سوال: امریکہ اور یورپ میں عرصۂ دراز سے یہ رواج قائم ہے کہ جب سوسائٹی کی کسی ضرورت کے لیے چندا کیا جائے تو اُس کے لیے ’’فنڈ ریزنگ ڈنر‘‘ (عشائیہ براے عطیات) کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اِس ڈنر میں اکثر ملک کے نامور اور شہرت یافتہ فنکار حصہ لیتے ہیں‘ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں (جس میں ناچ‘ گانا‘ موسیقی‘ مزاح اور ڈراما وغیرہ شامل ہوتے ہیں) اور لوگوں سے فنڈ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔ اِس ڈنر کی تیاری مہینوں پہلے کی جاتی ہے‘ اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے‘ ویڈیو اور سلائڈز بنوائے جاتے ہیں تاکہ اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ کھانے کے لیے بہترین (مہنگے ہوٹل) جگہ اور اعلیٰ قسم کے مختلف ورائٹی کے کھانوں کا اہتمام اسراف کی حد تک کیا جاتا ہے۔ اکثر مخلوط مجالس ہوتی ہیں‘ جس میں لوگ بہترین لباس اور خواتین میک اَپ‘ خوشبو اور جیولری کی چمک دمک کے ساتھ’’بے پردہ‘‘حاضر ہوتی ہیں۔ اس سارے عمل سے معاشرے کے غریب طبقات غیرحاضر ہوتے ہیں کیونکہ اس ڈنر کا ایڈوانس ٹکٹ قیمتاً فروخت کیا جاتا ہے‘ جس میں سنگل اور فیملی پیکج ہوتا ہے اور اُس کے بغیر کوئی اِس جگہ داخل نہیں ہو سکتا۔
اِس ڈنر کے دوران چندا جمع کرنے کے لیے مسابقت کی ایک دوڑ شروع کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ رقم نکلوائی جائے۔ زبردستی وعدہ فارم (pledge form) بھروائے جاتے ہیں اور مجلس کے دوران بہت زیادہ دکھاوا اور نمود و نمایش واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ دورانِ مجلس افراد کی تعریف و تحسین کرکے اُن کے نفس کو پھلایا جاتا ہے تاکہ زیادہ رقم وصول کی جائے۔ بعد میں اس فنڈ سے ہوٹل اور کھانے کے اخراجات‘ فن کاروں کی آمدورفت اور رہایشی اخراجات کے بڑے بڑے بل ادا کیے جاتے ہیں۔ اکثر حاصل شدہ فنڈ سے فن کاروں کی فی صد بھی طے شدہ معاملے کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
اسلامی تنظیموں نے بھی اپنی ضرورت کے لیے کچھ ترمیمات کے ساتھ مغرب کی اس روایت کو اپنا لیا ہے۔ اسلامی تنظیمیں جوفنڈ ریزنگ ڈنر کرتی ہیں‘ اُس میں صرف رقص و موسیقی نہیں ہوتی‘ بقیہ تمام وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔ فن کار کی جگہ ہم کسی ایسے لیڈر یا مقررین کا اہتمام کرتے ہیں جو لوگوں کو قرآن اور حدیثیں سُنا کرجوش دلاتے ہیں اور ہر طرح کی کوشش کر کے مسابقت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ فنڈ دینے والوں کی دورانِ مجلس منہ پر تعریف کرتے ہیں (جسے اللہ کے رسولؐ نے ناپسند فرمایا ہے) کم فنڈ دینے والوں کو کم تر درجہ دیتے ہیں (بعض اوقات تحقیر کے درجے تک) اور حددرجے کا ڈرامائی ماحول بناتے ہیں۔ کبھی رُلاتے ہیں‘ کبھی ہنساتے ہیں‘ کبھی جوش دلاتے ہیں اور اس طرح ایک طرح کی عجیب مصنوعی فضا تیار کرتے ہیں۔ اسلامی تنظیمیں ایسے افراد کو بعض اوقات طے شدہ فی صد بھی جمع شدہ فنڈ سے ادا کرتی ہیں۔ بعض اوقات مقررین بعض افراد کے لیے دورانِ مجلس اپنی جانب سے زبردستی رقم مقرر کرتے ہیں‘ جسے وہ مجلس میں شرمندگی کے باعث قبول کرلیتے ہیں۔ ایڈوانس ٹکٹ (سنگل اور فیملی) فروخت کیے جاتے ہیں۔ مخلوط ماحول ہوتا ہے‘ خواتین و حضرات سج دھج کر آتے ہیں۔ بعض خواتین پردے میں اور اکثریت بغیر پردے کے ہوتی ہے۔ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور جوش دلانے کے لیے اپنی جیولری مجلس میں پیش کرتی ہیں‘ جسے کوئی دوسرا خرید کر اُس کی رقم فنڈ میں دے دیتا ہے۔
اسی طرح زبردستی وعدہ فارم بھروائے جاتے ہیں(جسے اکثریت بعد میں بھول جاتی ہے)۔ بہترین جگہ اور اعلیٰ قسم کے کئی طرح کے کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے اور تمام تر اخراجات کی ادایگی حاصل شدہ فنڈ سے کی جاتی ہے۔ براے مہربانی عامۃ الناس کے استفادے کے لیے یہ بتائیں کہ---
۱- شرعی لحاظ سے اس قسم کے پروگرام کی کیا حیثیت ہے؟ کیا سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ ملتا ہے یا پھر یہ ایک بدعت (innovation) ہے۔
۲- کیا شرعی لحاظ سے کوئی عام پروگرام ایسا ہو سکتا ہے جس میں سوسائٹی کے امیرطبقات کو آنے کی اجازت ہو اور غریب طبقے کو غیرمحسوس طریقے سے روک دیا جائے؟
۳- کیا شریعت کسی ایسے پروگرام کی اجازت دیتی ہے جس میں نمود و نمایش ہو‘ منہ پر تعریف کی جائے‘ زبردستی تحریری وعدے لیے جائیں‘ غیرضروری اخراجات (اسراف کی حد تک) کیے جائیں‘ فنڈ دینے کی اپیل کرنے والے مقررین کو مناسب فی صد ادا کیا جائے‘ یہاں تک کہ یہ اُن کا پیشہ (profession) ہی بن جائے؟
۴- کیا کسی نیک مقصد کے لیے جمع کیے جانے والے اس فنڈ سے اُس کے دینے والے فرد کے کھانے اور تقریب کے دیگر اخراجات کی ادایگی کی جا سکتی ہے؟
۵- بعض اوقات اس تقریب کے اخراجات اس پروگرام کے جمع شدہ فنڈ سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں‘ جن کی ادایگی بعد میں بیت المال سے کی جاتی ہے۔ کیا یہ فنڈ اور بیت المال کا غلط استعمال تو نہ ہوگا؟
۶- کیا شرعی لحاظ سے زبردستی وعدہ لینا جائز ہے؟ جس شخص سے وعدہ لیا گیا اور وہ اُسے بھول جائے یا ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو کیا یہ گناہ تصورہوگا۔ منتظمین کس حد تک اس کے ذمہ دار ہوں گے؟
۷- بعض اوقات لوگوں کو جوش دلانے کے لیے ارادتاً بعض افراد بڑی بڑی رقومات کا وعدہ کر لیتے ہیں اور ادا نہیں کرتے‘ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم اگر ایسا نہ کرتے تو دوسرے لوگ فنڈ نہ دیتے ‘یعنی ارادتاً جھوٹ پر مبنی عمل کیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح کوئی چیز کی جا سکتی ہے؟
