اگست ۲۰۰۳

فہرست مضامین

زکوٰۃ کا نفاذ : چند قابل غور پہلو

پروفیسر احمد اقبال قاسمی | اگست ۲۰۰۳ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

اسلام انسانی زندگی کو براہِ راست اللہ کی بندگی پر قائم رکھنے کا ضابطہء کار ہے۔ اسلام عقیدہ و نظام عمل‘ اخلاق و قانون اور سلطان و اقتدار اور تبلیغ کا جامع ہے۔ اسلام خارجی طور پر احکام و ضوابط سے اور داخلی طور پر احساسات و رجحانات اور نفسیاتی کیفیات کی اصلاح اور تربیت کرتا ہے تاکہ معاشرے میں فطری عدل‘ ہم آہنگی اور توازن پروان چڑھے۔

اسلام میں نماز کے ساتھ جو فریضہ سب سے اہم ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ اگر نماز سے شکرگزاری‘ عبدیت‘ محبت اور تعلق مع اللہ کا رشتہ استوار ہوتا ہے‘ تو زکوٰۃ سے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں۔ دونوں فریضے اجتماعی ہیں اور باہم لازم و ملزوم ہیں‘ دونوں یکساں اہم ہیں۔ زکوٰۃکی فرضیت معاشرتی استحکام و اخوت کے فروغ کے لیے ایک ربانی تدبیر ہے۔ یہ ربانی تدبیر بقول سید سلیمان ندویؒ ہر ربانی دین میں ملحوظ رکھی گئی تھی۔     اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے عشر مقرر کیا تھا‘ کوہِ سینا پر جو احکام حضرت موسٰی ؑکو ملے تھے ان میں عشرکا حکم بھی تھا۔ (مولاناریاض الحسن ندوی‘ تاریخ عشر‘ ص ۱۷۸‘ مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری‘ لاہور)

حضرت عیسٰی ؑ نے بخیل دولت مندوں کو اللہ کے عتاب سے ڈراتے ہوئے صدقات دینے کی اخلاقی تعلیم دی تھی۔ تہذیب نفس اور بخل کی بیماری سے شفا کا واحد علاج عشروزکوٰۃ کا اہتمام ہے جو آسودہ اور حیوانیت سے مغلوب نفس کو خدا کی فرماں برداری کے قابل بنا دیتا ہے (ڈاکٹر سید اسعد گیلانی‘ فلسفۂ عشر‘ ص ۶‘ مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری‘ لاہور)۔ جب انسان اپنے مال کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں نکالتا ہے تو وہ مال کے حرص اور اس کی بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی میں داخل ہوجاتاہے اور آخرت پر اس کا یقین مستحکم ہوجاتا ہے۔

زکٰوۃ کا آغاز اور اس کی تدریجی تکمیل

جس طرح نماز کا آغاز مکہ کے ابتدائی دور سے ہوا اور اس کے نظام کی تکمیل مدینہ میں ہوئی۔ اسی طرح زکوٰۃ اور انفاق کی ترغیب بھی مکی دور سے شروع ہوئی اور اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتحِ مکہ کے بعدتکمیل کو پہنچا۔ (سیدسلیمان ندوی‘  سیرۃ النبیؐ،ج ۵‘ ص ۱۵۹‘ مطبع معارف‘  اعظم گڑھ‘ بھارت)

