اگست ۲۰۲۲

فہرست مضامین

امریکا میں اسلامی تحریک کے لیے دعوتی چیلنج

حسیب ابدالی | اگست ۲۰۲۲ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

اسلامی تحریک کا مقصد اسلامی نظام عدل کا تعارف، اور اس کے قیام کی منظم جدّوجہد ہے۔ ـ اس کام کا اصل مقصد دنیا اور آخرت میں اللہ کی خوشنودی اوراس کی نعمتوں کا حصول ہے ۔ـ اسلامی تحریک کا مشن دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے، جسے ـقرآن میں انبیا ؑکی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے:

ہم نے اپنے رسولوںؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اُتارا، جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اُس کی اور اُس کے رسولوںؑ کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ (الحدید ۵۷: ۲۵)

اللّہ عزّوجل نے زمین پرانسانیت کا آغاز اپنے نبیٔ اوّل آدم علیہ السلام سے کیا اور یوں اس مشن کا افتتاح ہوا ـ ۔ رسول اﷲ صلی الله عليہ وسلم کے وصال کے بعد یہ ذمّہ داری امّت مسلمہ کے کاندھوں پرآپڑی ہے ـ :

اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو انھی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں۔(اٰل عِمرٰن۳: ۱۱۰ )

اسلامی تحریک کسی لگے بندھے تنظیمی ڈھانچے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک سیل رواں ہے، جو بدلتے ہوئے حالات میں زمینی حقائق کی معرفت میں نئے راستے تلاش کرتی ہےاور مقامی افراد کار اس جدّوجہد کے جزولاینفک ہیں۔

امریکا  کی اسلامی تحریک:چند پہلو

امریکا میں ایک مؤثّراسلامی تحریک کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی تاریخ ، جغرافیہ اور معاشرت کا ادراک کیا جائے ۔ـ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس مشن کی تنظیم، وقت اور جگہ کے عین مطابق ہو۔ ـ یہاں ہم امریکی معاشرے کے چند عناصر کا ذکرکریں گے، جن سے واقفیت ضروری ہے:

۱- مقامی مسلم آبادی:امریکا، مغربی دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں مقامی مسلمان کمیونٹی چارصدیوں سے موجود ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک امریکی مسلمانوں کی اکثریت افریقی امریکی سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی۔ ان کے برعکس مغرب کے دوسرے ممالک میں مسلم اقلیتوں کی یہ صورتِ حال نہیں ہے۔ـ برطانیہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کا تعلق برّصغیر سے ہے۔ـ جرمنی میں ترکی باشندے سرفہرست ہیں۔ ـ فرانسیسی مسلمانوں میں افریقیوں کا تناسب زیادہ ہے۔

امریکا کے ساحلوں پر ۱۷ویں صدی (بعد از ۱۶۱۹ء) سے افریقا سے اغوا کیے ہوئے مردوخواتین غلاموں کی جبری آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک عرصے تک چلتا رہاـ۔ ان مظلوموں میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد تھی ـ، جن میں بہت سے لوگوں نے اپنے ایمان کو سلامت رکھاـ ۔

۱۹۷۰ء سے پہلے مقامی امریکی ہی مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے کےدوران شہری حقوق کی مہم میں ان مقامی مسلمان رہنماؤں کا بڑا کردار تھا ۔ـ مسلمانوں کے مراکز، مساجد، اسلامی مکاتب وغیرہ اندرون شہر ہوا کرتے تھے، جہاں سیاہ فام مسلمانوں کی اکثریت تھیـ ۔

افریقی امریکی مسلمانوں نے پچھلے دو سوسالوں میں متعدد اسلامی اور نیم اسلامی تنظیموں اور تحاریک کی داغ بیل ڈالی۔ ـ ان اداروں اور رہنماؤں نے اس سرزمین کے مقتدر اور جابر لوگوں سے کش مکش کو زندہ رکھا، ـ اس طرح یہاں پر اسلام، عدل کی علامت بن کر اُبھرا ۔ـ سیاہ فام امریکیوں نے اسلام کے سایۂ عاطفت میں اپنی مظلومیت کا مداوا اور آزادی کا راستہ تلاش کیا ـ ۔

