۴۰سال کے دوران ایک بار پھر وطن عزیز پاکستان آنا ہوا، لوگوں کا رویہ اور ملک کے حالات دیکھے تو دل غم سے بھر گیا، آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ گئے۔ اللہ، ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ہم تو منزل کی مخالف سمت رواں دواں ہیں۔ خود کو ’بدلنے‘ کے لیے تیار نہیں، لیکن اُمید کرتے ہیں کہ حالات جلد سدھر جائیں گے اور دنیا کے فیصلے ہماری مرضی سے ہوں گے۔ یہ سادہ لوحی ہے یا محض خودفریبی!
بلاشبہہ ماضی کے برعکس، الحمدللہ، مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کروڑوں افراد صبح و شام اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر حیرت انگیز مشاہدہ یہ ہے کہ ان نمازوں کا، چلتی پھرتی زندگیوں اور معاشرے پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مسجد سے قدم باہر رکھتے ہی لین دین ہو، کاروبار ہو، ملازمت ہو، یا تعلقات، جھوٹ، فریب، حق تلفی، دھوکا اور ملاوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیسی نماز ہے جو زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لارہی؟ قرآن تو نماز کی یہ خصوصیت بیان کرتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۰ۭ (عنکبوت ۲۹:۴۵)۔ لفظ اِنَّ تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے، جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس کی نماز اسے فحش اور منکرات سے نہیں روکتی، اس کی نماز ہی نہیں ہے۔
چار عشرے گزرے کہ جب روزنامہ ملّت لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے برطانیہ جانا ہوا۔ محترم معظم علی صاحب اُس وقت سمندرپار پاکستانیوں کے لیے صدر جنرل ضیاء الحق کے مشیر تھے۔ وہ پی پی آئی اورملّت لندن کے بھی چیئرمین تھے۔ اسلامی بنکاری کو متعارف کرانے کے لیے ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ مجھے لندن آنے کی تاکید کرتے ہوئے کہنے لگے: میں نے چار افراد سے مشورہ کیا اور چاروں نے ہی تمھارا نام لیا۔ ان محبان میں پروفیسر خورشیداحمد اور محمد صلاح الدین شہید شامل تھے۔ ملّت کے بعد روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے پاکستان اور بیرونِ ملک پاکستانی کمیونٹی سے گہرا رشتہ اور مضبوط ربط رہا۔
پاکستان آکر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ پیسے کی ریل پیل ہوگئی ہے۔ اُونچی اُونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔ بڑے بڑے تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔ اندرونِ ملک ہوائی سفر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ٹکٹ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ریسٹورنٹ بھرے ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار اور ٹریفک سگنلز پر مانگنے والوں کی بھیڑ۔
پاکستان بننے کے بعد ۷۲برسوں میں نااہل اور خائن ہرشعبے میں آگے بڑھتے گئے۔ یوں تو دنیابھر میں جو چیز سب سے کم ہے وہ سچائی اور امانت ہے۔ اس کے بالمقابل جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ جھوٹ اور خیانت ہے۔ لیکن پاکستان میں ان کا تناسب کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے، جب کہ آقا علیہ السلام نے ان دو بُرائیوں سے بچنے کی یہ کہہ کر سخت تاکید فرمائی ہے کہ: ’’مومن کے اندر سب عادت ہوسکتی ہیں، مگر جھوٹ اور خیانت نہیں ہوسکتی‘‘۔ جھوٹ اور خیانت نے پاکستان کے پورے سماجی، اخلاقی اور ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سارا سیاسی نظام انھی دو خباثت پر چل رہا ہے۔ نااہلوں کو حکمرانی کی امانت سونپی جاتی رہی ہے اور وہ جھوٹ و مکاری سے ملک کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔
بے شک قوم کی بدحالی کے ذمہ دار حکمران ہیں، لیکن میں اس کی ذمہ داری قوم کو دیتا ہوں۔ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے ہوں اور ان پر اچھے حکمران آجائیں، یا لوگ تو اچھے ہوں اور ان پر بُرے حکمران آجائیں۔
قوم کی اچھائی یا بُرائی کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟
اس کے لیے سب سے موزوں پیمانہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی کتنے فی صد آبادی ’اکل حلال‘ پر قانع ہے؟ ’اکل حلال‘ صرف یہ نہیں ہے کہ سور نہیں کھاتا، یا شراب نہیں پیتا بلکہ اس کے تصور میں وہ سارے پہلو شامل ہیں جن کی اسلام تلقین کرتا ہے، مثلاًاگر ملازم ہے تو رشوت نہیں لیتا، اپنے اوقاتِ کار میں ڈنڈی نہیں مارتا۔ اپنا کام وقت پر پورا کرتا ہے۔ دفتر کے جن اُمور کا وہ رازداں ہے ،اسے دوسروں سے بیان نہیں کرتا۔ دفتر کی چیزیں ذاتی استعمال کے لیے گھر نہیں لے جاتا۔ اگر تاجر ہے تو اچھے مال کے ساتھ خراب مال ملا کر نہیں بیچتا، جھوٹی قسمیں نہیں کھاتا، ٹیکس چھپانے کے لیے دُہرے حساب کھاتے نہیں رکھتا۔ناجائز منافع نہیں لیتا، ملازمین پر زیادتی نہیں کرتا۔ اگر سیاست دان ہے تو وہ اقتدار میں آنے کے لیے یا اقتدار میں آکر عوام سے جھوٹ نہیں بولتا۔ قومی منصوبوں پر ذاتی فوائد حاصل نہیں کرتا۔ اپنی عیاشیوں یا بدانتظامیوں کا ایندھن بنانے کے لیے عوام پر ناجائز ٹیکس نہیں لگاتا، ظلم نہیں کرتا۔ مظلوموں کی دادرسی میں کوتاہی نہیں کرتا اور لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں مَیں نے سیاست دانوں، دانش وروں، صحافیوں، دوستوں اور کئی سرکاری ملازمین سے یہ سوال کیا کہ: ’’پاکستان میں کتنے فی صد لوگ حلال کھا رہے ہیں؟ تو پہلا جواب ہوتا تھا زیادہ نہیں ۲۰، ۲۵ فی صد لوگ ہوں گے۔ جب میں ’اکل حلال‘ کا مفہوم بیان کرتا تو وہ کہتے کہ: ایسے ۵ ، ۱۰ فی صد بھی نہیں ہوں گے‘‘۔ کسی نے کہا: ’’۲ فی صدبھی نہیں ہوں گے‘‘۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا جواب سن کر دل کو دھچکا لگا۔ ان کا جواب تھا: ’’صفر اعشاریہ صفر ایک فی صد‘‘۔ہوسکتا ہے کہ اپنے یا چند اور محکموں مثلاً پولیس کے معاملے میں ان کا جواب درست ہو،لیکن پورے ملک کی آبادی پر اس کا انطباق درست نہیں ہوگا۔تمام تر خرابیوں کے باوجود اس ملک میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں، لیکن آٹے میں نمک کے برابر، اور یہ نمک آٹے کو ذائقہ دے رہا ہے۔
ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ نظامِ تعلیم مغرب کے ذہنی غلام پیدا کر رہا ہے، جو اپنی اقدار سے ناآشنا، اپنے ماضی سے کٹے ہوئے، قرآن و حدیث سے نابلد، بلکہ دینی ہدایات پر شرمسار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو سب سے بڑا اثاثہ بن سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تعلیمی اداروں سے عموماً ڈگری یافتہ جُہل نکل رہا ہے۔ تعلیم، حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن کسی حکومت نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ پورے ملک کا نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہیے، مگر یہاں تو تقسیم در تقسیم کا منظرچھایا ہوا ہے۔ ان متحارب اور متضاد طبقوں کو جوڑ کر ایک مضبوط اور باوقار قوم کیسے بن سکتی ہے؟
اسلام عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، جب کہ پاکستان میں عدل کے بجاے ظلم کا نظام رائج ہے۔ ججوں کے افعال، کردار اور اعمال و معاملات کی جو کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ اچھوں کے ساتھ بددیانت، خائن، جھوٹے، نااہل اور نالائق لوگ بھی ججوں کے منصب پر فائز چلے آرہے ہیں۔ ججوں کے انتخاب کے طریقۂ کار کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ابھی تک فوری اور سستے انصاف کی منزل سے بہت دُور ہیں۔
پولیس ظلم،ناانصافی، رشوت ستانی اور لُوٹ مار کی علامت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ پولیس میں دیانت دار، محنتی اور فرض شناس اہل کار اور افسر بھی موجود ہیں، لیکن عام طور پر تاثر یہی سننے میں آیا ہے کہ پولیس مجرموں کو تحفظ دیتی ہے بلکہ جرائم کے فروغ کا سبب ہے۔ پولیس کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ ظالم، مظلوم کی تو صرف دنیا بگاڑتا ہے جو چند روزہ ہے، لیکن اپنی آخرت بھی بگاڑ لیتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔حکمرانوں کو اور وردی والوں کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ دلوں کو فتح کرنے کے لیے تلواروں کی نہیں، محبت اور عمل کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور کراچی میں ایک نیا کلچر جنم لے چکا ہے۔ ان بڑے اور چند چھوٹے شہروں میں بھی بزنس مین اور سیاست دان سرکاریا افسروں سے کام نکلوانے، صحافیوں سے اپنی پبلسٹی کرانے، وزیروں اور اہم شخصیات سے اپنے روابط بڑھانے کے لیے ناچ گانے کی محفلوں اور شباب و شراب کے حربوں سے کام نکلواتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ دنیا کی محبت دل کا اندھیرا ہے، اور سنت کی پیروی اور دین سے محبت، ابدی زندگی کا نُور ہے۔ جائز کمائی انسان خود کھاتا ہے اور ناجائز کمائی انسان کو کھا جاتی ہے۔ تمام گناہوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے۔