جواب: آپ کے سوال کا تعلق دورِ جدید میں دعوت کے مسائل سے ہے۔ آپ کی یہ بات قابلِ قدر ہے کہ جدید ذرائع کا استعمال کرتے وقت آپ کی خواہش یہ ہے کہ ایک تعمیری اور اصلاحی کام کے لیے بھی ذرائع جائز و مباح ہوں۔ آپ کے سوال میں بیک وقت کئی اصولی باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلی چیز یہ کہ انفاق کے حوالے سے قرآن و سنت کیا ہدایات دیتے ہیں؟ دوسری چیز یہ کہ دعوت و اصلاح کے لیے کن جدید ذرائع کا استعمال درست ہوگا اور اس کی اصولی حیثیت کیا ہوگی؟ تیسرے ‘آپ نے ہمارے ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی معاشرت اور اجتماعیت میں مرد و زن کے باہمی ربط کی حیثیت کیا ہے؟ نیز آپ نے ایسی تقریبات میں اسراف کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔ ان چاروں امور کے بارے میں ترتیب کے ساتھ چند نکات پر غور کیا جائے تو اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
۱- اللہ کی راہ میں کام کرنے کے لیے‘ خواہ وہ ظلم و تعدی کے خلاف مسلح جہاد ہو یا ایک اسلامک سنٹرکی تعمیر کے ذریعے عام انسانوں کو اللہ کے دین کی دعوت پہنچانا‘کسی رفاہی تعلیمی ادارے کا قیام ہو یا کسی مدرسے کے ذریعے علم و حکمت کا فروغ‘ قرآن و سنت ان تمام حوالوں سے اللہ کی راہ میں انفاق کرنے اور صدقات کرنے کو اللہ کو قرضِ حسن دینے اور حقوق العباد کے ادا کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا بعض صورتوں میں انفاق فی سبیل اللہ فرض ہوگا اور بعض صورتوں میں اس کی حیثیت ان صدقات کی ہوگی جو درجے کے لحاظ سے فرض کے قریب ترین ہیں۔ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں مال اور نفس سے ایثار کیا ‘ان کے اس عمل کو ایسی تجارت کہا گیا جس کے نفع کا وعدہ رب کریم نے خود کیا ہے۔ چنانچہ تقریباً۱۸ مقامات پر قرآن کریم نے صدقات اور صدقات دینے والوں کے بارے میں وضاحت سے فرمایا کہ اللہ انھیں وسعت اور فراخی دیتا ہے (البقرہ ۲:۲۷۶)۔ گویا جو کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کیا جاتا ہے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے‘ اور اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ جو سب کو دیتا ہے اور پھر بھی اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی‘ اس کو قرض دیا جائے (الصافات ۳۷:۵۲)۔ مزید ملاحظہ ہو‘الحدید ۵۷:۱۸۔
۷۰ سے زائدمقامات پر قرآن کریم انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اسے اہل ایمان کی صفات میں سے ایک اہم صفت قرار دیتا ہے (النساء ۴:۳۴)۔ یہاں پر یہ بات خصوصاً واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن انفاق کے معاملے میں چھپا کر دینے اور علانیہ دینے کو یکساں مقام دیتا ہے (الرعد ۱۳:۲۲)۔ اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ اگر کسی عطیات جمع کرنے کی تقریب میں علانیہ رقم دی جائے‘ یا اس پر ابھارا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
قرآن کریم کے اس طرح چھپے اور ظاہراور علانیہ دینے میں زکوٰۃ‘ صدقات‘ عام انفاق‘ تینوں شامل ہیں۔ البتہ جس چیز کی فکر کی ضرورت ہے وہ ریا اور تملُّق ہے‘ یعنی نہ تو دکھاوے کے لیے کوئی چیز دی جائے‘ اور نہ کسی کی تعریف و توصیف کھلے بندوں کی جائے۔ خصوصاً کسی کے منہ پر تعریف کرنا خود موصوف کے لیے مہلک ہے۔