۲- مسلم اشرافیہ تارکین وطن: ۱۹۶۵ءمیں جاری کردہ ’امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ‘ کی منظوری کے بعد مسلم ممالک سے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لیے آنا شروع ہوئے۔ـ ان کی اکثریت نے تعلیم کے بعد امریکا میں ہی رہایش اختیارکرلی ۔ـ امریکی نظام نے انھیں وہ مواقع فراہم کیے، جو سیاہ فام اور ہسپانوی باشندوں کومیسّرنہیں تھے ـ ۔

مسلم ممالک سے آنے والے باشندے معاشی اور تعلیمی اعتبار سے بہت بلند تھے۔ ـ امیگریشن قانون کی بنیاد میرٹ تھی۔ـ اس کے نتیجے میں ترقّی پذیر دنیا کے بہترین دماغ امریکا آئے اور یہیں بس گئےـ۔ بعد میں ان کے رشتہ داروں کی آمد شروع ہوئی۔

مسلم ممالک سے نقل مکانی کا یہ سلسلہ ۱۹۶۵ء سےآج تک جاری ہے ـ۔ ـ مقامی مسلمان اپنے غریب محلّوں تک محدود ہیں، مگر ان کے برعکس اسلامی تنظیموں ، مساجداور دینی اداروں پر ایشیائی اورعرب مسلم تارکین وطن کی مکمّل اجارہ داری ہے۔ ـ

ان نوواردان نے پچھلے ۷۰ برسوں میں کئی قومی اسلامی تنظیمیں اور ادارے قائم کیے ــ۔ انھی کے ذریعے امریکا کے تمام بڑے شہروں میں مساجد کا جال بچھادیا گیا ہے۔ ـ ان تنظیموں اور مساجد کے رہنما ، امام اور بورڈ ارکان عام طور سے اشرافیہ تارکین وطن ہوتےہیں۔ ـ یہ ادارے ما لی اعتبا ر سے خودکفیل ہیں اور تارکین آبادی میں ان کا ایک مضبوط حلقۂ اثر ہے ــ ۔

۳- نسلی تنـوّع : امریکا کی آبادی رنگ و نسل کے اعتبارسے انتہائی متنوع ہے۔ ـ تقریباً ہرزبان بولنے والے یہاں نظر آتے ہیں۔ ـ سفیدفام ، سیاہ فام اور لاطینی اکثریتی گروہ ہیں۔ ـ یہاں کی مسلم آبادی بھی بہت سارے رنگوں اور نسلوں پر مشتمل ہے۔ ـ مقامی افریقی امریکی باشندے مسلمانوں کی آبادی کا ۲۵ فی صد ہیں ۔ـ نومسلموں میں ان کا تناسب نصف کے قریب ہے۔ ـ لاطینی آبادی میں بھی اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ـ ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں ہسپانوی مسلمانوں کی مختلف جماعتیں موجود ہیں ـ۔ بدقسمتی سے یہ تنوّع مسلم تنظیموں اورمساجد کے ذمہ داران میں نظرنہیں آتا ہے۔ وہاں کے ارباب بست و کشاد صرف دیسی اور عرب مہاجرین ہیں، اور کہیں کہیں ان کی اگلی نسل نظرآرہی ہے۔

