محترم رفقا! آپ جانتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام دنیا میں ایک خاص مشن لے کر تشریف لائے تھے۔ ان کے مشن کی تفصیلات ہمیں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک میں ملتی ہیں۔ کوئی بھی شخص جو انبیاے سابقہ ؑ کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہے، اس کے لیے آں حضورؐ کی زندگی کو رہنما بنائے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ تحریک اسلامی بھی اسی کام کو لے کر اُٹھی ہے، جس کی تفصیلات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات میں پائی جاتی ہیں۔
سیّدنا ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد بارگاہِ الٰہی میں دُعا فرمائی تھی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۹)، یعنی اے ہمارے رب، ان کے درمیان سے ایک رسول اُٹھا جو ان کے سامنے تیرے احکام پیش کرے۔ انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دُعا قبول فرمائی اورجس نبی کو مبعوث فرمایا، وہ آں حضوؐر تھے۔ فرمایا: ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ(الجمعہ۶۲:۲) ’’وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اُٹھایا، جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور پھر ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔گویا آں حضوؐر کی بعثت کے مقاصد بعینہٖ وہی تھے، جس کے لیے سیّدنا ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ نے دُعا فرمائی تھی اور یہ مقاصد چار تھے:
۱- اللہ کی کتاب کو من و عن اس کے بندوں تک پہنچانا،
۲- اس کتاب کے مطابق تعلیم دینا،
۳- ان میں حکمت و دانائی اور فہم و فراست کا شعور پیدا کرنا،
۴- ان کا تزکیہ کرنا۔
تزکیے کا منشا یہ ہوتا ہے کہ افراد کلیتاً اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بن جائیں۔ دو افرادمل کر خاندان کی بنیاد رکھیں، تب بھی اس پر عمل کیا جائے اور پھر پورے کنبے، خاندان، قوم اور ریاست میں بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھا جائے۔ تجارت، عدالت، تعلیم، زراعت، معیشت، سیاست، قانون سازی، غرض یہ کہ تمام شعبوں میں معاملات اسی کی روشنی میں طے کیے جائیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے یہی وہ مقصد اورمشن ہے جس کے لیے نبیؐ اور آپؐ سے پہلے دیگر انبیا علیہم السلام مختلف وقتوں میں دنیا میں تشریف لائے۔
جب فرد سے لے کر قوم تک کا تزکیہ ہوجائے، یعنی بُرائیاں رخصت ہوجائیں اور بھلائیاں رائج ہوجائیں، تب ہم کہیں گے کہ دین قائم ہوگیا۔ اس لحاظ سے ’تزکیہ‘ اور ’اقامت ِ دین‘ ہم معنی الفاظ ہیں اور اس کا نام ’اصلاحِ معاشرہ‘ ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور اصلاحِ معاشرہ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
ہم اور ہمارے تمام ذرائع، زندگی کے ہرمیدان میں راست روی اختیار کرنے کی تعلیم دینے کے لیے وقف ہیں۔ ہمارا بنیادی کام پوری قوم اور پورے معاشرے سے متعلق ہے۔اگر ہم بھلائی کا فروغ اور بُرائی کا سدباب چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے آپ کو پوری طرح نظم جماعت کے حوالے کر دینا ہوگا۔ اصلاح چاہنے والے لوگ اگر نظم جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو گویا وہ اس جدوجہد سے دُور ہیں، جس کا وجود اصلاحِ معاشرہ کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو لوگ جماعت اسلامی سے باہر ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے دُور ہیں، لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ کوئی جہاں بھی ہے اسے حقیقی بھلائی کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہیے۔ اگر آپ نبیؐ کے طریقے کو برحق مانتے ہیں اور نیکیوں کو پھیلانے اور بُرائی کومٹانے کے خواہاں ہیں تو پھر عملاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کیجیے اور عملی طور پر اس کا ثبوت بھی دیجیے۔
پس، اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جماعت اسلامی کا بنیادی کام اصلاحِ معاشرہ ہے، یعنی لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا، انھیں بھلائیاں اختیار کرنے اور بُرائیاں چھوڑ دینے کی دعوت دینا۔ انفرادی سطح پر اس کا نام تزکیہ ہے اور اجتماعی و معاشرتی سطح پر اسی کو اقامت ِ دین کی جدوجہد کہتے ہیں۔ یہ کام ہمیں اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انجام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے، آمین!
[میانوالی میں جماعت اسلامی کی ضلعی تربیت گاہ سے خطاب، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ہفت روزہ آئین، لاہور، ۹مارچ ۱۹۶۶ء]