گذشتہ جون میں امریکا کے سفر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پروفیشنلز سے طویل نشست ہوئی۔ اس دورا ن بہت سے مسائل پر تفصیلی گفتگو اور تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ ان احباب میں عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن ڈاکٹر خالد اعوان صاحب بھی شامل تھے۔ وہ الحمدللہ، تفسیر وحدیث اور اسلام کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، نیز عہدحاضر میں قرآن وحدیث کی تطبیق (application)کا عمدہ ذوق بھی رکھتے ہیں۔ ان مجلسوں میں زیرِ بحث امور کے دوران میں پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور کردہ بعنوان Transgender Persons (Protection of Rights) Act 2018 [ماوراے صنف (تحفظ حقوق) قانون ۲۰۱۸ء] بھی زیرِ بحث آیا۔
پہلے یہ قانون ایک بل کی شکل میں ۷مارچ ۲۰۱۸ءکو سینیٹ آف پاکستان نے منظور کیا تھا، جسے چار سینیٹروں: روبینہ خالد (پیپلزپارٹی، خیبرپختونخوا)، روبینہ عرفان (مسلم لیگ، ق، بلوچستان)، کلثوم پروین (مسلم لیگ، ن، بلوچستان) اور سینیٹر مسٹر کریم احمد خواجہ (پیپلزپارٹی، سندھ) نے پیش کیا تھا۔ہرقانون کی طرح بظاہر یہ بل بھی ’تحفظِ حقوق‘ کے نام پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے پیچھے (Lesbians, Gays, Bisexual and Transgender) LGBT نامی عالمی تنظیم کا ایجنڈا ہے۔
یاد رہے کہ فضا بنانے کے لیے ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے زیراثر این جی اوز نے چند سال پہلے ’تنظیم اتحادِ امت‘ کے زیر انتظام بعض علما سے یہ فتویٰ حاصل کیا تھا: ’’ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ کہ جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں، عام عورتیں اور ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں ، عام مرد نکاح کرسکتے ہیں۔ اور ایسے خواجہ سرا کہ جن میں مردوزن دونوں علامتیں پائی جاتی ہیں، انھیں شریعت میں خُنثیٰ مشکل کہاجاتا ہے، ان کے ساتھ کسی مرد وزن کا نکاح جائز نہیں ہے۔[پھر یہ کہ] خواجہ سرائوں کا جایداد میں حصہ مقرر ہے‘‘۔{ FR 644 } ہمیں حُسنِ ظن ہے کہ ان مفتیانِ کرام نے مذکورہ اُمور کو نہ تو پوری معنویت کے ساتھ پڑھا اور سمجھا ہوگا، اور نہ انھیں اس کے محرکات اور مابعد اثرات کا اندازہ ہوگا۔ ایک بڑی واضح سی بات ہے کہ جس شخص میں مردانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ مرد ہے اور جس میں زنانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ عورت ہے، اس پر خواجہ سرا کا اطلاق بے معنی ہے۔تاہم مرد خصوصیات اور عورت خصوصیات والے ماوراے صنف الگ الگ لوگ بھی ہوتے ہیں۔
امریکا میں مذکورہ بالا اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے بقول: ’’ہم جنس پسندوں کے ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ نے بعض عالمی ذرائع ابلاغ پر مذکورہ بالا فتوے کو اپنی ’فتح‘ سے تعبیر کیا اور کہا: ’’مسلم علما نے ’ماوراے صنف افراد‘ (Transgenders) کے حقوق تسلیم کرلیے ہیں ‘‘۔ لندن کے معروف اخبار دی ٹیلی گراف نے لکھا:’’پاکستان میں ’ماوراے صنف افراد‘ کا اب تک آپس میں شادی کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ وہاں عملِ قومِ لوط کے مرتکب افراد کو باہم شادی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ‘‘ ۔