دہلی میں ہمارا محلہ ’قرول باغ‘ کہلاتا تھا۔ اس محلے کے اردگرد تو ہندو اکثریت میں تھے، لیکن ہمارے گھر کے آس پاس کی ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ہندو اس طرف کم ہی آتے تھے،بلکہ ان کے بچے بھی زیادہ تر اپنی آبادیوں میں ہی کھیلتے تھے۔ ہماری طرف سودا سلف، سبزی، گوشت اور دودھ وغیرہ کی دکانیں بھی مسلمانوں کی تھیں۔ اسی طرح مکینک، الیکٹریشن، دھوبی، درزی، حجام اور گھریلو ملازم، یہ سب لوگ بھی مسلمان ہوتےتھے۔
والد ِ محترم ، ایم بی ہائی اسکول، دہلی میں انگریزی کے ٹیچر تھے اور والدہ محترمہ گھر میں محلے کے بچوں کو قرآن شریف پڑھاتی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ محلے کی بچیوں کو گھریلو کام کاج اور سلائی کڑھائی بھی سکھاتی تھیں۔ والدہ کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بہت اہم تھا اور وہ یہ کہ سیاسی طور پر بھی وہ بہت متحرک تھیں اور تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ کی سرگرم کارکن تھیں۔ محلہ قرول باغ اور اس کے قریب کی مسلمان آبادیوں میں خواتین تک تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتی تھیں۔ دہلی میں دُور و نزدیک، جہاں بھی مسلم لیگ کا کوئی چھوٹا بڑا جلسہ ہو رہا ہوتا، والدہ خود بھی اس میں شرکت کرتی تھیں ،اور اپنے ساتھ محلے کی دوسری عورتوں کو بھی لے کے جاتی تھیں۔ دہلی میں خواتین کے یہ جلسے عام طور پر مسلم لیگ کے ایک مقامی رہنما کے گھر میں ہوا کرتے تھے۔ ان جلسوں میں، مَیں بھی والدہ کی انگلی تھامے ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔
یہ واقعہ میرے حافظے میں آج تک محفوظ ہے کہ کراچی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کا وہ مشہور جلسہ، جس میں وہ کسی وجہ سے خطاب نہیں کرسکے تھے، اس میں بھی مَیں اور میری والدہ پہنچے تھے۔ پھر اسی طرح کراچی میں قائداعظم کے جنازے میں بھی وہ مجھے ساتھ لے کر شریک ہوئیں۔ اس جنازے کے رقت انگیز مناظر مَیں زندگی بھر فراموش نہیں کرسکوں گا۔ یوں نظر آتا تھا، سارا شہر ہی جنازے میں اُمڈ آیا ہے،لوگ غم سے نڈھال تھے اور دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے۔ والدہ بھی بہت غمگین تھیں۔ مطلب یہ کہ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ سے والدہ کی وابستگی صرف جذباتی نہیں تھی بلکہ عملی بھی تھی۔
والد صاحب کو مسلم لیگ سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی تو تھی، لیکن وہ عملی طور پر زیادہ متحرک نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسکول ٹیچر تھے، اور اس بناپر عملی سیاست ان کے لیے قانوناً ممنوعہ قرار پاچکی تھی۔ تحریک پاکستان کے ساتھ والد صاحب کی جذباتی وابستگی میں جتنی شدت تھی، اس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوسکتا ہے۔ محلے میں ہمارے ایک جاننے والے، جنھیں ’کانگریسی‘ سمجھا جاتا تھا، ان کا نام شاید آفتاب تھا، اور باریش بھی تھے۔ تحریکِ پاکستان عروج پر تھی۔ سیاسی اور معاشرتی سطح پر مسلم لیگ اور کانگریس کی تقسیم اتنی گہری ہوچکی تھی کہ اگر مسلمانوں میں سے کسی کے بارے میں یہ شک بھی پیدا ہوجاتا کہ وہ کانگریس کی طرف مائل ہے، یا اس سے کچھ ہمدردی رکھتا ہے، تو اس مسلمان کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔
میں جن صاحب کا ذکر کر رہا تھا، محلے میں ان کی سوداسلف کی دُکان تھی۔ والد صاحب کو جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ’کانگریسی‘ ہوچکے ہیں، تو ایک روز انھوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’دیکھو میاں، آیندہ سے ان صاحب کی دکان سے سوداسلف خریدنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ میں بہت حیران ہوا اور پوچھا: ’’ابا جان، آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اب تک تو ہم انھی کی دکان سےسوداسلف لاتے ہیں۔ آج آپ منع فرما رہے ہیں‘‘۔ اس پر والد صاحب نے باقاعدہ ڈانٹ کے کہا: ’’میاں، تم جانتے نہیں ہو کہ وہ ’کانگریسی‘ ہوچکے ہیں اور کانگریس، مسلمانوں کی دشمن ہے‘‘۔ چنانچہ، اس کے بعد ہم نے اس دکان کا بائیکاٹ کردیا۔ مجھے یہ بات بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ان کی دکان کے سامنے سے گزر کے ایک دوسری دکان سے سودا سلف خریدتے، تو وہ ہمیں دیکھ کے گھورتے رہتے تھے۔
پھر یہ منظر بھی ذہن میں تازہ ہے کہ والد صاحب باقاعدگی سے محلّے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے۔ نماز کے بعد لوگ مسجدسے باہر آتے، تو کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑے ہوجاتے، اور پھر فوراً ہی مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست پر بحث چھڑ جاتی۔ یہ وہ دور تھا، جب برعظیم کی سیاست میں بہت گرما گرمی اور تلخی پیدا ہوچکی تھی۔ محلوں، چوراہوں اور سڑکوں پر، اور مساجد کےباہر، ہرجگہ سیاست ہی موضوع ہوتی تھی۔ نماز کے بعد مسجد کےباہر ہونے والی ان بحثوں میں والد صاحب بھرپور حصہ لیتے تھے اور تحریک ِ پاکستان اور مسلم لیگ کے موقف کا بھرپور دفاع کرتے تھے۔
والد صاحب کی بزرگی، شرافت اور بطور استاد ان کے مقام و مرتبے کے باعث سبھی لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے، اور ان کی بات بڑی توجہ سنتے تھے۔ والد صاحب ان لوگوں کو تحریک ِ پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کرتے ، اور ان کو سمجھاتے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ، قیامِ پاکستان کی جو جدوجہد کر رہے ہیں، یہ جدوجہد برعظیم میں مسلمانوں کی سیاسی بقا اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس طرح وہ اپنی سطح پر تحریک ِ پاکستان اور مسلم لیگ کی دعوت پُرجوش انداز میں عام لوگوں تک پہنچاتے رہتے تھے۔
ہمارے گھر میں بھی سب کی زبانوں پر تحریک ِ پاکستان اورمسلم لیگ کا نام ہوتا تھا۔ دہلی میں، ان دنوں ویسے بھی قائداعظم اور لیاقت علی خاں کا بہت چرچا تھا۔ ہمارے محلے میں، جس طرف ہم رہتے تھے، سب گھر مسلمانوں کے تھے، اور سبھی مسلم لیگ کے حامی تھے۔ میری عمر تب کوئی ۶،۷ سال ہوگی۔ لیکن، اتنی چھوٹی عمر میں بھی، میں تحریک ِ پاکستان کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہوچکا تھا، اور جب ہم بہن بھائی، والدین سے پاکستان کے بارے میں سنتے تو ریاست پاکستان کے نام سے ہمارے ذہنوں میں ایک بہت ہی مثالی ریاست کا، مدینہ کی ریاست کا نقشہ اُبھرتا تھا اور وہ نقشہ ہمیں بہت مسحور کر دیتا تھا۔
