افادات ابن قیم/ اخذ و ترتیب: اطہر وقار عظیم


آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کون  سا قدم تھا جسے اُٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندہ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس کے ظاہر و باطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن  دہکتی ہوئی آگ اُس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اُس کی فطرت ثانیہ بنی۔

آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مُردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ وہ  کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قوم لوطؑ کی بستیوں کو اتنا اُونچا اُٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اُس بستی کو اُلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی، اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی  قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اُوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا، جس نے قارون کو اس کے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انھوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔ آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزائوں کو نافذ کیا گیا، کبھی وہ موت کے گھاٹ اُتارے گئے، کبھی قیدوبند میں مبتلا ہوئے۔ ان کے گھر اُجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں، کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے۔ کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری اُمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں (اُم سلمہؓ) نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ان دنوں   ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتائو ہوگا؟ فرمایا: عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔ (مسنداحمد)

حضرت حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اُمت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اُمت کے امرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اُمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ ، بُروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اُوپر سے اپنا ہاتھ اُٹھا لے گا۔ پھر ان کے اُوپر انھی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انھیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسولؐ اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’پانچ قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو تم اس کا شکار ہوجائو:

۱- جو قوم کھلم کھلا بُرائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انھیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔

۲- اور جو ناپ تول میں کمی کرے گا اللہ تعالیٰ انھیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔

۳- اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ انھیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔

۴- جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔

۵- اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو اللہ انھیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔ (ابن ماجہ)

اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بُرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھیریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوںکا بُرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ یہاں قرآن و سنت کی فکر کی روشنی میں گناہ کے انسانی زندگی پر مضر اثرات بیان کیے جارہے ہیں:

  •  علم سے محرومی: علم اللہ کا نور اور اس کا دیا ہوا اُجالا ہے جسے اللہ سلیم الطبع قلب اور باضمیر روح میں اُتارتا ہے لیکن گناہوں سے یہ نور بجھ جاتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور اُن کے درس میں    شریک ہوئے تو آپ اُن کی ذہانت، ہوش مندی اور کمال سمجھ داری دیکھ کر حیران رہ گئے۔ آپ نے امام شافعیؒ سے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ اللہ نے تمھارے دل پر نور کی ضیابار کرنیں اُتاری ہیں۔ دیکھنا! اس نور کے چراغ کو گناہوں کی آندھی سے بجھا نہ دینا۔

امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے (اپنے استاد) وکیع سے اپنے خراب حافظے کی شکایت کی۔ انھوں نے نصیحت کی کہ معصیت اور گناہ کو چھوڑ دو۔ جان لو کہ علم اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے، اور اللہ کا فضل و کرم کسی نافرمان کو نہیں دیا جاتا‘‘۔

  •  برکت میں کمی:گناہوں کے ارتکاب کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ کثرتِ گناہ سے برکت مٹ جاتی ہے۔ روزی، علم و معرفت، کردار اور اطاعت و بندگی کی برکتیں مٹتی جاتی ہیں۔ چنانچہ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، اُس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ اگر نیکی سے عمر بڑھتی ہے تو    فسق و فجور اور گناہ سے اس کا اُلٹا اثر ہونا ناگزیر ہے۔ زندگی سے برکتیں ناپید ہوجاتی ہیں، اگرچہ علماے کرام میں اس امر میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک زندگی کی برکتیں زائل ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زندگی بے برکت اور بے کیف ہوکر رہ جاتی ہے۔ علما کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ کثرتِ گناہ سے زندگی کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے اور روزی میں کمی آجاتی ہے۔ اس کے برعکس پرہیزگاری اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جیساکہ ارشاد ربانی ہے:

وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ(اعراف ۷:۹۶) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بن جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