{ FR 648 } یعنی ٹیلی گراف نے ’ہیجڑہ ‘کا ترجمہ ’Transgender‘کر کے فتویٰ کو عملِ قومِ لوط کے ہر قسم کے عمل کے جواز اور اجازت پر محمول کردیا۔ یاد رہے LGBT آرگنائزیشن کے نام میں Lesbian=Lسے مراد ہم جنس زدہ مَساحقہ عورتیں ہیں اور Gays=Gسے مراد ہم جنس زدہ مرد ہیں، Bisexual=Bسے مراد جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلق رکھیں، اور Transgender=T سے مراد خواجہ سرا ہیں۔ عام طور پر LGBT سے ’ہم جنس پسند‘ مراد لیے جاتے ہیں۔ پھر ان کے لیے دواور اصطلاحیں بھی استعمال ہوتی ہیں:
ایک’ زنخا‘ یا ’اُختہ‘ کو انگریزی میں Eunuchکہتے ہیں۔ یہ لوگ مردانہ جنسی اعضا کے ساتھ پیدا ہوئے ،مگر بلوغت سے پہلے جنسی اعضا کو خصی کردیا، یا کٹوا ڈالتے ہیں۔
اور Hermaphroditeپیدایشی طور پر جدا صفات کا حامل ہوتا ہے، جس میں دونوں اصناف کی مرکب علامات پائی جاتی ہیں، اور یہ بہت نایاب قسم ہے۔
جب کہ ’ماوراے صنف‘ (Transgender)کا مطلب ہے: ’’وہ افراد جو پیدایشی طور پر جنسی اعضایا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش میں ،ان جیسی عادات واطوار اور لباس اختیارکرلیتے ہیں اور پھر تبدیلی کے لیے ڈاکٹروں کی مدد بھی حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں تو ڈاکٹر، مرد کو عورت کے اور عورت کو مرد کے ہارمونز بھی کچھ عرصے کے لیے استعمال کراتے ہیں۔ کچھ مزید آگے بڑھ کر پلاسٹک سرجری سے نسوانی ساخت تک بناتے ہیں۔ اسی طرح مردانہ ہارمونز کے ذریعے عورت کی جسمانی ساخت وخصوصیات میں تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ اس سے نہ تومرد میں عورت کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بچّے پیداہونے لگیںاورنہ عورت میں مرد کی سی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مگر آج مغرب میں حیرت انگیز طور پر یہ شغل رواج پارہا ہے۔
اسی فعل کو قرآن کریم نے ’تغییرِ خَلق‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب ازراہِ تکبر وحسد ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، اللہ تعالیٰ نے اسے راندۂ درگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
قدرتی طور پر کسی کا مُخَنَّث یا ہیجڑا پیدا ہونا اُس فرد کا ذاتی عیب نہیں ہے۔اس بنا پر نہ اُسے حقیر سمجھنا چاہیے اور نہ اُسے ملامت کرنا چاہیے ،کیونکہ ملامت کا جوازاس ناروا فعل پر ہوتا ہے کہ جس کا ارتکاب کوئی اپنے اختیار سے کرے اور جسے ترک کرنے پر اُسے پوری قدرت حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کسی متنفّس کو اُس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ،اُس کے لیے اپنے کیے ہوئے ہر(نیک)عمل کی جزا ہے اورہر (بُرے) عمل کی سزا ہے ،(البقرہ۲:۲۹۶)‘‘۔ لیکن جیساکہ سطورِ بالا میں بیان کیا گیا ہے، آج مغرب میں ’ماوراے صنف‘ (Transgender) اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرتے ہیں۔ جس جنس پر اُن کی تخلیق ہوئی ہے ،مصنوعی طریقوں سے اُسے بدل دیتے ہیں۔
قومِ لوط کے بارے میں فرمایا: ’’اورلوط کویاد کروجب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہوجو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی، بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو ،بلکہ تم (حیوانوں) کی حد سے (بھی)تجاوز کرنے والے ہو‘‘(الاعراف ۷:۸۰-۸۱)۔پھر فرمایا:(۱) ’’اور ہم نے اُن پر پتھر برسائے ،سو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا‘‘ (الاعراف ۷:۸۴)‘‘۔ (۲)’’پس جب ہماراعذاب آپہنچا تو ہم نے اس بستی کا اوپر والا حصہ نیچے والا بنادیا اور ہم نے ان کے اوپر لگاتار پتھر کے کنکر برسائے جوآپ کے ربّ کی طرف سے (اپنے ہدف کے لیے) نشان زَد ہ تھے اور یہ سزا ظالموں سے کچھ دور نہ تھی‘‘ (ہود۱۱:۸۲-۸۳)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’مجھے اپنی امت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے ،وہ قومِ لوط کا عمل ہے‘‘۔ (سنن ترمذی:۱۴۵۷)
اس لیے پُرجوش مفتیانِ کرام کو چاہیے کہ کسی جدید مسئلے پر فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اس کے نتائج، اثرات اور بنیادوں پر ضرور غور فرمائیں یا اپنے اکابر سے مشاورت کرلیا کریں۔ جن باتوں کے فروغ کے پسِ پردہ این جی اوز کارفرما ہوں اور وہ اتنی مؤثر ہوں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے تساہُل اور شہرت پسندی کے سبب پارلیمنٹ کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہوں ،تو یقینا اُن کے پیچھے عالمی ایجنڈا اور دُور رس ودیرپا مقاصد ہوتے ہیں۔پھر وہ معاملات کی تشریح اپنے مقاصد کے تحت کرتے ہیں اور ایسا کرتے وقت کسی قسم کی لفظی ہیرپھیر سے گریز نہیں کرتے۔ اسی لیے جب ایک لفظ یا اصطلاح، متعدد یا متضاد معانی کی حامل ہو تو اس کے بارے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
سینیٹ نے ’ماوراے صنف‘ (ٹرانس جینڈر)کے حقوق کے بارے میں بل پاس کیا۔ پھر مئی ۲۰۱۸ء میں اسے قومی اسمبلی نے منظور کرکے صدرِ پاکستان ممنون حسین صاحب کو بھیج دیا، جنھوں نے ۱۸مئی ۲۰۱۸ء کو دستخط کر کے ایکٹ (قانون) بنا دیا۔ مغرب میں ایل جی بی ٹی گروپ اس قانون کو اپنے من پسند موقف کی تائید میں استعمال کررہا ہے۔
’تحفظِ حقوقِ ماوراے صنف قانون‘ میں شرارت موجود ہے۔ دفعہ ۳میں کہا گیا ہے: ’’(۱)ایک’ماوراے صنف ہستی‘کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اُسے اس کے اپنے خیال یا گمان یا زعم (Self Perceived) کے مطابق خواجہ سرا تسلیم کیا جائے ‘‘۔ یعنی اس سے قطع نظر کہ وہ پیدایشی طور پر مردانہ خصوصیات کاحامل تھا یا زنانہ علامات کا؟ وہ اپنے بارے میں جیساگمان کرے یا وہ جیسا بننا چاہے ، اس کے اس دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھرذیلی سیکشن ۲میں کہا گیا ہے کہ ’نادرا‘ [قومی رجسٹریشن اتھارٹی] سمیت تمام سرکاری محکموں کو ’’اس کے اپنے دعوے کے مطابق اُسے مرد یا عورت تسلیم کرنا ہو گا،اور اپنی طے کردہ جنس کے مطابق اُسے ’نادرا‘ سے قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چلڈرن رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘‘۔ اس دفعہ کے سقم کو دُور کرنے کے لیے کسی کی غیر واضح صنف کے تعین کو باقاعدہ طبی معائنے سے مشروط کر کے ہی شناختی کارڈ کا اجرا ہونا چاہیے۔
اس قانون کی یہ شق مغرب میں ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے مقاصد کی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔ ’تحفظِ حقوقِ ماورا صنف قانون‘ کے نام پر یہی وہ کھڑکی ہے ،جہاں سے نقب لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں غالب یقین ہے کہ جن سینیٹروں نے یہ بل سینیٹ میں پیش کیا تھا، انھیں بھی اس کے نتائج اور بنیادوں میں نصب بارود (Dynamite)کا علم نہیں ہوگا۔ ’عالَم غیب‘ سے ان کے ہاتھ میں ایک چیز تھمادی گئی اور انھوں نے سینیٹ میں قانون سازی کے لیے تحریک پیش کردی۔
اصولی طور پر تو کسی شخص کی پیدایش کے وقت جنسی اعتبار سے جو علامات ظاہر ہوں ،انھی کے مطابق ان کا جنسی تشخّص مقرر کیا جانا چاہیے ،لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ بعد میں فطری ارتقاکے طور پر کسی کی جنس میں تغیر آگیا ہے ،تو اس کا فیصلہ طبی معائنے سے ہونا چاہیے ،نہ کہ اسے کسی شخص کے ذاتی خیال یا گمان یا خواہش پر چھوڑ دیا جائے۔ جیساکہ اس قانون میں کہا گیا ہے اور یہی عالمی سطح پر ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کا ایجنڈا ہے اور اسے مغرب میں پذیرائی مل رہی ہے۔
اسلامی تعلیمات، ہماری تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار میں بھی اس کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے پُرامن طریقے سے ان چیزوں کے بارے میں معاشرے کو بیدار کرنا اور انھیں روکنا ہرمسلمان اور پاکستانی کی ذمے داری ہے، خاص طور پر ارکانِ پارلیمنٹ پر اس کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بیش تر ارکانِ پارلیمنٹ اپنی پارٹی کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اور یا پھر وہ قانونی مسوّدوں کے اسرار ورُموز کو جاننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اسی لیے پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ،تاکہ ہرمسوّدۂ قانون کا گہرا جائزہ لیا جائے۔ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے زیربحث قانون کے اثرات کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اگر کوئی مسودۂ قانون فنی امور سے متعلق ہے ،تو اس شعبے میں خصوصی مہارت رکھنے والوں کو بلاکر پارلیمنٹ کی کمیٹی رہنمائی حاصل کرے۔
اس قانون میں ایک اور تضاد یہ بھی ہے کہ دفعہ ۴ذیلی دفعہ ’ہ‘ میں کہا گیا ہے: ’’ہرطرح کے سامان ،رہایش گاہ ، خدمات ، سہولتوں، فوائد ،استحقاق یا مواقع جو عام پبلک کے لیے وقف ہوتے ہیں یا رواجی طور پر عوام کو دستیاب ہوتے ہیں ، ’ماوراے صنف‘ کے لیے اُن سے استفادے یا راحت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ‘‘، جب کہ دفعہ ۶کی ذیلی دفعہ ’ہ‘ میں کہا گیا ہے: ’’ماوراے صنف‘ کے لیے خصوصی جیل خانے ، حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے مقامات وغیرہ الگ بنائے جائیں ‘‘۔ آپ نے غور فرمایا: جیل خانے یا Confinement Cells (حفاظتی حراستی مراکز) تو خواجہ سرائوں کے لیے الگ ہونے چاہییں، لیکن عام پبلک مقامات تک اُن کی رسائی کسی رکاوٹ کے بغیر ہونی چاہیے ، مثلاً: کوئی مردانہ خصوصیات کا حامل خواجہ سرا ہے تو وہ بلاتردد زنانہ بیت الخلا اور غسل خانے میں بھی جاسکتا ہے، وغیرہ۔ الغرض، ایک طرف مردوزن کی تمیز کے بغیر عوامی مقامات پر کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف خصوصی جیل اور حفاظت خانوں کا مطالبہ ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی مسلمان لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ چلی جاتی ہے اور اس کے سرپرست رسائی اورتحویل میں لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں، تو عدالت اُسے ’دارالامان ‘بھیج دیتی ہے۔لیکن اس کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو نومسلم ہندو لڑکیوں کو اُن کے ہندو ماں باپ کی تحویل میں دیا ، ایسے اذیت ناک ریاستی تضادات ناقابلِ فہم ہیں۔
