پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۱۳ | شذرات
دہشت گردی کی جس آگ میں ملک گذشتہ ۱۲سال سے جل رہا ہے اور جس آگ کی تپش بڑھتی ہی جارہی ہے، اس سے نجات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسئلہ مختلف وجوہ سے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود دہشت گردی کی نوعیت کو سمجھنے میں بڑا ذہنی انتشار ہے جسے بیرونی طاقتوں اور خصوصیت سے امریکا کے کردار اور مفادات نے اور بھی اُلجھا دیا ہے۔
ملک میں برپا دہشت گردی کے ایک بڑے حصے کا تعلق امریکا کی افغانستان میں برپا نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کی جونیئر پارٹنر کے طور پر شرکت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے عسکری اور سیاسی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور امریکا کے افغانستان سے انخلا اور مسئلے کے سیاسی حل کے بغیر عسکریت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ دہشت گردی جس کی لپیٹ میں اس وقت پورا ملک آچکا ہے، اس میں کچھ دوسرے عناصر اور قوتیں بھی شریک ہیں اور ان میں علیحدگی پسند تحریکوں، علاقائی مفادات کا کھیل کھیلنے والی قوتوں، مذہبی اور مسلکی منافرت پھیلانے والے عناصر، بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے تخریب کاروں اور پیشہ ور مجرموں، سب کا کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کی چھتری تلے ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا اس انداز میں مقابلہ کیا جاسکے جس کا وہ تقاضا کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں بالآخر امن و امان بحال ہوسکے۔
ان حالات میں ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس نے متفقہ طور پر جو رہنمائی فراہم کی ہے، وہ بڑی حقیقت پسندانہ ہے مگر حکومت نے اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے آج تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے، جب کہ مخالف قوتیں اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک طرف امریکا اور اس کے گماشتوں کا کردار ہے جو فکری اور عملی، دونوں محاذوں پر سیاسی عمل کو پٹڑی سے اُتارنے (de-rail کرنے) میں مصروف ہیں تو دوسری طرف کچھ عسکریت پسند گروہ بھی حالات کو بگاڑنے کے لیے بڑی چابک دستی کے ساتھ تباہ کاریوں اور خون خرابے میں سرگرم ہیں۔ ادھر حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے شعور اور زمینی حالات کے اِدراک کے ساتھ ایک فعال پالیسی اختیار کرنے کے بجاے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے اور ہمت اور حکمت دونوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے۔
ان حالات میں ایک طرف وزیراعظم صاحب امریکا تشریف لے گئے ہیں اور دوسری طرف ان کی حکومت نے ۱۵ دن کے اندر دو آرڈی ننس نافذ فرمائے ہیں جن میں سے ایک کے ذریعے ۱۹۷۹ء کے دہشت گردی کے خلاف قانون میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں، اور دوسرے نئے آرڈی ننس کا عنوان ہے: تحفظ پاکستان (Protection of Pakistan) آرڈی ننس ۲۰۱۳ء۔ اس کا ہدف حکومت کی رٹ قائم کرنا اور ان عناصر کی سرکوبی کرنا ہے جن کو ملک دشمن تصور کیا جائے۔
دہشت گردی کے حوالے سے جو بھی قوانین ملک میں رائج ہیں، ان پر ضرورت کے مطابق نظرثانی کوئی معیوب شے نہیں بلکہ کچھ حالات میں مطلوب بھی ہے لیکن تین چیزیں ایسی ہیں جو تشویش کا باعث ہیں اور بڑے بڑے سوالیہ نشان اُٹھا رہی ہیں:
۱- ان قوانین کے نفاذ کا وقت ۔
۲- دستور اور جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا راستہ ترک کرکے ۱۵ دن میں تابڑتوڑ دو آرڈی ننسوں کے ذریعے ان کا نفاذ۔
۳- ان قوانین میں دستور میں طے کردہ اصولوں اور حدود کی نزاکتوں کو نظرانداز کرکے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے ایسے بے قید اختیارات کا حصول جو بنیادی حقوق اور دستور کی دفعہ ۱۰ (الف) میں ضمانت دیے ہوئے due process of law (ضروری قانونی عمل) کے حق سے ہم آہنگ نہیں۔