  •  ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ:ایک برائی سے دوسری برائی جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برائی کرنے کے بعد انسان اس کی گرفت سے نکلنے اور آزاد ہونے کے قابل نہیں ہوپاتا۔ ہر برائی کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی اس کے بعد دوسری برائی بھی کرتا ہے، جب کہ نیکی کا صلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملتی ہے۔ گویا جب کوئی بندہ نیک کام کرتاہے تو اس نیکی سے متصل دوسری نیکی کہتی ہے کہ مجھ پر بھی عمل کر، پھر تیسری نیکی کہتی ہے کہ مجھ پر بھی عمل کرتا جا۔ اس طرح یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ بندہ نیک بن جاتا ہے۔ بعینہٖ یہی معاملہ برائیوں کے ساتھ بھی ہے۔ ایک برائی کو چھپانے کے لیے دوسری برائی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس طرح برائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اطاعت اور معصیت کی اپنی پختہ ہیئت، صورت، کیفیت اور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے جو نیکی کرتا ہے اگر وہ نیکی کرنا چھوڑ دے تو اس کے دل میں تنگی اور درشتی پیدا ہوتی ہے۔ اُسے زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ دکھائی دینے لگتی ہے اور دلی طور پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی حالت ماہیِ بے آب کی سی ہے جو اس وقت تک تڑپتی اور مضطرب رہتی ہے جب تک کہ لوٹ کر پھر پانی میں نہ چلی جائے۔ اس کے برخلاف اگر عادی مجرم (گناہ گار) تائب ہوکر اطاعت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو دل میں عجیب سی گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کا سینہ جلتا ہے اور راستے بند نظر آتے ہیں اور یہ کیفیت اُس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ لوٹ کر پھر بُرائی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فاسق و فاجر لوگ گناہِ بے لذت کے طور پر برائیوں کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے دل میں بُرائی کے لیے کوئی خاص داعیہ اور طلب بھی نہیں ہوتی اس کے باوجود وہ بُرائی کرتے ہیں۔ اس لیے کسی عربی شاعر نے کہا ہے:

دَکَاس شربت علی لذۃٍ
وَاخُرٰی نداؤت منھا بھَا

(شراب کا ایک پیالہ تو میں نے لذت کے حصول کے لیے پیا (اس سے جو درد اُٹھا) اس کے علاج کے لیے دوا کے طور پر دوسرا پیالہ پیا)

 گناھوں کو حقیر سمجہنا:کثرتِ گناہ سے انسان کے دل میں گناہ کا احساس باقی نہیں رہتا۔ گناہ اس کی نظر میں حقیر اور معمولی ہوجاتا ہے۔ یہ علامت حددرجہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے۔ کیونکہ بندے کی نظر میں گناہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اللہ کی نظر میں وہ بہت بڑا ہے۔ بخاری میں ابن مسعودؓ سے یہ روایت مذکور ہے: ’’مومن جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اُونچے پہاڑ کی گہری کھائی میں کھڑا ہے، اور ڈرتا ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اس کے سر پر نہ آگرے، اور فاسق و فاجر جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کے ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور یوں کرنے (ہاتھ ہلانے) سے مکھی اُڑ کر چلی جاتی ہو‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیر گناہوں سے بچتے رہو، کیونکہ یہ گناہ جب جمع ہوجاتے ہیں تو آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں۔ جیسے ایک قوم نے کسی چٹیل میدان میں پڑائو ڈالا۔ اتنے میں کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ تب ایک شخص جاکر لکڑی لے آتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی کہیں سے لکڑی لے آتا ہے، یہاں تک کہ ڈھیر ساری لکڑیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ پھر اس کا الائو بنتا ہے اور وہ لوگ اس کے اُوپر کھانے کی چیزیں رکھ کر پکاتے ہیں۔(مسند احمد)

