مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک جہاں کہیں انسانی نسل آباد ہے‘ آج ہر طرف بے چینی‘ اضطراب‘ مصیبت‘ تباہی و بربادی اور تزلزل و انتشار کے عجیب وحشت ناک اور پُرالم مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ دنیا ایسے دورِ انقلاب سے گزر رہی ہے جس میں کئی انقلابی محرکات اُلجھ کر گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا نظامِ حیات زیروزبر ہوکر کسی نئے نقشے پر مرتب ہونے والا ہے اور پرانے نظام کی بوسیدگی و فرسودگی سے اُکتا کر منتظمانِ قضا و قدر یہ پکار اُٹھے ہیں ؎
بیاتاگل بہ افشانیم ومَے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بستگافیم و طرح نودراندازیم
انقلاب کی بدترین ہولناکی اُن ممالک میں برپا ہے جہاں جنگ ] عظیم دوم[ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ یورپ کے تمدّن زاروں پر نگاہ کیجیے کہ کیا سے کیا ہوگئے ہیں۔ آبادیاں ویران ہیں اور ویرانے محشرستان۔ سربفلک محلات آتش زدگی اور بربادی کی ہولناک داستان سنانے کے لیے اپنا انجرپنجرآسمان کو دکھا رہے ہیں۔ سرسبز جنگل اور زرخیززرعی میدان جلے بجھے کوئلوں کے ڈھیر اور بے ترتیب خس و خاشاک کے انباروں سے اٹے پڑے ہیں۔ آہ! کیا تقدیرِ اُمم کا مفسر وَجَعَلْنَاھُمْ حَصِیْدًا خَامِدِیْنکی واقعی تفسیر سمجھا رہا ہے؟
جس سائنس کی ترقی نے انسان کو مہذب و متمدن بنانے میں کئی صدیوں کی مسلسل محنت سے ارتقائی صورت حال پیداکرنے میں مذہب اور اخلاق کے روحانی نظام کا ہاتھ بٹایا تھا‘ اب وہی سائنس انقلاب کے فرشتوں کے لیے ایسے ایسے ہلاکت آفریں اسلحہ تیار کر رہا ہے اور بربادی کے ایسے بھیانک مناظرآنکھوں کے سامنے لا رہا ہے کہ الامان والحفیظ۔ نہ کسی آنکھ نے اس سے پہلے تباہی کا ایسا سماں دیکھا‘ نہ کسی کان نے ایسے مہالک سنے اور نہ کسی ذہن نے اُن کا تصور باندھا۔ جن ممالک میں جنگ کا دیو دندناتا پھر رہا ہے اُن کی دکھ بھری داستان سے تصور تک کی روح لرزتی ہے۔ (’’اجتماعیت کی شیرازہ بندی‘‘، ڈاکٹر عبدالقوی لقمان‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۳‘ عدد ۱-۲‘ رجب و شعبان ۱۳۶۲ھ‘ جولائی ‘اگست ۱۹۴۳ئ‘ ص ۴۱-۴۲)