ان تینوں نکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ۱۰؍اکتوبر اور ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو نافذ کیے جانے والے دونوں آرڈی ننسوں میں جو اختیارات حاصل کیے گئے ہیں اور نظامِ عدل اور قانون کا جو نقشہ ان کے تحت بنتا ہے، اسے سمجھ لیا جائے۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے تحت رنگ، نسل، قومیت یا مذہب سے قطع نظر خوف و ہراس پھیلانے اور دہشت گردی کے مرتکب یا اس کا قصد کرنے والے افراد کو ریاست کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ ایسے افراد کو محض سرکاری اطلاعات کی بنیاد پر گرفتار کیا جاسکتا ہے اور تین مہینے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس آرڈی ننس کے تحت دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات میں سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے تعاون کرسکیں گے اور گمان غالب کی بنیاد پر بھی کارروائی ہوسکے گی، نیز قانون نافذ کرنے والے افراد کو وارنٹ کے بغیر تلاشی اور ہرمقام تک رسائی کا اختیار حاصل ہوگا، اور مزاحمت کی شکل میں یا اس کے خدشے کی صورت میں بھی قوت کے استعمال کا استحقاق ہوگا۔ پھر جن پر جرم ثابت ہو، ان کو کڑی سزا دی جاسکے گی جو کم از کم ۱۰سال قید پر مشتمل ہوگی۔ سنگین مجرموں کے لیے خصوصی جیلیں بنیں گی۔ مخصوص جرائم کے مقدمات کے جلد اندراج اور فوری تحقیقات کے لیے الگ تھانے ہوں گے اور آرڈی ننس کی دفعہ۳۷کے تحت ان مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی وفاقی عدالتیں تک قائم کی جائیں گی۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ سول اور فوجی اہل کاروں کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور احتساب اور نگرانی کا کوئی نظام اس نئے قانون کا حصہ نہیں ہے۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس سے ۱۰ دن پہلے جو آرڈی ننس اینٹی ٹیررزم ایکٹ میں بنیادی ترامیم کے لیے نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت گواہوں کو اور عدلیہ کو خصوصی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور نئی ٹکنالوجی کو تفتیش کے لیے استعمال کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے جس میں وڈیوٹیپس اور فرانزک شواہد کو بطور شہادت استعمال کرنا شامل ہے۔ اسی طرح وڈیو لنکس کے ذریعے مقدمات کی سماعت کی گنجایش پیدا کردی گئی ہے اور حکومت کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی علاقے میں درج دہشت گردی کے کسی بھی مقدمے کو ملک کی کسی بھی عدالت میں منتقل کرسکتی ہے۔
ان قوانین کے تحت ان تمام قانون نافذ کرنے والے افراد اور اداروں کو جس کا تعلق رینجرز، فرنٹیئرکور ، فرنٹیئر کانسٹیبلری یا کسی بھی دوسرے ادارے سے ہو، ان کو پولیس کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ بھتہ خوری، اغوا براے تاوان، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ہی نہیں، خوف و ہراس پھیلانے والے عناصر کو بھی اپنی گرفت میں لے سکیں گے۔
بلاشبہہ دہشت گردی اور اس کی مختلف شکلوں سے نبٹنے کے لیے قانون کا مؤثر ہونا اور قانون نافذ کرنے والوں، گواہی دینے والوں اور عدلیہ کو معقول اور قرارواقعی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن جتنا یہ پہلو اہم ہے اتنا ہی اہم یہ پہلو بھی ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کے تحت مکمل انصاف کے حصول کو یقینی بنایا جائے اور قانون کے غلط استعمال کے ہردروازے کو بند کردیا جائے۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ایک گھنائونا جرم ہے، لیکن دہشت گردی اور خوف و ہراس پھیلانے کے نام پر ایک بھی معصوم انسان کا نشانہ بنایا جانا بھی اتنا ہی گھنائونا جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناسب checks & balance کے بغیر اورہر کسی کے لیے قانون کے اندر جواب دہی (accountability) کے مؤثر نظام کے بغیر معاشرے میں نہ عدل قائم ہوسکتا ہے اور نہ امن و امان اور عزت اور جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں میں توازن ضروری ہے۔
یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں مسلسل بگاڑ کے باعث جس طرح عوام کے ایک حصے میں جرم کے رجحانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن افراد اور اداروں پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، ان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شتربے مہار بن گئے ہیں اور کرپشن اور ظلم و زیادتی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ عوام دونوں طرف سے پس رہے ہیں___ مجرموں کا بھی وہ نشانہ ہیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے افراد میں ایسے لوگ خاصی تعداد میں موجود ہیں جو آلۂ ظلم بن گئے ہیں اور عملاً اپنے کو قانون سے بالا تصور کرتے ہیں بلکہ ان کا زعم ہے کہ وہ خود ہی قانون ہیں___ معاذاللہ!
یہی وجہ ہے کہ جس قسم کے غیرمعمولی وسیع اختیارات ان آرڈی ننسوں میں سرکاری اہل کاروں کو دیے گئے ہیں، ان پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خصوصی وفاقی عدالتوں کے قیام کا جو تصور ان میں دیا گیا ہے، اور وفاقی نظام میں نئے پولیس اسٹیشنوں اور خصوصی جیلوں کے قیام کی بات کی گئی ہے، وہ اپنے اندر بڑے دُوررس مضمرات رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دو متوازی نظام ہاے عدل کے قائم ہونے کا خطرہ ہے جو دستور کے واضح ڈھانچے سے متصادم ہوگا، اور جس کی کوشش اس سے پہلے بارھویں ترمیم کی شکل میں میاں نواز شریف کے پہلے دورِحکومت میں کی گئی تھی مگر پارلیمنٹ اور عدالت دونوں نے اسے رد کردیا تھا۔
اس تلخ تجربے کے باوجود اس نئے آرڈی ننس کے ذریعے ایک ایسی تجویز کو کتابِ قانون میں داخل کرنا جس کے دُور رس منفی اثرات ہوں، حکمت اور عدل دونوں کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا۔ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں۔ اگر ان کی تعداد کم ہے تو انھیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر ان میں کچھ دوسری اصلاحات کی ضرورت ہے تو وہ بھی اس قانون کے دائرے میں ہی کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ایک طرف صوبائی قانون کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں ہوں اور دوسری طرف وفاقی عدالتیں ہوں اور فیڈریشن کو یہ اختیار بھی ہو کہ جس مقدمے کو جس عدالت اور جس صوبے سے جہاں چاہے منتقل کردے، اس میں بڑے خطرات پوشیدہ ہیں۔ ہماری نگاہ میں یہ دروازہ کھولنا محلِ نظر ہے۔
ان دونوں آرڈی ننسوں کو دستور کی متعلقہ دفعات اور عدل و انصاف اور ہرفرد کے بنیادی حقوق اور حق دفاع کی دستوری ضمانتوں کی میزان پر پرکھنا ہوگا۔ نیز فیڈریشن کے مسلّمہ اصولوں اور خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم کے بعد جو نقشہ مرکز اورصوبوں کے اختیارات کا بنا ہے، اس کسوٹی پر بھی ان کو پرکھنا ہوگا۔ جلدبازی میں اور دہشت گردی کا ہوّا دکھاکر ایسی قانون سازی جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو، جمہوریت اور اسلام دونوں کے مقاصد اور مزاج سے متصادم ہوگی۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں دہشت گردی کو قانون کے ذریعے ختم کرنے اور فوج داری قانون کے ذریعے اس کا مقابلہ کرکے معروف راستے سے ہٹ کر جارج بش اور امریکی انتظامیہ کے وضع کردہ War Paradigm (بہ مثل جنگ)کو بھی پہلی مرتبہ پاکستان کی کتابِ قانون میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے کسی شکل میں بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور ایک جرم ہی کی حیثیت سے اس کا قلع قمع کیا جانا چاہیے۔ اسے جنگ قرار دے کر انتظامیہ کے لیے شتربے مہار بن جانے کے مواقع فراہم کرنا بے حد خطرناک ہے، اور امریکا نے جو کچھ گذشتہ ۱۲برسوں میں کیا ہے اس کی موجودگی میں یہ کوشش کہ ہماری کتابِ قانون میں بھی یہ تصور جگہ پالے، بے حد خطرناک اور ناقابلِ قبول ہے۔ اس آرڈی ننس میں جس طرح دہشت گردی کو Waging of war against Pakistan کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، وہ اپنے اندر بہت دُوررس مضمرات رکھتا ہے۔ اسی طرح قوت کے استعمال کے لیے ہونے والے جرم کے معقول خدشے (reasonable apprehension of a scheduled offence)کو کافی قرار دے دیا گیا ہے۔ قوت کے استعمال کا یہ اختیار بھی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے اندر بڑے خدشات لیے ہوئے ہے۔ بلاشبہہ خاطرخواہ تنبیہہ (sufficient warning) کی بات بھی کہی گئی ہے لیکن محض خدشے کی بنیاد پر قوت کا ایسا استعمال جس میں جان ضائع ہوجائے، ایک ایسا اختیار ہے جس کے غلط استعمال کا بڑا خطرہ ہے اور جو ظلم و زیادتی کا راستہ کھولنے کا باعث ہوسکتا ہے جیساکہ ’مقابلہ میں مارے جانے‘ کے نام پر ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
