افادات ابن قیم/ اخذ و ترتیب: اطہر وقار عظیم
|
نومبر ۲۰۱۳
|
تزکیہ و تربیت
آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کون سا قدم تھا جسے اُٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندہ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس کے ظاہر و باطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن دہکتی ہوئی آگ اُس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اُس کی فطرت ثانیہ بنی۔
آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مُردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ وہ کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قوم لوطؑ کی بستیوں کو اتنا اُونچا اُٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اُس بستی کو اُلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی، اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اُوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا، جس نے قارون کو اس کے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انھوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔ آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزائوں کو نافذ کیا گیا، کبھی وہ موت کے گھاٹ اُتارے گئے، کبھی قیدوبند میں مبتلا ہوئے۔ ان کے گھر اُجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں، کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے۔ کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری اُمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں (اُم سلمہؓ) نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ان دنوں ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتائو ہوگا؟ فرمایا: عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔ (مسنداحمد)
حضرت حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اُمت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اُمت کے امرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اُمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ ، بُروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اُوپر سے اپنا ہاتھ اُٹھا لے گا۔ پھر ان کے اُوپر انھی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انھیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسولؐ اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’پانچ قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو تم اس کا شکار ہوجائو:
۱- جو قوم کھلم کھلا بُرائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انھیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔
۲- اور جو ناپ تول میں کمی کرے گا اللہ تعالیٰ انھیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔
۳- اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ انھیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔
۴- جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔
۵- اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو اللہ انھیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔ (ابن ماجہ)
اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بُرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھیریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوںکا بُرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ یہاں قرآن و سنت کی فکر کی روشنی میں گناہ کے انسانی زندگی پر مضر اثرات بیان کیے جارہے ہیں:
امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے (اپنے استاد) وکیع سے اپنے خراب حافظے کی شکایت کی۔ انھوں نے نصیحت کی کہ معصیت اور گناہ کو چھوڑ دو۔ جان لو کہ علم اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے، اور اللہ کا فضل و کرم کسی نافرمان کو نہیں دیا جاتا‘‘۔
وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ(اعراف ۷:۹۶) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بن جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
اطاعت اور معصیت کی اپنی پختہ ہیئت، صورت، کیفیت اور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے جو نیکی کرتا ہے اگر وہ نیکی کرنا چھوڑ دے تو اس کے دل میں تنگی اور درشتی پیدا ہوتی ہے۔ اُسے زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ دکھائی دینے لگتی ہے اور دلی طور پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی حالت ماہیِ بے آب کی سی ہے جو اس وقت تک تڑپتی اور مضطرب رہتی ہے جب تک کہ لوٹ کر پھر پانی میں نہ چلی جائے۔ اس کے برخلاف اگر عادی مجرم (گناہ گار) تائب ہوکر اطاعت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو دل میں عجیب سی گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کا سینہ جلتا ہے اور راستے بند نظر آتے ہیں اور یہ کیفیت اُس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ لوٹ کر پھر بُرائی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فاسق و فاجر لوگ گناہِ بے لذت کے طور پر برائیوں کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے دل میں بُرائی کے لیے کوئی خاص داعیہ اور طلب بھی نہیں ہوتی اس کے باوجود وہ بُرائی کرتے ہیں۔ اس لیے کسی عربی شاعر نے کہا ہے:
