طورخم کے راستے افغانستان جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی راہداری کے نظام کا عالمی معیار یہاں حددرجہ ناقص ہے۔ میرے سامنے ایک اہلکار نے ایک افغانی کو دھکا دیا تومیں نے اس سے پو چھاکہ ’’آپ نے اس معزز شخص کو کیوں دھکا دیا؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’اس کے پاس دو کلو چینی ہے جو لانا منع ہے‘‘۔ واپسی پر جب میں افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، تو چترال اسکائوٹس کے ایک جوان نے بڑی رعونت سے مجھے کہا: ’’بیگ کھولو‘‘۔ میں نے جواب میں کہا: ’’کیا آپ تمیز سے بات نہیں کر سکتے؟ میں ایک پاکستانی شہری ہوں‘‘۔ مطلب یہ کہ ہم کتنی بھی نیم دلانہ کوششیں کرلیں، پاک افغان تعلقات ان پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی میں نہیں سدھر سکتے۔
اس سال ماہ مارچ میں ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ (IRS)، پشاور کے تحت پشاور یونی ورسٹی میں پاک افغان تعلقات پر ایک روزہ مذاکرہ منعقد کیا تھا۔اس مذاکرے میں کئی پاکستانی اہم شخصیات کے علاوہ افغانستان کے عمائدین بھی شریک تھے۔ اسی پروگرام کے دوران یہ تجویز آئی کہ اسی نوعیت کا ایک پروگرام افغانستان میں بھی منعقد کیا جائے۔گذشتہ سال۱۵ ؍اگست کو افغانستان کی قیادت میں جو تبدیلی عمل میں آئی تھی، اس پرپاکستان میں بھی عوامی پسندیدگی کا اظہار ہوا تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں افغانستان کی نئی قیادت اہم کردار ادا کرے گی۔
قیامِ پاکستان اگست۱۹۴۷ء کے فوراً بعد سے آج تک، افغان حکومتوں کی جانب سے پاکستان کی مخالفت ایک ایسا طرزِ عمل ہے، جس کو ایک عام پاکستانی سمجھنے سے قاصر ہے۔اس دوران جولائی ۱۹۷۳ء میں افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اور پھر کمیونسٹ عناصر غالب آگئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روس کا قبضہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی، جن کی بھرپور مہمان نوازی کی گئی۔پھر ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت آئی، مزید مہاجرین پاکستان آئے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکی قیادت میں حملے شروع ہوئے۔ ۲۰سال تک افغانستان پر ناٹو مسلط رہااور افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کی حکومت اور عوام افغان قوم کا ساتھ دیتے رہے۔اس کے باوجود پاکستان مخالفت کا پر نالہ اپنی جگہ قائم رہا اور گاہے گاہے اس کا اظہار ہو تا رہا، چاہے وہ مہاجر کیمپوں میں مقیم نوجوان ہوں یا برطانیہ میں پاک افغان کرکٹ میچ کے تماشائی، پاکستان کی مخالفت کے نعرے گونجتے رہے۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ ہمارا قصور کیا ہے؟
۲۰۱۵ء میں کا بل کے ہو ٹل انٹرکانٹی نینٹل میں ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کا مجھے موقع ملاتھا، جو کابل ہی کے ایک تھنک ٹینک ’دی سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز [تاسیس: جولائی۲۰۰۹ء- CSRS] نے منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور تاجکستان کے نمایندے بھی شریک تھے۔ اس وقت میری تقریر کے بعد افغان صحافیوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر کر سوال کیا: ’’پاکستان افغانستان کے امن کو کیوں برباد کر رہا ہے؟‘‘
اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان کے قیام، اگست ۲۰۲۱ء کے بعد ایک اُمید پیدا ہو ئی کہ اب دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ لیکن پھر ایسے اُوپر تلے واقعات سامنے آنے لگے، جس سے تاثر ملا کہ ایں خیال محال است۔کہیں پرپاکستانی پرچم ہٹایا یا جلایا جا رہا ہے اور کہیں پر سرحدی باڑ کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک افغانــ ’’جنرل‘‘ کے دھمکی آمیز بیانات نشر ہورہے ہیں اور سرحد پار سے فائرنگ اور جوابی فائرنگ کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں ۔پاکستان کے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کی طرف سے پاکستانی افواج پر حملے اور فوجی جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔
اس صورتِ حال میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، پشاور نےفیصلہ کیا کہ ایک نمایندہ وفد کے ساتھ کابل جائیں اور وہاں کے اہل دانش اور اہل حل و عقد کے ساتھ بیٹھ کر ان موضوعات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔
چنانچہ، ہم نے از خود ’سی ایس آر ایس‘ کابل کے صدر سے رابطہ کرکے تجویز پیش کی کہ اس نوعیت کا ایک پروگرام کرنا چاہیے۔انھوں نے جواب دیا کہ ہم امارت اسلامی کے خارجہ امور کی وزارت سے اجازت کے بعد آپ کو مطلع کردیں گے۔ اس دوران پشاور میں موجود افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ سے ملاقات میں بھی یہ تجویز دُہرائی۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہو ئے اٖفغان وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے ہمیں مطلع کیا کہ ’’اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جتنے افراد کو ویزے جاری کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہم فراہم کریں گے‘‘۔ بالآخر یہ طے ہو گیا کہ ۱۹ جون ۲۰۲۲ء بروز اتوار کابل انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں ایک علاقائی کانفرنس دونوں ادارے مل کرمنعقد کریں گے، جس میں پاکستان ،افغانستان اور ایران کے نمایندے شرکت کریں گے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور دوحہ قطر میں افغان امریکا مذاکرات کی معروف شخصیت الحاج محمد عباس ستانکزئی اور دیگر اٖفغان زعماء افتتاحی پروگرام میں شریک ہوںگے۔
اس پروگرام میں افتتاحی اور اختتامی سیشن کے علاوہ ۵ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے۔ باہمی تجارت،تعلیم ،صحت،کلچر اور میڈیا اور افغان مہاجرین کے مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کے لیے پانچ علیحدہ سیشن بیک وقت منعقد کرنا تجویز کیے گئے، جس میں پاکستانی وفد کی نمایندگی درکار تھی۔چنانچہ صوبائی سطح پر اہل دانش و ماہرین سے رابطے کر نا شروع کیے اور آہستہ آہستہ ایک متوازن نمایندگی کے ساتھ وفد، افغانستان کے سفر کے لیے تیار ہوگیا، جن کے پاسپورٹ جمع کرکے ویزوں کے لیے قونصلیٹ میں جمع کرا دیئے گئے۔
افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ صاحب نے شرکائے سفر کو ظہرانہ دیا، جن کی تعداد ۴۰ افراد پر مشتمل تھی ۔ لیکن جب اس ظہرانے کی تصویریں میڈیا میں آئیں، تو اس سفر پر جانے کے خواہش مند احباب کی تعداد میں اضافہ ہو گیا،اور ہمارے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی کہ اتنے افراد کو کیسے لے کر جائیں اور وہاں ان کے طعام و قیام کا بندوبست کیسے کریں؟ مختصر یہ کہ جب ۱۸جون کی صبح کو ہم پشاور سے طور خم کی طرف روانہ ہو ئے تو وفد کی تعداد ۶۰ تک پہنچ چکی تھی۔
طورخم سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ مشہور تاریخی درہ خیبر کا آغاز طورخم سے ہو تا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ۲۶۴۰ کلومیٹر طویل سرحد، جو طویل ’ڈیورنڈلائن‘ کے نام سے مشہور ہے، پر ۱۲ مقامات ایسے ہیں جو باقاعدہ راہداری (کراسنگ) کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ ان میں سے چھ پوائنٹ اس وقت استعمال ہو رہے ہیں،جب کہ چھ بند ہیں۔
وفد کے شرکا کا شوق اور جذبہ قابلِ دید تھا۔ ہم پشاور سے طورخم بارڈرپر پہنچے تو وہاں پر عجیب افراتفری کی صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔ اس راہداری کو روزانہ ہزاروں افغان باشندے دونوں طرف سے استعمال کرتے ہیں،جب کہ سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایک بین الاقوامی راہداری کے شایان شان انتظامات ناپید ہیں ۔ امیگریشن ہال جہاں کھڑکیوں میں بیٹھا ہوا عملہ آپ کے پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کو چیک کرتا ہے، وہاں مسافروں کے لیے نشستوں، پینے کے پانی، ٹوائلٹ، ائیرکنڈیشنز وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں ہے۔ ہڑبونگ اور دھکم پیل کے افسوس ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ دو سال سے بین الاقوامی سطح کی امیگریشن عمارت بنانے کا ٹھیکہ پاکستان کے سرکاری شعبے ’نیشنل لاجسٹک سیل‘(NLC) کو دیا گیا ہے، لیکن بوجوہ نہیں بن پا رہا۔جس کی ذمہ داری ،پاکستانی حکام، افغان حکومت کے عدم تعاون پر ڈالتے ہیں ۔ افغان شہریوں سے پیسے لے کر پاکستان آنے کی اجازت دینے کے الزامات بھی عام ہیں۔ پاکستانی عملہ جو زیادہ تر بغیر وردی کے ہو تا ہے، اس کا رویہ افغان شہریوں کے ساتھ درشتگی اور بے عزّتی کا ہے۔
