۴۰سال کے دوران ایک بار پھر وطن عزیز پاکستان آنا ہوا، لوگوں کا رویہ اور ملک کے حالات دیکھے تو دل غم سے بھر گیا، آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ گئے۔ اللہ، ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ہم تو منزل کی مخالف سمت رواں دواں ہیں۔ خود کو ’بدلنے‘ کے لیے تیار نہیں، لیکن اُمید کرتے ہیں کہ حالات جلد سدھر جائیں گے اور دنیا کے فیصلے ہماری مرضی سے ہوں گے۔ یہ سادہ لوحی ہے یا محض خودفریبی!
بلاشبہہ ماضی کے برعکس، الحمدللہ، مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کروڑوں افراد صبح و شام اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر حیرت انگیز مشاہدہ یہ ہے کہ ان نمازوں کا، چلتی پھرتی زندگیوں اور معاشرے پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مسجد سے قدم باہر رکھتے ہی لین دین ہو، کاروبار ہو، ملازمت ہو، یا تعلقات، جھوٹ، فریب، حق تلفی، دھوکا اور ملاوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیسی نماز ہے جو زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لارہی؟ قرآن تو نماز کی یہ خصوصیت بیان کرتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۰ۭ (عنکبوت ۲۹:۴۵)۔ لفظ اِنَّ تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے، جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس کی نماز اسے فحش اور منکرات سے نہیں روکتی، اس کی نماز ہی نہیں ہے۔
چار عشرے گزرے کہ جب روزنامہ ملّت لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے برطانیہ جانا ہوا۔ محترم معظم علی صاحب اُس وقت سمندرپار پاکستانیوں کے لیے صدر جنرل ضیاء الحق کے مشیر تھے۔ وہ پی پی آئی اورملّت لندن کے بھی چیئرمین تھے۔ اسلامی بنکاری کو متعارف کرانے کے لیے ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ مجھے لندن آنے کی تاکید کرتے ہوئے کہنے لگے: میں نے چار افراد سے مشورہ کیا اور چاروں نے ہی تمھارا نام لیا۔ ان محبان میں پروفیسر خورشیداحمد اور محمد صلاح الدین شہید شامل تھے۔ ملّت کے بعد روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے پاکستان اور بیرونِ ملک پاکستانی کمیونٹی سے گہرا رشتہ اور مضبوط ربط رہا۔
پاکستان آکر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ پیسے کی ریل پیل ہوگئی ہے۔ اُونچی اُونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔ بڑے بڑے تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔ اندرونِ ملک ہوائی سفر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ٹکٹ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ریسٹورنٹ بھرے ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار اور ٹریفک سگنلز پر مانگنے والوں کی بھیڑ۔
پاکستان بننے کے بعد ۷۲برسوں میں نااہل اور خائن ہرشعبے میں آگے بڑھتے گئے۔ یوں تو دنیابھر میں جو چیز سب سے کم ہے وہ سچائی اور امانت ہے۔ اس کے بالمقابل جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ جھوٹ اور خیانت ہے۔ لیکن پاکستان میں ان کا تناسب کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے، جب کہ آقا علیہ السلام نے ان دو بُرائیوں سے بچنے کی یہ کہہ کر سخت تاکید فرمائی ہے کہ: ’’مومن کے اندر سب عادت ہوسکتی ہیں، مگر جھوٹ اور خیانت نہیں ہوسکتی‘‘۔ جھوٹ اور خیانت نے پاکستان کے پورے سماجی، اخلاقی اور ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سارا سیاسی نظام انھی دو خباثت پر چل رہا ہے۔ نااہلوں کو حکمرانی کی امانت سونپی جاتی رہی ہے اور وہ جھوٹ و مکاری سے ملک کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔
بے شک قوم کی بدحالی کے ذمہ دار حکمران ہیں، لیکن میں اس کی ذمہ داری قوم کو دیتا ہوں۔ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے ہوں اور ان پر اچھے حکمران آجائیں، یا لوگ تو اچھے ہوں اور ان پر بُرے حکمران آجائیں۔
قوم کی اچھائی یا بُرائی کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟
اس کے لیے سب سے موزوں پیمانہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی کتنے فی صد آبادی ’اکل حلال‘ پر قانع ہے؟ ’اکل حلال‘ صرف یہ نہیں ہے کہ سور نہیں کھاتا، یا شراب نہیں پیتا بلکہ اس کے تصور میں وہ سارے پہلو شامل ہیں جن کی اسلام تلقین کرتا ہے، مثلاًاگر ملازم ہے تو رشوت نہیں لیتا، اپنے اوقاتِ کار میں ڈنڈی نہیں مارتا۔ اپنا کام وقت پر پورا کرتا ہے۔ دفتر کے جن اُمور کا وہ رازداں ہے ،اسے دوسروں سے بیان نہیں کرتا۔ دفتر کی چیزیں ذاتی استعمال کے لیے گھر نہیں لے جاتا۔ اگر تاجر ہے تو اچھے مال کے ساتھ خراب مال ملا کر نہیں بیچتا، جھوٹی قسمیں نہیں کھاتا، ٹیکس چھپانے کے لیے دُہرے حساب کھاتے نہیں رکھتا۔ناجائز منافع نہیں لیتا، ملازمین پر زیادتی نہیں کرتا۔ اگر سیاست دان ہے تو وہ اقتدار میں آنے کے لیے یا اقتدار میں آکر عوام سے جھوٹ نہیں بولتا۔ قومی منصوبوں پر ذاتی فوائد حاصل نہیں کرتا۔ اپنی عیاشیوں یا بدانتظامیوں کا ایندھن بنانے کے لیے عوام پر ناجائز ٹیکس نہیں لگاتا، ظلم نہیں کرتا۔ مظلوموں کی دادرسی میں کوتاہی نہیں کرتا اور لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں مَیں نے سیاست دانوں، دانش وروں، صحافیوں، دوستوں اور کئی سرکاری ملازمین سے یہ سوال کیا کہ: ’’پاکستان میں کتنے فی صد لوگ حلال کھا رہے ہیں؟ تو پہلا جواب ہوتا تھا زیادہ نہیں ۲۰، ۲۵ فی صد لوگ ہوں گے۔ جب میں ’اکل حلال‘ کا مفہوم بیان کرتا تو وہ کہتے کہ: ایسے ۵ ، ۱۰ فی صد بھی نہیں ہوں گے‘‘۔ کسی نے کہا: ’’۲ فی صدبھی نہیں ہوں گے‘‘۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا جواب سن کر دل کو دھچکا لگا۔ ان کا جواب تھا: ’’صفر اعشاریہ صفر ایک فی صد‘‘۔ہوسکتا ہے کہ اپنے یا چند اور محکموں مثلاً پولیس کے معاملے میں ان کا جواب درست ہو،لیکن پورے ملک کی آبادی پر اس کا انطباق درست نہیں ہوگا۔تمام تر خرابیوں کے باوجود اس ملک میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں، لیکن آٹے میں نمک کے برابر، اور یہ نمک آٹے کو ذائقہ دے رہا ہے۔
ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ نظامِ تعلیم مغرب کے ذہنی غلام پیدا کر رہا ہے، جو اپنی اقدار سے ناآشنا، اپنے ماضی سے کٹے ہوئے، قرآن و حدیث سے نابلد، بلکہ دینی ہدایات پر شرمسار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو سب سے بڑا اثاثہ بن سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تعلیمی اداروں سے عموماً ڈگری یافتہ جُہل نکل رہا ہے۔ تعلیم، حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن کسی حکومت نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ پورے ملک کا نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہیے، مگر یہاں تو تقسیم در تقسیم کا منظرچھایا ہوا ہے۔ ان متحارب اور متضاد طبقوں کو جوڑ کر ایک مضبوط اور باوقار قوم کیسے بن سکتی ہے؟
اسلام عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، جب کہ پاکستان میں عدل کے بجاے ظلم کا نظام رائج ہے۔ ججوں کے افعال، کردار اور اعمال و معاملات کی جو کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ اچھوں کے ساتھ بددیانت، خائن، جھوٹے، نااہل اور نالائق لوگ بھی ججوں کے منصب پر فائز چلے آرہے ہیں۔ ججوں کے انتخاب کے طریقۂ کار کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ابھی تک فوری اور سستے انصاف کی منزل سے بہت دُور ہیں۔
پولیس ظلم،ناانصافی، رشوت ستانی اور لُوٹ مار کی علامت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ پولیس میں دیانت دار، محنتی اور فرض شناس اہل کار اور افسر بھی موجود ہیں، لیکن عام طور پر تاثر یہی سننے میں آیا ہے کہ پولیس مجرموں کو تحفظ دیتی ہے بلکہ جرائم کے فروغ کا سبب ہے۔ پولیس کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ ظالم، مظلوم کی تو صرف دنیا بگاڑتا ہے جو چند روزہ ہے، لیکن اپنی آخرت بھی بگاڑ لیتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔حکمرانوں کو اور وردی والوں کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ دلوں کو فتح کرنے کے لیے تلواروں کی نہیں، محبت اور عمل کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور کراچی میں ایک نیا کلچر جنم لے چکا ہے۔ ان بڑے اور چند چھوٹے شہروں میں بھی بزنس مین اور سیاست دان سرکاریا افسروں سے کام نکلوانے، صحافیوں سے اپنی پبلسٹی کرانے، وزیروں اور اہم شخصیات سے اپنے روابط بڑھانے کے لیے ناچ گانے کی محفلوں اور شباب و شراب کے حربوں سے کام نکلواتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ دنیا کی محبت دل کا اندھیرا ہے، اور سنت کی پیروی اور دین سے محبت، ابدی زندگی کا نُور ہے۔ جائز کمائی انسان خود کھاتا ہے اور ناجائز کمائی انسان کو کھا جاتی ہے۔ تمام گناہوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے۔
پاکستان میں پہلے روز سے بیوروکریسی کی حکومت رہی ہے۔ صرف ایک زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بیوروکریسی کی اس حکمرانی کو حدود میں رکھا تھا، لیکن اس میں بھی براہِ راست بھرتی کا نظام رائج کر کے انھوں نے بیوروکریسی کو ملک کے بجاے حکمران جماعت کا غلام بنا دیا، جسے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک بیوروکریسی کی عیاشیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ عوامی حقوق کا کسی کوپاس نہیں ہے۔
شہروں میں گندگیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ پانی اور بجلی کے مسائل نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اور حکمران عوام کے پیسوں سے شان دار کاروں میں گھوم رہے ہیں۔
ہرآنے والی حکومت پہلے سے زیادہ نالائق ثابت ہوتی ہے۔ پہلی وجہ سیاسی جماعتوں کا موروثی بن جانا ہے۔ دوسری وجہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ مغرب میں جس طرح حکمران جماعت کابینہ تشکیل دیتی ہے، اسی طرح اپوزیشن جماعت شیڈو کابینہ بناتی ہے۔ شیڈو کابینہ کے ارکان اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح کابینہ کے ارکان کام کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی ہرپالیسی ، ڈائرکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، اس پر تنقید کرتے ہیں، متبادل پالیسی پیش کرتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن جو بھی کسی منصوبے کے لیے پالیسی کا اعلان کرتی ہے تو نہ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائے گی؟ نیا ٹیکس لگایا جائے گا؟ یا کسی اور ادارے میں کٹوتی کرکے رقم لائی جائے گی۔
پاکستان میں آج تک میں نے یہ مشق نہیں دیکھی، جس کی بناپر کرپشن آسان ہوجاتی ہے۔ آج حکومت اور نیب بڑی سرگرمی دکھا رہی ہے کہ ’قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو پکڑیں گے‘۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کو کیوں نہیں روکا گیا؟ چیک اینڈ بیلنس کا نظام کیوں نہیں ہے؟ ایسے معاہدے کیوں کرائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالتوں سے بھاری جرمانے ہوتے ہیں؟ منصوبوں کے اخراجات کئی گنا اچانک بڑھ جاتے ہیں۔
مغربی اقوام کی خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ خود ظلم برداشت نہیں کرتیں، ظالم کے خلاف متحد ہوجاتی ہیں۔ ظالم کا دست و بازو نہیں بنتیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ دوسری اقوام پر حکمرانی کر رہی ہوں تو ظلم کی انتہا کردیتی ہیں۔ ہندستان اور افریقہ کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں___ طوفان آجائے، جنگ چھڑ جائے،غرض کوئی آفت آجائے وہ فوراً منظم ہوجاتی ہیں۔
ہم اخلاقی پستی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیںجہاں بعثت کے وقت عرب بدو بھی نہیں پہنچے تھے۔ ان میں غیرت تھی، حمیت تھی، جھوٹ کو نہایت بُرا سمجھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بُرائی بچیوں کو زندہ دفن کرنا تھا۔ آج ہم جعلی ادویات اور کھانے میں ملاوٹ کے ذریعے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سب کو مار رہے ہیں، حالانکہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
دوسری طرف پاکستا نی نہایت باصلاحیت ہیں۔ معمولی سی تربیت سے وہ کٹھن سے کٹھن کام بآسانی انجام دے لیتے ہیں۔بدقسمتی سے حکمرانوں کو شعورہی نہیں ہے کہ وہ قوم کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں ؟
ا س ملک پر اللہ کا فضل اور آقا علیہ السلام کا کرم ہے کہ اس میں اصلاح کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لوگوں کو اگر مجبور نہ کیا جائے تو اکثریت بُرائی سے بچنے کو ترجیح دے گی اور ’اکل حلال‘ پر قانع ہوگی۔ سمجھنا اور عام کرنا چاہیے کہ ناپاک ، ناجائز اور حرام ذرائع سے کمائے گئے پیسوں سے بنائے گئے کپڑوں میں نہ نماز قبول ہوتی ہے، نہ روزہ اور نہ زکوٰۃ و حج۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قوم ان سیاست دانوں کا اتباع ترک کردے، جنھیں شیطان بھی چھوڑ چکا ہے۔ شیطان تین قسم کے لوگوں کا پیچھا نہیں کرتا:۱- جو اپنی تعریف آپ کرتا ہو،۲- جو اپنے چھوٹے سے کام کو بڑا کرکے دکھائے ، اور۳- جو گناہ کر کے بھول جائے