پاکستان میں پہلے روز سے بیوروکریسی کی حکومت رہی ہے۔ صرف ایک زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بیوروکریسی کی اس حکمرانی کو حدود میں رکھا تھا، لیکن اس میں بھی براہِ راست بھرتی کا نظام رائج کر کے انھوں نے بیوروکریسی کو ملک کے بجاے حکمران جماعت کا غلام بنا دیا، جسے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک بیوروکریسی کی عیاشیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ عوامی حقوق کا کسی کوپاس نہیں ہے۔
شہروں میں گندگیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ پانی اور بجلی کے مسائل نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اور حکمران عوام کے پیسوں سے شان دار کاروں میں گھوم رہے ہیں۔
ہرآنے والی حکومت پہلے سے زیادہ نالائق ثابت ہوتی ہے۔ پہلی وجہ سیاسی جماعتوں کا موروثی بن جانا ہے۔ دوسری وجہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ مغرب میں جس طرح حکمران جماعت کابینہ تشکیل دیتی ہے، اسی طرح اپوزیشن جماعت شیڈو کابینہ بناتی ہے۔ شیڈو کابینہ کے ارکان اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح کابینہ کے ارکان کام کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی ہرپالیسی ، ڈائرکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، اس پر تنقید کرتے ہیں، متبادل پالیسی پیش کرتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن جو بھی کسی منصوبے کے لیے پالیسی کا اعلان کرتی ہے تو نہ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائے گی؟ نیا ٹیکس لگایا جائے گا؟ یا کسی اور ادارے میں کٹوتی کرکے رقم لائی جائے گی۔
پاکستان میں آج تک میں نے یہ مشق نہیں دیکھی، جس کی بناپر کرپشن آسان ہوجاتی ہے۔ آج حکومت اور نیب بڑی سرگرمی دکھا رہی ہے کہ ’قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو پکڑیں گے‘۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کو کیوں نہیں روکا گیا؟ چیک اینڈ بیلنس کا نظام کیوں نہیں ہے؟ ایسے معاہدے کیوں کرائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالتوں سے بھاری جرمانے ہوتے ہیں؟ منصوبوں کے اخراجات کئی گنا اچانک بڑھ جاتے ہیں۔
مغربی اقوام کی خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ خود ظلم برداشت نہیں کرتیں، ظالم کے خلاف متحد ہوجاتی ہیں۔ ظالم کا دست و بازو نہیں بنتیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ دوسری اقوام پر حکمرانی کر رہی ہوں تو ظلم کی انتہا کردیتی ہیں۔ ہندستان اور افریقہ کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں___ طوفان آجائے، جنگ چھڑ جائے،غرض کوئی آفت آجائے وہ فوراً منظم ہوجاتی ہیں۔
ہم اخلاقی پستی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیںجہاں بعثت کے وقت عرب بدو بھی نہیں پہنچے تھے۔ ان میں غیرت تھی، حمیت تھی، جھوٹ کو نہایت بُرا سمجھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بُرائی بچیوں کو زندہ دفن کرنا تھا۔ آج ہم جعلی ادویات اور کھانے میں ملاوٹ کے ذریعے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سب کو مار رہے ہیں، حالانکہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
دوسری طرف پاکستا نی نہایت باصلاحیت ہیں۔ معمولی سی تربیت سے وہ کٹھن سے کٹھن کام بآسانی انجام دے لیتے ہیں۔بدقسمتی سے حکمرانوں کو شعورہی نہیں ہے کہ وہ قوم کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں ؟
ا س ملک پر اللہ کا فضل اور آقا علیہ السلام کا کرم ہے کہ اس میں اصلاح کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لوگوں کو اگر مجبور نہ کیا جائے تو اکثریت بُرائی سے بچنے کو ترجیح دے گی اور ’اکل حلال‘ پر قانع ہوگی۔ سمجھنا اور عام کرنا چاہیے کہ ناپاک ، ناجائز اور حرام ذرائع سے کمائے گئے پیسوں سے بنائے گئے کپڑوں میں نہ نماز قبول ہوتی ہے، نہ روزہ اور نہ زکوٰۃ و حج۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قوم ان سیاست دانوں کا اتباع ترک کردے، جنھیں شیطان بھی چھوڑ چکا ہے۔ شیطان تین قسم کے لوگوں کا پیچھا نہیں کرتا:۱- جو اپنی تعریف آپ کرتا ہو،۲- جو اپنے چھوٹے سے کام کو بڑا کرکے دکھائے ، اور۳- جو گناہ کر کے بھول جائے
گذشتہ چند عشروں میں بھارت کے کسی وزیراعظم کو وہ مقبولیت اور کامیابی نہیں ملی، جو نریندر مودی کے حصے میں آئی ہے۔ لوک سبھا کی ۵۴۲ نشستوں کے انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) اور اس کے اتحادیوں نے ۳۵۳ نشستیں حاصل کرلیں، جب کہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو صرف ۹۰ نشستیں ملیں۔
بی جے پی کی اتنی بھرپور کامیابی کی وجوہ کیا ہیں؟ یہ نتائج بھارت میں کن تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں؟ بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے؟ پڑوسیوں کو اب بھارت سے کس سلوک کی توقع رکھنی چاہیے؟علاقے میں امن کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟ عالمی جریدے ٹائم نے گذشتہ ماہ اپنے سرورق مضمون میں نریندر مودی کو Divider in Chief قرار دیا۔ بھارت کی بڑی منڈی کی قوت نے وہ کرشمہ دکھایا کہ پھر اسی مؤقر رسالے نے اگلے شمارے کے اداریے میں مودی کو ’بھارت کومتحدکرنے والا‘ وزیراعظم قرار دے دیا۔ گویا ’ہندو بنیا جیت گیا، امریکی بنیا ہار گیا‘۔
لوک سبھا میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے مزید صرف ۹؍ارکان کی حمایت درکار ہے۔اسے حاصل کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوسکتی۔ ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں اسے پہلے سے دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ریاستوں میں بھی وہ ۵۰ فی صد نشستیں رکھتی ہے اور مزید کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ گویا آئین میں ترمیم کے تمام لوازمات تقریباً پورے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کن مقاصد کی تکمیل کے لیے بی جے پی کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے پہلے ہم امریکا کی یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کی رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جو مرحلہ وار بھارتی انتخابات شروع ہونے سے صرف گیارہ روز قبل جاری ہوئی۔ اس پس منظر میں بھارت کے مستقبل کے عزائم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ رپورٹ مذکورہ یونی ورسٹی کے Centre for Race & Gender's Islamophobia Research & Documentation Project نے تیار کی ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’بھارت میں اسلافوبیا: بدسلوکی کی بھڑکتی آگ‘۔ مصنّفین میں ڈاکٹر حاتم بازیان، پاؤلاٹومسن اور رونڈا اٹاوی شامل ہیں۔ ڈاکٹر حاتم نے یونی ورسٹی کی جانب سے ۲۰۱۹ء کے سالانہ افطار ڈنر کے موقعے پر اپنی کلیدی تقریرمیں رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصے بیان کیے۔
اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق: ’’اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے طور پر ایک راے قائم کر کے اس کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے، خصوصاً ان کی سیاسی قوت کو ناپسند کرنے کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے‘‘۔ بھارت میں اسلاموفوبیا روزِ اوّل سے موجودتھا۔ بی جے پی کے جھنڈے تلے انتہاپسندوں کی حکومت میں گذشتہ عشرے میں اس فتنے نے معاشرے کے بہت بڑے حصے کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ مسلمانوں،عیسائیوں، سکھوں، نچلی ذات کے شودروں اور دلتوں پر حملوں میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوگیا۔اقلیتوں پر عرصۂ حیات مسلسل تنگ کیا جانے لگا۔
