چاروں طرف پہاڑوں سے گھرے ازبکستان [آبادی: ایک کروڑ ۸۴ لاکھ اور رقبہ ۲۷ لاکھ ۲۴ہزار ۹۰۰ مربع کلومیٹر] کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فن تعمیر، رہن سہن، خوراک، غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر طویل شاہراہ پر سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر، بارہمولہ، مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
ایرانی نژاد میر سیّد علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ سات سو مبلغوں اور ہنرمندوں کے قافلے کے ساتھ وادیِ کشمیر میں تشریف لائے، جو جنوبی ایشیا کا خطہ ہے۔یہاں پر بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن سیّدعلی ہمدانیؒ کی تبلیغ سے اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آخری آرام گاہ تاجکستان کے شہر کلوب میں ہے۔ پھر بخارا کے نواح میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی محمد بہاؤالدین نقشبندیؒ [۱۳۲۷ء- ۱۳۹۰ء]کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اس وقت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاشِ حق کے مسافروں، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایک معمر ازبک تیمور تیلیفوف کے مطابق: ’’انیسویں صدی تک یہ خانقاہیں ، ان درویشوں سے آباد رہتی تھیں، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمد ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنادیتی تھی اور ان کو کھانا وغیرہ پہنچانے کے لیے مقامی آبادی میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ اشتراکی روس کے استبدادی اور سامراجی دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند کردیاگیا ۔ اس طرح تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔
سکندر اعظم [م:۳۲۳ ق م]اور چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء]کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیرتیمور[۱۴۰۵ء] کی جلالی نگاہیں، محمد شیبانی خان [م: ۱۵۱۰ء]اور مغل شاہزادے ظہیرالدین بابر [م:۱۵۳۰ء]کی معرکہ آرائیاں اور پھر گذشتہ صدی عیسوی کے چوتھے عشرے میں اشتراکی روسی فوج کی بمباری، ازبکستان کی تاریخ کے سنگ ِ میل ہیں۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کی شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستانی چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ موجودہ ازبک صدر شوکت مرزیوف کے مطابق: ’’ازبکستان، چین کے ’بلٹ روڑ پروجیکٹ ‘ کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا‘‘۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کے لیے یک جا ہوئے ہیں۔
ازبکستان کی فرغانہ وادی سے ہی نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے ۱۵۲۶ء میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے قبل بابر کا پایۂ تخت سمر قند ہی تھا، مگر ازبک سردار شیبانی خان نے اس کو شکست دے کر کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بابر کے جد امجد امیر تیمور کو ازبکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ تاشقند کی ایک خوب صورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزیم ہے۔ یہاں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں جس دوسرے مقام پر بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں وہ قرآن شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قرآن شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔
میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا ، کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت اکمتوف نے پوچھاکہ: ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ: ’کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟‘ پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ: ’کیا تم حنفی ہو؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’میں حضرت عثمان غنیؓ کے مسلک سے ہوں‘۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ: ’حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آخر زچ ہوکر پوچھا کہ: ’تم کس ملک سے تعلق رکھتے ہو، ہندستان یا پاکستان؟‘ میں نے کہا: ’کشمیر سے ہوں‘۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، اس سے یہ ازبک شخص کشمیر کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ: ’’قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور، سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن ۱۸۶۸ء میں روسیوں نے اس کو ماسکو منتقل کیا۔ پھر ۱۹۲۴ء میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا‘‘۔ اس میوزیم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔
تاشقند میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ،۱۹۶۵ءکی جنگ ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اسی شہر میں صدر پاکستان ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ پانچ ماہ بعد وہ وزارت سے الگ ہوگئے، اور دسمبر ۱۹۶۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بنالی اور چند برسوں میں وزیراعظم بن گئے۔
جہاں تاشقند میں اشتراکی حکمرانی کے آثار ابھی تک نظر آتے ہیں، وہاں سمر قند میں ان آثار کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے ان قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو محفوظ بنانے، ان کی روایتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت رقم خرچ کی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کے دوران ایک پہاڑی پر موجود قلعے کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ: ’’یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ اس ۲۶۵۰سالہ قدیم شہر کا اصل نام افراسیاب تھا‘‘۔ مسلم دنیا کے موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور ان کے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
سمرقند کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرے کے تہہ خانے میں ہیں، مگر اس کے دروازے پر سخت پہرا ہے۔ گائیڈ نے بتایا: ’’۱۹۴۱ء میں کمیونسٹ حکومت نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمور کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کو بہت روکا، مگر وہ باز نہ آئے، اور باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے کمیونسٹ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور وہ روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد روسی آمر اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزاز کے ساتھ مقبرے میں دفن کرکے تہہ خانے کو سیل کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعدہی کمیونسٹ فوجوں نے وولگو گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں نسل پرست جرمنوں کی کمر توڑ دی، اور پھر جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی‘‘۔
سمر قند،الجبرا کے موجد محمد ابن موسیٰ خوارزمی [م: ۸۵۰ء]اور مشہور سائنس دان بوعلی سینا [م: ۱۰۳۷ء] کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے جس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مزارِ تیمور سے کچھ دُور، جو ریگستانی چوراہا ہے، وہ قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ جہاں پر نہ صرف اشیا کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں، امیر تیمور کے روحانی پیشوا شیخ برہان الدین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کے لیے تقریباً ۴۰سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اسی گائیڈ نے بتایا: ’’سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اس کے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہییں‘‘۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا اور ہرسیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرنا بھی دماغی ورزش اور منفرد مصروفیت ہے۔
سمر قند کے نواح میں تقریباً ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالی شان روضہ فنِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، عجائب گھر، لائبریری اور یونی ورسٹی ہے۔ امام بخاریؒ نے احادیث جمع کرکے اور ان کو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشتراکی دورِ حکومت میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جب انڈونیشیا کے صدر [۶۷-۱۹۴۵ء] احمدسوکارنو [م:۱۹۷۰ء] ماسکو کے دورے پر آئے، تو انھوں نے امام بخاریؒ کے روضے پر جانے کو خواہش ظاہر کی۔ فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو اشتراکی حکام نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی مقر رکی۔ ۱۹۹۸ء میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا پانی شفا بخش ہے۔
ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے بڑی عمر کے ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ: ’’اشتراکی دور حکومت کی زندگی کیسی تھی؟‘‘ تو اس نے کہا: ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا، ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی، چاہے تحریر ، تقریر یا آپس میں ذاتی سطح پر گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ قطار میں کھڑے ہوکر زندگی گزارنا ہی زندگی کا مستقل حصہ تھا۔ راشن لینے سے لے کر ہر چیز حاصل کرنے کے لیے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بلاشبہہ اس زمانے میں بھونکنے، یعنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تو پابندی تھی، مگر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا، نہ کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف ۱۰۰روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا، مگر اس وقت سو روبل بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب میرے پاس لاکھوں روبل ہیں، مگر میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس اور غم نہیں، کیوں کہ اب ہم آزاد تو ہیں۔ میں دل کھول کر آپ سے بات کرسکتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے‘‘۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میں پہلے مارشل لا نافذ ہوتے و قت حکومتی پابندیوں کی مناسبت سے قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کے درمیان مکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی نے بڑے کرب سے کہا تھا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ [شہاب نامہ، ص۵۱۳]۔ ازبک بزرگ ڈرائیور کے دہرائے ہوئے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہے تھے: ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘
مئی ۲۰۱۴ءکو جب پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف ،نئی دہلی کے صدارتی محل میں، بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں مَیں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ: ’’چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانیؒ کی ۷۰۰سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں‘‘۔ اگلے دن دونوں وزراے اعظم کی ملاقات طے تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سے کشمیر کا وسط ایشیا کے ساتھ رشتہ استوار ہوجاتا۔ اس طرح اعتماد سازی کے طور پر عوامی سطح پر اچھے اثرات نمایاں ہوتے۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ گفتگو میں میاں صاحب کے توجہ دینے کا دورانیہ نہایت ہی کم ہے اور انھیں ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاست دان موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات حاصل کرنے میں پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہونے والے میر سید علی ہمدانی ؒنے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انھوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ اقبال نے کہا ہے:
تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است
[میرا بدن ، کشمیر کی جنّت میں کیاری کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے آباد ہے اور میری نوا، شیراز سے اثر لیتی ہے۔ پیامِ مشرق]
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی
برہمن زادۂ رمز آشنائے روم وتبریز است
[مجھے دیکھ کہ، ہندستان میں تجھے میرے سوا کوئی اور ایسا برہمن زادہ نہیں ملے گا، جو مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کی رمز طریقت و تصوف سے باخبر ہو۔ زبورِعجم]
میر سید علی ہمدانیؒ تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انھوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر آج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے ’اسلامی مراکز تعلیم و تربیت‘ تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنھیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے:
سیّد السادات ، سالار عجم
دست او معمار تقدیر اُمم
[(سیّد علی ہمدانیؒ) عجم کے سردار اور سیّدوں کے قائد ہیں کہ جنھوں نے یہاں بسنے والی اُمتوں کی تقدیر بنا ڈالی۔ جاوید نامہ]
مجھے یقین تھا، چونکہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کو سفارتی سطح پر راستے نکالنے کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیوںکہ چند ماہ قبل تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے خونیں پس منظر کے باعث کئی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چونکہ صوفی بزرگ سید ہمدانیؒ کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، اس لیے بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا ، بین الاقوامی دانش وروں کی وادیِ کشمیر میں آمدورفت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ دونوں ممالک وسط ایشیا کے ساتھ صوفی بزرگ کی اس عظیم شخصیت کو علامت کے طور پر نمایاں کر سکتے تھے۔
اس صورت حال میں کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا عمل ایک نئی جہت دے سکتا تھا۔معروف اسکالر اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد کے بقول: ’’وسط ایشیا کے دورے کے دوران میں قائل ہو گیا تھاکہ کشمیر، جنوبی ایشیا کے بجاے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں، کلچر ، آرٹ، فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر ہی کی جھلک نظر آتی تھی۔ ایک عشرہ قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطے کو دنیا کی ’خوب صورت ترین جیل‘ قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا، مگر اس کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ اشتراکی روسی اقتدار میں تاجکستان، کشمیریوں سے دُور ہوگیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒکی آرام گاہ تک ان کی رسائی بند ہوگئی۔ بعد میں کاشغر تک آنا جانا بھی بند ہوگیا ، جہاں سے کشمیری قالین اور شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا قہر ڈھایا گیا، کہ لائن آف کنٹرول نے زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچ ڈالی۔ بلاشبہہ پچھلی چار صدیوں سے ہی اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان میں طمانیت کا کچھ احساس تھا۔ لیکن لائن آف کنٹرول نے وہ سبھی روابط منقطع کر دیے۔
اس سامراجی جبر واستبداد سے شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں تقسیم شدہ خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرا بندی اور بھارتی فوجی ارتکاز نے خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ prison mindset یا اسیرانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس ذہنیت کے شکار لوگوں کا حکمران کے ساتھ رشتہ وہی ہوتا ہے، جو ایک قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور دانش وررں سے میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ: ’’اگر آپ کشمیر کی سڑکوں پر سونا بھی بچھا دیں، مگر اس اسیرانہ ذہنیت کا علاج نہ کریں، تو شاید ہی کبھی حالات بہتر ہوں‘‘۔ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ: ’’اگر بھارت کو آزادی کے نعرے کا توڑ کرنا ہے تو اسے ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے، جہاں عوام نفسیاتی طور پر کشادگی محسوس کریں‘‘۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجائیں، تو دونوں ممالک کو وادیِ کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ قازقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔
آج خلیجی ممالک میں توانائی اور ایندھن کے ذرائع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، جب کہ وسط ایشیائی ممالک توانائی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ازبکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس صدی کے اواخر تک پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقت ور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تب تک پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، اور سبھی کو تاجکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو یہ خطے کے لیے ایک صدر دروازہ ثابت ہوگا۔