۴- نسلی امتیازاورغلامی: غلامی اور نسلی عصبیت امریکا کی سرشت کا حصّہ ہے۔ ـ اس وحشی نظام کا آغاز مقامی امریکی انڈین باشندوں کی زمینوں پر قبضوں سے ہوا۔ ـ مفت بیگارکے لیے افریقا سے بے گناہ لوگوں کو اغوا کیا گیا اور غلام بنا کر امریکا میں فروخت کردیا گیا، توـ اس مال مفت اور دل بے رحم کے ساتھ یہ ملک ترقّی کرتا گیا ـ۔ افریقی غلاموں نے امریکی زرعی زمینوں پر کپاس، تمباکو، کافی، زیتون ، انگور، گنا اور دوسری فصلیں کاشت کیں۔ ـ اس غلامی کا سلسلہ کئی صدیوں تک چلتا رہا۔ ـ اس کے ظلم و سفاکیت پر بےشما ر کتابیں اورفلمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ـ مشہورزمانہ کوکا کولا مشروب کا اصلی عنصر’کولا نٹ‘ بھی یہی غلام افریقا سے لے کر آئے تھے۔ اس سفّاک اور دہشت گرد غلامی کے ذریعے سفید برتری (white supremacy) کی ناقابلِ شکست معیشت تعمیرہوئی ـ۔

امریکی نظامِ معیشت و معاشرت میں انسان کو قانوناً خریدا ، بیچا اور ملکیت بنایا جاسکتا تھا، تاہم ـ امریکا میں غلامی کے نام بد لتے رہے ہیں ـ۔ ۱۸۶۳ءمیں غلامی کے رسمی خاتمے کے بعد یہ شیطانی نظام ’سیاہ قانون‘ (Black Codes) اور اس کےبعد ’جم کروقانون‘ (Jim Crow Law) کے نام سے ۱۹۶۵ء تک چلتا رہا ۔ـ اس دوران میں سیاہ فام آبادی، بنیادی حقوق کے بغیر جانوروں کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ـ

غلامی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے۔ امریکی دستور کی تیرھویں ترمیم (۱۸۶۵ء) نے غلامی کا قانونی خاتمہ کیا، لیکن اس کی ایک شق نے اسے منطقی طور پر برقرار رکھا۔ ـ اس شق کے مطابق جرم کی سزا کے طور پر مجرمین کو غلام بنایا جاسکتا ہے۔ ۱۹۶۰ءـ کی دہائی میں سول رائٹس مہم کی کامیابی کے بعد بظاہرتمام ظالمانہ قوانین کا خاتمہ ہوگیا ۔ـ منشّیات کے خلاف جنگ (Drug War) کا آغاز ۱۹۷۱ء سے ہوا۔ ـ اصل میں یہ سیاہ فام اور ہسپانوی باشندوں کی غلامی کا جدید ایڈیشن ہے۔ـ اس کے نتیجے میں امریکا کی جیلیں وسیع پیمانے پرآباد ہوئیں۔ ـ ان قیدیوں کی تعداد تمام صنعتی ممالک کی جیلوں سے زیادہ ہے۔ ـ افریقی امریکی نوجوانوں کا ایک بڑاحصہ اس وقت جیلوں میں ہےـ ۔

۵- معاشی درجہ بندی: اقتصادی درجہ بندی امریکی معاشرے کی ایک اور شناخت ہے۔ یہاں رہایشی محلّوں کا تعیّن ساکنان کی آمدنی سے ہوتا ہے۔ امریکا میں ہائی سکول (۱۲جماعتوں تک) تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ـ تعلیمی اخراجات مقامی حکومت کی ذمّہ داری ہے اور مصارف کا بڑا حصّہ مقامی پراپرٹی ٹیکسوں کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ ـ اس کے نتیجے میں امیر محلّوں کے اسکولز وافر وسائل سے مالامال ہوتے ہیں۔ـ طلبہ کے لیے تمام آسایشیں موجود ہوتی ہیں۔ ـ ان اسکولوں سے فارغ التّحصیل طلبہ معاشی طور پر بہت جلد بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف غریب محلّوں کے اسکول، یتیم خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ـ واضح رہے کہ ترقّی یافتہ ممالک میں یہ ناانصافی صرف امریکا میں پائی جاتی ہے۔ ـ یہ تعلیمی نظام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ غریب خاندانوں (رنگدار محلّوں) کے طلبہ اعلیٰ ملازمتوں سے محروم رہیں اور جرائم کی دنیا میں داخل ہوجائیں۔ ـ اس ظالمانہ تعلیمی نظام کے ذریعے امریکا کی جیلوں میں مفت بیگار کی سپلائی برقرار رہتی ہے۔ ـ سرکاری مدارس کا یہ نظام معاشرے میں نسلی اور معاشی تفاوت کا شرطیہ ضامن ہے ـ۔

