قرآن کی نصیحت اور یاد دہانی سادہ اور عام فہم لفظوں میں ہرفرد کے لیے بالکل عام ہے۔ وہ سب کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے اور اپنے خالق ومالک کی طرف پلٹ کر آنے کی بار بار دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس کتابِ عظیم کے لیے ’ذکر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشادہے:
ایک جگہ اس کتاب کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے: وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۱ۭ (ص۳۸:۱)۔ ’ذکر ‘و ’ذکریٰ‘ کا مفہوم تقریباً وہی ہے ، جو موعظت یا نصیحت کا ہے۔ اس کے مفہوم میں: ’’نصیحت یا اچھی بات بتانا ، یاد دلانا یا یاد دہانی کراتے رہنا، سب کچھ شامل ہے‘‘۔
بلاشبہہ قرآن کریم سراپا یاد دہانی ہے، ہدایات ربانی کی اور احکام الٰہی کی۔ اس لحاظ سے قرآن کتابِ ذکر بھی ہے:
ان آیات سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ قرآن کی نصیحت اور یاد دہانی بالکل عام فہم اور دل میں اُتر جانے والی ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اس کے مخاطب معاشرے کے تمام طبقوں کے لوگ ہیں: خواہ وہ مومن ہوں یا غیر مومن ، قرآن کو ماننے والے ہوں یا اس کے منکر ، عوام ہوں یا خواص۔ اس کی نصیحت میں سب کے لیے بھلائی ہے اور اس کی یاد دہانی میں ہر ایک کے لیے خیر کا پہلو ہے۔ اس لیے سب کو اس کی طرف بلایا جا رہا ہے اور ہر ایک سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس سے فیض حاصل کرے۔ اس نعمت کی ناقدری پر بازپُرس بھی ہو گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے سب کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے:
وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۴۴ (الزخرف۴۳:۴۴) اوریہ تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یاد دہانی ہے اور عنقریب تم سب سے پُرسش ہوگی۔
قرآن کریم ایک اور اعتبار سے ’کتابِ ذکر‘ ہے، اگرچہ اس پہلو پر کم توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ اس میں ہر شخص کا ذکر موجود ہے۔ اس میں ہر ایک کے حالات کا بیان ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۱۰ۧ (الانبیاء ۲۱:۱۰) لوگو! ہم نے تمھاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں تمھارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟
اس آیت میں لوگوں کو مخاطب کر کے واضح کیا گیا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے، جس میں ہر شخص اپنا تذکرہ پڑھ سکتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے احوال واوصاف معلوم کر سکتا ہے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا پتا لگا سکتا ہے۔ اس کے آئینے میں وہ اپنے عمل وکردار کی تصویر کا مشاہدہ کرسکتا ہے کہ عقائد وعبادات سے متعلق وہ قرآنی ہدایات پر کہاں تک دھیان دے رہا ہے؟ وہ جان سکتا ہے کہ اخلاق کے اعتبار سے وہ کس مقام پر ہے؟ اسے وہ قرآن سے دریافت کر سکتا ہے کہ معاملات میں صفائی ودیانت داری کے لحاظ سے وہ کس درجے میں ہے؟ وہ بخوبی پتا لگاسکتا ہے کہ حقوقِ انسانی کی ادایگی میں اس کی کیا تصویر بنتی ہے؟ وہ دیکھ سکتا ہے کہ معاشرے میں اس کا اپنا کیا مقام ہے ، اللہ کے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے؟ یہ سب درجات اور کیفیات وہ اس کتابِ ہدایت کے ذریعے سمجھ سکتا ہے۔
غرض یہ کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اور ایسا صاف وشفاف آئینہ ہے کہ اس میں افراد بھی اپنے خدوخال دیکھ سکتے ہیں اور قومیں بھی اپنی تصویر ملاحظہ کر سکتی ہیں۔ اس لیے کہ قرآن میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ عبادات کی بجا آوری کا صحیح طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں سے تعلق قائم رکھنے کے اصول وضوابط واضح کیے گئے ہیں۔ حُسن اخلاق کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مالی معاملات میں صفائی ودیانت داری کی ہدایات دی گئی ہیں۔ سیاست و حکومت کے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ وناپسندیدہ اعمال کی نشان دہی کی گئی ہے۔ صاحبِ ایمان ، فرماں بردار، صالح ، متقی اور باکردار لوگوں کو ملنے والے اجروثواب اور انعام واکرام کی خوش خبری دی گئی ہے۔ نافرمان، سرکش وبدکردار قوموں کے انجام ِ بد سے خبر دار کیا گیا ہے۔