اسلام کے یہ دونوں اجتماعی فرائض مساوی اہمیت کے حامل ہیں۔ محمد رسولؐ اللہ کی شریعت دو لفظوں سے عبارت ہے: خدا کا حق اور بھائیوں کا حق۔ پہلے لفظ کا مظہرِاعظم نماز ہے‘ اور دوسرے کا زکوٰۃ۔ یہ دونوں چیزیں اسلام میں ساتھ ساتھ ہیں۔ دونوں کی انفرادی حیثیت بھی اہم ہے اور اجتماعی بھی۔ نماز جماعت اور مسجد کے بغیر بھی ادا ہو جاتی ہے لیکن اپنی فرضیت کے بعض مقاصد و اغراض سے محروم رہتی ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ و عشر کو بھی بیت المال کے نظم کے بغیر انفرادی طور سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے مگر اس کی فرضیت کے بعض اہم مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ (ایضًا‘ ص ۱۵۳)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس بحث کو تفصیل سے اپنے مقالے فقہ الزکوٰۃ میں پیش کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی ادایگی صرف انفرادی حسن سلوک نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ادارہ ہے جس کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اپنے موقف کی تائید میں وہ     عبارۃ النص کے طور پر قرآنی آیت وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا (التوبہ ۹:۶۰) کو پیش فرماتے ہیں۔ عاملین کا زکوٰۃ میں حصہ مقرر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ ایک خودکار اور خودکفیل ادارہ ہے۔ نیز ارشاد ربانی خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’اے نبی تم ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرو‘‘ سے بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا سرکاری ذمہ داری ہونا مستفاد ہے۔ (ڈاکٹر یوسف القرضاوی‘ فقہ الزکٰوۃ‘ ص ۹۲)

ڈاکٹر القرضاوی نے امام مالک‘ امام شافعی‘ ابن تیمیہ‘ امام شوکانی‘ ابن حزم اور حنفی فقیہ ابن ہمام کے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ عہدِنبوتؐ میں زکوٰۃ کے معاملات سرکاری سطح پر طے پاتے تھے۔ آپؐ ہر قوم اور ہر قبیلے میں اپنے عمال روانہ فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے دولت مندوں سے زکوٰۃ لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کریں (ایضًا‘ ص ۱۲۳) اور عامۃ الناس کی حوائج ضروریہ کی کفالت کا اہتمام کریں۔

حضورنبی کریمؐ نے فتح مکہ کے بعد اپنے تمام عمال کو زکوٰۃ و عشر کی تحصیل اور ان کی تقسیم پر بڑی تفصیل سے ہدایات دی ہیں۔ عمال کے علاوہ قبائل کے سرداروں اور بااثر اصحاب کو خصوصیت سے ادایگی زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی ہے۔

ڈاکٹر حمیدؒاللہ نے اپنی معروف تصنیف الوثائق السیاسیہ میں آنحضوؐر کے ایسے خطوط کو بڑی جامعیت اور تاریخی تحقیق کے ساتھ جمع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضوؐر کی اپنے آخری ایام میں‘ سب سے زیادہ جس فرض کی ادایگی کی طرف توجہ تھی وہ زکوٰۃ و عشر سے متعلق تھی۔ آپؐ بحرین‘ عمان اور نجران سے لے کر بنی ہوازن‘ اہل جرش‘ دومۃ الجندل‘ بنی حارثہ بنی کلب اور قبیلہ طئی کے سرداروں کو اپنی وفات کے آخری دنوں تک خطوط کے ذریعے زکوٰۃ اور عشر کی ادایگی کی تاکید فرماتے رہے۔

اس عہد میں‘ جب کہ خط و کتابت و مراسلت کا بہت ہی خال خال رواج تھا‘ آنحضورؐ نے اس وسیلے کو بھرپور طریقے سے استعمال فرمایا۔ الوثائق السیاسیہ میں اس موضوع سے متعلق لکھے جانے والے خطوط کی تعداد ۷۰ تک پہنچتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوتی ہے کہ زکوٰۃ و عشر کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکومت کی ایک اہم ذمہ داری اور اجتماعی فریضہ کی  ادایگی ہے۔

علامہ محمد یوسف گورایہ نے اپنے ایک مضمون ’’نظامِ زکوٰۃ‘‘ میں سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں وفی الرقاب اور فریضۃ من اللّٰہ سے زکوٰۃ کے اجتماعی پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس آیت سے ان کا استنباط یہ ہے کہ اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مال زکوٰۃ میں سے غلاموں کی آزادی پر اتنا صرف کرے کہ غلامی کے پھندے میں پھنسے ہوئے انسان آزاد ہو جائیں۔ زکوٰۃ کا فریضہ من اللہ ہونا جس طرح ہر مسلمان کے لیے فرضِ عین ہے‘ اسی طرح حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ معاشی وسیاسی اور ہر قسم کی غلامی کا سدباب کرے۔ (یوسف گورایہ‘  ’’نظام  زکوٰۃ  اور  موجودہ  معاشی مسائل کا حل‘ ‘ فکرونظر‘ج ۷‘اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ اسلام آباد)

