۷۰ کے عشرے میں الجزائر کے شہر الاصنام میں شدید زلزلہ آیا جس کی شدت سے شہر میں واقع جیل بھی تباہ ہو گئی۔ جیل کی تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے بچ جانے والے قیدیوں نے موقع غنیمت جانا اور فرار ہوگئے۔ لیکن ایک قیدی اس تباہ شدہ جیل کے ایک کونے میں بیٹھا جیل کے اہل کاروں کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ قیدی الجزائر کی اسلامی تحریک کے قائد الشیخ محفوظ نحناحؒ تھے جو ۱۹ جون ۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
حرکۃ مجتمع السلم (تحریک براے پُرامن معاشرہ) کا بانی سربراہ‘ لاکھوں دلوں پر حکومت کرنے والا قائد‘ ۳۳ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیندسو گیا۔ اس نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سرکیں‘ خطابت کے معرکوں میں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے خود بھی گزرااور ہزاروں انسانوں کو بھی گزارا۔
الشیخ محفوظ نحناح ؒ الجزائر کے شہر البلیدۃ میں ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک تحریکی مدرسے سے حاصل کی۔ علم النفس میں بی اے کیا۔ آپ عمر کے ابتدائی حصے ہی میں اسلامی تحریک سے منسلک ہوگئے تھے۔ پھر اپنے شب و روز دعوت و تحریک کے لیے وقف کردیے۔
آپ نے سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۷۰ء میں حواری بومدین کی اشتراکی حکومت کے خلاف جدوجہد سے کیا۔ وہ اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر لوگوں میں جہادی لٹریچر تقسیم کرنے لگے۔ ۱۹۷۶ء میں حکومت کے خلاف ’’سازش‘‘ کرنے کے جرم کی پاداش میں آپ کو ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی اور پسِ دیوارِ زنداں کر دیا گیا۔ لیکن چار سال بعد ہی‘ بومدین کے انتقال کے بعد ۱۹۸۰ء میں آپ کی رہائی عمل میں آئی۔
۱۹۸۹ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے الجزائر کی تاریخ سے‘ نیشنل فریڈم فرنٹ کی لادینی اشتراکی مطلق العنانیت کا ۲۷ سالہ دور اپنی تمام کارروائیوں سمیت حذف کر دیا گیا۔ اس فضا میں مسجد کا روایتی کردار لوٹ آیا اور کوچہ و بازار میں اسلامی تحریکوں کا علَم لہرانے لگا۔
شاذلی بن جدید کے دورِ حکومت میں جب سیاسی فضا میں آزادی کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو الشیخ محفوظؒ نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر دعوت و تبلیغ کی طرف توجہ دی۔ اس دوران آپ کے اصلاحی افکار اُبھرکر سامنے آئے۔ آپ الجزائر کی مسجدوں میں جمعہ کے خطبات دیتے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف حکمت ودانائی سے بلاتے۔ بالخصوص نوجوانوں کو اس بات پر اُبھارتے کہ تم درخت کی مانند ہوجائو کہ لوگ اسے پتھر مارتے ہیں لیکن وہ انھیں پھل دیتا ہے۔
۱۹۸۹ء میں آپ نے اپنے رفیق کار الشیخ محمد بوسلیمانی ؒ کے ساتھ مل کر ’’جمعیت ارشاد و اصلاح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ ’’رابطہ دعوتِ اسلامی‘‘ کے تاسیسی ارکان میں بھی شامل تھے جس کے سربراہ الشیخ محمد سحنون ہیں۔۱۹۹۱ء میں حرکۃ المجتمع الاسلامی (تحریک براے اسلامی معاشرہ) کی تاسیس کا اعلان کیا جس کا بعد میں نام بدل کر حرکۃ المجتمع السلم رکھا گیا کیونکہ ۱۹۹۷ء میں الجزائر میں ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا جس کی رو سے کوئی پارٹی اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نہیں لگا سکتی تھی۔
۱۹۹۱ء کے قومی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے عباس مدنی کی قیادت میں دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ یہ اسلامی انقلاب کا آغاز تھا۔ اسے الجزائر کی فوج کے سیکولر اور لبرل جنرل برداشت نہ کر سکے۔ فوج نے اگلا مرحلہ منسوخ کر دیا اور فرنٹ کی منتخب قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ اس موقع پر اسلامی قوتوں میں دو رائیں پیدا ہوگئیں۔ایک یہ کہ مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا اور الجزائری فوج نے اپنے ہی ڈیڑھ لاکھ شہریوں کا خون کرڈالا۔ دوسری رائے راستہ نکالنے اور مفاہمت کی تھی۔ محفوظ نحناحؒ اسی رائے کے قائل تھے۔ سیاسی خلفشار کے اس دور میں ان کی رواداری‘ اعتدال پسندی‘ بردباری اور معاملہ فہمی کی صفات اُبھر کر سامنے آئیں۔