بھارتی اسلاموفوبیا کے واقعات کو آج تک مغرب میں تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا تھا۔ حال ہی میں یہ پہلی رپورٹ ہے، جو ایک امریکی یونی ورسٹی نے تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ واشگاف الفاظ میں بتاتی ہے کہ عوام کی حفاظت کے ذمہ دار سرکاری اداروں اور کارندوں کے ذریعے بی جے پی کی حکومت نے کس طرح مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے؟ بے سہارا طبقوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے مغرب کے انتہاپسند دائیں بازو کے گروپ اسلاموفوبیا کا ہوّا کھڑا کر کے جو حملے کرتے ہیں، ان کے طریقۂ واردات سے امریکا اور یورپ کے مبصرین خوب آگاہ ہیں، مگر دانستہ طور پر خاموش تماشائی۔ کس طرح ایک طبقےکو ملک و ملّت اور دین و دھرم کا دشمن اور خود کو جنتا کا محافظ قرار دے کر زیادہ ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں؟ جمہوریت کے نام پر فسطائیت قائم کی جاتی ہے، اسے کوئی خطرناک بات تصور ہی نہیں کیا گیا۔
زیربحث رپورٹ کے مطابق حکمران بی جے پی کے لیڈر نفرت کے پرچارک اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث رہے۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے پر مقدمے درج ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد بی جے پی کے ارکانِ پارلیمنٹ کی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے لیے ٹکٹ بھی انھیں دیے گئے جو نفرت پھیلانے میں سب سے آگے تھے۔ یوں اسلاموفوبیا کا مرض تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ سیاست اور نفرت کا کیا جوڑ ہے؟ اس کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ: ’معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والوں کی کامیابی کا امکان چار گنا بڑھ گیا، ان کا تعلق چاہے کسی جماعت سے ہو۔ ان کے لیے یہ بڑا نفع بخش سودا ہے‘۔
اس رپورٹ میں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے رہنمائوں کی تقریروں کے چند نمونے درج کیے ہیں:
بھارتی حکومتی عمائدین کے اس نوعیت کے بیانات نہ صرف اسلاموفوبیا کے مظاہر ہیں، بلکہ ان سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ پہلے سے چاروں اطراف سے خطرات میں گھری ہوئی مسلم آبادی کے خلاف ظلم و جور کے نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت اور سرکاری اداروں کے اقدامات سے مسلمان ہراساں تو ہیں ہی ، انھیں مزید حملوں، مجرمانہ کارروائیوں، قیدوبند، ریاستی تشدد، ملک بدری، حتیٰ کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی رپورٹوں میں عموماً گذشتہ واقعات کا تذکرہ کیاجاتا ہے اور مستقبل پر اظہارِ خیال میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے، خصوصاً جب معاملہ ایسے ملک کا ہو، جو نہ صرف مغربی ملکوں بلکہ اسرائیل کا بھی چہیتا ہو۔ لیکن اس رپورٹ کے مصنّفین کو ڈھکے چھپے الفاظ میں سہی، آنے والے خطرات کا ذکر کرنا پڑا ہے۔
۲ کروڑ دیوتائوں کو ماننے والے ہندوئوں کی سرشت میں خوف رچا بسا ہوتا ہے۔ مظاہرِ فطرت میں سے اس نے ہراس چیز کو دیوتا بنا لیا، جس سے اسے خوف محسوس ہوا یا کسی فائدے کی توقع ہوئی۔ ہزار سالہ غلامی نے اس ذہنیت کو مہمیز لگادی۔ وہ نہیں چاہتا کہ بھارت میں ایک بھی مسلمان موجود رہے۔ چنانچہ رپورٹ میں’گھر واپسی‘ مہم کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم کا نام ’گھر واپسی‘ رکھا گیا ہے۔ ’آر ایس ایس‘ اپنی اس مہم کا فلسفہ بتاتی ہے کہ: ’یہ مذہب کی تبدیلی نہیں بلکہ اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ آج بھارت میں جو شہری ہندو نہیں، ان کے آباواجداد کو جبراً ہندومت چھوڑ کر اسلام یا دوسرے ’غیرملکی‘ مذاہب قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ایشور نے ہندستان کو دیوتائوں کے لیے منتخب کیا تھا۔ ہمالہ میں برہما، وشنو، شیواترے، گویا یہاں دیوتائوں اور دیویوں کا راج تھا۔ پھر کرشنا مہاراج اور دوسرے اوتار بھیجے گئے۔
یہ سرزمین صرف ہندوئوں کے لیے ہے۔ مقامی آبادی میں سے راجپوت، جاٹ جیسی قومیں ہندومت میں واپس آجائیں تو انھیں تو قبول کرلیا جائے گا۔ لیکن جو غیرملکی افغانستان سے لے کر عرب تک کے علاقوں سے آئے ہوں، چاہے وہ ہاشمی ہوں یا پٹھان اور وہ ہندو بننے کوبھی تیار ہوں، تب بھی انھیں قبول نہیں کیا جائے گا، کیوںکہ انھوں نے اس دھرتی کو ناپاک کیا ہے۔ وہ ملیچھ ہیں۔ ہم انھیں شہریت کا حق نہیں دیں گے بلکہ اس سرزمین پر کوئی سیکولر قانون نہیں چلے گا۔ صرف ہندو قوانین نافذ ہوں گے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، جین، مسلمان ایک قوم نہیں۔ یہ ’دوقومی نظریہ‘ تھا، جو آرایس ایس کی طرف سے ۱۹۲۵ء میں اس کے قیام کے وقت پیش کیا گیا تھا۔ صرف دو سال بعد ۱۹۲۷ء میں ناگ پور میں جب گھنیش یاترا نکالی گئی، تو مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے۔ آرایس ایس نے جن سنگھ اور مہاسبھا کے ساتھ مل کر طے کیا کہ اب ہندو پُرامن نہیں رہے گا، جتھے بنائے گا، جنگی تربیت لے گا۔ چنانچہ ابتدائی طور پر ۱۲ مراکز قائم کیے گئے۔
بھارت کی آزادی کے بعد جب کانگریس نے سیکولر آئین بنانا چاہا تو آر ایس ایس نے اس سے انکار کر دیا اور سیکولر آئین سازی کے جرم میں گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ آر ایس ایس بھارت کے ترنگا جھنڈے کو بھی نہیں مانتی۔ وہ کہتی ہے: اس میں دوسری قوموں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ ہم اس کی جگہ زرد رنگ کا جھنڈا، قومی جھنڈابنائیں گے۔ ان کا اصرار ہے کہ ملک کو انڈیا نہیں، ہر زبان میں ہندستان ہی کہا جائے۔ ۱۹۷۳ء کے آر ایس ایس کے رہنما ہندوئوں کی ذہن سازی کرتے رہے۔
آر ایس ایس کی ایک شریک کار تنظیم وشوا ہندو پریشد(VHP) کے رہنما کا کہنا ہے کہ ایک دور میں ساری دنیا ہندو تھی۔ ۷؍ ارب لوگ ہندو تھے۔ آج صرف ایک ارب ہی رہ گئے ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اب انتخابات میں حصہ لینے کا مرحلہ آگیا ہے۔ بجرنگ دل کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بناکر ۱۹۸۴ء کے انتخابات میں قسمت آزمائی کی گئی، لیکن وہ صرف دو نشستیں ہی حاصل کرسکے۔ بہت سوچ بچار کے بعد امرناتھ یاترا کو ساتھ ملا کر ایودھیامیں رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کی گئی۔ یہ وار اس حد تک تو کامیاب رہا کہ بی جے پی کو ۸۳ نشستیں مل گئیں مگر وہ حکومت نہ بنا سکی، البتہ آیندہ پانچ سال کی محنت کے بعد اسے حکومت مل گئی۔ واجپائی وزیراعظم بن گئے اور ۱۲سال تک رہے۔
آر ایس ایس کو جب یقین ہوگیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کی مہم کے ذریعے ہندوئوں میں نفرت کے شعلے اتنے بلند کرچکی ہے کہ اب اپنے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے گی، تو انھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن، گجرات کے سکّہ بند قاتل وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنا اُمیدوار بنالیا۔
۲۰۱۴ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ’گھر واپسی تحریک‘ کا آغاز کر دیا گیا تھا، لیکن اس میں تیزی ۲۰۱۷ء میں دیکھنے میں آئی۔ زیربحث رپورٹ کے مصنّفین کا کہنا ہے کہ وہ اس کی جامع تفصیلات جمع نہیں کرسکے ہیں۔ ’دھرم جاگرن سمیتی‘ (بیداریِ مذہب کونسل) نے ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کے لیے بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک بڑے پیمانے پر فنڈز اکٹھے کرنے شروع کیے۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے تعاون سے یہ کونسل بنائی گئی۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس تنظیم نے ہندو سازی کا کام تیز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ۲۰۲۱ء تک پورے ملک میں ہندوئوں کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ ان اعلانات سے مسلمانوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا۔ وہ ہندوئوں کی آبادی سے نکل کر ان پس ماندہ علاقوں میں منتقل ہونے لگے، جہاں پہلے سے مسلمان اکٹھے رہ رہے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں ’وشوا ہندو پریشد‘ نے اعلان کیا کہ وہ اڑیسہ، گجرات، ستیش گڑھ، جھاڑکھنڈ اور آسام میں ۳۴ہزار افراد کو ہندو بنا چکی ہے اور ۴۹ہزار افراد کو ہندومت چھوڑ کر دوسرے مذہب میں جانے سے روک چکی ہے۔ ان کی طرف سے جو کتابچے شائع کیے گئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے پر ۵لاکھ روپے اور ایک عیسائی کو ہندو بنانے پر ۲ لاکھ روپے خرچ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں بھی اس طرح کی رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ لوگوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے۔