زکوٰۃ کا سرکاری ادارہ ہونا ارشاد ربانی  کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر۵۹:۷)‘ کہ دولت محض تمھارے سرمایہ داروں کے مابین لینے دینے میں نہ رہے‘ نیز وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo (الذّٰریٰت ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے اور محروم کا‘‘ سے واضح ہوتا ہے۔ یہ آیات ہمیں زکوٰۃ کے اجتماعی فریضہ اور نظم و نسق کے قیام کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

اس بحث کو حضرت ابوعبیدہ نے  کتاب الاموال میں بہت سے آثار کے حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے کہ مال تجارت کی زکوٰۃ لوگ خود بھی انفرادی طور سے دیتے تھے اور خلفا کو بھی دیتے تھے لیکن زرعی پیداوار اور مویشیوں کی زکوٰۃ کی ادایگی صرف حکومت کو ہی ادا کرنے سے ادا ہو سکتی ہے۔ انفرادی طور پر زکوٰۃ دینے سے فرض پورا نہ ہوگا۔ (ابوعبیدہ‘  کتاب الاموال‘ ص ۶۸۵‘ مطبوعہ قاہرہ مع تعلیق محمد خلیل ہراس‘ ۱۹۷۹)

حضرت شاہ ولی ؒ اللہ نے بھی ازالۃ الخفاء میں مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو جو وصیتیں کی تھیں ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ جو شخص زکوٰۃ خلیفہ کے مقررہ عامل کے علاوہ کسی اور کو دے گا تو اس کا صدقہ مقبول نہ ہوگا‘ چاہے ساری دنیا صدقے میں کیوں نہ دے دے۔(حضرت شاہ ولی اللہ‘ ازالۃ الخفائ‘ ج ۳‘ ص ۳۶۹‘ مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب‘ کراچی)

اس ساری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ زکوٰۃ اجتماعی فریضہ اور سرکاری ذمہ داری ہے اور اسے بیت المال میں جمع کیا جانا چاہیے۔

اسلام کے اقتصادی نظام میں زکوٰۃ کی حیثیت اساسی اور محوری ہے۔ قرآن حکیم کی آٹھ مکی اور ۲۲ مدنی سورتوں میں زکوٰۃ کا بیان ہے۔ ۲۷ مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ ڈاکٹر نصیراحمد ناصر نے اپنی ایک تصنیف میں توجہ دلائی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے جو احکامات قرآنِ حکیم میں ہیں وہ ایتاے زکوٰۃ سے متعلق ہیں۔ اسی طرح بخل‘ تکاثر اور ذخیرہ اندوزی کے لیے جو نواہی ہیں وہ بھی زکوٰۃ کے مقتضیات سے ہیں (ڈاکٹر نصیراحمد ناصر‘  فلسفۂ زکوٰۃ‘ ص ۵۵‘ فیروز سنز‘کراچی و محولہ از ڈاکٹر عبدالخالق  مصالح زکوٰۃ‘ مطبوعہ)۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں ۸۲ مقامات میں زکوٰۃ کا ذکر صراحتاً یا اشارۃ النص کے طور پر ملتا ہے۔

قرآن حکیم کے بعد اگر احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں حدیث کی تمام اہم کتب میں کتاب الزکوٰۃ کا مستقل حصہ ملے گا۔ اختصارًا چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:

۱-  سنن ابی داؤد میں حضرت سمرہؓ سے مروی ہے: قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یامرنا ان نخرج الصدقۃ مما تُعدُّ للبیع ، حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اس مال سے زکوٰۃ نکالیں جو خرید و فروخت کے لیے متعین کر دیا گیا ہو۔(محولہ از محمد طاسین‘  اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۷۹‘ مجلس علمی فائونڈیشن‘ کراچی)