  •  وحشت اور گہبراھٹ کا احساس:گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ہمیشہ اَن دیکھے خوف، پریشانی اور گھبراہٹ سے دوچار رہتا ہے۔ یہ ڈر اور گھبراہٹ اسے اپنے اور اپنے رب کے درمیان اتنی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی لذت اور راحت نہ اسے مزا دیتی ہے اور نہ کسی قسم کا آرام پہنچانے دیتی ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کا صحیح اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کے اندر ایمان کی رمق ہو، ورنہ جس کے دل پر مہر لگ جائے تو اسے کہاں احساس ہوگا؟ اس لیے دانا اور ہوش مند کے لیے پہلی فرصت میں یہی مناسب ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے۔
  •  دلوں پر مُھر:گناہوں کی کثرت سے گنہگار کے دل پر مُہر لگ جاتی ہے اور اس کا شمار غافلوں میں ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  کَلَّا بَلْ  رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo (المطففین۸۳:۱۴) ’’نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کی بداعمالیوں کا زنگ چڑھ گیا‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ گناہوں کے سبب دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ گناہ گار جتنا زیادہ گناہ کرتا ہے، زنگ بھی اتنا بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد گناہ بکثرت کرنے سے گناہ فطرت ثانیہ بن جاتا ہے اور دل پر اللہ کی طرف سے مُہر لگادی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دل کے گرد غلاف اور پردہ کھنچ جاتا ہے۔ اس طرح جو ہدایت اور بصیرت اللہ کی طرف سے میسر ہوتی ہے وہ اس سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔
  •  اللّٰہ کے سامنے ذلت:گناہوں اور معصیت کے ارتکاب سے بندہ اپنے رب کے سامنے ذلیل  ہوجاتا ہے اور اُس کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ گناہ گاروں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے ذلیل و خوار ہوکر اپنے رب کی نافرمانی کی اور اگر اپنی    عزتِ نفس کا انھیں ذرا بھی احساس ہوتا تو اللہ تعالیٰ بھی انھیں گناہوں سے محفوظ رکھتا۔ جب بندہ ازخود ذلیل و خوار ہوگا تو بھلا کون اس کا احترام کرے گا۔وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ (الحج ۲۲:۱۸) ’’اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے‘‘۔
  •  قوتِ ارادی میں کمزوری:مسلسل گناہوں کے ارتکاب سے برائی کا ارادہ نمو پاتا ہے۔ پرہیزگاری پر مبنی زندگی گزارنے کا ارادہ آہستہ آہستہ مضمحل اور کمزور ہوتا جاتا ہے۔ یوں ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب توبہ کا خیال یکسر دل سے نکل جاتا ہے۔ پھر دل میں مایوسی، اُداسی، سستی اور نیم مردنی کے گھر کرلینے کی وجہ سے بندگی کا حق ادا کرنے کا حوصلہ کیسے باقی رہ سکتا ہے۔ ایسے حال میں توبہ و استغفار کی بھی جائے تو وہ بھی عموماً جھوٹ پر مبنی اور زبانی کلامی ہوگی، کیونکہ دل میں کثرتِ گناہ کی وجہ سے یہ خیال ہر وقت انگڑائیاں لے رہا ہوتا ہے کہ کوئی موقع ملے اور گناہ کرگزرے اور اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرے۔