پاکستانی امیگریشن سے نکل کر ایک طویل راہداری میں سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ افغان علاقے میں داخلے پر ان کے عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کا امیگریشن ہال خاصا بہتر تھا اور عملہ بھی قدرے نفیس رویہ اختیار کیے ہو ئے تھا ۔وہاں نشست گاہ، پانی اور وضو کا بندوبست تھا اور ساتھیوں نے وہاں نفلی نماز بھی ادا کی۔ پھر ایک طویل گزر گاہ سے گزر کر ہم افغانستان میں داخل ہو ئے۔اس پورے راستے میں پاکستانی اور افغانی بچوں کی ایک کثیر تعداد سے آپ کا واسطہ پڑے گا، جن میں بھیک مانگتے بچوں کے علاوہ ویل چئیر اور سامان ڈھونے والے مزدور بچے شامل ہیں ۔یہ مشاہدہ شاید ہی آپ کو کسی اور ملک میں نظر آئے۔
افغانستان میں داخلے کے بعد جلال آباد اور پھر کا بل کا سفر بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔ بہرحال، سیدھی اور بڑی شاہراہ پر گاڑیاں سفر پر روانہ ہوئیں۔ جگہ جگہ بازار اور دکانیں سامان سے بھری ہو ئی نظر آرہی تھیں، جو ایک بدحال نہیں بلکہ خوش حال افغانستان کی تصویر تھی۔جلال آباد کے قریب دروانٹہ ڈیم کے قریب جس ہوٹل میں ہم نے بہترین کھانا کھایا، اس کا معیار پاکستانی موٹروے پر قائم ہو ٹلوں سے کم نہیں تھا۔کابل تک پہاڑی راستوں سے گزرتے ہو ئے ہم نے چارڈیموں اور بجلی گھروں کا مشاہدہ کیا، جو مختلف ممالک نے تعمیر کیے ہیں ۔ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔جہاں افغانی اہلکار، امارت اسلامی کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ وہ معمولی پوچھ گچھ کے بعد فوراً آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیتے ۔غرض یہ کہ کابل تک ہمارا سفر خاصا خوش گوار گزرا اور طورخم پر ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہاتھوں جس تکلیف کا شکار ہو ئے تھے،افغان اہل کار بھائیوں نے اس کا ازالہ کردیا ۔
اتوار ۱۹ جون ۲۰۲۲ء کو کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں سیمی نار منعقد ہوا۔جس کا موضوع ’’ افغانستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات کا مستقبل‘‘ تھا۔ ’سی ایس آر ایس‘ کے ذمہ داران نے ہوٹل کے ’بامیان ہال‘ میں بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔۲۰۰ سے زائد مہمان وقت پر پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔چار افغان وزراء اور امارت اسلامی کے دیگر زعماء موجود تھے۔ ۳۰کے لگ بھگ افغان ٹی وی چینلز کی نمایندگی بھی تھی۔ یا درہے کہ ان دنوں کابل سے کو ئی اخبار شائع نہیں ہوتا۔ کورونا وبا کے دوران پابندیا ں اور اقتصادی بحران کی وجہ سے اخبارات بند ہو چکے ہیں، البتہ ٹی وی نشریات جاری ہیں۔لیکن وہ بھی اشتہاری مواد کی کمی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکارہیں۔ چینلز کے نمایندہ رپورٹروں میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی ۔
سیمی نار کے افتتاحی سیشن میں افغان وزراء محمد عباس ستانکزئی،وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد اور وزیر مہاجرین امور قاری محمود شاہ نے خطاب کیا، جب کہ پاکستانی وفد کی نمایندگی راقم نے کی۔ ’سی ایس آر ایس‘ ،جمعیت الاصلاح اور دیگر افغان زعماء نے بھی خطاب کیا۔یہ ایک بھر پور سیشن تھا، جس میں تمام مقررین نے پڑوسی ممالک کے درمیان یگانگت،بھائی چارے، باہمی تعاون آمدورفت اور تجارت کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے پر زور دیا ۔افغان نائب وزیر خارجہ نے خاص طور پر ایک نکتہ بیان کیا کہ ’’پاکستان اور ایران کے عوام کو افغان قوم کا شکرگزار ہو نا چاہیے کہ انھوں نے جان و مال کی قربانی دے کر پہلے روسی استبداد اور پھر امریکی جارحیت کو اس خطے میں ناکام بنایا اور اس طرح پڑوسی ممالک کو عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا‘‘۔انھوں نے پڑوسی ممالک کا افغان مہاجرین کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہو ئے اپیل کی کہ وہ ’’مزید کچھ عرصے کے لیے مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں ‘‘۔ انھوں نے افغان باشندوں کی ان ممالک میں آمدورفت میں آسانیاں پیدا کرنے اور ویزوں کے اجرا میں اضافے پر زور دیا۔