۲-  حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے:  لیس فی العروض زکوٰۃ الا ان تکون تجارۃً، استعمال اور صَرف کی چیزوں میں زکوٰۃ نہیں ہے مگر ان میں جو تجارت کے لیے ہوں۔ (سنن البیہقی محولہ از مولانا محمد طاسین‘  اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۷۹)

۳-  طبرانی میں حضرت ابودرداء سے مروی ہے:  اَدُّوْا  زکٰوۃ  اموالکم ،  اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (ایضًا‘ ص ۱۷۹)

ان قرآنی آیات اور احادیث نبویہ اور آثار واقوال صحابہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اموال جو خرید و فروخت کے کاروبار سے تعلق رکھتے ہوں ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ فقہاے کرام نے ان سے یہ کلیہ مستنبط کیا ہے کہ زکوٰۃ ہر اس سرمائے پر عائد ہوتی ہے جو نفع کمانے کی غرض سے کسی بھی کاروبار میں زیرتصرف ہو۔ گویا ہر طرح کی تجارت کا مال جو بقدر نصاب ہو اور ایک سال کی مدت پوری ہو چکی ہو‘ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے‘ جب کہ وہ مال اس کی ضروری حاجات سے زائد ہو۔

سونا چاندی ‘ نقد و زیورات و دیگر عروض تجارت کے مسائل عام طور پر کتب فقہ میں اور ائمہ مساجد سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اختصار کی غرض سے ان کا بیان نہیں کر رہے ہیں البتہ بعض جدید اموال اور صنعتوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے۔

اموالِ تجارت کی بعض نئی اقسام

سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے بعض ایسے اموال وجود میں آگئے ہیں اور ایسی شکلیں پیدا ہوگئی ہیں جو پہلے موجود نہ تھیں۔ ایسے اموال کی زکوٰۃ کے مسائل میں فقہا کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے‘ مثلاً بڑی بڑی مشینیں جو مختلف صنعتی کارخانوں میں نصب ہیں‘ ٹرانسپورٹ میں مستعمل بسیں اور ٹرک‘ بحری اور ہوائی جہاز جو حمل و نقل میں کام آتے ہیں‘ زرعی آلات ٹریکٹر وغیرہ جن کی قیمتیں لاکھوں اور کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی مالیت کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح تجارتی کمپلیکس‘ ہوٹل وغیرہ۔ آیا یہ اموالِ زکوٰۃ کے زمرے میں شمار ہوں گے یا یہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گے؟

ہندو پاک کے اکثر مکاتب ِ فقہ کے علما بشمول دیوبندی مکتب فکر کے مفتیان‘ مذکورہ مشینوں اور آلات وغیرہ پر زکوٰۃ عائد نہیں کرتے ۔ البتہ ان کارخانوں اور صنعتوں سے جو دولت حاصل ہوتی ہے اس پر زکوٰۃ عام تجارت کے اصولوں کے مطابق عائد ہوگی(مولانا محمد رفعت قاسمی‘ مسائلِ زکوٰۃ‘ مطبوعہ ادارہ اسلامیات‘ لاہور)۔ ڈاکٹر سید اسعد گیلانی بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ (سید اسعد گیلانی‘ ڈاکٹر‘  اسلام کا نظامِ عشر و زکوٰۃ‘ ص ۱۸۴‘ مطبوعہ مکتبہ تعمیرانسانیت‘ اُردو بازار‘ لاہور)

دیوبندی مکتب فکرکے عظیم فقیہ مولانا محمد طاسین رحمتہ اللہ علیہ جو عرصہ تک اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے‘ انھوں نے اپنی فاضلانہ تصنیف اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات میں اس موضوع پر بڑی مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک تمام جدید صنعتیں‘ کارخانے‘ آلات اور مشینیں سب کے سب اموالِ تجارت قرار پاتی ‘ہیں اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک کے اندر نفع کمانے کے لیے سرمائے کا تصرف ہے۔ اوریہ تمام اموال عروض تجارت کی شرائط پوری کرتے ہیں اور وجوب زکوٰۃ کی گرفت میں آتے ہیں۔ اس لیے مارکیٹ کی قیمت کے لحاظ سے ڈھائی فی صد سالانہ ان اموال کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔ (مولانا محمد طاسین‘ اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۸۰)

