محترم پروفیسر خورشیداحمد کے ’اشارات‘ اور عبدالغفار عزیز کے مضمون نے شہید صدرمحمد مرسی کی مناسبت سے ان گوشوں پر رہنمائی دی ہے اور مطالعے کے لیے وہ معلومات پیش کی ہیں کہ جن سے دل دُکھ، حسرت اور عزیمت سے بھرگیا۔ کیا ہم مسلمان اتنے بے حس ہیں کہ اپنے بہترین لوگوں کو یوں موت کے گھاٹ اُتار کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے؟ مسلم قیادت پر قابض، ذلت اور ظلم کے ان نشانات کو ختم کرنے کے لیے دعائوں کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور گہرے مطالعے اور مؤثر تحریک و تنظیم کی ضرورت ہے۔
صدر محمد مرسی شہید کے کارنامے اور شہادت پر جناب پروفیسر خورشیداحمدکے ’اشارات‘ ایک ایسا شان دار تحقیقی مقالہ ہے، جسے محض اُردو خواں قارئین تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
’قرآن، سنت اور قربانی‘ پر مولانا مودودی مرحوم کی تحریر، ہمارے معاشرے کی گمراہ دانش وری کو ایک مدلل اور منہ توڑ جواب ہے۔سیّد علی گیلانی اور افتخار گیلانی کی تحریریں جھنجھوڑتی اور راستہ بتاتی ہیں۔
صدر مرسی کی مظلومانہ شہادت پر مضامین پڑھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور شرمندگی نے آلیا۔ ظہوراحمد نیازی نے ’بھارتی اسلاموفوبیا‘ کو بے نقاب کیا ہے اور ڈاکٹر رخسانہ جبین نے بڑی محنت سے اقوام متحدہ کے پرچم تلے، عورتوں کے نام پر عورتوں کی دنیا کو تہہ و بالا کرنے کے ’کانفرنسی ڈرامے‘ کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
(جون، جولائی ۲۰۱۹ء) میں ’فقہ و اجتہاد‘ کے تحت ’تکفیر کے شرعی اصولوں پر نظر‘ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کی تحریر قابلِ قدر تحقیقی کاوش ہے۔ اعتقادی اور عملی کفر و شرک میں فرق کے بیان میں مولانا مودودیؒ کے تفسیری حاشیہ (المائدہ ۵:۴۵-۴۷) کی کمی محسوس ہوئی، جس سے مسئلہ مزید واضح ہوجاتا۔
میاں طفیل محمد صاحب کی تحریر ’پہلی دستور ساز اسمبلی کا مقدمہ اور جماعت اسلامی‘ معلومات افزا تحفہ ہے۔ ہم نہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں اور نہ جماعت کی کاوشوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ عبدالغفار عزیز نے جون کے ’اشارات‘ میں لارنس آف عریبیہ کی سازشوں اور مسلمان قیادتوں کی حماقتوں کا ورق پڑھا کر خون کے آنسو رُلایا۔ یہ تحریر عبرت کا وافر سامان رکھتی ہے، جو مسلم دنیا کے قائدین کی نظر سے گزرنی چاہیے۔
ترجمان القرآن بھی حسب سابق اپنی آب وتاب پر ہے۔’موت کی یاد‘ (جون) واقعی تذکیر ہے۔ قرآن و احادیث کا اچھا خاصا انتخاب اس میں درج ہے۔ مفتی عدنان سیّد کاکاخیل کے کیا ہی کہنے۔ فلسطین کے متعلق بعض حقائق کا بالکل پہلی بار علم ہوا۔ دُکھ، صدمہ اور افسوس۔ حتیٰ کہ صفحہ ۷۶ پر پہنچ کر میں ٹپ ٹپ آنسو رو دیا۔ ترجمان القرآن میں اُردو املاء کی اغلاط کا ہونا شایانِ شان نہیں ۔ مختلف صفحات پر درست الفاظ اس طرح ہونے چاہییں: لکیروں (ص ۱۰)، حج (ص ۵۰)، اسرائیلی علاقوں ’کا‘ رکھ رکھائو (ص ۷۶)۔ سورئہ طلاق (ص ۴۹) کا درست حوالہ (الطلاق ۶۵:۴) ہے۔ اِزدِواجی درست ہے، جب کہ الف پر زبر بالکل غلط ہے۔
ترجمان کے مضامین لمبے نہیں ہونے چاہییں، بلکہ دو تین صفحات ہی میں بات مکمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، تاکہ زیادہ سے زیادہ موضوعات پر، زیادہ سے زیادہ چیزیں قاری کو پڑھنے کے لیے ملیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ روز بروز اُردو کا معیار گرتا جا رہا ہے اور لوگوں میں مطالعے کی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے، اس لیے براہِ کرم جس قدر ممکن ہومشکل الفاظ کو آسان بنا کر پیش کیا کریں۔