اگست ۲۰۰۳

فہرست مضامین

توہین عدالت کا آرڈی ننس

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۰۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون اور انصاف کے قیام اور جمہوری حقوق اور روایات کے فروغ بلکہ ان کی تنفیذ کی گراں قدر ذمہ داری کی امین ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور ساکھ دونوں قانون اور اصولِ انصاف کی پاسداری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کا انتظامیہ کی گرفت اور اثراندازیوں سے پاک ہونا اولیں شرائط میں سے ایک ہے۔ عدلیہ کے لیے سیاسی جانب داری اور کرپشن دونوں سے محفوظ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور اسے انصاف سے کام کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ضروری تحفظ فراہم کرتا ہے۔

عدلیہ کو اس کا اصل مقام اور احترام محض قانونی جکڑبندیوں سے نہیں‘ اس کی اعلیٰ صلاحیت‘ مکمل غیر جانب داری‘ انصاف کے معاملے میں بے لاگ رویے‘ حکومتی‘ سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا ہوکر اپنے فرائض کی انجام دہی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دستور اور قوم نے عدلیہ سے جو توقعات بجا طور پر وابستہ کی ہیں ان کے کماحقہ پورا نہ ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کا ثبوت وہ نصف درجن کے قریب خود نوشت ہیں جو خود ریٹائر ہونے والے ججوں کے قلم سے نکلی ہیں اور جن میں وہ واقعات بھی بہ زبان خود بیان ہوئے ہیں جن میں عدلیہ کے قابلِ احترام ججوں کو متاثر کرنے اور ان کے متاثر ہونے کا ذکر ہے۔ حال ہی میں جو کش مکش وکلا اور ججوں کے درمیان رونما ہوئی ہے اور جس کی انتہا ایک طرف وہ تالہ بندیاں ہیں جن کا تماشا اعلیٰ ترین عدالتوں میں ہو رہا ہے‘ اور دوسری طرف وہ قرطاس ابیض ہے جو عدلیہ کے کردار کے بارے میں پاکستان بار کونسل نے تیار کیا ہے جو وکلا کی اعلیٰ ترین تنظیم ہے اور جسے نظامِ عدل و قانون میں ایک باوقار مقام حاصل ہے۔ اسی طرح ایل ایف او کے ایک ضمیمے کے ذریعے جس طرح اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہے اس نے عدلیہ کے وقار اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق کے بارے میں بڑے پریشان کن سوالات پیدا کر دیے ہیں۔

اس پس منظر میں‘ بظاہر کسی غیرمعمولی ضرورت کے بغیر‘ ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ۱۹۷۶ء کے توہینِ عدالت ایکٹ کو‘ جسے پارلیمنٹ نے بحث کے بعد منظور کیا تھا‘ منسوخ کر کے صدارتی فرمان کے ذریعے دستورکی دفعہ ۸۹ کا سہارا لے کر نیا قانون فی الفور لاگو کر دیا گیا ہے جس نے فطری طور پر سیاسی اور قانونی حلقوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا توہینِ عدالت کے قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت تھی؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس نئی قانون سازی کی ایسی کیا جلدی تھی کہ پارلیمنٹ کا انتظار کیے بغیر اور عوامی بحث اور بار سے مشورے کے اہتمام کو نظرانداز کرکے چار ملکوں کے سفر سے واپسی اور تین ملکوں کے سفر پر روانگی کے قلیل وقفے میں ایک نہایت بنیادی قانون کو آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے۔ یہ دونوں سوال بڑے اہم ہیں اور ان پر علمی‘ قانونی اور سیاسی‘ ہر سطح پر گفتگو ہونی چاہیے کہ جمہوریت نام ہی کھلی بحث اور مشورے کے بعد‘ عوام اور متعلقہ حلقوں سے بھرپور استفادہ کرنے‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر قانون سازی کا ہے۔

عدلیہ کے وقار کا اصل محافظ عدلیہ کااپنا کردار اور کارکردگی ہے۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اب ایک لاعلاج مرض کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں کے بارے میں بھی مختلف حلقوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے جن کے اہم سیاسی مضمرات ہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی مکمل اور حتمی علیحدگی کا مسئلہ بھی دستور کے واضح احکامات اور طے شدہ میقات  (time limit)کے گزرنے کے باوجود معرض التوا میں ہے۔ ججوں کی تقرری کا مسئلہ اور اس میں انتظامیہ کے کردار کو بھی شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں خود عدلیہ نے ججوں کے فیصلے میں جو راہ اختیار کی تھی اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ قانون میں اب بھی سیکرٹری کا عہدہ بنچ پر موجود جج کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام امور عدلیہ کے مقام‘ وقار اور کردار سے متعلق ہیں اور توہینِ عدالت کے مسئلے کو ان سے جدا کر کے نہیں لیا جا سکتا۔ پھر نئے آرڈی ننس میں صحت مند اور غیرصحت مند تنقید کا باب کھولا گیا ہے‘ جب کہ ان کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے حذف شدہ مواد کو بھی گواہی کے لیے پیش کرنے کا دروازہ کھولا گیا ہے۔  scandalizeکرنے کی اصطلاح بھی بڑی مبہم اور مختلف المعنی ہوسکتی ہے۔ نہ معلوم ایسی کیا جلدی تھی کہ اتنا اہم قانون عوامی بحث اور جائزے اور پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنانے کی بجاے آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کر دیا گیا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ توہینِ عدالت کے سلسلے میں عدالت کے اختیارات ہر قانونی نظام کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے قانون سازی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ برطانیہ اور چند دیگر ممالک میں اس سلسلے میں قوانین پائے جاتے ہیں لیکن امریکہ اور دوسرے بہت سے ممالک میں یہ معاملہ دستور کی ضمانت کے تحت‘ قانونی روایات اور عدلیہ کے ضمیر پر چھوڑا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتی فیصلوں اور معاملات کے بارے میں عوامی اور علمی بحث و گفتگو میں لچک پیدا ہوئی ہے۔ اسلامی قانونی روایات کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ کا احترام اور انتظامیہ سے مکمل علیحدگی خود ہماری روایت کا حصہ ہے مگر اس کے ساتھ قاضی کے فیصلوں پر بحث و تعدیل اور عدلیہ کے اپنے احتساب کا بھی موثر نظام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر زیادہ گہرائی میں جاکر اور سارے پہلوئوں کا احاطہ کر کے قانون سازی کی ضرورت ہے اور جلدی میں یک طرفہ انداز میں قانون سازی کے اچھے اثرات نہیں ہو سکتے۔

برطانیہ میں ججوں کے تقرر کے طریقوں پر آج کل عام مباحثہ جاری ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی ضرورت ہے کہ اس نوعیت کے تمام امور کو پہلے تجویز کی شکل میں لایا جائے تاکہ تمام متعلقہ حلقے ان کا جائزہ لے لیں۔ پھر پارلیمنٹ میں کھلی بحث کے بعد قانون سازی کی جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ انصاف کا حصول‘ حقوق کی حفاظت کا اہتمام اور عدلیہ پر اعتماد اور اس کی آزادی کا تحفظ اور صلاحیت کار میں اضافہ حقیقت سے زیادہ محض ایک تمنا رہیں گے۔