’ماوراے صنف‘ کے لیے وراثت میں حصے کی مناسبت سے قانون کی دفعہ ۷کی ذیلی دفعہ ۳ میں کہا گیا ہے (الف): ’’۱۸ سال کی عمر کو پہنچنے پروراثت میں مرد خواجہ سرا کے لیے مرد کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (ب)میں کہا گیا ہے: ’’زنانہ خواجہ سرا کے لیے عورت کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (ج)میں کہا گیا ہے: ’’وہ خواجہ سرا جو مذکر اور مونث دونوں خصوصیات کا حامل ہو یا اس کی جنس واضح نہ ہو، تواُسے مرد اور عورت دونوں کی اوسط کے برابر حصہ ملے گا، (د)میں کہا گیا ہے : ۱۸سال سے کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی جنس کا تعیُّن میڈیکل افسر طے کرے گا۔
اسلام میں ۱۸ سال یا اس سے زیادہ عمر یا کم از کم عمر کے وارث کا وراثت میں حصہ ایک ہی ہے۔اس میں عمر کے لحاظ سے کوئی تفاوت نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر مُورِث کی وفات کے وقت کسی وارث کی عمر ایک دن یا چند دن تھی ،تو وہ بھی اپنی صِنف کے اعتبار سے برابر کا حصے دار ہوگا۔ نیز صنف کا تعیُّن پیدایش کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے ،اس کا تعلق کسی کے ’’اپنے گمان وخیال یا خواہش‘‘ سے نہیں ہے اور اگر اس بارے میں کوئی ابہام ہے اور طبی معائنے سے طے کرنا ہے ،توبھی اس میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاسکتی۔یعنی کسی فرد کی اپنی خواہش اور تصور (Self Perception) پر جنس کے تعیُّن کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد قرار دے ڈالے ،تو اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دگنا ہوجائے گا ،شریعت میں اس کی گنجایش نہیں ہے ۔ اس لیے شریعت کی رُو سے اس قانون میں یہ بہت بڑا تضاد اور بنیادی ابہام ہے۔
یونی ورسٹی آف کیلے فورنیا،لاس اینجلس کے ولیمز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ ہے: ’’۷لاکھ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جنس وہ نہیں ہے، جو ان کی پیدایش کے وقت تھی ،سو وہ اسے تبدیل کرانا چاہتے ہیں‘‘۔ مگر۲۰۱۵ء کی رپورٹ کے مطابق شاید سمجھنے والے لوگوں کی تعدادکافی زیادہ ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو ’ٹرانس جینڈر‘ یا ’ماوراے صنف‘ کہا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلے کو آج کل کے ماہرینِ نفسیات Gender Dysphoria(جنسی احساسِ ملامت) کہتے ہیں۔
’جنسی احساسِ ملامت‘ کا مطلب یہ ہے :’’ایک شخص پیدایشی طور پر جس جنسی ساخت پر پیدا ہوا ہے ،وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے جنسی تشخّص سے مطابقت نہیں رکھتی ۔جو لوگ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں ،وہ ایک خاص قسم کے ’ٹرانس جینڈر‘ ہیں۔ ’جنسی احساسِ ملامت‘ کے نہ صرف نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں، بلکہ حیاتیاتی (بیالوجیکل) اسباب بھی ہوتے ہیں۔ جنس تبدیل کروانے کا عمل ایک پیچیدہ مشق ہے، مگر ایک دعوے کے مطابق اس احساس کے متاثرین میں سے تقریباً ۵۰فی صد لوگ جنس تبدیل کروانے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔اس عمل کو تغییرِ خَلقُ اللّٰہ یعنی اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جوقرآنِ کریم کی رُو سے شیطانی عمل ہے۔
ہم ایک بار پھر یاددہانی کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ احادیثِ مبارکہ میں نسوانی وضع اختیارکرنے والے مردوں اور مردانہ وضع اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے: