ہمارے حلقوں میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ: ’’آج دنیا کو گلوبل ویلج (عالمی گائوں) کہا جاتا ہے۔ اس میں دوسری اسلامی تحریکوں سے ہمارے تعلق کو کس طرح استوار ہونا چاہیے؟‘‘
’جماعت اسلامی‘ کے نام سے چند دوسرے ملکوں میں بھی تحریک اسلامی کام کررہی ہے۔ ہرملک کے اپنے قواعد و ضوابط، قوانین اور آئین ہے۔ اُن ممالک میں انھی ضابطوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی تحریک وہاں پر جدوجہد کر رہی ہے اور حالات کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے کسی بھی دوسرے ملک میں ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے جو کام ہو رہا ہے، قانونی اور دستوری طور پر ہمسایہ ملک سے اس کا کوئی باہمی ربط و تعلق نہیں ہے۔
تاہم، سب کے لیے قرآن و سنت، علوم اسلامیہ کا اثاثہ اور اسلامی تاریخ ایک مشترک وسیلہ ضرور ہے۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ مختلف علاقوں میں، مختلف موضوعات پر یہ مختلف تحریکیں جو لٹریچر تیار کر رہی ہیں ، وہ لٹریچر بھی کسی نہ کسی درجے میں کم و بیش تمام تحریکوں کے لیے مفید ہے۔ البتہ، ان کے ہاں فکری اور علمی سوالات پر جو بحث کی جاتی ہے وہ ہرجگہ کے کارکنوں کی سوچ اور درپیش چیلنج کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کو اگر یادداشت کی بنیاد پر تازہ کروں تو یہ کہوں گا کہ آج سے ۴۰ ،۴۵ سال پہلے ہم جب کبھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے، تو وہاں سب لوگ یاددہانی کے طور پر ایک جملہ آپس میں دُہراتے تھے: Think globally but act locally۔ مراد یہ کہ آپ کی فکر آفاقی، عالم گیر اور عالمی ہونی چاہیے اور آپ کا عمل مقامی اور اپنے دائرے میں ہونا چاہیے۔
ساری دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ ان حالات کے پس منظر اور پیش منظر پر آپ کی نظر اور گرفت ہونی چاہیے۔ پھر اسی طرح معاملات کو عالمی تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے۔ ہماری دعوت اور ہمارا مقصد پوری انسانیت کے لیے ہے، پوری دنیا اور سارے جہان کے لیے ہے، اور اسی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر آفاقی سوچ میں گزربسر کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ ظاہر ہے کہ عمل کی دنیا میں آپ جس دائرے میں بستے اور رہتے ہیں، جہاں اور جس دائرے کے اندر آ پ کی ذمہ داریاں ہیں، ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے ہی سے آپ اس آفاقی فکر کو تقویت پہنچا سکتے ہیں اور اس عالمی اور آفاقی سوچ کو مضبوط کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر مصر میں اگر کچھ ہو رہا ہے تو آپ اس کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں۔ تیونس اور الجیریا میں اگر کچھ ہو رہا ہے تو وہ اگرچہ آپ کے حلقے میں شامل نہیں ہے، لیکن آپ اسی طرح فکرمند ہوکر اس پر گفتگو کرتے ہیں، جیسے آپ کے اپنے علاقے کی تنظیم ہو۔ اور یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ یہ ایک ایمان، محبت اور درد کا اٹوٹ رشتہ ہے، جو ایک اُمت ہونے کا ثبوت ہے۔
آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا کے اندر طاغوت کی فرماں روائی کے حوالے سے اور اسلامی تحریکوں کے جذبوں اور اقدامات اور آزمایش و کش مکش کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے واقفیت پیدا کرنا، اس کے تجزیے کی صلاحیت پیدا کرنا، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ ہمارا مطالعہ اَپ ڈیٹ ہوتا رہے۔ آپ کے رسائل خصوصاً ترجمان القرآن میں ایسی چیزیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مربی حضرات بھی گاہے ان موضوعات پر اظہارِخیال کرتے اور آپ کو سوچنے کے لیے متوجہ کرتے رہتے ہیں۔
اس کے ساتھ مطالعے کی وسعت میں یہ بات شامل ہے کہ جو کچھ چاروں طرف چھپ رہاہے، اس سے بھی آپ کو واقف اور آگاہ ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان میں دینی جماعتوں، اور دینی شخصیتوں کے جتنے رسائل اور جرائد چھپتے ہیں، ان میں سے بیش تر آپ کی نظر سے گزرنے چاہییں تاکہ ان کی سوچ معلوم ہو، اور آپ جان سکیں کہ اس معاشرے میں مذہبی لوگ کیا سوچ رکھتے ہیں؟ حالات کا کیا تجزیہ کرتے ہیں؟ حالات کی دلدل سے نکلنے کے لیے کون سا پروگرام اپنے سامنے پاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ آپ کے کام اور آپ کے رویوں پر بھی اس میں جگہ جگہ تبصرہ ہوتا ہے۔یہ مطالعہ اور دوسروں کی تنقید و تبصرہ، آپ کی آفاقی فکر اور عالم گیر سوچ کو تقویت پہنچانے اور درست سمت دینے کا ذریعہ بنے گا۔
اگرچہ آپ اپنے ملک اور اپنے تنظیمی وجود میں الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن آپ کی سوچ عالمی اور آفاقی اس لیے ہونی چاہیے کہ مسلمان علاقے، رنگ، نسل کی پہچان رکھنے کے باوجود گلوبل، اور عالمی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ ہم پاکستان میں بستے ہیں، بہت سی حدود و قیود اور قانونی پابندیوں کو تسلیم کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم پاکستان میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ لیکن فکری اور ذہنی طور پر اور علمی اور عملی طور پر ہم عالمی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔
مسلمان اپنے وجود میں ایک اکائی ہیں۔ اس کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے، اس کا غم ہمارا غم ہے۔ اس عالمی اسلامی تحریک کی خوشیاں ہماری خوشیاں ہیں، اس کی کامیابیاں ہماری کامیابیاں ہیں۔ اگر کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں تو وہ ہمارے جذبوں کو مہمیز دینے کا عنوان بنتی ہیں۔ اگر کہیں ناکامی یا اُلجھن پیدا ہوتی ہے تو اس میں ہمارے لیے سوچنے اور تجزیہ کرنے کا سامان ہوتا ہے۔
ہمارا یہ قافلہ ایمان کی بنیاد پر اکٹھا ہوا ہے اور منزل کے شعور کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں کی مخصوص صورتِ حال میں، الگ الگ انداز سے رواں دواں ہے، لیکن جذبے کی آنچ ایک ہے۔ کامرانی کے حصول کی اُمنگ ایک ہے اور دُکھ درد کا رشتہ بھی ایک ہے۔ ان سب کا سرچشمہ قرآنِ کریم اور سنت پاکؐ اور سیرت ِ رسولؐ کریم ہے۔ ہمیں یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم ان سرچشموں سے کس قدر جڑے ہوئے ہیں یا کس قدر دُور ہیں؟ اگر دین کے ان سرچشموں سے ہم وابستہ ہیں تو یقینا اسی طرح دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں سے بھی ربط میں ہیں۔