اسی طرح جہاں جرم کے ثبوت کے لیے نئی ٹکنالوجی کا استعمال مفید ہوسکتا ہے، وہیں یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری اداروں کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ معاشرے کے تمام افراد کی نجی زندگی (privacy) کو مجروح کرنے کے حربے استعمال کریں اور ٹیلی فون اور ای میل میں مداخلت کریں جس کے نتیجے میں ایک مہذب معاشرہ ایک پولیس اسٹیٹ بن جاتا ہے۔ فرد کی آزادی ایک سراب بن جاتی ہے اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے، اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں امریکا نے جس طرح خود اپنے شہریوں اور دنیا کے دوسرے انسانوں، اداروں اور حکومتوں کے ڈھکے اور چھپے سب ہی معاملات تک پر جاسوسی کے ذرائع سے رسائی حاصل کی ہے اس نے خود مغربی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ وکی لیکس اور اب سنوڈین کے ذریعے جو معلومات سامنے آئی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے دوست اور دشمن، سب ہی کی نجی زندگی کو پامال کیا ہے، اور دوسروں کے گھروں ہی تک رسائی نہیں حاصل کی ہے بلکہ حکومتوں کے پالیسی سازی کے اداروں کو بھی اپنی الیکٹرانک مداخلت کا نشانہ بنایا ہے جس پر امریکا کے قریب ترین دوست ملک بھی چیخ اُٹھے ہیں۔ ان دونوں آرڈی ننسوں میں شہادت کے لیے جن چیزوں کو معتبر کہا گیا ہے اس سے یہاں بھی ایک غلامانہ ریاست (servilliance state) کے قیام کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے لیکن اس باب میں صحیح حدود کا تعین بھی ضروری ہے جس کا کوئی اشارہ ان قوانین میں نظر نہیں آتا۔
ہم حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان، وکلابرادری اور خصوصیت سے انسانی حقوق کی علَم بردار تنظیموں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان قوانین پر انسانی حقوق اور عدل اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں غور کریں اور محض طالبان دشمنی کے جذبے میں قانون میں ایسی چیزوں کو دَر آنے کا موقع نہ دیں جو معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دیں، اور جو ریاست کے اداروں کو حقوق کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دیں۔ یاد رہے کہ آج نشانہ جو بھی ہو، کل ہم میں سے ہر ایک بھی نشانے پر آسکتا ہے۔ اس وقت تو ہمارے وہ دوست جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں بڑے جوش سے کہہ رہے ہیں کہ ’’طالبان کو مارو اور بھسم کردو‘‘ لیکن ریاست کو مضبوط کرنے(strengthening of the State) کے نام پر جو اختیارات ان اداروں کو آج آپ دے رہے ہیں، کل وہ کس کس کے خلاف اور کہاں کہاں استعمال ہوسکتے ہیں، اس سے خدارا صرفِ نظر نہ کریں۔
ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان دونوں قوانین کو آرڈی ننس کے ذریعے ملک پر مسلط کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ۱۱مئی کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے چار اجلاس ہوچکے ہیں۔ قانون سازی کے باب میں موجودہ اسمبلی کی اب تک کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ ان چار ماہ میں اسمبلی میں صرف تین سرکاری بل قانون سازی کے لیے تجویز کیے گئے ہیں، جب کہ حکومت کے تین کے مقابلے میں چار پرائیویٹ بل غور کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ گو ابھی تک سرکاری یا غیرسرکاری کوئی ایک بھی بل کتابِ قانون کا حصہ نہیں بن سکا ہے۔ توقع ہے کہ ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے والا ہے۔ ایسی کیا عجلت تھی کہ دو ہفتے کے عرصے میں دو آرڈی ننس جاری کردیے گئے اور ایک ہفتہ مزید انتظار نہیں کیا گیا کہ اسمبلی ان قوانین پر پوری طرح غوروخوض کرلیتی، کمیٹیوں میں ان پر تفصیلی بحث ہوسکتی۔ پریس اور پبلک دونوں ہی کے لوگ ان قوانین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور اس طرح افہام و تفہیم اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کے تعاون سے مناسب قانون سازی کی جاسکتی۔
ماضی میں ہم سب نے بشمول مسلم لیگ (ن) آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم میں آرڈی ننس کی تجدید کے بارے میں کچھ پابندیاں بھی اس طریقِ قانون سازی کو مشکل بنانے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کو نظرانداز کر کے اس ناپسندیدہ طریقے کو جس کا جواز صرف حقیقی ایمرجنسی میں ہی ہوسکتا ہے ، اختیار کیا گیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں تو یہ عجیب و غریب تضاد بھی موجود ہے کہ ایک طرف اسے فوری طور پر اور پورے ملک میں آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس کے عملی نفاذ کے معاملے کو کھلا چھوڑ دیاگیا ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی کوئی فوری ایمرجنسی نہیں تھی کہ اسے اسمبلی سے بالا ہی بالا نافذ کردیا جائے۔ ملاحظہ ہو دفعہ ۳، جس میں صاف لکھا ہے کہ:’’یہ ایسی تاریخ یا تاریخوں سے نافذالعمل ہوگا جو وفاقی حکومت اس بارے میں طے کرے، نیز اس آرڈی ننس کی مختلف شقوں کے نفاذ کے لیے مختلف تاریخیں بھی مقرر کی جاسکتی ہیں‘‘۔
اختیارات تو لے لیے گئے ہیں لیکن نفاذ کو ابھی معلق رکھا گیا ہے، گویا ان کے استعمال کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی۔ اس وقت جلدی میں پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر غیرمعمولی اختیار لے لیا گیا ہے اور اب یہ مرکزی حکومت کی صواب دید ہے کہ اس کو جب اور جتنا نافذ کرنا ہو، کرسکے۔ اگر فوراً ہی اسے نافذ نہیں کیا جارہا تو پھر ایسی جلدی کیا تھی کہ اسمبلی کو نظرانداز (bypass) کیا جائے اور جو قانون اسمبلی کے ذریعے چند ہفتوں میں منظور کرایا جاسکتا ہے وہ اُوپر سے مسلط کردیا جائے۔
جیساکہ ہم نے شروع میں اشارہ کیا کہ ایک پہلو ان قوانین کے نفاذ کے وقت کا بھی ہے۔ ایک طرف آپ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ جنگ کے اعلان کی تیاریاں کررہے ہیں اور تلواریں سونت کر اکڑفوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اسے انگریزی محاورے میں blowing hot and cold in the same breathکہتے ہیں جو کبھی بھی اچھی حکمت عملی نہیں ہوتی۔
آخیر میں ہم ایک بنیادی بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اصل مسئلہ قانون کی موجودگی کا نہیں، قانون کے احترام اور اس کے عملی نفاذ کا ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ۱۹۹۷ء سے قانون موجود ہے جس میں ایک درجن سے زیادہ ترامیم ہوچکی ہیں اور مزید بھی ہوسکتی ہیں، لیکن عملاً اس پر اور دوسرے قوانین پر عمل نہیں ہورہا۔ پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور افراد اپنی صلاحیت کار کے اعتبار سے وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ سروسز میں کرپشن نے گھر کرلیا ہے اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں نے ان کی وفاداری، ساکھ اور کارکردگی ہر ایک کو تباہ کردیا ہے۔ ٹکنالوجی اور ٹریننگ دونوں کے اعتبار سے وہ بہت خام ہیں اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومتوں کا اپنا رویہ بھی صاف ستھرا (above board) نہیں۔ وہ دستور، قانون اور قومی مفاد کے مقابلے میں ذاتی اور گروہی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ پولیس میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر یا رشوت لے کر تقرریاں ہوئی ہیں اور ہربرسرِاقتدار پارٹی نے اپنے اپنے دور میں بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ اسی طرح مالی وسائل اور بجٹ کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر پولیس تفتیش، جیلوں اور عدالتوں کا ایک نیا ملک گیر نیٹ ورک پیش نظر ہے تو اس کے لیے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟اگر ان تمام پہلوئوں کو نظرانداز کردیا جائے اور قانون پر قانون بنائے جائیں تو اس سے تبدیلی اور خیر کی توقع عبث ہے۔اتنے اہم مسئلے پر جلدبازی سے کچھ حاصل نہیں۔ پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں ان تمام اُمور پر کھل کر بحث کریں۔ وکلابرادری اور سیاسی اور سول سوسائٹی کو اپنی راے کے اظہار کا موقع دیا جائے اور اس طرح وسیع تر قومی مشاورت سے ان نازک اُمور پر مناسب قانون سازی کی جائے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے اور وہ راستہ اختیار کرنا ہوگا جو حقیقی مشاورت پر مبنی ہو۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