بدقسمتی سے امریکا کی اسلامی تنظیموں اور مساجد نے آمدنی و اخراجات کے لیے ایسے ہی طریقے کا انتخاب کیا ہے۔ ـ اس کے نتیجے میں مسلم اشرافیہ علاقوں میں عالیشان مساجد جگمگاتی ہیں ، اسلامی مدارس جدید سہولیا ت کے ساتھ موجود ہیں۔ ـ دوسری جانب اندرون شہر(inner cities)  کے اسکول اور مساجد کھنڈرکا منظرپیش کرتے ہیں ـ ۔

۱۹۳۰ء سے ۱۹۷۰ء کےعشروں تک امریکا میں تقسیم دولت کا معاملہ بہتر ہورہا تھا۔ ـ متوسط طبقہ مستحکم تھا اور ایک معقول معیارزند گی کا حصول (غیر افریقی امریکی آبادی کے لیے)  بہت مشکل نہ تھا۔۱۹۸۱ء میں صدر رونالڈ ریگن نے اقتصادی بحالی ٹیکس ایکٹ پر دستخط کیے۔ ـ اس کے ذریعے محصول کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ ـ یہ لعنت امریکا میں ارتکاز دولت کی نہ رُکنے والی تحریک ثابت ہوئی۔ ۱۹۸۰ء سے آج تک دولت چند ہا تھوں ، خاندانوں اور کارپوریشنوں میں مرکوز ہورہی ہےـ۔

۶- ذات پات کا نظام : امریکی معاشرہ ذات پات (Caste) کے معا ملے میں ہندو معاشرے سے بہت مختلف نہیں ہے۔ اس موضوع پر ـ ازابل ولکرسن کی کتاب Caste: Origins of Our Discontents  ایک مفید اور معلوماتی تحقیق ہے۔ ـ امریکا میں ذات پات کا نظام سترھویں صدی سے شروع ہوا، جب افریقی انسانوں کو غلام بناکرلایا گیا ۔ـ سیاہ فام غلام اسفل ترین اورسفید فام زمین دار اعلیٰ ذات والے قرار پائے۔ـ ان دوانتہاؤں کے درمیان ابتداً یورپی ملازمین اور دیگرغریب گوروں کا شمارہوتا تھا ـ۔

ذات پات کا یہ نظام آج بھی بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ـ بدقسمتی سے امریکا میں موجود مسلم کمیونٹی کواس موضوع سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ـ عام طورپریہ سمجھا جاتا ہے کہ ذات پات کی شناخت صرف بھارت تک محدود ہے، حالانکہ ـ امریکا میں ذات پات کے نظام اور سرمایہ داری نے ایک ایسی معاشرت جنم دی ہے، جہاں انسان طبقاتی بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ـ

امریکا کی اسلامی تحریک کے کارکنان اور قیادت کو اس نظام کی گہری معرفت ہونی چاہیے۔ ـ پھر اہم سوال یہ بھی ہے کہ خود امریکی مسلمان اس ذات پات کے نظام میں کہاں کھڑے ہیں؟

 یہاں موجود مسلم تارکین وطن کی اکثریت (جو ۶۰ کے عشرے سے آنا شروع ہوئے) جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے آئی ہے۔ ـ ذات پات کے اس نظام میں یہ طبقہ امریکی ’سفید فام برہمن‘ سے قریب ترہے۔ ـ ان کے لیےیہ زمین سونے کی کان (Land of Opportunity) ثابت ہوئی ہے۔ ـ دوسری طرف امریکی مسلمانوں کی ایک چوتھائی تعداد مقامی سیاہ فام مسلمانوں پر مشتمل ہے،  جو چار سو برسوں سے انتہائی تلخ زندگی گزاررہے ہیں۔ ـ یہ لوگ حقیقی معنوں میں امریکی دلت ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم امریکا، ’گندمی برہمن‘ اور ’سیاہ دلت‘ ذاتوں پرمشتمل ہے۔

امریکی اسلامی تحریک کی خصوصیات

امریکا میں برپا اسلامی تحریک کی صورت گری جن اُمور کی روشنی میں کی جا نی چاہیے، ـ یہاں ان چند ضروری عناصرکا ذکر کریں گے: ـ

۱- مقامی تحریک: امریکی اسلامی تحریک کا نصب العین اس معاشرے میں اقامت قسط و عدل کی جدوجہد ہے، لیکن اس کی نہج مسلم ممالک کی تحاریک سے مختلف ہوگی۔ـ عالمی اسلامی تحریک کے دانش ور محترم خرم مرادؒ اپنے مضمون: ”مغرب میں اسلامی تحریک:چند مسائل کا تجزیہ“ میں فرماتے ہیں ’’ہمیں مغربی دنیا کی اسلامی تحریک کے لیے ایک مختلف نہج اور اپروچ کی ضرورت ہے، جو یہاں کے حالات و عوامل کو ملحوظ نظر رکھے۔ ـ یہ تحریک یقیناً مسلم اکثریتی معاشرے میں رائج الوقت انداز سے مختلف ہوگی‘‘۔پھر وہ وضاحت کرتے ہیں:’’ یہ فریم ورک کیسا ہوگا؟ اس نہج کا کلیدی نکتہ مقامی افراد کی شمولیت سے منسوب ہے۔ ـ اس تحریک کا حتمی مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک یہ جدوجہد مقامی ہاتھوں میں نہ ہوںـ‘‘ (بحوالہ Modern Islamic Movement ،مرتبہ: ڈاکٹر محمد ممتاز علی)۔دوسرےالفاظ میں اس تحریک کے کارکنان اور قیادت میں مقامی مسلمانوں کا کلیدی کردار ہونا چاہیے۔

خرم مراد صاحب کے مطابق جو مقامی نو مسلم اس تحریک کی دعوت کو قبول کریں ان کی ایک علیحدہ تنظیم بنائی جائے، ـ جہاں وہ آزادی کے ساتھ اسے مقامی ضرورتوں اور معیارات کے مطابق چلاسکیں۔ ـ ایک اور دلچسپ نکتہ وہ مقامی اور تارکین افراد کے انضمام کے بارے میں لکھتے ہیں: ”میرے خیال میں مقامی نومسلموں کو موجودہ اسلامی تنظیموں میں (جہاں غیرملکی مسلمانوں کی اکثریت ہے) داخل کرنا قطعاً فائدہ مند نہیں ہے، ـ ایسا ا نضمام کئی مسائل پیدا کرتا ہے ـ‘‘۔

اقامت دین و عدل کے لیے مقا می تحریک کا تصوّر کوئی اجنبی بیانیہ نہیں ہے۔ ـ قرآن میں  یہ ذکر کئی مقامات پر ہے ـ۔سورئہ ابراہیم آیت ۴میں ارشا د ہوتا ہے ـ: ’’اور ہم نے ہر رسولؑ کو اُس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انھیں سمجھا سکے‘‘۔انبیاء و رسل اس جدّوجہد کے لیے رول ماڈل ہیں اور وہ سب مقامی تھے۔ ـ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں اقامت دین وقسط کے لیے مقامی انبیا ورُسل کا انتخاب کیاـ۔ وہ رسلؑ اپنی قوم کے لیے دعوت و ہدایت کا مشن لے کراُٹھے ، اپنے معاشروں میں پلے بڑھے ،اور ان کو وہاں کی تہذیب ، ثقافت اور روایات کی گہری معرفت تھی ـ ۔

پھر نوح علیہ السلام کی دعوت کا اسلوب بیان ہوتا ہے:’’نوحؑ کی قوم نے رسولوںؑ کو جھٹلایا ، جب ان کے بھائی نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟‘‘ (الشعراء ۲۶:۱۰۵-۱۰۶)۔ـ یہاں نوحؑ اپنی قوم سے ایک بھائی کی حیثیت سے مخاطب ہیں ۔ـ اگلی آیات میںہود ، صالح اور لوط علیہم السلام یہی برادرانہ پیغام اپنی اپنی قوم کو پیش کرتے ہیں ۔ـ کسی معاشرے میں دعوت اور اقامت کی تحریک کے لیے وہ لوگ زیادہ مخاطب ہیں، جو اس قوم کے بھائی اور اس زمین کے بیٹے ہوں ـ۔

سورئہ ہود (آیات۸۴-۸۵ )میں شعیبؑ کا ذکراس طرح ہوتا ہے:’’اورمدین کی طرف ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اے میری قوم الله کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں… اور اے میری قوم، انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگو ں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ‘‘۔ شعیبؑ یہاں اپنے دعوتی سامعین کو ’میری قوم‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ ـ اس سورہ میں ہود ، صالح اور نوح علیہم السلام بھی اسی طرح اپنے سامعین اور ناظرین سے خطاب کرتے ہیںـ۔

انھی رسولوں کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے، اسلامی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی امریکی مسلمانوں پر اپنی توجّہ مرکوز کرے۔ ـ امریکا میں اسلامی جدّوجہد، سیاہ فام مسلمانوں کے بغیر نامکمّل ہے۔ـ ممتاز امریکی مسلمان دانش ور شرمن جیکسن Islam and The Blackamerican  میں لکھتے ہیں:’’امریکا میں اسلام، افریقی امریکی مسلمانوں کے ذریعے مقامی دین بن سکتا ہے۔ سیاہ فام مسلمانوں کے بغیر امریکا میں اسلام یتیم ، اجنبی اورصرف ایک غیرملکی مظہر ہے‘‘۔

۲- ایک تسلسل:اسلامی تحریک زمان و مکان سے کلّی آزاد نہیں ہوتی ، یہ ایک جہدمسلسل کا نام ہے۔ ہر تحریک اپنے سے پہلی برپا کی ہوئی جدّوجہد کے ثمرات قبول کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر نئی جہت اور سمت متعیّن کرتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تجدیدواحیائے دین میں ہندستان میں برپا ہونے والی اسلامی تحریکوں کا بہت تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ ان میں موجود خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی کی اوران تجزیوں کو سامنے رکھ کر جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ آباد شاہ پوری اپنی کتاب سیّد بادشاہ کا قافلہ میں تحریک مجاہدین کا تجزیہ کرتے ہیں: ’’المیۂ بالاکوٹ کے بعد  یہ تحریک رُکی نہیں۔ سیّد احمد شہیدؒ نے اپنے چند مخلص قائدین کو اپنی شہادت سے پہلے شمالی ہندستان (صادق پور) بھیج دیا تھا۔ ان نفوس قدسیہ نے احیائےدین کے مشن کو تقریباً سو سال تک زندہ رکھا اور اس جماعت کی شاخیں متّحدہ ہندستان کے مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔ سیّد احمد شہیدؒ کی شہادت ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ میں ہوئی اور ۱۹۳۱ء میں حیدرآباد دکن سے مولانا مودودیؒ نے اپنی جدّوجہد کا آغاز کیا۔

امریکا کی اسلامی تحریک بھی اس سرزمین پر چلنے والی پرانی تحریکوں کا تسلسل ہوگی۔ افریقی غلام اس خطّے میں دین کے پہلے علَم بردار تھے۔ انھوں نے بد ترین حالات میں یہاں پر دین اسلام کوزندہ رکھا۔ ان کی نسل سے میلکم ایکس [مالک الشباز: ۱۹مئی ۱۹۲۵ء۔۲۱فروری ۱۹۶۵ء]، والس فردمحمد [۲۶فروری ۱۸۷۷ء- ۱۹۳۴ء]، اور الایجا محمد [سابق الایجاد رابرٹ پول: ۷؍اکتوبر ۱۸۹۷ء-۲۵فروری ۱۹۷۵ء]، وارث دین محمد [۳۰؍اکتوبر ۱۹۳۳ء- ۹ستمبر ۲۰۰۸ء]، لوئیس فرقان محمد [سابق، یوجین والکوٹ: ۱۱مئی ۱۹۳۳ء] جیسے رہنما تیار ہوئے۔ ان رہنمائوں کے تصورِ دین کو درست سمت اور ساتھ لے کر چلنے کے لیے بڑی گراں قدر ذمہ داری، امریکا میں بسنے والے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان تحاریک کا تجزیہ اور شراکت امریکی اسلامی تحریک کے لیے ناگزیر ہے۔

۳- نسلی ، سماجی اور معاشی تنـوّع : رسولؐ اﷲ کی قائم کردہ اجتماعیّت کی ایک صفت تنوّع تھی۔ اس ٹیم میں مختلف رنگ ونسل کے لوگ موجود تھے۔ معاشی اور سماجی اعتبار سے صحابہؓ مختلف طبقوں سے تعلّق رکھتے تھے۔ عبدالرحمٰن ابن عوفؓ جیسے ریئس اور بلال ابن رباحؓ جیسے مسکین ، دونوں کا اس تحریک میں ایک مقام تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مکّہ میں صحابہؓ کی ایک تہائی تعداد سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی۔ اس تحریک میں پہلی شہادت بھی ایک سیاہ فام صحابیہؓ کے حصے میں آئی۔ سمیّہؓ اس جدوجہد کی پہلی جانی قربانی تھیں۔ امریکی اسلامی تحریک افریقی امریکی خواتین کے بغیر نا مکمّل ہے۔

امریکا کی اسلامی تحریک نسل، زبان اور معاشی طبقات کے اعتبار سے ایک متنوّع اجتماعیّت ہونی چاہیے ، جہاں سب کے حقوق برابر ہوں۔ سرِدست امریکی اسلامی اداروں ، تنظیموں اور مساجد کی قیادت مکمّل طورپر اشرافیہ عرب اور پردیسی افراد کے کنٹرول میں ہے۔ ان اداروں کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کے بغیرکسی پائے دار تنوع کی توقّع ایک خام خیالی ہے۔

امریکی اسلامی تحریک کے دستور میں جامع تنوّع ایک مطلوبہ قدر (desirable value) ہونی چاہیے۔ اس کے نمایندہ اداروں (شورٰی، بورڈ وغیرہ) کے انتخاب میں اس قدر کا لحاظ ہونا چاہیے۔

۴- قیام عدل: امریکا میں خیر کی کوئی بھی تحریک یہاں کی سماجی اور معاشی انصاف کی جدّوجہد سے الگ نہیں ہوسکتی ہے۔ امریکی اسلامی تحریک کے لیے ایک اچّھا ماڈل حضرت موسٰی کی جدّوجہد ہے۔ فرعون کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ اس نے مصری عوام کو طبقات میں بانٹ دیا تھا۔ پوری آبادی آقا اور غلام طبقوں پر مشتمل تھی۔ بنی اسرائیل بطور غلام، بنیادی انسانی حقوق کے بغیر ہرظلم کی چکّی میں بُری طرح پس رہے تھے۔

امریکا میں سفیدفام برتری (white supremacy) عصرحاضر کی فرعونی ترکیب معلوم ہوتی ہے ۔ یہاں فرعون ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظام ہے۔ بالعموم سمجھا یہ جاتا ہے کہ ’قدامت پسند ری پبلکن‘ سفید فام برتری کے پشتیبان ہیں، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اس امر پر مکمّل اتفاق رکھتی ہیں۔ امریکی فرعونوں نے عوام کو طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یہاں کی بستیاں، مکینوں کی آمدنی کے مطابق ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب خاک نشین ہوتا جارہا ہے۔

امریکی اسلامی تحریک کی شناخت اس معاشرے میں قیام عدل کی نسبت سے ہونی چاہیے، اقا مت قسط اورناانصافی کے خلاف جدّوجہد اس کا عنوان ہونا چاہیے۔ سماجی اور معاشی انصاف کا مطالبہ اسلامی دعوت کا ایک مستند عنصر ہے۔ بنی اسرائیل کی آزادی، موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا حصّہ تھی۔ جب انھوں نے فرعون کو اﷲ اور رسولؐ پر ایمان لانے کی دعوت دی، وہیں بنی اسرائیل کی غلامی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی اسلامی تحریک کو بھی یہی نہج اختیارکرنی چاہیے۔ موجودہ امریکا میں فرعون اور بنی اسرائیل کے کردار موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے موسٰی جیسی قیادت مفقود ہے۔

۵- نسلی و نظامی تعصّب سے اجتناب: امریکی اسلامی تحریک کی رکنیت ہررنگ، نسل اور معاشی طبقات کے مسلمانوں کے لیے کھلی ہونی چاہیے۔ بظاہریہ امرآسان لگتا ہے لیکن فی ا لحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ نظامی تعصّب (systemic racism) ہے۔

نسلی و نظامی تعصب کی تفہیم کا آسان طریقہ یہ کہ اس کی تعریف (definition) میں الجھنے کے بجائے اس کے مظاہراور اثرات کو سمجھا جائے۔ نظامی نسل پرستی میں افراد متعصّب نہیں ہوتے لیکن ماحول اور نظام، غالب نسلی تفوق کو برقرار رکھتے ہیں۔ امریکا میں سیاہ فام آبادی کا تقریباً ٪۱۳ فی صد ہیں، مگر قومی دولت میں ان کا تناسب ٪۳ فی صد ہے۔ ایک سفید فام خاندان کی اوسط دولت ۱,۸۴,۰۰۰ ڈالر، جب کہ لاطینی خاندان کی۱۴,۰۰۰ ڈالر اور سیاہ فام خاندان کی صرف۱۱,۰۰۰ ڈالر ہے۔ رابرٹ لیونگ سٹن نے اپنی کتاب The Conversation: How seeking and speaking the Truth about Racism میں ۵۰۰ کامیاب ترین کمپنیوں کے قائدین کا تجزیہ کیا ہے ،جس کے مطابق صرف پانچ کمپنی صدور(CEOs) سیاہ فام ہیں ۔ ان اعدادوشمار کا کیا مطلب ہے؟ بظاہر تمام امریکی کمپنیاں مساوی مواقع (equal opportunity)کی دعوے دار ہیں، لیکن ’نظامی نسل پرستی‘ کی وجہ سے صرف سفید چمڑی والے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ پاتے ہیں، الّا ماشاء اﷲ۔ اگرہم ایسا ہی تجزیہ امریکی اسلامی اداروں اورتنظیموں کی قیادت کے بارے میں کریں تو یہاں بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں ہے۔ سفیدعفریت جیسا سلوک افریقی امریکیوں سے کرتی ہے، مسلم امریکا ویسا ہی معاملہ سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ افریقی امریکی مسلمان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں۔

نظامی تعصّب کا حل آسان نہیں ہے۔ اس کا سب سے پہلا قدم اس عفریت کی موجودگی کا ادراک ہے۔ یہ تسلیم کرنا کہ ہماری اجتماعیت میں نظامی تعصّب ہے، اس کے لیے بہت بڑا دل چاہیے۔ اگلے مراحل اس اعتراف کے بعد ہی شروع ہوسکتے ہیں۔