جب بھی یہ احکامِ الٰہی کسی کے سامنے آئیں گے، تو اسے اپنے بارے میں بڑی آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ مالی معاملات میں اس کا ریکارڈکتنا صاف ہے اور یہ کہ ان میں سے کس کس حکم پر عمل کا حق وہ ادا کر رہا ہے؟
قرآن نے مختلف مقامات پر مومنین اور صادقین یا عاملین بالقرآن کے کردار اور اخلاق کی تصویر کشی کی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ وہ ایمان ویقین پر جمے رہتے ہیں، اللہ کی عبادت میں مخلص وسنجیدہ ہوتے ہیں اور انسانی حقوق کی پاسبانی اور بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔
سورۂ فرقان کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے ان محبوب بندوں کے خصائص بیان کیے گئے ہیں:
رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضورسجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے۔اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلاّ یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو....(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے، تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جنھیں اگر ان کے ربّ کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔(الفرقان ۲۵: ۶۳-۶۴، ۷۲-۷۴)
جب بھی کوئی شخص ان آیات کو سمجھ کر پڑھے گا تو اسے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ان آیات میں کہاں کہاں اس کا ذکر ہے، یعنی ان میں بیان کیے گئے کن کن اوصاف پر وہ پورا اتر رہا ہے اور کن آیات میں اس کا ذکر نہیں ملتا؟ گویا اللہ کے محبوب بندوں کے کن اوصاف سے اس کی ذات عاری ہے؟ قرآن میں اپنا ذکر تلاش کرنا یا اس طرح کا جائزہ لینا ہر شخص کو اپنے بارے میں احتساب کا موقع عنایت کرتا ہے، جو لازمی طور پر اس کے کردار واخلاق کو سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ سورۂ انبیاء کی آیت ۱۰ کے حوالے سے قرآن کریم کے کتابِ ذکر ہونے کی حیثیت سے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا ہے:
ہمارے اسلاف اپنے اخلاق واوصاف اور اپنے اندرون کو بخوبی جانتے تھے۔ ہر چیز ان کے سامنے روشن وعیاں ہوتی تھی۔ وہ اسی قرآن سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اسی کتاب میں اپنے چہرے ڈھونڈتے اور اپنے اخلاق واطوار کی سچی اور صحیح تصویر تلاش کرتے تھے اور بہت آسانی سے خود کو پہچان لیتے تھے۔ اگر ذکر ِ خیر ہوتا تو خدا کا شکر ادا کرتے اور کچھ اور ہوتا تو استغفار کرتے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتے تھے۔ (سید ابوالحسن علی ندوی، قرآنی افادات [ترتیب :ر۔حقانی ندوی] ، رائے بریلی ، ص ۵۶۲)
مختصر یہ کہ قرآن مجید انسان کو بار بار اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق یاد دلاتا ہے ۔ یہ ایک صاف وشفاف آئینہ ہے، جس میں ہر شخص اپنے کردار واعمال کی تصویر دیکھ سکتا ہے ۔ یہ کتاب سب کے لیے بالخصوص اس کے پیغام کو قبول کرنے والوں کے لیے موجبِ رحمت ہے ۔ اس کے علم کی اشاعت وجہِ سعادت ہے اور اس کی ہدایات وتعلیمات پر عمل کرنا ذریعۂ نجات وفلاح ہے۔
ان خصوصیات کی وجہ سے قرآن کریم بلاشبہہ اللہ ربّ العزت کی سب سے بڑی نعمت ہے جو رحمتہ للعالمین وختم المرسلین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے انسان کو مرحمت ہوئی۔ اس کی قدردانی کا تقاضا یہی ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں اس کو رہنما بنایا جائے، ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی میں در پیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔ قرآن کریم سے خود تذکیر حاصل کرنا اور دوسروں کو اس کی نصیحت ، ہدایات وتعلیمات یاد دلانا ہر حال میں نفع بخش ہے، جیسا کہ خود قرآن میں اس کی تاکید ملتی ہے:
وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵ (الذاریات۵۱ :۵۵) اور یاد دہانی کرتے رہو بے شک یاد دہانی کرنا مومنین کو نفع بخشتا ہے ۔
اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو اور ہم سب اس کتابِ عزیز کے سچے عاشق اور مخلص خادم بن جائیں۔