انھوں نے الجزائری قوم کے تمام مسائل کا حل تعلیمات اسلام کی روشنی میں پیش کیا اور قومی سلامتی کے لیے تین چیزوں کو اہمیت دی۔ اول: اسلام‘ عربیت اور قبائل کی اہمیت۔ دوم: ملک کی تعمیر اور اصلاحِ معاشرہ میں بغاوت سے اجتناب۔ سوم: دعوت و تبلیغ کا کردار۔ الشیخ محفوظ نحناحؒ اس موقف کے خلاف تھے کہ مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے قتل و غارت گری‘ تخریب کاری اور معصوم جانوں کا قتل جائز ہے۔ آپ کی اسی سوچ کی وجہ سے آپ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ آپ اسلامی تحریکوں کے خلاف غیراسلامی نظام کا ساتھ دے رہے ہیں۔
انھوں نے تشدد کے راستے سے اجتناب کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ وہ سیاست میں بات چیت اور انسانی حقوق کی پاسداری اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام پر یقین رکھتے تھے۔ یہ ان کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی تحریک ایک سے زائد مرتبہ حکومت میں شریک ہوئی۔ انھوں نے اپوزیشن اور حکومت دونوں میں رہتے ہوئے تحریک کی دعوت کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے خود تو کوئی وزارت نہ لی لیکن تحریک کے نوجوانوں کو اس کی اجازت دی تاکہ اصلاحِ معاشرہ کے وہ کام کیے جا سکیں جو حکومت میں رہ کر ہی کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا یہ مقولہ بہت مشہور تھا کہ ہم حکومت میں شریک تو ہیں لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کا حصہ نہیں ہیں۔
۱۹۹۵ء میں الشیخ محفوظ نحناحؒ نے سابق صدر الیامین زروال‘ سعید سعدی اور نورالدین بوکروح کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا اور زروال کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے تحریک براے پُرامن معاشرہ‘ الجزائر میں ایک متبادل سیاسی قوت بن کر اُبھری اور نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھنے لگیں کہ تحریک موجودہ نظام کا متوقع متبادل ہو سکتی ہے۔
انھیں سخت گیرموقف کے حامل گروہوں کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ جو حکومت کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنے کے مخالف تھے۔ ان کے ساتھی نذیرمودی لکھتے ہیں کہ ’’مجھے آج تک وہ یادگار بحث نہیں بھولی جس میں ہم نے تحریک کے طریقۂ کار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ الشیخ محفوظ نحناحؒنے حقیقت پسندی‘ مرحلہ وار منزل کی طرف رواں دواں ہونے اور ان ذرائع کے متعلق تفصیل سے بات کی جن کے ذریعے سے حکام اورقوم کے مابین تعلقات کو انسانی سطح پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ظلم و ستم کا سدباب ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد جمہوری اور شورائی نظام کے بارے میں سیرحاصل بحث ہوئی۔ ہمارے بعض ساتھی جمہوریت کا راستہ اختیار کرنے کو غلط اقدام قرار دیتے تھے۔ لیکن محفوظ نحناحؒ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمت کا راستہ یہی ہے کہ موجودہ سیاسی آزادی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے جب ۱۹۹۲ء کی خوں ریز کارروائیاں شروع ہوئیں توآپ ان پر بڑے دل گرفتہ تھے۔ حالات جیسے بھی ہوں وہ اس رجحان کو ناپسند کرتے تھے اور افہام و تفہیم سے ہی معاملات حل کرنے کے خواہاں تھے۔
الجزائر کی اسلامی تحریک کے دودھڑوں کا متحد ہونا آپ کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جو آپ کی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ان میں سے ایک کے سربراہ وہ خود تھے اور دوسرا دھڑا الشیخ عبداللہ جاب اللہ کی تحریک ہے۔ اگر نیتوں میں خلوص آجائے اور عزم پختہ ہو تو یہ خواب ان کی زندگی کے بعد بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔
آج جب اتحاد اُمت کے داعی الشیخ محفوظ نحناح ؒ اس دنیا میں نہیں رہے تو زخمی الجزائر کو ایسے اطبّا کی ضرورت ہے جو زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔ یہ اطبّا تحریک براے امن معاشرہ کے وہ نوجوان بھی ہوسکتے ہیں جن کے مربی الشیخ محفوظ نحناحؒ تھے اوراسلامک سالویشن فرنٹ کے وہ بزرگ بھی ہوسکتے ہیں جو دعوت و تبلیغ اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے اسلامی فرنٹ کے قائدین عباسی مدنی اور علی بلحاج کو ۱۲سال کی قید کے بعد رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اکانومسٹ (۱۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)کے مطابق فوجی جنتا ان لیڈروں سے اب بھی اتنی خوف زدہ ہے کہ اس نے غیرملکی صحافیوں کو ان کی رہائی کی کوریج نہیں کرنے دی۔ رہائی بھی کیسی رہائی ہے کہ نہ جلسوں سے خطاب کرسکتے ہیں‘ نہ انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں‘ نہ کسی کی حمایت کرسکتے ہیں‘نہ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو عقل دے اور ان پر رحم کرے!