  •  رسولؐ اللّٰہ کی طرف سے لعنت:مسلسل گناہوں کے ارتکاب اور اصرار کی وجہ سے انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ملعون ہوجاتا ہے، اور امکان بڑھ جاتا ہے کہ روزِقیامت وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم رہ جائے گا کیونکہ حضرت محمدؐ نے گناہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور جو گناہ جتنا بڑا ہوگا اس کا مرتکب اس کے وبال میں گرفتار ہوگا۔ احادیث سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ وہ عورت جو گودنے والی ہو، گدانے والی ہو، بال جوڑنے والی ہو، جڑوانے والی ہو، بال اکھیڑنے والی ہو، دانتوں کو باریک کرنے والی ہو، ان سب پر لعنت ہے۔ اسی طرح آپؐ نے سود کھانے والے پر، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے، اس کی گواہی دینے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ اسی طرح چور، شرابی، شراب کشید کرنے والے، نچوڑنے والے، اس کو بیچنے اور خریدنے والے پر لعنت بھیجی ہے، اور جس کی طرف پہنچائی جارہی ہو اُس پر بھی لعنت ہے۔ اس طرح اپنے والدین پر جو کوئی لعنت بھیجے، اس کے اُوپر بھی لعنت ہے۔ کسی جان دار ذی روح کو باندھ کر اذیت پہنچانے کی غرض سے نشانہ بازی کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے۔ مخنث (ہیجڑا) بننے والے مردوں اور مردوں کا روپ اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت ہے۔ دین میں   نئی بات یا بدعت ایجاد کرنے والے پر لعنت ہے۔ جان داروں کی تصویریں، اغلام بازی (ہم جنسیت) اور بیوی سے دبر سے مجامعت کرنے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اندھے کو غلط راستے پر ڈالنے اور چوپاے سے جفتی کرنے والے پر لعنت ہے۔ قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور بیوی کو خاوند یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف ورغلانے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ رشوت لینے والے، دینے والے اور اس کے لین دین میں درمیانی کردار ادا کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے۔
  •  رسولؐ اور فرشتوں کی دعاؤں سے محرومی:گناہوں کا مرتکب اللہ کے رسولؐ اور فرشتوں کی دعائوں سے محروم ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ وہ مومن مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اس طرح فرشتے بھی اُن مومنین کے حق میں دعائیں کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، توبہ کرتے ہیں ، کتاب و سنت کی پیروی کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ان کی پیروی کے علاوہ کوئی اور راستہ صراطِ مستقیم کے طور پر موجود نہیں ہے۔
  •  غیرت اور حمیت سے محرومی:گناہوں کے انسان کے حق میں مضر اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دل کے اندر سے غیرت اور حمیت کی حرارت بجھ جاتی ہے، جب کہ دل کی زندگی، سرگرمی اور پاکیزگی کے لیے غیرت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ غیرت کی تپش اور سوزش سے ہی دل کا زنگ اور میل کچیل اُترتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ اعلیٰ و اشرف ہوتے ہیں جو عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ غیرت مند حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان سے بھی زیادہ غیرت مند اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ صحیح حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’کیا تم سعدؓ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ ہمیں ان سے زیادہ غیرت ہے اور اللہ ہم سے بھی زیادہ باغیرت ہے‘‘۔ صحیح حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ: اللہ سے بڑھ کر کسی کو غیرت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اس نے ظاہر اور پوشیدہ تمام فحش کاریوں کو حرام قرار دے دیا ہے اور معافی اور معذرت جتنی اللہ کو پسند ہے کسی اور کو پسند نہیں۔اس لیے اس نے پیغمبروں کو بھیجا جو بشارت دیتے ہیں، ڈراتے ہیں، اور تعریف جتنی اللہ کو پسند ہے کسی اور کو پسند نہیں ہے اس لیے اُس نے خود اپنی تعریف کی ہے۔

اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے اُس غیرت کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو انسان کو قبائح سے کراہت اور نفرت دلاتی ہے۔ اس کے ساتھ معافی کی پسندیدگی کو یک جا کیا ہے، جو  کمالِ عدل، کمالِ رحمت اور کمالِ احسان کا مظہر ہے۔ اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ گناہوں سے جتنا زیادہ تعلق ہوگا اُتنی ہی آدمی کے دل سے غیرت نکلتی جائے گی اور وہ خود اپنے حق میں، اپنے گھر والوں اور عام لوگوں کے حق میں بے حس اور بے غیرت ہوتا جائے گا۔ اس لیے جب غیرت کا مادہ مضمحل اور کمزور ہوتا ہے تو ازخود یا کسی اور طرف سے اُسے کوئی بُرائی محسوس نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی ہلاکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بیش تر  گناہ گار بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے۔ فحش کاری اور دوسروں پر مظالم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو  اس کو اپنانے کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔

  •  شرم و حیا سے محرومی:گناہوں کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ حیا کا مادہ ختم ہوجاتا ہے، حالانکہ دلوں کی زندگی کے لیے شرم و حیا کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ حیا ہر خیر اور بھلائی کا جز ہے۔ اس لیے صحیح حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے کہ: ’’حیا سراپا خیر ہے۔ لوگوں کو پہلی نبوتوں کی جو باتیں معلوم ہو سکیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تمھارے اندر شرم و حیا نہیں، تو جو چاہو کرو‘‘۔ اس حدیث کی حضرت ابوعبیدہؓ نے شرح بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’اس کا مطلب ہے جس کے اندر شرم و حیا کا مادہ ہو وہ برائیوں سے شرم و حیا کی وجہ سے بھی باز رہتا ہے‘‘۔
  •  خدافراموشی، خود فراموشی:کثرتِ معصیت اور گناہ کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ معصیت یہ چاہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو فراموش کردے اور اسے شیطان کا آلۂ کار اور شکار ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دے۔ اس لیے آدمی کے لیے خدافراموشی اور خودفراموشی سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہوسکتی۔ ایسا تغافل جس میں وہ بارگاہ خداوندی سے یکسر اپنا حصہ بھی فراموش کرجائے اور جو کچھ اسے اللہ کی طرف سے عطا ہونے والا ہے اُس سے محروم کردیا جائے، تو پھر اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے! گناہ گار ان اَنمول نعمتوں کو غبن، دھوکا دہی اور معمولی مادی منفعت کے بدلے بیچ دیتا ہے۔ کسی عربی شاعر کا قول ہے:

من کل شی اذا فیعتہ عوض
وما من اللّٰہ ان فیعتہ عوض

( گم کردہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی عوض ہوسکتا ہے لیکن اگر تم اللہ کو گم کردو گے تو اس کے عوض دوسرا نہیں پائو گے)

  •  نعمتوں کا چہن جانا:گناہوں کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں گناہ گاروں سے چھین لی جاتی ہیں۔ آدمی سزا اور انتقام کی زد میں آجاتا ہے اور پھر اُس فرد یا قوم کو عذاب سے دوچار کر کے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ جیساکہ سورئہ شوریٰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍo (۴۲:۲۹)’’تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کرجاتا ہے‘‘۔

یہ اس لیے کہ جو نعمت وہ کسی قوم کو عطا کرتا ہے اسے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْط (الرعد ۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔

کسی عرب شاعر نے خوب کہا ہے:

اذا کنت فی نعمتۃ فارعھا
فان الذنوب تزیل النعم

(جب تو کسی نعمت میں ہو تو اس کی رعایت کر، اس لیے کہ گناہ نعمتوں کو زائل کردیتا ہے)

وحطھا بطاعۃ رب العباد
قرب العباد سریع النعیم

(بندوں کے پروردگار کی اطاعت کر کے اپنے گناہوں کو مٹا، کیونکہ پروردگار بہت جلد بدلہ دینے والا ہے)