مودی حکومت کی زیادتیوں کو بے نقاب کرنے اور اسے تنقید سے بچانے کے لیے میڈیا کے تمام شعبوں کو سخت قسم کے دبائو،دھونس اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔اس میں کچھ اسی نوعیت کے جابرانہ ہتھکنڈے برتے جارہے ہیں جو ۵۴-۱۹۵۰ء کے دور میں سینیٹر میکارتھی کی نگرانی میں امریکی حکومت نے مبینہ طور پر کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھائے تھے۔ تب جن لوگوں کو بلیک لسٹ کیا گیا اور نوکریوں سے نکالا گیا، ان میں بہت سوں کا تو کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ چنانچہ صحافیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے حکومتیں جو بھی سخت اقدامات کرتی ہیں، انھیں اب دنیا بھر میں ’میکارتھی ازم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے ’وار روم‘ میں ایسے تمام صحافیوں اور دانش وروں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو اخبارات و جرائد، ریڈیو یا ٹی وی یاسوشل میڈیا پر مودی سرکار پر تنقید کرتے ہیں۔ پھر ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟
The Reporters without Borders World Press Freedom Index کا تحقیقات کے بعد کہنا ہے کہ: ’ان میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کے خلاف آن لائن نفرت انگیز مہم شروع کی جاتی ہے۔ انھیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں‘۔ بھارت کے پہلے پرائیویٹ نیوز چینل NDTV کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ: ’مودی کی پالیسیوں پرذرا سی تنقید کے جواب میں فیڈرل پولیس، ادارے کے خلاف ’فراڈ‘ کے الزام میں تحقیقات کر رہی ہے‘۔ ایک اور ادارے ’The Wire‘ کے سدارتھ راجن کا کہنا ہے کہ: ’جو صحافی وزرا کی دوستی کا حقِ نمک ادا نہیں کرتے انھیں وہ Prostitute (طوائف)کے وزن پر اپنی وضع کردہ اصطلاح میں Presstitute کہتے ہیں، کچھ اور صحافیوں کا کہنا تھا کہ: ’اگر وہ مودی یا اس کے اداروں کے بارے میں معمولی سی بھی لب کشائی کرلیں تو انھیں سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ذرا سی تنقید کی اشاعت پر تین سینئر ایڈیٹروں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جو رپورٹر سرکاری لائن سے ہٹ جائیں، انھیں بغاوت کے الزام میں قیدوبند کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
ایک خاتون مسلم صحافی رعنا ایوب اور اس کے خاندان کو گینگ ریپ کی دھمکی دی گئی۔ اس کی جان کو اتنا خطرہ لاحق ہوا کہ اقوامِ متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ۲۰۱۶ء میں Gujrat Files: Anatomy of a Cover Up کے نام سے ایک کتاب میں ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی حکومت کے ملوث ہونے کا پردہ چاک کیا تھا۔ پھر گذشتہ سال اس نے ایک نوجوان، دانش کا انٹرویو شائع کیا۔ مودی حکومت کے دوسرے سال ۲۰۱۵ء میں ایک ہندو جتھے نے محمد اخلاق اور اس کے بیٹے دانش پر یہ کہتے ہوئے حملہ کر دیا تھا کہ: ’تم نے اپنے ریفریجٹر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے‘۔ شدید زد و کوب کے نتیجے میں محمداخلاق تو موقع پر ہی شہید ہوگیا، جب کہ دانش کے سر پر اتنے وار کیے گئے کہ دماغ کے دو آپریشنوں کے بعد اسے ہوش آیا۔ وہ ان دنوں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ دانش نے اس انٹرویو میں بھارتی رہنمائوںسے سوال کیا کہ: ’’کیا تم بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے سب مسلمانوں کو قتل کر دو گے؟ یا انھیں ملک بدر کروگے؟ مجھے بتائو تم مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کس حد تک جانا چاہتے ہو؟ دانش نے اس وقت خدشہ ظاہر کیا تھا کہ: ’’اگر بی جے پی جیت گئی تو کوئی بہت بڑا حادثہ رونما ہوگا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ جائے گا اور ہم اسے جوڑ نہ سکیں گے‘‘۔ دانش کا یہ خوف اب بھارت کا ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کررہا ہے۔ مسلمان ہونے کے ’جرم‘ میں ان پر انتہاپسند ہندوئوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں۔
۲۰۱۹ء کے بھارتی انتخابات کے پہلے ہی روز بی جے پی کی طرف سے یہ ٹویٹ کیا گیا کہ ہم شہریوں کے قومی رجسٹر سے بودھوں، سکھوں اور ہندوئوں کے سوا ہر ایک ’گھس بیٹھیے‘ [مراد ہے مسلمان اور عیسائی] کا نام خارج کردیں گے۔اشارہ واضح ہے بی جے پی مذکورہ تین قوموں کے سوا سب کو شہریت اور حق راے دہی سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شا جو اَب وزیرداخلہ بن گئے ہیں، وہ بار بار کہتے رہے ہیں: ’’ہم ان ’دیمکوں‘ (termites) کو اُٹھا کر خلیج بنگال میں پھینک دیں گے‘‘۔ مولانا سیّد حسین احمد مدنی مرحوم و مغفور آج حیات ہوتے تو اپنی اس راے سے رجوع کرلیتے کہ: ’قومیں وطن سے بنتی ہیں اور ہندو مسلم ایک قوم ہیں‘۔
مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت ،غصے اور انتقام کی یہ آگ،فیس بک ، وٹس ایپ، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے تمام دیگر ذرائع پر اتنی تیزی اور شدت سے پھیلائی جارہی ہے کہ اس کی تپش ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے۔
’اسلاموفوبیا رپورٹ‘ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں مودی سرکار پر تنقید کے جرم میں چار صحافیوں کو قتل کر دیا گیا اور ۲۰۱۸ء میں اس رپورٹ کی تیاری تک مزید چار صحافی ہلاک کر دیے گئے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق: ایک خاتون صحافی گوری لینکش کے قتل کا فیصلہ ایک سال پہلے کیا گیا۔ زیرزمین دہشت گرد تنظیموں کے ایک کارکن پرشورام کو بالآخر حکم دیا گیا کہ ’ہندو دھرم کی خاطر‘ گوری کو ٹھکانے لگا دو۔ نام نہاد تحقیقات کے بعد قاتل پرشورام کو بری کر دیا گیا۔
’کمیٹی براے تحفظ صحافی‘ (CPJ)کے مطابق: ’’مودی کی حکومت آنے کے بعد ۱۲صحافی قتل کیے جاچکے ہیں۔ آزادیِ صحافت کی عالمی رینکنگ میں بھارت کا نمبر ۱۳۶ ہے۔ اس حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں جسے ’آپریشن ۱۳۶‘ کا نام دیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ دو درجن میڈیا ہائوسز کو مودی حکومت نے ’ہندوتوا‘ کے پرچار کے لیے بھاری رقوم دیں۔ دو کے سوا تمام میڈیا ہائوسز نے یہ پیسے پکڑ لیے اور ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے لیے ووٹروں کو بی جے پی کی طرف راغب کرنا شروع کر دیا‘‘۔ مال کی محبت میں ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی کہ انھیں یہ نظر نہیں آیا کہ وہ معاشرے کو تقسیم کرکے تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ: ’’بہت سے میڈیا ہائوسز سیاست دانوں کی ملکیت میں اور ان کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہ کثرت انڈین میڈیا ہائوسز کے نیوز اور بورڈ روموں میں ہندوتوا کا نظریہ نمایاں ہے‘‘۔
رفتہ رفتہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ’مسلمانوں کے لیے کوئی محلہ ،کوئی علاقہ اور کوئی سفر محفوظ نہیں رہا ہے‘۔ اسلاموفوبیا رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں: ’مسلمان بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں‘۔ جب پارٹی ٹکٹ کا معیار یہ ہو کہ: ’اُمیدوار نے کتنے مسلمان قتل کیے ہیں؟ تو پھر پراگیا ٹھاکرجیسے لوگ لیڈر بنتے ہیں کہ جس نے صرف ایک حملے میں ۱۰مسلمان شہید کر دیے تھے اور مودی نے اسے اپنا چہیتا اُمیدوار بنا لیا۔ اس پر ایسے قتلِ عمد اور کئی قاتلانہ حملوں کا الزام ہے، لیکن کہیں کسی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ ۲۳جون ۲۰۱۷ء کو ایک ۱۶سالہ نوجوان جنید خان عید کی خریداری کے لیے ہریانہ کے ضلع پلوال میں اپنے گائوں سے اپنے بھائی کے ساتھ دہلی آیا۔ ان کے دودوست بھی ہمراہ تھے۔ جب وہ واپس جارہے تھے تو ایک جتھے نے ٹرین میں ان پر حملہ کر دیا اور جنید کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے چھے نوجوان گرفتار کرلیے۔ بڑے مجرم نریش کمار کے سوا باقی سارے حملہ آوروں کو رہا کر دیا گیا‘۔