موصوف رحمۃ اللہ علیہ اپنی رائے میں منفرد نہیں ہیں۔ مصروشام کے محققین بھی ان کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی تصنیف فقہ الزکوٰۃ کی ساتویں فصل میں بڑی تفصیل سے اس موضوع پر بحث پیش کی ہے اور اسی موقف کی حمایت کی ہے۔ دوسرے بڑے اسکالروں میں ڈاکٹر ابوزہرہ‘ پروفیسر عبدالوہاب خلاف اور ڈاکٹر عبدالرحمن حسن جیسے اہل علم اسی رائے کے حامی ہیں (ڈاکٹر یوسف القرضاوی‘  فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۱‘ص ۵۹۲‘ ترجمہ: البدر پبلی کیشنز‘ لاہور)۔ ڈاکٹر ابوزہرہ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اموال منقولہ کی زکوٰۃ ڈھائی فی صدتسلیم کرتے ہیں اور اموال ثابتہ کی زکوٰۃ پیداوار اور منافع پر عائد کرتے ہیں اور ان سے عشرکے حساب سے زکوٰۃ وصول کرنے کی سفارش کرتے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:  فان تطبیق ھذا المبدأ فی المصانع والدور یکون باخذ عشر الصافی بعد النفقات ‘ کارخانوں اور گھروں کے سلسلے میں ابتدا کی تطبیق یہ ہے کہ ان پر اٹھنے والے مصارف کو وضع کر کے باقی صافی اموال پر عشر لیا جائے گا۔

فقہا کا اختلاف رائے

وجوب زکوٰۃ کے دائرے کو وسیع نہ کرنے والے فقہا کا کہنا ہے کہ

۱-  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن اموال کی تحدید فرما دی ہے جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور اُن اموال میں حاصل شدہ منافع‘ زمین‘ جانور اور مشین کے کرائے شامل نہیں ہیں۔ جب تک اللہ اوررسولؐ کی جانب سے کوئی نص صریح موجود نہ ہو‘ کوئی حکم لازم نہیں کیا جاسکتا۔

۲-  کسی بھی زمانے میں فقہا نے ان اشیا پر وجوب زکوٰۃ کی بات نہیں کی۔

۳-  رہایشی گھروں‘ پیشہ وروں کے آلات‘ سواری کے جانور‘ زیراستعمال گھریلو سامان پر زکوٰۃ نہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔

توسیع کے قائل فقہا کی رائے

صدر اول میں ایسے مسائل پیدا ہی نہیں ہوئے اس لیے ہمیں تصریح کے ساتھ ان کے احکام بھی نہیں ملتے۔ البتہ قرآن وسنت میں ایسی اصولی ہدایات ضرور ملتی ہیں جن کی روشنی میں ہم زیربحث مسائل کا شرعی حکم دریافت کر سکتے ہیں۔ اسی طریقے کو اجتھاد فی المسائل کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ یہ حضرات اپنی آرا کے حق میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:

۱-  اللہ سبحانہ نے ہر ایک مال پر ایک مقرر حق‘ حق معلوم‘ یا زکوٰۃ‘ یا صدقہ لازم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌo (المعارج ۷۰: ۲۴) ’’جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے‘‘۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً (التوبہ ۹: ۱۰۳) ’’اے نبی ان کے اموال میں سے صدقہ لے لیجیے‘‘۔

ابن العربی کہتے ہیں کہ یہ فرمان الٰہی ایک حکم عام ہے جو مال کی تمام انواع اور اقسام پر مشتمل ہے خواہ اس مال کا نام کچھ بھی ہو‘ اور اس کا مقصد کوئی بھی ہو۔ جو شخص اس حکم میں تخصیص کا خواہاں ہے‘ اس پر دلیل لازم ہے۔ (فقہ الزکٰوۃ‘ شرح الترمذی‘ ج ۳‘ ص ۱۰۴)