میری معلومات کی حد تک، قیامِ پاکستان کے بعد جو لوگ ہندستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، ان کی اکثریت مسلک کے لحاظ سے ’بریلوی‘ تھی۔ نذر نیاز اور میلاد کی محفلوں کے بغیر ان کے یہاں دین اسلام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تقریباً ہرگھرمیں، ہر ماہ گیارھویں کی نیاز ضرور ہوتی تھی۔ اس کو میں اس طرح بھی کہہ سکتا ہوں کہ اس زمانے میں ہم نے اپنے گردوپیش جو مذہب پسند لوگ دیکھے، وہ زیادہ تر بریلوی مسلک سے وابستہ تھے۔ اسی طرح جاننے والے جانتے ہیں کہ دلّی، یوپی اور بہار [بھارت] سے جو لوگ یہاں ہجرت کرکےآئے، ان کے یہاں ہر ماہ ایک مجلس ضرور ہوتی تھی، اور محرم کی نویں اوردسویں کی مجلسیں اس کے علاوہ تھیں۔ ہمارے گھر میں بھی فاتحہ، نذرنیاز اور ختم شریف اور میلادشریف کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ تاہم ، سیاسی طور پر یہ سب لوگ مسلم لیگی تھے۔
قیامِ پاکستان کے وقت عمر اگرچہ بہت کم تھی لیکن کچھ چیزیں تو یاد ہیں۔ ۱۴، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو جذبات کا عالم تو کچھ نہ پوچھیے، جس رات پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا، محلے کے سب مسلمان گھروں میں، دیواروں اور چھتوں پر موم بتیاں روشن کی گئیں۔ ہر طرف چراغاں کا منظر تھا۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور اس لیے، اُس لمحے ہمیں اتنے بڑے اور تاریخ سا ز واقعے کا پورا شعور اور ادراک بھی نہیں تھا، لیکن یہ بات مَیں نہیں بھول سکتا کہ اس رات ہم سب بچے جلوس کی شکل میں محلے کی گلیوں میں شورمچاتے اور نعرے لگاتے پھررہے تھے: ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘، ’’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘‘۔ تب، شور مچاتے اور یہ نعرے لگاتے ہوئے اپنےمعصوم بچپن میں یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آج کے اس تاریخی اعلان کے نتیجے میں کل ہم کس قیامت سے گزرنے والے ہیں۔ شاید اس حقیقت کا شعور نہ ہونے کے باعث ہی ہم بے خوف ہوکر خوشی میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔
یادداشت کے کسی گوشے میں، اس رات کا یہ دھندلا سا نقش بھی اب تک باقی ہے کہ بزرگوں اور بڑوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ خوف کی ایک لہر بھی نظر آرہی تھی۔ تحریک ِ پاکستان کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی، ان کو مسرت تو بہت تھی،لیکن دُور و نزدیک سے قتل و غارت اور خوں ریزی کی جو اطلاعات مسلسل آرہی تھیں، وہ بھی ان کو سراسیمہ کررہی تھیں۔ تاہم، ہم بچے ان سب خطرات سے بے نیاز، اپنی دھن میں مست نعرے لگاتے، اور شور مچاتے پھر رہے تھے۔ ہمیں کوئی پروا نہیں تھی، کل کیا ہوگا۔
قرول باغ، دہلی کے ان تین بدقسمت محلوں [قرول باغ، سبزی منڈی، سیدی پورہ] میں سے ایک تھا، جن میں مسلمانوں کو بےدریغ قتل کیا گیا، اور جو لوگ وہاں سے بروقت نکل آئے، وہی زندہ بچ سکے۔ چنانچہ ۱۴؍اگست کی رات کو جیسے ہی قیامِ پاکستان کا باقاعدہ اعلان ہوا، تو قرول باغ مسلمانوں سے خالی ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارے دُور و نزیک کے عزیز و اقارب اور جاننے والوں نے بھی پاکستان کی طرف ہجرت کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ہماری بھی تیاریاں مکمل تھیں، لیکن والد صاحب گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے ، اور بضد تھے کہ ’’میں گھر میں یہیں پر رہوں گا، اور جو بھی مجھے یہاں سے نکالنے آئے گا، اس کا مقابلہ کروں گا‘‘۔ جب ہم نے زیادہ اصرار کیا، تو انھوں نے گھر کے صحن میں مصلیٰ بچھالیا، کہا: ’’آپ چلے جائیں‘‘ اور نوافل پڑھنے لگے۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر، اس وقت توان کے بغیر ہی گھر سے نکلنا پڑا۔ تاہم، ایک دو روز بعد کچھ عزیز واقارب دوبارہ ان کے پاس گئے، منت سماجت کی اور ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے، جب حالات کچھ بہتر ہوجائیں، تو سب مل کے یہاں واپس آئیں گے، لیکن ابھی یہاں پر رہنا خطرے سے خالی نہیں، آپ ضد نہ کریں، آئیں اور ہمارے ساتھ چلیں، سب لوگ کیمپ میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ کے بارے میں سخت پریشان ہیں‘‘۔اس طرح کی کچھ اور باتیں کر کے انھوں نے والد صاحب کو قائل کرلیا، اور وہ ہمارے پاس کیمپ میں پہنچ گئے۔ان کو آتے دیکھ کر ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔
اپنے گھر سے ہم سب لوگ بغیر سامان کے تانگوں پرسوار ہوئے، اور ’کوچہ پنڈت‘ میں آگئے، اور یہاں تقریباً تین چار ہفتے تک رہے۔ دہلی سے ٹرینوں پر بیٹھ کے جو لوگ لاہور آرہے تھے، ان سب کو دہلی میں پہلے ’پرانا قلعہ‘ میں پہنچنا پڑتا تھا۔ چنانچہ، ہم بھی کوچہ پنڈت سے پرانا قلعہ لائے گئے۔ جس روز ہم پرانے قلعہ پہنچے، تو معلوم ہوا کہ اس روز جو ٹرین مسلمانوں کو لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی، اس کے مسافر جن میں عورتیں، بچے اور مرد سب شامل تھے، سارے کے سارے راستے میں ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر قتل کر دیے ہیں۔
یہ اطلاع ملی ، تو پرانے قلعے میں نئے پرانے سب پہنچنے والوں میں سخت خوف اور دہشت پھیل گئی۔ انڈین حکومت نے اس کے بعد دہلی اور لاہور کے درمیان مسافر ٹرینوں کی آمدورفت فوری طور پر تاحکم ثانی بند کر دی۔ پرانا قلعہ میں خانماں برباد لوگ اتنی بڑی تعداد میں آرہے تھے کہ جگہ کم پڑگئی۔ ایک ایک کمرے میں درجن دو درجن لوگ اکٹھے رہ رہے تھے، اور سب کے سب بے سروسامان تھے۔ ان کے جسموں پر صرف وہی دوکپڑے تھے، جنھیں پہن کر وہ گھر سےچلے تھے۔ پرانا قلعہ میں صفائی ستھرائی کا بندوبست نہایت ناقص، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہرطرف گندگی پھیلی ہوئی تھی، اور اس گندگی کے باعث پرانا قلعہ ایک طرح سے بیماریوں کا گھر بن چکا تھا۔ یہاں انھی ابتر حالات میں ہمیں تقریباً ایک ماہ تک رہنا پڑا۔
حالات کچھ بہتر ہوئے، تودہلی اور لاہور کے درمیان مسافرٹرینوں کی آمدورفت بحال ہوتے ہی جوسب سے پہلی ٹرین دہلی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی، اس میں ہم سات لوگوں پر مشتمل گھرانا بھی سوار تھا۔ اس ٹرین کے اندر کے حالات بھی ناقابلِ بیان ہیں۔ ایک ہی ڈبے میں گنجایش سے بہت زیادہ لوگ بُری طرح پھنس کے بیٹھے تھے۔ سانس مشکل سے لیا جارہا تھا۔ اُوپر سے ہرطرف پھیلتی ہوئی یہ افواہیں پریشان کررہی تھیں کہ ’’راستے میں سکھوں کے مسلح جتھے موجود ہیں، وہ کرپانیں لہرا رہے ہیں، اپنے گھروں سے یہاں تک تو ہم لوگ سلامت پہنچ گئے ہیں، دیکھیے یہاں سے بحفاظت پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟‘‘ہم سب مسافر جانتے تھے کہ اس سے پہلے والی ٹرین کٹ چکی ہے، اس لیے سب لوگ خاموش، سہمے ہوئے بیٹھے تھے، اور صمیم قلب سے دُعائیں مانگ رہے تھے۔
راستے میں امرتسر کے قریب جب ٹرین کی رفتار کچھ کم ہونے لگی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے ٹرین رُک رہی ہے تو سب لوگ دم بخود تھے۔ سانسیں سینے میں اٹک گئیں، اور سب زور زور سے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ رفتار تیز ہونے لگی، اور امرتسر پیچھے رہ گیا۔ یہ دیکھتے ہی سب نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے بعد ٹرین نے جو رفتار پکڑی، تو راستے میں کہیں نہیں رُکی، اور مسلسل اپنی منزلِ مقصود لاہور، پاکستان کی طرف دوڑتی رہی۔ خدا خدا کر کے ٹرین لاہور پہنچی اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔ یوں لگا کہ جیسے ہم بہت دنوں ایک آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، اور اذیت ناک قید میں تھے، اور آج جب لاہور پہنچے ہیں، تو ہمیں رہائی نصیب ہوئی ہے۔ سب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور سب بحفاظت سرزمین پاک پہنچنے پر خدا کے حضور سجدہ ریز تھے۔
لاہور میں ایک سرکاری افسر، جو دہلی میں والد صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے، جب انھیں اس طرح بے سروسامانی کے عالم میں ہمارے یہاں پہنچنے کی اطلاع ملی، تو انھوں نے اپنی کوٹھی میں ایک کمرہ ہمیں عنایت کر دیا۔ چند ہفتے تک ہم اس کمرے میں رہے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ دہلی سے ہجرت کرکے آنے والے زیادہ تر لوگ کراچی کا رُخ کررہے ہیں، اور ہمارے متعدد عزیز و اقارب بھی وہاں پہنچ چکے ہیں، اس لیے چند ہفتے بعد ہم بھی لاہور سے کراچی پہنچ گئے۔
اپنے گھر سے محرومی کا شدید احساس تو اسی روز ہوگیا، جس روز ہم اپنا گھر چھوڑ کے کوچہ پنڈت آئے، مگر وہ احساسِ محرومی، جو انسان کی روح تک کو چھلنی کردیتا ہے، اس کا احساس ہمیں پرانا قلعہ میں جاکے ہوا، جہاں گندگی کے ڈھیروں کے درمیان رہنا پڑا، اور بدبو کے باعث ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں پاتے تھے، اور اردگرد پھیلنے والی متعدی بیماریوں کے باعث ہروقت سر پر موت منڈلاتی نظر آتی تھی۔ جب ہم لوگ پرانا قلعہ میں پہنچے تو ہمیں گھر چھوڑے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہوچکا تھا۔ روزمرہ ضرورت کی اشیا کی عدم فراہمی کا پریشان کن تجربہ ہورہا تھا۔ پھر، پراناقلعہ میں بھی کوچہ پنڈت کی طرح ہرطرف لوگ ہی لوگ تھے، پریشان حال اور بےسروسامان۔ اس کے بعدجب لاہور سےکراچی پہنچے تو یہاں بھی ابتدا میں بہت مشکلات کا سامنا رہا۔
اس احساسِ محرومی کے باعث ہم سب کے گھروں میں ہروقت اُداسی چھائی رہتی تھی۔ سبھی کی زبان پر اپنے اپنے ماضی کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس دوران جب کہیں کوئی بچھڑے ہوئے خاندان اچانک سےدوبارہ مل جاتے، تو عجیب رقت آمیز مناظردیکھنے میں آتے۔ ان گھروں کی عورتیں ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر روتی تھیں۔ کراچی میں ایک مدت تک روزانہ ہی کوئی نہ کوئی اطلاع آجاتی تھی کہ فلاں جگہ پر فلاں جاننےوالے، یا دُور نزدیک کے رشتے دار پہنچ گئے ہیں۔ جب اس طرح کی کوئی اطلاع ملتی، تو میری والدہ تڑپ کر اُٹھتیں، برقع پہنتیں اور ان لوگوں سے ملنے چل پڑتیں۔یہ سب چیزیں مجھے اس لیے بھی یاد ہیں کہ میں بھی والدہ کی انگلی تھامے ان کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ اس وقت میں بچہ ہی تو تھا، مگر ان اَشک بار مناظر کی تاب نہیں لاپاتا تھا ، اور رو پڑتا تھا۔
والد صاحب یوں تو طبعاً خاموش طبع آدمی تھے ہی، لیکن ہجرت کے بعد، کراچی پہنچنے کے بعد تو انھیں چپ ہی لگ گئی۔ بہت ہی کم بولتے تھے، جیسے ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ ماضی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں سب کچھ بہت مختلف اور بالکل نیا تھا۔ ایک ایسے مرحلے پر، جب بچے جوان ہورہے ہوں، آدمی کے لیے خود کو نئے حالات میں ڈھالنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر، ہم سب بچے ابھی پڑھ رہے تھے۔ ہمارے تعلیمی اخراجات کے باعث بھی وہ پریشان رہتے تھے۔
ہمارے خاندان میں یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ کوئی بچہ صرف میٹرک پاس ہو۔ والد صاحب چونکہ دہلی کے ایم بی ہائی اسکول میں ہیڈماسٹر رہ چکے تھے، اس لیے یہاں کراچی میں آئے تو سندھ مدرسہ اسکول میں ان کو ملازمت مل گئی۔ ہم ان دنوں ناظم آباد رہتے تھے۔ ناظم آباد سے سندھ مدرسہ اسکول کا فاصلہ ۱۲،۱۳کلومیٹر تو تھا۔ والدصاحب بچت کے خاطر روزانہ سائیکل پر اسکول جاتے تھے۔ بہت زیادہ محنت و مشقت اور فکرمندی کےباعث ان کی صحت گرنے لگی تھی، اور آخری عمر میں انھیں کینسر بھی ہوگیا تھا۔ اسی مرض میں ۱۹۶۰ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر۶۳ برس تھی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تقسیم ہند کے بعد جن لوگوں نے اپنا گھربارچھوڑ کے، یہاں پاکستان میں نئے سرے سے زندگی شروع کی، انھیں اپنے آپ کو نئی زندگی میں ڈھالنے کے لیے بہت عرصہ لگ گیا۔ جب تک ان کے گھروں میں بچے بڑے نہیں ہوگئے، ان کی پڑھائی مکمل نہیں ہوگئی، اوران کی شادیاں نہیں ہوگئیں،ان گھروں میں ہجرت کے صدمے کم نہیں ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً ۱۰سال بعد تک، ہمارے گھروں میں، ہماری شادی غمی کی مجلسوں میں، جب بھی لوگ اکٹھے بیٹھتے تو چند منٹوں بعد ہی ہجرت اور اس کے تجربات، اور اس کے صدمات کا تذکرہ شروع ہوجاتا تھا۔
ایک خالہ زاد بھائی میرے ہم عمر تھے۔ ہم دونوں میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا فرق ہوگا۔ اسی طرح میرے پھوپھی زاد بھائی بھی قریب قریب میرے ہم عمر تھے۔ ہم سب کے گھر چھن چکے تھے۔ اب جو بات میں کہنے والا ہوں، اس کا اطلاق صرف مجھ پر نہیں، بلکہ ان سب بچوں پر ہوتا ہے، جن کے ماں باپ کو تقسیم ہند کے باعث اپنے گھرچھوڑ کے ہجرت کرنا پڑی۔ ہم بچوں نے جن صدمات کو سہا تھا، ان کے باعث ہمارے مزاجوں میں شرارت نام کا کوئی جذبہ نہیں رہا تھا۔بچوں کی شرارتیں یہی ہوتی ہیں کہ آپس میں چھیڑ چھاڑ کرلیں، یا کبھی کسی ٹیچر کو تنگ کرلیں، مگر ہم میں اس طرح کی بھی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
میری عمر ۹، ۱۰ سال ہوگی، جب نماز پڑھنا شروع کردی تھی۔ میں ہرنماز کے بعد یہ دُعا ضرور مانگتا تھا، ’’یااللہ، ہمارے گھر کے حالات ٹھیک کردے‘‘۔ میں اس وقت یہ تو نہیں جانتا تھا کہ والد صاحب کی تنخواہ کتنی ہے، اور اس تنخواہ سے ہماری ضرورت پوری ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن اتنا ضرور محسوس کرتا تھا کہ ہمارے گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ۹، ۱۰سال کا بچہ، چھوٹا ضرور ہوتا ہے، لیکن اپنے گھریلو حالات سے یکسر لاعلم نہیں ہوتا۔ پھر جو لوگ ہجرت کرکے یہاں پہنچے، ان کے گھروں میں مدت تک سوگواری کی سی کیفیت رہی۔ ہروقت ماضی کا ماتم ہوتا رہتا، ہم کس طرح بے سروسامان اپنے گھروں سے نکلے؟ کس طرح قافلوں میں شامل ہوئے؟ کس طرح ٹرین میں بیٹھے؟ کس طرح پاکستان پہنچے، اور کس طرح یہاں کراچی میں زندگی شروع کی؟ سب ایک دوسرے کو اپنی داستان غم سناتے تھے اورروتے تھے۔
یقین کیجیے، اس افسردہ فضا میں کم و بیش سبھی بچوں کی طبیعت میں ہروقت قربانی، ایثار اور صبروقناعت کے جذبات موجزن رہتے۔ اگرکسی کو پہننے کے لیے کہیں سے کوئی اچھا کپڑا مل جاتا، تو اس کی خواہش ہوتی، یہ اچھا کپڑا کوئی دوسرا پہن لے، کسی کو بہتر کھانا میسر آجاتا تو وہ کوشش کرتا کہ یہ بہتر کھانا کسی دوسرے کو کھلا دے۔ مناسب کمبل یا لحاف نہ ہونے کےباعث، ہم بہن بھائی رات بھر سردی میں ٹھٹھرتے رہتے تھے، لیکن گھر والوں کو نہیں بتاتے تھے کہ ہمیں سردی لگ رہی ہے۔
میں اسکول میں پڑھتا تھا، اور مجھے روزانہ تین آنے جیب خرچ ملتا تھا۔ اسکول پہنچنے کےلیے راستے میں دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں۔ ایک بس کا کرایہ ایک آنہ ہوتا تھا۔ اس حساب سے مجھے اسکول آنے جانے کے لیے روزانہ چار آ نے درکار ہوتے تھے، جب کہ مجھے صرف تین آنے ملتے تھے۔ لیکن، آپ حیران ہوں گے کہ ان تین آنوں میں سے بھی، میں روزانہ ایک آنہ بچالیتا تھا۔ میں آدھا آنہ خرچ کرکے بس میں سفر کرتا، اور باقی آدھا آنہ راستہ پیدل چل کر بچا لیتا تھا۔ اس طرح تین آنوں میں سے دوآنے خرچ کرتا تھا، اور روزانہ ایک آنہ بچا لیتا تھا۔
وہ ایک آنہ میں آدھی چھٹی کے وقت کھانے پینے میں بھی خرچ نہیں کرتا تھا، بلکہ وہ آنہ آنہ جمع کرتا رہتا اور جب چند آنے جمع ہوجاتے تو اسکول میں اپنے کسی ضرورت مند ہم جماعت دوست جن میں کسی کے پاس سلیٹ نہیں ہوتی تھی، کسی کے پاس کاپی نہیں ہوتی تھی، ا ن سے کہتا، یہ میری طرف سے قرضِ حسنہ ہے، آپ کاپی یا سلیٹ لے لو۔ یہ قرض، میں واپسی کی نیت سے نہیں دیتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے والد اور والدہ کو میری اس ’بچت اسکیم‘ اور’قرضِ حسنہ اسکیم‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، اور ان کی طرف سے مجھے روزانہ تین آنے ملتے رہتے۔
کراچی ہمارے لیے نیا شہر تو ضرور تھا، لیکن یہاں آکر کچھ زیادہ اجنبیت کا احساس اس لیے نہیں ہوا کہ دہلی اور صوبہ جات متحدہ (یوپی) سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت کراچی ہی میں رہتی تھی۔ یہاں میں یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ اہلِ سندھ نےاپنے مہاجر بھائیوں کا بہت خوش دلی اور کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ یہ جو بعد میں، ایم کیو ایم کی سیاست کے باعث مہاجروں اور سندھیوں میں ’تُو تُو ، مَیں مَیں‘ والی فضا پیدا ہوئی، یہ اس زمانے میں نہیں تھی۔ تب کراچی آبادی کے اعتبار سے اتنا گنجان شہر بھی نہیں تھا بلکہ ایک پُرسکون سا شہر تھا، جس کی زیادہ تر مہاجر آبادی چھوٹے چھوٹے سرکاری کوارٹروں میں رہتی تھی۔ کراچی کی اب اصل اہمیت یہ تھی کہ یہ شہر اب پاکستان کا دارالحکومت بھی تھا۔
یہاں ہم سات افراد پر مشتمل خاندان کی پہلی پناہ گاہ جیکب لائن میں دو کمروں کا ایک چھوٹا کوارٹر تھا۔ کراچی میں ہم نے کرایے کے ۱۵ مکانات تبدیل کیے۔ بالکل ابتدائی دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ جیکب لائن میں ایک دو ماہ بعد جب ہم لارنس روڈ پر آئے تو ہمارے قریب ہی یہاں سے نقل مکانی کرکے جانے والے ہندو خاندانوں کی کچھ کوٹھیاں ابھی تک خالی پڑی تھیں۔ ہرطرف افراتفری مچی تھی۔ لوگ لُٹے پٹے یہاں پہنچے تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ہندو خاندان اپنی بھری پری کوٹھیاں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، تو ایک روز کچھ مشتعل مہاجر نوجوانوں نے ان خالی کوٹھیوں پر ہلہ بول دیا،اوران میں موجود مال و اسباب کو ’مالِ غنیمت‘ سمجھ کے لوٹ لیا۔
اس لُوٹ مار کی اطلاع معلوم نہیں کس طرح، قائداعظم تک بھی پہنچ گئی۔ فوراً ہی ان کا تحریری حکم آگیا کہ ’’ جولوگ ہندوئوں کےمکانات سے ان کا مال و اسباب اُٹھا لے گئے ہیں، آج رات کےاندھیرے میں وہ سب مال و اسباب اسی طرح واپس انھی کوٹھیوں میں رکھ آئیں‘‘۔ قائداعظم کے اس فرمان میں سب کے لیے یہ سرزنش بھی تھی کہ ’’ٹھیک ہے، آپ لوگ بڑی مصیبتیں جھیل کے یہاں پہنچے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ کو یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے کہ آپ ناجائز طور پر دوسروں کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیں‘‘۔
آپ حیران ہوں گے کہ قائداعظمؒ کا حکم پہنچنے کی دیر تھی، راتوں رات لوگوں نے ہندوئوں کی کوٹھیوں سے لوٹا ہوامال و اسباب، سارے کا سارا واپس ان کوٹھیوں میں رکھ دیا۔ کسی نے ایک سوئی تک اپنے پاس نہیں رکھی۔یہ اس وقت مہاجروں میں اسپرٹ تھی۔