رپورٹ میں متعدد واقعات کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ: ’مسلمانوں پر حملوں کی بڑی وجہ سیاسی مفادات ہیں۔ اس فضا کے نتیجے میں مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ اگر کوئی مسلمان، ہندو اکثریت کے محلے میں رہتا تھا تو اس کا گھر حملے کا نشانہ بننے لگا۔ شہروں، قصبوںاور محلوں میں آبادیاں مذہب کے حوالے سے بٹنے لگیں۔ حکومت نے اس رجحان کی روک تھام کرنے کے بجاے مزید ہوا دی، جو اسلاموفوبیا کا واضح ثبوت ہے۔ جس زمین کی ذرا سی بھی اچھی قیمت نظر آئی، اسے مسلمانوں سے خالی کرانے کے لیے پورے محلے اُجاڑ دیے گئے اور مسجدیں گرا دیں۔
اترپردیش، کرناٹک، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، بہار، راجستھان، مغربی بنگال، جھاڑکھنڈ، تلنگانہ اور آسام میں سب سے زیادہ ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ۱۷-۲۰۱۵ء کے دوران ان ۱۰ریاستوں میں سیاسی اور مذہبی تعصب کی بناپر مسلمانوں پر ۱۹۷۲ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ ان حملوں میں جانی و مالی نقصان مسلمانوں کا ہوتا رہا اور اُلٹا الزام بھی ان پر دھر دیا جاتا کہ انھوں نے ہندوئوں پر حملے کیے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کی پالیسی میں ۲۰۱۷ء سے تیزی دیکھنے میں آئی۔ ان کی رہایشی، تجارتی یا زرعی اراضی پر دعوے دائر کردیے گئے۔ مسلمانوں کی جاسوسی شروع کر دی گئی۔ ان کے محلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں ۲۰۱۷ء کے بعد کے حملوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ: ’مودی حکومت میں مسلمان ٹوٹی پھوٹی، بدحال اور گندی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سماجی اور اقتصادی میدانوں میں ان پر آگے بڑھنے کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ ہرلمحے انھیں اپنی سلامتی کی فکردامن گیر رہتی ہے‘۔
میانمار (برما) میں قتل و غارت گری اور شہریت سے محروم کیے جانے کے بعد جو مسلمان کسی نہ کسی طرح بھارت آگئے، انھیں یہاں بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں نفرتوں، امتیازی سلوک اور حملوں کی وجہ سے صبح و شام اپنی سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے۔ آبادیوں سے باہر جنگلوں اور میدانوں میں بنائے گئے اپنے کیمپوں کی انھیں ۲۴گھنٹے نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ بار بار ان کے کیمپ اُجاڑے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر ان کی نگرانی کی جاتی ہے کہ وہ کہیں شہروں میں منتقل نہ ہوجائیں۔ انھیں مسلسل ملک بدری کا سامنا ہے، جو ان کی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے۔ انتہاپسند ہندو اور میڈیا ، روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ بناکر پیش کررہے ہیں۔ انھیں ’پناہ گزین‘ کے بجاے ’غیرملکی‘ اور ’غیرقانونی‘ کہا جاتا ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ جو بھارت کو مسلمانوں سے خالی کرانے کی مہم کے سرخیل ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو بھارتی کلچر اور قوم کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ سے ذرا ہٹ کر یہاں بھارت کی ایک مسلم خاتون صحافی رعنا ایوب اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ:’میرا بھائی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے۔ ممبئی کے اَپرمڈل کلاس علاقے میں اسے اپنا اپارٹمنٹ، جو اسے مارکیٹ کے نرخ سے زیادہ قیمت پر دیا گیا تھا، اس لیے چھوڑنا پڑا کہ مسلمان ہونے کے ناتے اس کا مکمل سماجی بائیکاٹ کیا جارہا تھا۔ وہ اسی شہر میں پلابڑھا مگرنفرت کا سامنا کرتے ہوئے اسے بے در ہونا پڑا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہاں تجارت اور صنعت سے وابستہ کتنے ہی مسلمان یہ رونا رو چکے ہیں‘۔ ۱۹۹۳ء کےمسلم کش فسادات میں رعنا کے خاندان کو نقل مکانی کرکے مسلم اکثریتی علاقے میں منتقل ہونا پڑا۔ یہ مالی طور پر مستحکم مسلمانوں کا حال ہے۔ وہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہونے یا کم از کم اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے انھیں بیرونِ ملک یونی ورسٹیوں میں بھیجنے کی سبیلیں سوچ رہے ہیں۔ مسلمانوں میں اس اَپرمڈل کلاس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ذرا سوچیے کہ مسلمانوں کی اکثریت آسودہ حال نہیں ہے، اور وہ اس انسانیت کُش فضا میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ ۲۳کروڑ لگایا جاتا ہے۔ رعنا اپنے مضمو ن میں یہ تعداد۱۹کروڑ بتاتی ہیں۔ اگر یہ تعداد بھی تسلیم کرلی جائے تو مسلمان کُل آبادی کا ۱۴ فی صد ہیں۔
۲۰۰۲ء کے مسلم کُش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔ ریلیف کیمپوں کے دورے کے بعد رعنا لکھتی ہیں کہ: ’’میں نے ان عورتوں کی بے بسی دیکھی جن کی آبروریزی کی گئی تھی۔ ان معصوم بچوں سے ملی جن کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی گئی تھی، جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے نیزوں، برچھوں اور تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور حملہ آور ’جے جے کار‘ کر رہے تھے۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اب وہ پورے ملک کا وزیراعظم ہے۔ کیا گجرات کی تاریخ پورے ملک میں دُہرائی جائے گی؟‘‘
۲۰۱۴ء میں مودی سرکار کے آتے ہی ’گائوماتا کی رکھشا‘ [تحفظ]کے نام پر بھی مسلمانوں پر حملوں میں تیزی آگئی۔ ایک طرف تو بھارت گائے کے گوشت کا دنیا میں سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک ہے۔ بیف کی برآمدات میں ۲۰ فی صد حصہ بھارت کا ہے۔ اس مد میں وہ سالانہ ۴؍ارب ڈالر کماتا ہے۔ برازیل ، آسٹریلیا اور امریکا کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ اس کے تمام تاجر ہندو ہیں، مگر دوسری جانب اسی گائے کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ گائے کا پیشاب اور اس کی پوجا کرنے والے ہندو یہ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیںکہ کوئی مسلمان گائے کو چھو بھی لے۔ حد تو یہ ہے کہ ڈنڈوں، سریوں اور چاقوئوں سے لیس ہندو دستے اس مسلمان پر پل پڑتے ہیں کہ جسے وہ گائے کے قریب بھی دیکھ لیں اور پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ متعدد ریاستوں میں اندرونِ ملک استعمال کے لیے گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس قانون سازی کے بعد مسلمانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ وٹس ایپ پر ہندو ان حملوں کی کتنی ہی وڈیو اَپ لوڈ کرچکے ہیں کہ جب انھوں نے مسلمانوں کو مار مار کر معذور کر دیا۔ مودی حکومت میں حملہ آوروں کو مسلمانوں کے ’شکار‘ کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا یا پھر فوراً چھوڑ دیا جاتا ہے اور مقدمہ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی حملہ آوروں کو بی جے پی کے رہنمائوں نے انعامات سے نوازا۔ جن مسلمانوں نے گائے پالی ہوئی تھی وہ ا ن سے چھین کر گئوشالوں کو دے دی گئیں۔ وہاں سے انھیں ہندو لے گئے ہیں۔ یوں مسلمانوں کا مال مفت میں ہندو ہتھیارہے ہیں۔
اپریل ۲۰۱۷ء میں ایک ۵۵سالہ مسلمان ڈیری فارمر پہلوخان پر، جو اپنی نابینا ماں، بیوی اور بچوں کا واحد کفیل تھا۔ ایک ہندو جتھے نے اس پر، اس وقت حملہ کردیا جب وہ اپنے مویشی ٹرک میں لے جارہا تھا۔ پھر حملے کی مکمل وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ بھی کی گئی۔ سارے مویشی چھین لیے۔ پہلوخان زخموں کے تالاب نہ لاکر دو دن میں چل بسا۔ اپنی موت سے قبل اس نے پولیس کو تمام چھے حملہ آوروں کے نام بتا دیے۔ پولیس نے آج تک کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ حملہ آوروں کے نام کیس سے خارج کردیے۔
پولیس ریکارڈ دیکھ کر مذکورہ رپورٹ تیار کرنے والوں کو پتا چلا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے بجاے پولیس اُلٹا مسلمانوں کا ’گوشت خور‘ اور ’گائے کے سمگلر‘ کے نام سے اندراج کرتی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق: پولیس حملوں کا نشانہ بننے والوں کو ہی مجرم بنا کر پیش کرتی ہے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر ونے کتیار، حملہ آوروں کے دفاع میں کہتے ہیں کہ: ’’مسلمان گائے کو ہاتھ لگائے گا تو ہندو تو مشتعل ہوگا۔ بہت سے مسلمانوں نے گائے پالی ہوئی ہیں۔ وہ ان کو کاٹ کر کھا جاتے ہیں‘‘۔ ہندو لیڈروں کا یہ طرزِعمل انتہاپسندوں کو مزید حملوں کی شہ دیتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر پکڑ بھی لیے گئے تو چھوٹ جائیں گے۔