۲-  تجارت بمعنی بیع و شرا کے متعلق وجوب زکوٰۃ کا واضح حکم مذکور ہے۔

ارشاد ربانی ہے:  یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِص (البقرہ ۲:۲۶۷) ’’اے صاحبان ایمان ان پاکیزہ اموال میں سے خرچ کرو جو تم نے تجارت میں کمائے او رغلہ جات اور ثمرات میں سے جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالے‘‘۔

جمہور مفسرین حضرات نے جن میں امام طبری‘ امام ابوبکر الجصاص‘ امام ابوبکر ابن العربی اور امام فخرالدین الرازی شامل ہیں‘ اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس کے اندر مسلمانوں کے لیے وجوبی حکم ہے کہ وہ تجارت کے ذریعے کمائے ہوئے مال اور پیداوار زمین سے زکوٰۃ ادا کریں۔

اس سلسلے میں سنن ابی داؤد کے حوالے سے حضرت سمرہ بن جندبؓ اور طبرانی میں مذکور حضرت ابودردا ؓ سے مروی روایات پیش کی جا چکی ہیں۔ جہاں تک آثار صحابہؓ کا تعلق ہے امام ابوعبیدہ کی کتاب الاموال میں سند صحیح کے ساتھ ان میں سے متعدد کا ذکر ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ سے مروی دو آثار میں پوری صراحت کے ساتھ بیان ہے کہ آپ اپنے عہدِخلافت میں مال تجارت پر زکوٰۃ لیتے تھے ۔ (محمد طاسین‘ عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۸۰)

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن حکیم‘ احادیث نبویہ اور آثار و اقوال صحابہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اموال جو خرید وفروخت کے کاروبار سے متعلق ہوں ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔

بیع اور تجارت کا فرق

بالعموم بیع اور تجارت کو بعینہٖ ایک چیز سمجھا جاتا ہے‘ جب کہ ان دونوں میں فرق ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اشکالات پیدا ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ان دونوں میں عموم اور خصوص کا فرق ہے۔ ہر بیع تجارت ہے مگر تجارت کی بعض صورتیں بیع میں داخل نہیں ہیں۔ یہ بات اشارتاً قرآن سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:  رِجَالٌلا لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ  (النور ۲۴:۳۷) ’’ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد اور اقامت نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی‘‘۔ تجارت کا معطوف علیہ ہونا اور بیع کا معطوف ہونا مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔ غرض یہ کہ تجارت کا دائرہ بہت وسیع ہے جو زیربحث بہت سی شکلوں پر صادق آتا ہے۔

قیاس سے استنباط

قیاس پر عمل کرنے والے فقہا وجوب زکوٰۃ کی علت نمو‘ یعنی افزایش کو قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ وہبہ الزخیلی اپنی عظیم تصنیف الفقہ الاسلامی وادلتہ میں زیربحث جدید طریق تجارت و اموال پر عروض تجارت کی طرح بلحاظ قیمت زکوٰۃ عائد کرنے کے حامی ہیں۔ وہ اپنی رائے اس طرح ظاہر فرماتے ہیں:

میری رائے یہ ہے کہ مذکورہ اموال پر زکوٰۃ واجب ہے۔ کیونکہ وجوب زکوٰۃ کی علت بھی ان اموال میں پائی جاتی ہے‘ یعنی نمو اور مشروعیت زکوٰۃ کی جو حکمت ہے وہ بھی ان میں پائی جاتی ہے اور وہ حکمت ہے مال داروں کے نفوس کا تزکیہ اور معاشرے کے محتاج لوگوں کی مواسات و ہمدردی مالی امداد کے ذریعے‘ اور اس فقروافلاس کے خاتمے میں حصہ لینا جو دنیا کے مختلف نظاموں پر چھایا ہوا ہے۔

الحاصل یہ ہے کہ اہم شرعی ماخذ سے اس مکتبہ فکر کے اصحاب کا موقف بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ موازنے کے لیے قدیم فکر کی اساس مختصراً پیش ہے۔

ان حضرات کے پاس قرآن و سنت کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اس کا سارا انحصار فقہا کی درج ذیل عبارت پر ہے جو حاجات اصلیہ پر زکوٰۃ نہ ہونے سے متعلق ہے:

زکوٰۃ واجب نہیں رہایشی گھروں پر‘ گھریلو سامان و فرنیچر پر‘ پیشے کے آلات و اوزار پر‘ سواری کے جانوروں پر کیونکہ یہ سب حاجات اصلیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ہلاکت سے بچاتی ہیں۔ امرواقعہ کے طور پر‘ جیسے کھانے پینے کا غذائی سامان‘ رہایشی گھر‘جنگی اسلحہ‘ لباس کپڑے جو گرمی اور سردی سے بچاتے ہیں۔ دوسری صورت تقدیری طور پر ہونے کی ہے‘ جیسے قرض کا مال جس کا ادا کرنا مقروض شخص پر واجب ہوتا ہے ورنہ اس کو قیدوبند کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو بربادی کی صورت ہے۔ اسی طرح پیشے کے اوزار‘ گھریلو سامان سواری کے جانور اور اہل علم کی کتابیں جو بے علمی سے بچاتی ہیں۔ جہالت بھی بربادی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ (محمدطاسین‘ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۸۴)

اس عبارت پر غور فرمایئے۔ خود رہایشی مکان ضروری حاجات میں سے ہے۔ اس پر زکوٰۃ نہیں ہوتی مگر اس پر کرائے پر اٹھائے جانے والے بڑے بڑے عمارتی کمپلیکس کو کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ہنرمند لوگوں کے آلات و اوزار جن کو استعمال کر کے وہ خود روزی کماتے ہیں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ اس لیے کہ وہ آلات ان کے لیے حاجات اصلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ان آلات پر کارخانوں کی مشینوں کو جن کو ملازمین انجینیروغیرہ چلاتے ہیں کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ واضح طور پر قیاس مع الفارق ہے۔

نئے اموال پر وجوب زکوٰۃ سے متعلق بحث کو جناب ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنی تحقیقی مقالے کی ساتویں فصل میں پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں دمشق میں ۱۹۵۲ء میں منعقدہ زکوٰۃ کانفرنس کے نتائج بحث کو بھی تفصیل سے بیان فرماتے ہیں۔ (حلقہ الدراسات الاجتماعیہ‘ للجامعۃ العربیہ‘ ص ۲۴۱ تا ۲۴۸ محولہ فقہ الزکٰوۃ‘ ۵۹۸-۶۵۰)

اسلام کے نظام کفالت عامہ اور مقاصد شرع کو ملحوظ رکھتے ہوئے احقر بھی حضرت مولانا محمد طاسین مرحوم اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور ڈاکٹر ابوزہرہ‘پروفیسر عبدالوہاب خلاّف کے نظریات کی پوری طرح تائید کرتا ہے اور اس یقین کا اظہار کرتا ہے کہ جب تک ہم اللہ اور رسولؐ کے عطا کردہ احکامات پر ان کی سچی روح اور جذبے سے عمل نہیں کریں گے‘ ہم نہ استحکام حاصل کرسکیں گے‘ نہ اپنی آزادی ہی باقی رکھ سکیں گے۔ مسلم حکومتوں کے عروج و زوال پر بہت سے محققین نے قلم اٹھایا ہے اور تجزیے پیش کیے ہیں مگر ایک بڑی حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے انھی احکامات سے انحراف کیا‘ بیت المال کو اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کیا‘ عوام پر ایسے ٹیکس لگائے جو ظلم پر مبنی تھے۔ محبت‘ اخوت‘ مساوات اور ہمدردی کے بجاے عصبیتوں اور نفرتوں کو پروان چڑھایا۔ بنی امیہ‘ بنی عباس‘ آل عثمان اور مغل حکمران‘ سب کے زوال کے جو اسباب تھے آج بھی ہم انھی معائب میں گرفتار ہیں۔ اگر ہم نے حقیقی معنوں میں زکوٰۃ‘ صدقات اور عدل اجتماعی کا نظام قائم نہ کیا‘ تو ہم بھی زوال اور بربادیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے!