۱۹۴۷ء میں بھارت کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی۔ وہاں مسلمان لگ بھگ ۲۰ کروڑ سے زیادہ آباداور ان کی آبادی ۱۵فی صد ہے۔ پاکستان کے حصے میں محض ۲ فی صد غیر مسلم ہیں۔ پاکستان میں ایک دن کے لیے بھی اسلام بحیثیت’نظام‘ نافذ نہیں ہو سکا ۔ بھارت جو دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے، وہاں ہزاروں بارسیکولر ازام اور جمہوریت کے ٹکڑے کیے جاچکے ہیں۔ سیکولرازم کو آئینی طور پر تسلیم کرنے کے باوجود ہندستان نے اسے نمایش کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ قانونی طور پر ہر چھوٹی بڑی اقلیت کو اپنے مذہب پر قائم رہنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کی آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، تاہم عملاً سب قول اور فعل کا تضاد ہے۔
اگست ۱۹۴۷ء میں کانگریس کی جانب سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھارتی آئین کو سیکولرازم کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا، لیکن موجودہ وزیر اعظم کی قیادت میں بننے والی حکومت نے آئین کو ’ہندوتوا‘ کی خوف ناک چادر میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے۔جس کی جڑیں اس قدر مضبوط کی جا رہی ہیں کہ اب وہاں کی اقلیتیں خوف کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ’ہندوتوا‘ کا نظریہ موجودہ ’بی جے پی‘ حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک کام کیا، جس دوران سیکڑوں فسادات رُونما ہوئے، اقلیتوں سے وابستہ لوگوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، بے شمار مظالم کا نشانہ بنایا گیا، جس کی ایک تازہ مثال تبریزانصاری کی دردناک موت بھی ہے۔
بھارت میں اقلیتوں سے وابستہ نوجوانوں کو اپنے شکنجے میں لے کر بے رحمی کے ساتھ پیٹنا، مارنا، اپاہج بنادینا اور جیلوں میں ڈال دینا عام ہوتا جارہا ہے ۔ دراصل بھارت میں منظم طور پر، ایک دردناک ’ہجومی قتل‘ (Mob Killing) کے ذریعے ایک ماحول اس مقولے کے مصداق بنایا جاتا ہے کہ: ’’مارنے سے پہلے بُرا نام دو‘‘۔ اس طرح نہتے مسلمانوں کو قتل کرنے کا جواز گھڑا جا رہا ہے ۔ کسی مخالف کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پہلے گھنائونے الزامات لگائے جاتے ہیں، جیسے بھارت کے ایک مشہور اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف کیا گیا اور انھیں دہشت گردی کے ساتھ جوڑ ا گیا۔ اسی طرح تبریز انصاری کو چوری کا الزام لگا کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ اخلاق کو یہ کہہ کر ہجوم نے موت کے گھاٹ اُتار دیا کہ اس گھر میں گائے کے گوشت کی موجودگی کا شک پایا گیاتھا، جب کہ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ مقتول کے گھر میں گائے کا کوئی گوشت نہیں تھا۔ اسی طرح پہلو خان کو یکم اپریل ۲۰۱۷ء کو گائورکھشا کے نام پر قتل کر ڈالاگیا۔ ٹرک ڈارئیور زاہد احمد بٹ اور معصوم حافظ جنید کے دردناک قتل کے واقعات بھی اسی ایجنڈے کی توسیع ہے۔
جھاڑکھنڈ میں ۲۲ سالہ تبریز انصاری کو چوری کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا چوری کی سزا بھارت میں قتل ہے؟ تبریز کو بڑی بے دردی کے ساتھ مارمار کر نیم مُردہ حالت میں پولیس کے حوالے کر دیا گیا،جب کہ زرخرید پولیس نے بھی اس نوجوان کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد، ہسپتا ل پہنچانے کے بجاے تھانے کی ایک کال کوٹھری میں ڈال دیا۔ جب اس کی حالت زیادہ بگڑ گئی تو پولیس نے اسے ہسپتال پہنچایا،جہاں ڈاکٹروں نے کسی جانچ پڑتال کے بغیر ہی اسے پولیس کے حوالے کیا ، جس کے بعد یہ مظلوم نوجوان پانچ دن تک موت و حیات کی کش مکش میں تڑپ تڑپ کر انتقال کر گیا۔
دی وائر (The Wire)نیوز کے مطابق تبریز کے لواحقین میںمسرور احمد کا کہنا ہے: ’’جب ہم تبریز کو ملنے تھانے پہنچے تو ہم نے ان کی انتہائی خراب حالت دیکھ کر پولیس افسر نامی بپن بہاری سنگھ سے کہا کہ تبریز کو جلد ہی ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہے ‘‘۔ لیکن پولیس افسر نے غضب ناک ہو کر جواب میں کہا کہ: ’’ یہاں سے بھاگ جائو ورنہ تمھارے بھی ہاتھ پائوں تو ڑکر جیل میں ڈال دیں گے ‘‘۔
غرض گائے ،جے شری رام ،وندے ماترم ،بھارت ماتا کی جے کے نام پر آج ہندستان میں مسلمان کو قتل کرنا آسان کام ہے، جہاں محض ایک آدھ الزام لگا کر کسی نہتے معصوم کو ہجوم کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس جیسے قتل کو اب عام زبان میںMob Lynching(ہجومی تشدد ) کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی اصطلاحات سے مقتدرہ فسطائی حکمرانوں کو تنقید سے بچنے کا موقع ملتا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کو ماب لینچنگ (ہجومی تشدد) نہیں بلکہ اس کو Mobalize Lynching (متحرک تشدد) اور Political Lynching (سیاسی تشدد)کہا جانا چاہیے۔ کیوں کہ ابھی تک اس طرح کے ہجومی قاتلوں کو عبرتناک سزا نہیں ملی ہے۔ اگر کسی کو وقتی طور گرفتار کر بھی لیاجاتا ہے تو چند ماہ کے بعد ان کی رہائی کے انتظامات کر کے پھولوں کے ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔
بھارتی ہجومی قاتلوں کو بچانے کی مثالیں بے شمار ہیں۔ پہلو خان کے چار قاتلوں کو سرکاری نوکریوں سے نوازا گیا، اور پرگیا سنگھ ٹھاکرجیسی مجرمہ اور قاتلہ بلکہ گجرات میں ہزاروںبے گناہ انسانوں کی قاتل، آج مسند اقتدار پر براجمان ہے ۔ان سارے کربناک مظالم کے خلاف کبھی کبھی بھارت میں مسلمانوں کی کمزور سی آوازیں سُننے کو ملتی ہیں، لیکن وہ ایوان اقتدار تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اگر پہنچ پاتی ہیں تو حاکم وقت گھما پھرا کر اُلٹا الزام مقتولین پر ہی دھرتے ہیں ۔بھارتی آئین کی دفعہ۱۹ عوام کو اظہارِ آزادی راے کا حق دیتی ہے ۔لیکن اب اس احتجاج کا حق بھی چھیناجا رہا ہے۔ حکومت ِوقت کے خلاف تنقید کرنا اب ملک دشمنی میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کے مظلومانہ قتل کے بعد الٹا مقتولین ہی کو گناہ گار کہہ کر دیش ورودھی ،انٹی نیشنل اور پاکستانی ایجنٹ کے القابا ت سے نوازا جاتا ہے۔ The Milli Gazette میں شائع شدہ مضمون کے مطابق بہت سے بھگوا دہشت گرد بابری مسجد کی شہادت کو غلط نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بابری مسجدکو گرانا بھارت میں مساجد گرانے کی شروعات تھی، اصل کام تو اب شروع ہونے والا ہے‘‘ ۔گویا بھارت میں یہ طبقہ ایک ایجنڈے کے تحت اس طرح کے حالا ت خراب کرکے ہندو مسلم بھائی چارے کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
ان سارے مظالم کے ردعمل میں بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ چند سلیم الفطرت غیرمسلموں کی نحیف آوازیں بھی اُٹھتی ہیں۔تبریز انصاری کے دردناک واقعے کے بعد ہندستان میں بہت سارے غیر مسلموں، جن میں صحافی، وکلا اور طلبہ نے بھر پور احتجاج کیا۔مسلمانوں نے بھی بھائی چارے ،اخوت اور یکتائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندستان کے مختلف شہروں میں زور دار احتجاج کیے، جن میں خاص طور پر مہاراشٹر کے شہر مالیگائوںکا ااحتجاج ہے، جس میں مسلمانوں نے ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج کیا۔ واضح رہے یہ وہی جگہ ہے جہاں انگریزوں نے ۹۷سال پہلے مجاہدین آزادی کو پھانسی دی تھی۔ آج اسی یادگار جگہ پر مسلمان بڑی تعدادمیں تبریز انصاری کے لیے انصاف کی خاطردُہایاں دیتے نظر آئے۔ بھارتی ہندستان کے زعفرانی میڈیا کو ہزاروں اور لاکھوں کا یہ احتجاج نظر نہ آئے ، لیکن دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ کس طرح سے جمہوریت کی دعوے داری کرنے والے ملک میں نہتوں کا بے دردانہ طریقے سے قتل کیا جاتا ہے ۔
جس ملک میں اس طرح کی پیچیدہ صورتِ حال ہو تو وہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی ،مسلک اور جماعت پرستی سے باہر نکل کر، ایک قوم بنتے ہوئے ان سارے مظالم کا حکمت سے مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا، اور اُن مسلمانوں کو بھی ہوش کے نا خن لینے ہوں گے جو شعوری یا غیر شعوری طور ’ہندوتوا‘ ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ اسی دین فطرت کی طرف لوٹیںجو امن ،بھائی چارہ ہمدردی و غم خواری کا درس دیتا ہے ۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارت کی تمام اقلیتوں کو اپنے اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر اپنی صلاحیتوں کو بڑی ہی حکمت اور بہادری سے استعمال میں لاکراس ظلم کے خلاف بیداری کی مہمات چلانا چاہییں،تاکہ ہمیں کسی اور تبریز کی مظلومانا شہادت کو نہ دیکھنا پڑے۔