بی جے پی کی تمام پالیسیاں آر ایس ایس تشکیل دیتی ہے۔ آر ایس ایس اپنی ۸۴سالہ جدوجہد کا پھل اب کھانے کو تیار ہے۔ کیا وہ آئین کو تبدیل کرکے بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنالے گی؟ کیا وہ ۲۳کروڑ مسلمانوں کی شہریت ختم کرکے انھیں ملک بدر کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ میانمار میں اس کا پہلے ہی تجربہ کیاجاچکا ہے۔ روہنگیا مسلمان بے وطن ہوکر کشتیوں میں ملک ملک پھر رہے ہیں اور کوئی ملک انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں۔ صرف معمولی سی تعداد کچھ ملکوں میں داخل ہوسکی ہے اور وہاں بھی، ترکی کے سوا، بے سہارا پڑے ہیں۔ اگر بھارت مکمل ہندو ریاست بن گیا تو اس میں بھارتی مسلمانوں کے لیے آزمایش کا ایک سخت دور شروع ہوگا، جس کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پیش گوئی کرچکے ہیں کہ: ’ایک دور میں مسلمان ہونا ہاتھ پر انگارہ رکھنے سے زیادہ مشکل ہوگا‘۔
اسلاموفوبیا پورٹ سے ہٹ کر یہاں پڑوسیوں کو درپیش خطرات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ بھارت اپنے قیام کے بعد سے ہی علاقے میں بالادستی کے لیے کوشاں رہا ہے۔ مغرب اور اسرائیل کی شہ کے بعد اس کے عزائم مزید بلند ہوگئے ہیں۔ مودی حکومت نے منتخب ہوتے ہی ۶جون ۲۰۱۹ء کو اسلحے کی خریداری کے لیے سب سے پہلا آرڈر اسرائیل کو دیا۔ ۳۰۰ کروڑ روپے میں وہ ۱۰۰’سپائس ۲۰۰۰ بم‘ خرید رہا ہے۔ بھارت میں انھیں ’بالاکوٹ بم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں حملے کے لیے یہی بم استعمال کیے گئے تھے۔ ان بموں میں ۸۰کلوگرام بارود اور ۹۰۰کلوگرام کا خول (casing) ہوتا ہے۔ یہ بم عمارتوں کی چھتوں کو توڑتے ہوئے اندر جاکر پھٹتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان ہلاک ہوسکیں۔ بھارت یہ بم کس لیے حاصل کر رہا ہے؟ ملک کے اندر تو وہ انھیں استعمال نہیں کرسکتا۔ کیا ان کا ہدف پاکستان کی کمانڈ اینڈ کنٹرول پوسٹیں ہیں؟ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اسرائیل سے اسے یہ بم ۲۰۱۹ء کے آخر تک مل جائیں گے۔ پاک فضائیہ سے زک اُٹھانے کے بعد بھارت نے فرانس سے درخواست کی ہے کہ اسے رافیل طیارے طے شدہ مدت سے پہلے دے دیے جائیں۔
بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کے دورِ حکومت میں پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور یہ فضا خود بھارتی حکومت قائم رکھے گی، تاکہ اس نفرت سے سیاسی فائدہ اُٹھائے۔ اس ماحول میں ضروری ہے کہ پاکستان بدلتے ہوئے منظرنامے پرنظر رکھے۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران نام نہاد بھارتی سیکولرزم بُری طرح بے نقاب ہوچکا۔ بھارت کی ۷۲ سالہ تاریخ اقلیتوں کے ساتھ بدترین تشدد، خون ریز فسادات اور پڑوسی ملکوں کے اندر دہشت گردی کرانے کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں کانگریس کی حکومت قائم ہوتے ہی پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سیکولرزم کا جو نقاب چہرے پر سجا لیا تھا، نریندر مودی کی قیادت میں وہ نقاب اُتر چکا ہے، پڑوسی ملکوں کو اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس عمل نے خود بھارت کا اصلی تنگ نظر برہمن چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ اس ایجنڈے پر بھارت ایک عرصے سے کام کر رہا ہے، جہاں تشدد پسند ہندوتنظیمیں عدم برداشت کو ہوا دے کر غیر ہندوئوں کے خلاف نفرت کی فضا کو الائو بناچکی ہیں۔ بہرحال بھارت کے سبھی لوگ نفرت کی آگ میں نہیں جل رہے، ان میں معتدل اور انصاف پسند لوگ بھی ہیں۔
انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے ملک کے اندر اور سرحدوں پر جارحانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ایودھیا کو رام کی جنم بھومی قرار دے کر تشددپسند ہندو قیادت نے ۲دسمبر ۱۹۹۲ء کو ۱۶ویں صدی کی تعمیرشدہ تاریخی بابری مسجد، ہندو بلوائیوں کے ذریعے شہید کرادی اور پھر ہندوئوں نے چُن چُن کر ملک بھر میں مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ ان فسادات میں کم از کم دو ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں بھاری اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی۔
بی جے پی، پونے تین ایکڑ اراضی پر رام مندرکی تعمیر شروع کر کے زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ حاصل کرنے کی خواہش مند اور دو تہائی اکثریت سے بھارت کا آئین تبدیل کرکے اسے ہندو ریاست قرار دینا چاہتی ہے۔ مگر عدالتی کارروائیوں کی بنا پر یہ تعمیر شروع نہ ہوسکی۔ رام مندر تعمیر شروع ہونے کی صورت میں بی جے پی کے ووٹوں میں بہت زیادہ اضافہ متوقع تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابری مسجد کا مقدمہ زیر التوا ہونے کی صورت میں نریندر مودی پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے؟ تو ہمارا جواب ’نہیں‘ میں ہوگا۔ اس مقدمے کی طوالت کا فائدہ بھی بی جے پی ہی کو پہنچ رہا ہے۔ نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ (ORF)کے سینیر فیلو نرنجن ساہوکا کہنا ہے کہ: ’جب تک یہ مسئلہ زندہ ہے، بی جے پی اس سے فائدہ اُٹھاتی رہے گی‘۔
بی جے پی بھارت کے اندر میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جو جنگی جنون پیدا کرچکی ہے، اس کی بناپر سیاسی پنڈتوں کو یقین تھا کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ ایک محدود جنگ میں کامیابی حاصل کرلیتی تو دوتہائی ووٹ بآسانی ان کی جھولی میں آپڑتے۔ رات کی تاریکی میں ایک نام نہاد اسٹرے ٹیجک اسٹرائک میں مبینہ طور پر جیش محمد کے تربیتی مرکز پر حملہ کرکے، بالاکوٹ میں ۳۵۰’دہشت گرد‘مارنے کا دعویٰ کیا گیا۔ صبح کے وقت میڈیا جب اتنی بڑی خبرکی تصدیق کے لیے وہاں پہنچا تو انھیں ٹوٹے ہوئے چار درخت اور ایک کوے کی لاش ملی۔ حملے کی جگہ پر نہ کوئی عمارت تھی، نہ تربیتی مرکز۔ بعدازاں فضائی لڑائی میں پاک فضائیہ نے دو بھارتی جیٹ گرا کر نریندر مودی کے جنگی جنون کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ جس کے نتیجے میں مودی پارٹی کو فائدے کے بجاے نقصان ہوا ۔بھارتی حکومتوں اور میڈیا نے اپنے ملک کے اندر پاکستان کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر رکھی ہے کہ آج ہرسیاسی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردے تو اسے زیادہ ووٹ ملیں گے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی مضبوط دفاعی اسٹرے ٹیجی کی بناپر بھارتی حکومت کو بّری فوج کے مختلف علاقوں میں عالمی سرحد کو پار کرکے پاکستان میں گھس جانے اور میزائلوں کے حملے کا منصوبہ بھی ترک کرنا پڑا۔ اس بارے میں پاکستانی میڈیا میں تفصیل سے خبریں آچکی ہیں، لہٰذا ہم یہاں بابری مسجد کے تنازعے کے ان پہلوئوں کو اُجاگر کریں گے، جو پاکستانی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے۔ اس سلسلے میں ان ہڈیوں کا کیا قصہ ہے جو بابری مسجد کی جگہ پر کھدائی سے نکل آئیں؟ یہ ہڈیاں کس کی ہیں؟ کیا برہمن اور مندروں کے باسی پہلے گوشت خور ہوتے تھے؟ پھر سوال یہ ہے کہ کس اُمید پر یہ کھدائی کرائی گئی تھی؟ کیا ثابت کرنا مقصود تھا؟ کھدائی سے ثابت کیا ہوا؟ اور اب بابری مسجد کی جگہ پہلے مندر ہونے کو ثابت کرنے کے لیے کیا کیا جھوٹ گھڑا جا رہا ہے؟