۲- فنڈ ریزنگ ایک جدید اور جامع اصطلاح ہے جس میں عطیات کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں‘ مثلاً ایک لیکچرہال میں کسی معروف عالم کی تقریر جس میں داخلے کی فیس ہو اور وہ رقم کسی کارِخیر میں استعمال کرلی جائے۔ کسی جگہ کھانوں کا بازار لگایا جائے اور کھانوں کی فروخت سے جو رقم ملے وہ کسی سینٹر یا تعلیمی ادارے یا شفاخانے کی تعمیر پر خرچ کی جائے‘ یا اخبارات میں اشتہار دے کر اپنی ضرورت سے آگاہ کیا جائے اور جواب میں عطیات مل جائیں۔ گویا یہ تعلقاتِ عامہ کے ذریعے مالی وسائل پیدا کرنے کی ایک حکمت ِعملی اور طریقے کا نام ہے۔
اس کی نظیر اگر سنت میں تلاش کی جائے‘ تو غزوات کے موقع پر اہل ایمان سے اپیل کے ذریعے جو وسائل جمع کیے گئے ان میں مل سکتی ہے۔ متعدد واقعات ہمیں ملتے ہیں جن میں بعض صحابہؓ نے اپنی کل ملکیت‘ بعض نے آدھی‘ کسی نے سیکڑوں سواروں کے لیے سازوسامان پیش کر دیا‘ اور بعض صحابیات نے اپنا زیور اللہ کی راہ میں دیا۔ اس اصولی مماثلت کی بنا پر جدید دور میں نہ صرف قیادت کی طرف سے اپیل بلکہ ان بہت سے ذرائع کا استعمال بھی کرنا ہوگا جوقرونِ اولیٰ میں معروف نہ تھے‘ مثلاً فنڈ ریزنگ ڈنر۔
دعوت و اصلاح کے لیے جدید ذرائع کا استعمال اسلام کا مدعا ہے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے اپنے زمانے میں مروجہ تمام طریق دعوت کو استعمال فرمایا‘ مثلاً خطابت‘ خط وکتابت‘ تربیت یافتہ دعاۃ کے وفود‘ حتیٰ کہ بڑے خطابات کے موقع پر مکبرین کا استعمال جو آج کل کی اصطلاح میں ایک طرح کا پبلک ایڈریس سسٹم کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے فنڈ ریزنگ ڈنر میں کسی معروف اسکالر کو بلاکر لوگوں تک بھلی بات پہنچانے کے ساتھ ان سے انفاق و صدقات کی اپیل کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیں۔ شریعت کا اصول ہے کہ ہر وہ کام مباح ہے جس کی ممانعت نہ آئی ہو۔
یہاں یہ بات واضح کرنی بھی ضروری ہے کہ ایک اخلاقی اور اصلاحی مقصد کے لیے اسلام اس کے حصول کے طریقوں کو بھی اخلاقی اور اصلاحی دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ پیشہ ور گانے والوں اور نام نہاد ثقافتی پروگرام کرنے والوں کو مدعو کرنا‘ لہوولعب کی محفل سجانا‘ اس کی قرآن و سنت میں واضح ممانعت ہے۔ اگر ایسی تقریبات میں نوجوان ایسے نغمے پیش کریں جن میں روحِ جہاد اُبھارنے کی تلقین ہو‘ یا چھوٹی بچیاں ایسے نغمات پیش کریں‘ جیسے انصار کی بیٹیوں نے حضورنبی کریمؐ کی آمد پر گائے تھے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
جہاں تک سوال ایک ہی تقریب میں نشستوں کے لحاظ سے معاوضے کا ہے‘ اس پر ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے جو زیادہ رقم ادا کر کے اگلی نشست پر بیٹھے گا اور جس نے کم رقم پر پیچھے کی نشست حاصل کی ہے‘ تفریق پائی جائے گی۔ بات بہت معقول نظرآتی ہے لیکن کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں سے یکساں اجر کا وعدہ کیا ہے‘ یا جو اس کی راہ میں زیادہ قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے زیادہ بلند درجات دیں گے! بنیاد کسی کی تملیک نہیں ہے بلکہ قربانی ہے۔ چنانچہ ایک انتہائی غریب صحابی اگر رات بھر کھیت میں پانی دے کر مٹھی بھرکھجور کماکر نبی کریمؐ کو پیش کرتے ہیں تو بظاہر اس کم قیمت صدقے کو سب کے مال پر بھاری قرار دے دیا جاتا ہے۔ گویا اصل بنیاد کسی کی غربت یا امارت نہیں بلکہ جذبۂ انفاق ہے۔
