دیا گیا۔ اسی طرح ۴ ہزار ۳ سو افراد کو ابتدائی تفتیشی مراکز میں گرفتار کر لیا گیا۔

حکومت کی اس تمام تر غیر جمہوری‘ غیرانسانی اور غیر اخلاقی روش کو امریکہ کی مکمل   پشت پناہی حاصل ہے۔ حکومت پر کسی قسم کا کوئی بیرونی دبائو نہیں ہے۔ نذر بایوف نے امریکی نائب صدر ڈک چینی سے ملاقات کے بعد کہا: ’’انھوں نے ہماری کامیابی کو سراہا ہے اور ہمیں امریکی حکومت کی تائید حاصل ہے‘‘۔ امریکہ نے حکومت سے کئی معاہدے بھی کیے ہیں۔ اسے امریکہ کا مکمل فوجی تعاون حاصل ہے۔ امریکہ نے وسطی ایشیا میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے قازقستان میں مستقل اڈے بنا رکھے ہیں‘ فوجی مشقیں کی جاتی ہیں۔ اکتوبر۲۰۰۲ء میں پنٹاگون نے کئی ملین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں امریکی کامرس سیکرٹری اور قازقستان کے ڈپٹی وزیراعظم کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی جس میں تیل کے معاہدے‘ امریکی تیل کمپنی Charron Texaco Corp کا قازقستان میں کردار بھی زیربحث آیا۔

قازقستان میں نذر بایوف حکومت کی امریکہ کی مکمل پشت پناہی بہت سے خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ اس نوعیت کی پالیسیاں دنیا بھرمیں بگاڑ اور عدمِ توازن کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ روش زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ وسطی ایشیا کے مسلمان اپنے حقوق کی جنگ بڑی ہمت‘ صبرواستقامت اور ثابت قدمی و پامردی سے لڑ رہے ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد ایک روز ضرور رنگ لائے گی۔ ان شاء اللہ! (ماخوذ:  کریسنٹ انٹرنیشنل‘ ۱۶-۳۰ جون ۲۰۰۳ئ‘ اکانومسٹ ۱۷مئی ۲۰۰۳ئ)