بابری مسجد پر ہندوئوں نے جو تنازع اُٹھایا تھا، اس پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ۲۰۱۰ء میں فیصلہ دیا تھا کہ: ’ایک تہائی زمین سُنّی وقف بورڈ کو دے دی جائے اور بقیہ دوگروپوں، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کر دی جائے۔ بھارت کے مشہور قانون دان اور دانش ور جناب اے جی نورانی نے دوجلدوں میں اپنی فاضلانہ کتاب The Babri Masjid Question (مطبوعہ ۲۰۰۳ء) میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے بابری مسجد پر فیصلے کا نہایت گہرائی سے تجزیہ کرکے ہندوانتہا پسندوں کے دعوے کے تاروپود بکھیر دیے ہیں اور فیصلے کی کج روی کو آشکارا کیا ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ۱۴؍اپیلیں داخل کی گئیں۔ جن پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی دستوری بنچ نے ۸مارچ ۲۰۱۹ء کو ایک سہ رکنی پینل تشکیل دیا کہ: ’وہ فریقین میں مصالحت کرانے کی کوشش کرے‘۔ پینل کو اپنی رپورٹ داخل کرنے کے لیے آٹھ ہفتے کا وقت دیا گیا۔ ایودھیا کے ایک قریبی قصبے فیض آباد میں بند کمرے میں۱۳مارچ کو پینل کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس میں تمام فریقوں کے قانونی مشیروں سمیت ۵۰ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کے بعد تین اجلاس مزید ہوئے۔ بعدازاں مسلم نمایندوں نے معذرت کرلی کہ رمضان کے مہینے کے دوران وہ اجلاسوں میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔
تازہ ترین صورتِ احوال یہ ہے کہ سہ رکنی کمیٹی نے اپنی عارضی سربمہر رپورٹ سپریم کورٹ کو جمعرات ۹مئی ۲۰۱۹ء کو پیش کردی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی کا کہنا تھا کہ: ’’ہم آپ کو نہیں بتا سکتے کہ کتنی پیش رفت ہوئی ہے؟ یہ ابھی صیغۂ راز میں رہے گی‘‘۔ مصالحتی کمیٹی کی مدت ۱۳مئی کو ختم ہورہی تھی۔ سپریم کورٹ نے جمعہ ۱۰مئی کو، ۱۵؍اگست کی آیندہ سماعت تک کمیٹی کو مزید تین مہینے کا وقت دے دیا۔ پانچ رکنی بنچ کا کہنا تھا کہ: ’’اگر مصالحت کار بہتر نتائج کے بارے میں پُرامید ہیں اور وہ مزید کچھ وقت چاہتے ہیں تو انھیں یہ وقت دینے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچ رکنی بنچ میں ایک مسلم جج ایس عبدالنذیر شامل ہیں۔ اس موقعے پر عدالت نے تمام فریقوں کو اجازت دی کہ: ’وہ زیادہ سے زیادہ ۳۰جون تک اپنے اعتراضات داخل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو مصالحتی کوشش میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔دو انتہاپسند کٹر ہندو تنظیموں کے سوا مقدمے کے تمام ہی فریقوں نے ۱۵؍اگست تک توسیع کی حمایت کی ہے۔
مسلمانوں کی جانب سے ایک درخواست گزار مفتی حزب اللہ بادشاہ، جو جمعیۃ العلما ہند کے حاجی محمودصاحب کی جگہ اس مقدمے میں فریق ہیں، ان کا کہنا تھا: ’ہم سپریم کورٹ سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ اگر عدالت مثبت نتیجے کے بارے میں پُراُمید ہے تو ہم توسیع کی حمایت کرتے ہیں‘۔ ہندوئوں کی جانب سے اصل درخواست گزار نرموہی اکھاڑے کے مہنت دھرما داس نے کہا کہ: ’صدیوں پرانے تنازعے‘پر مصالحت کے لیے وقت کی توسیع کی مَیں حمایت کرتا ہوں‘۔ مسلمانوں کی جانب سے پہلے درخواست گزار اقبال انصاری کہتے ہیں کہ:’ پینل ۷۰سال پرانے کیس کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، تو ہم چند ماہ مزید انتظار کرسکتے ہیں‘۔ ہندوئوں کی جانب سے ایک اور درخواست گزار ہندو مہاسبھا کے صدر اچاریا چکرپانی نے بھی توسیع کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ: ’میں تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول حل نکل آنے کی اُمید کررہا ہوں۔ یہ ملک میں ہندو مسلم بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے زبردست قدم ہوگا‘۔
ہندو درخواست گزاروں میں سے ایک تنظیم رام جنم بھومی نیاس نے توسیع کی مخالفت کی ہے۔ مہنت گوپال داس کا کہنا ہے کہ: ’کیس کی سماعت ہرلحاظ سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے‘۔ دوسری تنظیم جو توسیع کی مخالفت کر رہی تھی وہ ’وشواہندو پریشد‘ (VHP) ہے۔ اس کے ترجمان شرادشرما کا کہنا تھا: ’ہم توسیع نہیں، بس اب آخری فیصلہ چاہتے ہیں‘۔ اس تنظیم کا مرکز ایودھیا میں کارسیوک پورم میں ہے۔ بابری مسجد کوشہید کرنے میں بڑی تعداد میں یہی کارسیوک بھی شامل تھے۔ دونوں ہندو تنظیمیں نریندر مودی کا ووٹ بنک بڑھانا چاہتی تھیں۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیے کتنی حوصلہ افزا ہے؟ ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے سینیر فیلو نرنجن ساہو، جن کا ذکر اُوپر گزر چکا ہے، اس بارے میں قطعی پُراُمید نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’مصالحتی کوشش ناکام رہے گی اور بالآخر عدالت ِ عظمیٰ یہ کہہ دے گی کہ: ’’مسئلے کے قانونی حل کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہیں، اس لیے اب پارلیمنٹ ہی اس معاملے کو نمٹانے کے لیے قانون سازی کرے‘‘۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ زمین کی ملکیت سے شروع ہوا، لیکن ہندو انتہاپسند اسے مذہبی رنگ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ عدلیہ جانتی ہے کہ سیاسی طور پر انتہائی حساس مذہبی معاملے کا وہ فیصلہ نہیں کرسکتی۔ چنانچہ اس نے مصالحت کرانے کی راہ اپنائی۔ اس میں ناکامی ہوئی تو وہ کہہ دے گی کہ اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے‘‘۔
سہ رکنی مصالحتی پینل کے سربراہ سپریم کورٹ کے ایک سابق مسلم جج، جسٹس ایف ایم خلیفۃ اللہ ہیں۔ ان کے بارے میں عام راے یہ ہے کہ ’’وہ بس نام کے ہی مسلمان ہیں‘‘۔ کمیٹی کے ایک رکن ہندوئوں کے روحانی گرو اور آرٹ آف لیونگ فائونڈیشن کے بانی سری سری روی شنکر اور دوسرے رکن سینیر ایڈووکیٹ سری رام پنچھو ہیں۔ سری سری روی شنکر کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا پارلیمانی بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ: ’دونوں فریقوں کے وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے انصاف کیا جائے‘، جب کہ جمعیۃ العلما ہند کے رہنما مولانا محمود مدنی کہتے ہیں کہ: ’سری سری کمیٹی سے ہم کسی مثبت اور خوش گوار رویے کی توقع نہیں رکھتے‘۔
بابری مسجد کے انہدام کی بنیاد ’رامائن‘ کے عنوان سے بننے والے ایک ٹی وی شو نے رکھی۔ جس نے ۱۹ویں صدی میں گھڑے جانے والے اس جھوٹ کو پُرکشش کہانی کے انداز میں پیش کیاکہ: ’’یہ رام دیوتا کی جنم بھومی ہے اور یہاں ان کا مندر ہوتا تھا، جسے شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے جنرل میرباقی نے منہدم کر کے یہاں مسجد بنوا دی‘‘۔ اسے بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنالیا، بالآخر مسجد شہید کر دی گئی۔ الیکشن جیتنے کے بعد بی جے پی نے اپنی مقامی مخلوط صوبائی حکومت کے تعاون سے رام مندر کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا۔ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد کو پورا یقین ہوگیا تھاکہ مندر کی جگہ مسجد بنائی گئی تھی۔ اس ناٹک کے ذریعے ہندو انتہا پسند پارٹی حکومت میں آئی اور اس مشن پر گامزن چلی آرہی ہے کہ یہاں مندر بنوا کر وہ کئی اَدوار تک حکومت کرتی رہے گی۔
بات عدالت تک پہنچی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سہ رکنی بنچ میں دو ہندو اور ایک مسلمان جج تھے۔ مسلمان جج ایس یوخان کے خیال میں: ’’آثارِ قدیمہ کے شواہد کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سیدھا سادا ملکیت کا کیس تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے یہاں کون رہتا تھا‘‘۔ جن ماہرین آثارِ قدیمہ کو مسلمانوں کی جانب سے آبزرور کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ: ’’ملکیت کے ایک مقدمے میں ججوں کو تاریخ اور آثارِ قدیمہ کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے تھا‘‘۔ لیکن ان دو ججوں نے جی پی آر (Ground Penetrating Radar)کرایا، جس سے اندازہ ہوا کہ نیچے کوئی ڈھانچا یا اس کے کچھ آثارموجود ہیں۔ عدالت نے ’آثارِ قدیمہ سروے آف انڈیا‘(ASI) کو کھدائی کی ہدایت کردی۔