اگر تمام افراد سے ایک ہی مقررہ رقم‘ فرض کیجیے ۵۰ روپے لی جائے تو ۵۰۰ افراد کے جمع ہوجانے کی شکل میں ۲۵ہزار روپے جمع ہوتے ہیں۔ اگر ۵۰ کے علاوہ ۵۰۰‘ ۵ ہزار اور ۵۰ ہزار روپے کے ٹکٹ بھی ہوں اور ۱۰‘ نہیں محض دو افراد ایسے مل جائیں جو ۵۰‘۵۰ ہزار کے ٹکٹ خرید سکتے ہوں اور ۱۰۰ ایسے جو ۵ ہزار کے اور ۴۰۰ ایسے جو ۵۰۰ کے‘ تومطلوبہ فنڈ کی شکل بالکل مختلف ہوگی۔ کم دولت والے اور زیادہ دولت والے افراد کو یکساں موقع فراہم کرنا لیکن ان سے ان کی حیثیت کے لحاظ سے توقع رکھنا‘ نہ اسلام کے منافی ہے اور نہ سرمایہ پرستی۔
جس نے کم قیمت والی جگہ کا ٹکٹ لیا ہے اسے کم اہمیت دینا‘ ایک سخت غیر اسلامی رویہ ہے۔ اس کی اصلاح بہرصورت ہونی چاہیے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہوائی جہاز میں جو فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس یا اکانومی کلاس کا ٹکٹ لے کر سفر کرتا ہے وہ بحیثیت مسافر یکساں حقوق رکھتا ہے لیکن اس کی نشست اور کھانا ٹکٹ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اسے تفریق نہیں کہا جا سکتا۔
ضمناً یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اگر فنڈ ریزنگ کی تقریب کے شرکا کو اس بات کا علم ہے کہ جو رقم وہ بطور عطیہ دیں گے اسی میں سے تقریب کا خرچ بھی نکلے گا اور بقیہ رقم جس کارِخیر کے لیے عطیہ کی جا رہی ہے اس میں استعمال ہوگی تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ فنڈ ریزنگ کے نام پر دھوم دھام سے عشائیہ جس کا خرچ فنڈ ریزنگ کی رقم کے برابر یا اس سے بڑھ جائے‘ ایک ناعاقبت اندیشانہ بات ہے اور کسی بھی بھلے انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی حماقت کرے گا۔
شرکاے محفل کو ترغیب دینا‘ انفاق پر اُبھارنا اور ان سے عطیات کا حصول ہی تو تقریب کا سبب ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر ایسے خطابات ضروری ہیں جو اس تصور میں مددگار ہوں۔ ہاں‘ ریا اور دکھاوے یا اپنے نام کے لیے کوئی رقم دینا وہ چھوٹی ہو یا بڑی‘ ایک خودفریبی ہے۔ میرے علم کی حد تک کسی بھی تقریب میں زبردستی فارم نہیں بھروائے جاتے۔ یہ سارا کام رضاکارانہ ہی ہوتا ہے جو مطلوب و مقصود ہے۔
اسلامی تحریکات میں ایک کارکن جو ۱۰ روپے اعانت دیتا ہے ایک حیثیت سے انفاق میں اس سے بڑھ کر ہے جو کروڑوں کماتا ہے اور اپیل کرنے پر ۵۰ ہزار کا ایک چیک بھیج دیتا ہے۔ آپ حضرات کو امریکہ میں خصوصاً اس کی فکر کرنی چاہیے کہ وہاں کے مادہ پرستانہ معاشرے میں محض مادی برتری کی بنیاد پر احترام نہ کیا جائے۔ اسلام نے اِکرام کی جو بنیاد ہمیں دی ہے وہ تقویٰ اور علم کی ہے۔ اس بنا پر جو متقی ہے وہ دوسروں سے افضل ہے‘ اور جو علم زیادہ رکھتا ہے وہ کم علم کے مساوی نہیں۔