  •  انسانی بزرگی میں فرق:معصیت کا ارتکاب کرلینے کے بعد گناہ گار سے تعریف و توصیف اور روح کے سب نام چھین لیے جاتے ہیں اور ان پر بدنامی اور ظلم و زیادتی کا لیبل چڑھ جاتا ہے۔ اس کے نام سے صاحب ِ ایمان ، پارسا، نیکوکار، پرہیزگار، فرماں بردار، خاصۂ خدا، عابد و زاہد، صالح، توبہ کرنے والا، بار بار اللہ کی طرف متوجہ ہونے والا، راضی برضا اور پاک باز جیسے القاب  نکل جاتے ہیں۔ اس کے بجاے فاسق و فاجر، سرکش، بدکار، فسادی، خبیث، راندۂ درگاہ، زناکار، چور، جھوٹا، قاتل، خائن، اغلام بازی کرنے والا، قطع رحمی کرنے اور دھوکا دینے والے کے القاب  اس کو دے دیے جاتے ہیں اور ظاہر ہے یہ سب گناہ کے نام ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:    بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ (الحجرات ۴۹:۱۱) ’’ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری عادت ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ گناہوں کے ان ناموں کو اپنانے سے    مالکِ حقیقی کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے، جس کے نتیجے میں جہنم کا گڑھا گناہ گاروں کا ٹھکانا ہوتا ہے۔ جہاں ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنتی ہے۔
  •  حکمت اور دانش سے محرومی:گناہ اور معصیت کی ایک سزا یہ بھی ملتی ہے کہ اس کی وجہ سے فرد صحیح حکمت اور حقیقی دانش سے محروم ہوجاتا ہے اور اپنی بنیادی ضرورتوں میں، اور ترجیحات میں توازن کو کھو دیتا ہے حالانکہ دنیا اور آخرت میں کس چیز سے نفع ہوسکتا ہے اور کس چیز سے نقصان، اس سے واقفیت کی ضرورت ہرکسی کو ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام میں سب سے زیادہ ہوش مند وہ ہوتا ہے جسے اپنے نفس اور قوتِ ارادی پر کامل کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ مفید کاموں سے منسلک اور مضر کاموں سے بچتا ہے۔ اگرچہ بلند حوصلگی، مقام ہمت اور مرتبے کے لحاظ سے مختلف لوگوں میں فرق موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہوش مند اور ماہر اُسے ہی سمجھا جاتا ہے جو نیک بختی اور بدبختی کی درمیانی صورتوں کو سمجھتا ہے اور ان کے اثراث سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر معصیت کا ارتکاب ہوتو انسان کی طرف سے اللہ کی نعمت کی بے قدری اور خیانت سمجھی جائے گی، چنانچہ گناہوں کی بہتات سے انسان کمال، عمل اور آگاہی کے عمل کو روک دیا جاتا ہے جس میں دنیا اور آخرت کا مفاد مضمر ہے۔ اس حالت میں، اس کے بعد اس کا دل، اس کی خواہشات ، اس کے اعضا و جوارح سب اس کو دھوکا دیتے ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے جو شمشیر بکف ہو، لیکن اس کی تلوار کی دھار کُند ہو یا نیام میں بُری طرح پھنس کر رہ گئی ہو۔ جب بھی اس کو نکالنے کی کوشش کرتا ہو تو اس میں اُلجھ کر رہ جاتا ہو۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال میں دشمن بڑھ کر اس پر حملہ کردے گا اور اس کا کام تمام کردے گا۔ اس طرح دل پر جب گناہوں کی کثرت کی وجہ سے داغ ہوں تو دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اس حال میں اگر دشمن اس پر حملہ کردے، تو اس کا منہ توڑ جواب دینے کی اس کے اندر سکت نہیں رہتی۔

اس سے زیادہ بدترین تلخ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ جب اس کا آخری وقت آتا ہے اور مالکِ حقیقی سے ملاقات ناگزیر ہوجاتی ہے، تو اس گھڑی ، اس کی زبان اور دل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور مرتے ہوئے کلمۂ شہادت نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑنے والے بہتوں کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ آس پاس بیٹھنے والوں نے جب انھیں کلمے کی تلقین کرنی چاہی اور لاالٰہ الا اللہ پڑھانا چاہا تو وہ پہلا کلمہ نہیں پڑھ پاتے۔ پس کوئی شخص خاتمہ بالخیر کی آرزو نہیں کرسکتا جس کا دل پراگندا ہو، جو اللہ سے کوسوں دُور جا پڑا ہو، اور اُس کی یاد سے غافل ہو، خواہشاتِ نفس کا غلام ہو، شہوت کے ہاتھوں بے بس ہو۔ اللہ کی یاد آئے تو اس کی زبان کانٹا بن جائے اور عبادت اور بندگی کا وقت آئے تو ہاتھ پائوں ٹھٹھر کر اس کے قابو میں نہ رہیں۔

پس گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس سے بچنا اور دُور رہنا سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ نیز گناہ اور معصیت حددرجہ مضر چیز ہے، البتہ مضر اور بُرے اثرات کے درجے الگ الگ ہیں۔ یوں بھی دنیا اور آخرت میں پھیلی ہوئی ہربُرائی اور بگاڑ کی تہہ میں گناہ اور معصیت کے بُرے اثرات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ (ماخوذ: الفوائد، ابن قیم)