یہاں سے ان ہڈیوں کی کہانی شروع ہوتی ہے جو بابری مسجد کے نیچے کھدائی پر ہر صدی کی سطح سے مل رہی تھیں۔ یہ گائے، بیل اور بکریوں کی پکی ہوئی اور کھائی ہوئی ہڈیاں تھیں۔ اس کے علاوہ انسانی ڈھانچے تھے۔ ان ہڈیوں کا ملنا، محکمہ آثارِ قدیمہ کے کھدائی کرنے والے ماہرین کے لیے دردِ سر بن گیا۔ ان ہڈیوں کو اگر وہ ریکارڈ کرنا شروع کر دیتے تو مندر کا ڈھانچا کیسے کھڑا کرپاتے؟ سوال پیدا ہوتا کہ: ’’کیا رام کے مندر کے برہمن پجاری اپنی گائوماتا کو کاٹ کر کھا جایا کرتے تھے اور مندر کے دوسرے باسی بھی گوشت کھایا کرتے تھے؟‘‘ چنانچہ حکمِ حاکم ملتے ہی تمام مزدور بالٹیاں بھر بھر کر کھدائی میں ملنے والی تمام ہڈیاں پھینکتے رہے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈیزکے چیئرمین اور ہندستان کے قرونِ وسطیٰ کے اَدوار کی تاریخ کے پروفیسر سیّد علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ: ’’اے ایس آئی افسران ہڈیوں کے ملنے سے سخت پریشان تھے۔ وہ اس ثبوت کو ضائع کرنا چاہتے تھے۔ ہماری آنکھوں دیکھتے وہ ساری ہڈیاں چُن چُن کر بالٹیوں میں بھربھر کر پھینکتے جارہے تھے۔ گائے، بکریوں اور بیلوں کی ان پکی ہوئی ہڈیوں سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ کبھی مندر رہا ہی نہیں تھا‘‘۔ پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ: ’’ہمارے اصرار کے باوجود اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں ان پکی ہوئی ہڈیوں کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ وہ تو کسی کے کہنے پر مندر کا ثبوت لانا چاہتے تھے۔ رام کے نام پر بنے ہوئے وشنومندر سے جانوروں کی پکی اور کھائی ہوئی ہڈیاں کیسے مل سکتی تھیں؟‘‘
جسٹس سدھیر اگروال نے اپنے فیصلے میں اے ایس آئی کی رپورٹ کو شان دار، ہرلحاظ سے مکمل اور درست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ: ’’اے ایس آئی مذمت کے بجاے تعریف کی مستحق ہے‘‘۔ انھوں نے آزاد ماہرین آثارِقدیمہ کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا کہ: ’’خود عدالت نے کھدائی میں ملنے والی ہڈیوں کی تعداد اور جہاں ممکن ہو، ان کا سائز، نیز جتنے چکنے برتنوں کے ٹکڑے ملیں، ان کو ریکارڈ کیا جائے‘‘۔لیکن اب جسٹس اگروال نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ: ’’ یہ ہڈیاں گڑھے اور کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھیں، لہٰذا ان کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے ‘‘۔ کیا خوب، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔پروفیسر علی ندیم رضوی کا اصرار ہے کہ: ’’اُوپر نیچے ہرصدی کی جو سطح بنتی ہے، ان سب سے ہڈیاں ملی ہیں۔ یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ گذشتہ صدیوں میں یہاں پر جو لوگ بھی رہے ہیں، وہ سب گوشت خور تھے اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ مندروں میں رہنے والے گوشت نہیں کھاتے‘‘۔ اس نکتے کے جواب میں جسٹس اگروال کی نکتہ آفرینی سامنے آئی کہ: ’’بعض مندروں میں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور ان کا گوشت پرساد کے طور پر کھایا جاتا ہے اور ہڈیاں فرش کے نیچے دبا دی جاتی ہیں‘‘۔ اس نکتے کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’بعض دیوی دیوتائوں، مثلاً کالی ماتا، یاما اور شیوا پر جانور قربان کیے جاتے ہیں، مگر وشنو کے چرنوں پر کبھی قربانی نہیں کی جاتی۔ اور ہندو تو یہاں رام کے مندر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وشنو دوسرے جنم میں رام بن کر آیا ہے۔ چلیں اگر قربانی مان بھی لی جائے تو جانوروں کے پوری ڈھانچے ملنے چاہییں تھے۔ اِدھر اُدھر پڑی ہوئی چھٹی چھوٹی ہڈیاں نہیں‘‘۔ اپنے فیصلے میں جسٹس اگروال نے ایک اور مضحکہ خیز نکتہ یہ اُٹھایا کہ: ’’اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بابری مسجد جس جگہ بنائی گئی ہے، وہاں پہلے بھی مسجدیں ہوتی تھیں اور مندر نہیں تھا، تو اسلامی صحیفے تو یہ کہتے ہیں کہ عبادت گاہوں کو رہایش، کھانے پینے اور سونے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس نکتے کے جواب میں پروفیسر علی ندیم رضوی کا کہنا تھا کہ: ’’مجھے نہیں معلوم جسٹس اگروال نے یہ بات کہاں سے نکالی ہے؟ مسجدوں میں تو گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ خودپیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سوئے ہیں۔ ہاں، البتہ مندروں میں گوشت نہیں کھایا جاسکتا‘‘۔
چنانچہ رپورٹ کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں الفاظ کی جنگ آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تنازعے نے مزید شدت اختیار کرلی۔ آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’اے ایس آئی کو مندر کی موجودگی نکالنے کی جو ’ذمہ داری‘ سونپی گئی تھی، وہ اس نے پوری کردی‘‘۔ رپورٹ کی حمایت کرنے والے مخالفین پر الزام لگاتے ہیں کہ: ’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں‘‘۔ پروفیسر رضوی اس پر کہتے ہیں کہ: ’’میں سُنّی وقف بورڈ کا مداح ہوں اور نہ وہ میرے مداح ہیں۔ میں نہ تو مسلمان ہوں اور نہ سُنّی، بلکہ کمیونسٹ ہوں، جس سے یہ[بورڈ والے] لوگ نفرت کرتے ہیں‘‘۔
سُنّی وقف بورڈ نے دو ہندو ماہرین آثارِ قدیمہ کی خدمات حاصل کی تھیں کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ اے ایس آئی کا عملہ کھدائی کے دوران ضابطے کی پابندی کرتا رہے۔ ان میں ایک سپریاور ماتھے، جو جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی میں آثارِ قدیمہ کے پروفیسر ہیں، دوسرے جے مینن جوشیونادر یونی ورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کھدائی کے نگراں بی آر مانی کے خلاف عدالت میں شکایت جمع کرائی تھی کہ وہ قواعد و ضوابط کا پاس و لحاظ نہیں رکھ رہے، جس پر ہائی کورٹ نے بی آر مانی کو سربراہی سے ہٹانے کا حکم جاری کیا، مگر وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ آخر تک سربراہی کرتے رہے۔ بعدازاں مودی حکومت نے مانی کو ۲۰۱۶ء میں نیشنل میوزیم کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کر دیا۔
سُنّی وقف بورڈ کے آبزرور پروفیسر ورما کہتے ہیں کہ: ’’کھدائی کے دوران سرے سے کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ملا کہ بابری مسجد کی جگہ کبھی کسی صدی میں بھی یہاں مندر رہا تھا۔ البتہ یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں اس جگہ پر صدیوں پہلے بھی مساجد رہی ہیں‘‘۔ ۴۷۵صفحات پر پھیلی رپورٹ میں جتنے بھی ابواب ہیں، ان میں ایک بھی باب کھدائی میں ملنے والی ہڈیوں پر نہیں ہے۔
’’اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں مندر کی موجودگی کے لیے تین ثبوت پیش کیے ہیں: ۱- مغربی دیوار ۲- ۵۰ستونوں کی بنیادیں اور ۳- چند عمارتی ٹکڑے جو کسی طور پر بھی مندر کے نہیں ہیں۔
’’جہاں تک مغربی دیوار کی موجودگی کا تعلق ہے، تو وہ تو واضح طور پر مسجد ہونے کا ثبوت ہے کیوںکہ برصغیر کے ملکوں میں مسلمانوں کا قبلہ مغرب کی طرف ہے اور نمازوں میں ان کا رُخ مغربی دیوار کی طرف ہوتا ہے، جب کہ مندروں کا تعمیراتی پلان مختلف ہوتا ہے۔مندروں میں مغربی دیوار کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اب جہاں تک دوسرے ثبوت کا تعلق ہے، تو جن ۵۰ ستونوں کی دریافت کا اے ایس آئی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، وہ دراصل ٹوٹی ہوئی اینٹیں ہیں جن کے نیچے کیچڑ ہے۔ کیا کوئی ذی عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ کیچڑ پر ستون کھڑے کیے جاسکتے ہیں؟ اے ایس آئی نے دراصل اُوپر والوں کے کہنے پر ستونوں کی بنیاد کی کہانی بنائی ہے۔ جہاں تک تیسرے ثبوت کا تعلق ہے تو اے ایس آئی نے جو چار پانچ سو عمارتی ٹکڑے اکٹھے کیے ہیں، ان میں سے صرف دو اہم ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی اس کھدائی کے دوران نہیں ملا۔ یہ سب بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس کے ملبے سے اُٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ایک آدھا ٹوٹا ہوا ٹکڑا ایسا ہے جو انسانی مجسمے کی طرح لگتا ہے، اسے مرد اور عورت کا دیومالائی مجسمہ قرار دے دیا گیا۔ اس ٹکڑے کے بارے میں ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کس دور کا ہے؟ وہ کہیں سے بھی آسکتا ہے۔ اگر یہاں کبھی مندر ہوتا تو اس کی عمارت پتھر کی ہوتی اور ملبے سے بے شمار مجسمے ملنے چاہییں تھے۔ ان نام نہاد ’ثبوتوں‘ کی بنیاد پر مندرکی موجودگی کا دعویٰ کرنا بہت بڑا اختراع اور جعل سازی ہے۔
پروفیسر ورما نے ایک دل چسپ انکشاف یہ بھی کیا کہ: ’’اے ایس آئی کی رپورٹ کے ہرباب پر لکھنے والے کا نام درج ہے اور پوری رپورٹ کے کسی باب میں بھی مندر کا ذکر نہیں ہے، مگر رپورٹ کے آخر میں جہاں نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہاں کسی کا نام نہیں ہے، اور تین مذکورہ بالا ثبوتوں کا ذکر کرکے کہا گیا ہے کہ ان سے پتا چلتا ہے کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے یہاں مندر تھا، حالاں کہ ان ثبوتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں گذشتہ صدیوں میں مساجد ہوتی تھیں‘‘۔