۳- آپ کے سوال میں تیسری اہم چیز مخلوط محافل سے متعلق ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تشکیل کرتا ہے ‘ وہ بنیادی طور پر ایک اخلاقی معاشرہ ہے۔ ہر وہ چیز جو اخلاق کو نقصان پہنچانے والی ہو‘ اس کی نگاہ میں غیرمطلوب ہے۔ اسی لیے معاشی میدان میں سود ایک غیراخلاقی حرکت ہے۔ معاشرت میں بے حیائی ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔ گفتگو اور خطابت میں دوسرے پر چیخنا چلانا‘ برا بھلا کہنا‘ حتیٰ کہ آواز بلند کرنا‘ قرآن نے سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور ابلاغ کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ تجویز کیا ہے۔ اسی طرح ایسی محفلوں کو ناپسند کیا گیا ہے جہاں آزادانہ طور پر مرد و زن کا اختلاط ہو۔
جہاں ناگزیر شکل ہو‘ جیسے حج یا عمرہ یا مسجد نبویؐ میں نماز باجماعت‘ وہاں صرف اس حد تک اجازت ہے۔ اس بنا پر اسے عموم نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر امریکہ میں عطیات کے حصول کے لیے فیملی ڈنر کیا جائے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ بیٹھیں۔ ۱۹۶۹ء سے امریکہ میں ISNA اور ICNA کے پروگراموں میں تعلیم و ترغیب کے ذریعے کوشش کی گئی کہ کھانے پینے کا موقع ہو‘ یا کنونشن ہال میں نشست و برخاست‘ مردوں اور خواتین کی نشستیں الگ ہوں‘ اور اس میں کامیابی بھی ہوئی۔ اگر بعد کے ادوار میں کوئی اپنی ’’روشن خیالی‘‘ یا احساسِ کمتری کی بنا پر اس پر عمل نہ کرے‘ تو یہ اس کا اپنا غیر دانش مندانہ فعل ہوگا۔ میں یہ بات اس لیے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۱ء تک عدمِ اختلاط کی روایت قائم کرنے میں‘ میں خود شریک رہا ہوں۔ اس لیے جو کچھ عرض کیا گیا وہ نظری نہیں عملی بات ہے۔
ایسے بڑے اجتماعات میں جہاں ایک بڑے ہال میں کسی عملی مشکل کی بنا پر مکمل طور پر الگ انتظام ممکن نہ ہو‘ ہال کی ایک جانب خواتین اور دوسری جانب مردوں کی نشست کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ یہی چیز ہمارے تشخص اور اقدار کے فرق کو ظاہر کرے گی۔
۴- جہاں تک خواتین کے زیبایش کر کے مجالس میں جانے کا تعلق ہے‘ قرآن و حدیث نے دو ٹوک انداز میں اسے تبرج جاہلیہ سے تعبیرکیا ہے۔ پاکستانی ثقافت کے نام پر ناچ گانا نظریۂ پاکستان سے بغاوت اور اسلام کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ڈنر یا شو میں اس قسم کی سرگرمی کو حکمت اور دعوتی دل سوزی کے ساتھ بدلنے کی کوشش کرتے رہنا آپ کا دینی فرض ہے۔ کھانے کی دعوتوں میں ورائٹی کی گنجایش تو ہے لیکن اسراف قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔ اگر محض عطیات کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے‘تب بھی اسراف کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توازن پر قائم رہتے ہوئے اپنے دین کی خدمت کے مواقع فراہم کرے۔ (پروفیسر ڈاکٹرانیس احمد)