دَکَاس شربت علی لذۃٍ
وَاخُرٰی نداؤت منھا بھَا
(شراب کا ایک پیالہ تو میں نے لذت کے حصول کے لیے پیا (اس سے جو درد اُٹھا) اس کے علاج کے لیے دوا کے طور پر دوسرا پیالہ پیا)
گناھوں کو حقیر سمجہنا:کثرتِ گناہ سے انسان کے دل میں گناہ کا احساس باقی نہیں رہتا۔ گناہ اس کی نظر میں حقیر اور معمولی ہوجاتا ہے۔ یہ علامت حددرجہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے۔ کیونکہ بندے کی نظر میں گناہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اللہ کی نظر میں وہ بہت بڑا ہے۔ بخاری میں ابن مسعودؓ سے یہ روایت مذکور ہے: ’’مومن جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اُونچے پہاڑ کی گہری کھائی میں کھڑا ہے، اور ڈرتا ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اس کے سر پر نہ آگرے، اور فاسق و فاجر جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کے ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور یوں کرنے (ہاتھ ہلانے) سے مکھی اُڑ کر چلی جاتی ہو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیر گناہوں سے بچتے رہو، کیونکہ یہ گناہ جب جمع ہوجاتے ہیں تو آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں۔ جیسے ایک قوم نے کسی چٹیل میدان میں پڑائو ڈالا۔ اتنے میں کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ تب ایک شخص جاکر لکڑی لے آتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی کہیں سے لکڑی لے آتا ہے، یہاں تک کہ ڈھیر ساری لکڑیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ پھر اس کا الائو بنتا ہے اور وہ لوگ اس کے اُوپر کھانے کی چیزیں رکھ کر پکاتے ہیں۔(مسند احمد)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے اُس غیرت کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو انسان کو قبائح سے کراہت اور نفرت دلاتی ہے۔ اس کے ساتھ معافی کی پسندیدگی کو یک جا کیا ہے، جو کمالِ عدل، کمالِ رحمت اور کمالِ احسان کا مظہر ہے۔ اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ گناہوں سے جتنا زیادہ تعلق ہوگا اُتنی ہی آدمی کے دل سے غیرت نکلتی جائے گی اور وہ خود اپنے حق میں، اپنے گھر والوں اور عام لوگوں کے حق میں بے حس اور بے غیرت ہوتا جائے گا۔ اس لیے جب غیرت کا مادہ مضمحل اور کمزور ہوتا ہے تو ازخود یا کسی اور طرف سے اُسے کوئی بُرائی محسوس نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی ہلاکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بیش تر گناہ گار بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے۔ فحش کاری اور دوسروں پر مظالم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اس کو اپنانے کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔
من کل شی اذا فیعتہ عوض
وما من اللّٰہ ان فیعتہ عوض
( گم کردہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی عوض ہوسکتا ہے لیکن اگر تم اللہ کو گم کردو گے تو اس کے عوض دوسرا نہیں پائو گے)
یہ اس لیے کہ جو نعمت وہ کسی قوم کو عطا کرتا ہے اسے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْط (الرعد ۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
کسی عرب شاعر نے خوب کہا ہے:
اذا کنت فی نعمتۃ فارعھا
فان الذنوب تزیل النعم
(جب تو کسی نعمت میں ہو تو اس کی رعایت کر، اس لیے کہ گناہ نعمتوں کو زائل کردیتا ہے)
وحطھا بطاعۃ رب العباد
قرب العباد سریع النعیم
(بندوں کے پروردگار کی اطاعت کر کے اپنے گناہوں کو مٹا، کیونکہ پروردگار بہت جلد بدلہ دینے والا ہے)
اس سے زیادہ بدترین تلخ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ جب اس کا آخری وقت آتا ہے اور مالکِ حقیقی سے ملاقات ناگزیر ہوجاتی ہے، تو اس گھڑی ، اس کی زبان اور دل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور مرتے ہوئے کلمۂ شہادت نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑنے والے بہتوں کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ آس پاس بیٹھنے والوں نے جب انھیں کلمے کی تلقین کرنی چاہی اور لاالٰہ الا اللہ پڑھانا چاہا تو وہ پہلا کلمہ نہیں پڑھ پاتے۔ پس کوئی شخص خاتمہ بالخیر کی آرزو نہیں کرسکتا جس کا دل پراگندا ہو، جو اللہ سے کوسوں دُور جا پڑا ہو، اور اُس کی یاد سے غافل ہو، خواہشاتِ نفس کا غلام ہو، شہوت کے ہاتھوں بے بس ہو۔ اللہ کی یاد آئے تو اس کی زبان کانٹا بن جائے اور عبادت اور بندگی کا وقت آئے تو ہاتھ پائوں ٹھٹھر کر اس کے قابو میں نہ رہیں۔
پس گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس سے بچنا اور دُور رہنا سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ نیز گناہ اور معصیت حددرجہ مضر چیز ہے، البتہ مضر اور بُرے اثرات کے درجے الگ الگ ہیں۔ یوں بھی دنیا اور آخرت میں پھیلی ہوئی ہربُرائی اور بگاڑ کی تہہ میں گناہ اور معصیت کے بُرے اثرات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ (ماخوذ: الفوائد، ابن قیم)