وزیر صحت نے اپنے شعبہ میں پڑوسی ممالک سے تعاون پر زور دیا۔ افغانستان میں صحت کی سہولتوں کی ترقی، میڈیکل تعلیم و تربیت خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ استعدادکار کے شعبوں میں پاکستان اور ایران افغانستان کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔وزیر مہاجرین نے دونوں پڑوسی ممالک کا شکریہ اد اکیا کہ انھوں نے مشکل وقت میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں بسایا۔ انھوں نے پاکستان میں خاص طور پر جماعت اسلامی کی خدمات کا ذکر کیا، جن کی قیادت اور کارکنان نے اوّل روز سے افغان مہاجرین کے ساتھ محبت اور اخلاص کا اظہار کیا، جن کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسے عناصر بھی تھے، جنھوں نے مہاجرین کو بھگوڑا قرار دیتے ہو ئے نکالنے کا مطالبہ کیا، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے لیڈروں نے جن میں سراج الحق اور شبیر احمد خان شامل تھے، سینہ تان کر اورکھلے عام ہمارا ساتھ دیا‘‘۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہو ئے ایک پُر امن اور مضبوط افغانستان کو پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا۔ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے صحت،تعلیم ،تجارت اور میڈیا کے شعبوں میں باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں کہ امارت اسلامی افغانستان میں سیاحت کو فروغ دے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ادھر کا رخ کریں گے۔دوسری تجویز یہ پیش کی کہ امارت اسلامی کسی مناسب مقام پر ایک بڑا انڈسٹریل زون قائم کرے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو وہاں کارخانے قائم کرنے میں سہولتیں فراہم کرے ۔کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دو شرائط لازمی ہیں:ایک مضبوط اور مستقل حکومت، جو امن و سلامتی کی ضمانت دے سکے، اور دوسرا ٹیکس فری زون یا کم ازکم شرح محصولات ۔یہ دونوں شرائط امارت اسلامی افغانستان پوراکر سکتی ہے۔
افتتاحی پروگرام ہی میں’سی ایس آر ایس‘ کے ڈائرکٹر جناب ڈاکٹر عبدالصبوح روئوفی نے بہت مفید تجاویز پیش کیں، خاص طور پر تعلیم و صحت کے شعبوں میںدونوں پڑوسی ممالک افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ماہرین کی تیاری ملک کی مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔افغان طلبہ و طالبات اندرون و بیرون ملک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اسناد کی قبولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔جمعیۃ الاصلاح کے سربراہ پروفیسر مزمل،ممتاز افغان اسکالر استاد محمدزمان مزمل اور عالم دین اور سابقہ رکن پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد نے بھی فکر انگیز گفتگو رکھی۔
چائے کے وقفے کے بعد سیمی نار کے تمام شرکا کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور دو گھنٹے تک ان گروپوں میں شریک ماہرین نے اپنے شعبے کے مسائل پر تفصیلی غور وغوض کیا۔ تعلیم، صحت، تجارت، میڈیا اور افغان مہاجرین کے عنوانات پر قائم گروپوں نے باہمی تعاون کے موضوعات پر مفید تبادلۂ خیال کیا۔ہر گروپ میں امارت اسلامی کے متعلقہ شعبوں کے حکام بھی شریک تھے اور اہم نکات نوٹ کر تے رہے۔ان تمام گروپس کی روداد کو ریکارڈ کر نے کے لیے ’سی ایس آرایس‘ کی جانب سے افراد مقررتھے جنھوں نے تفصیلی رپورٹ متعلقہ حکام اور ذمہ داران کو بھیج دی ہے۔
میں جس گروپ میں شریک تھا وہ شعبۂ صحت سے متعلق تھا، جس کی صدارت خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق صاحب نے کی، جو ہمارے ساتھ وفد میں شامل تھے، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر گلشن حسین فاروقی، آفریدی میڈیکل کمپلیکس کے چیف شاہ جہان آفریدی ،افغانستان کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد یو سف ،ڈاکٹر خالد رشید، افغانستان کے ڈاکٹروں کی تنظیم کے سینئر ارکان ،وزارتی حکام اور ایران کی وزارت صحت کا نمایندہ بھی موجود تھا۔ اس مجلس میں افغانستان کی وزارت صحت کے سابقہ مشیر ڈاکٹر یوسف نے افغانستان کی صحت عامہ کے حوالے سے بہت جامع تفصیلات بیان کیں، جس کو بہت سراہا گیا۔
تعلیمی گروپ میں پاکستان کی نمایندگی پشاور یونی ورسٹی اور صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں سے منسلک اہم عملی شخصیات نے کی، جن میں پروفیسر ارباب آفریدی، ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پرفیسر فضل الرحمٰن قریشی،پروفیسر بشیر ربانی،محمد اشراق وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح جن پاکستانی کاروباری حضرات نے اپنے گروپ میں گفتگو رکھی، ان میں شاہ فیصل آفریدی،حاجی محمد اسلم ،عجب خان وغیرہ شامل تھے۔ میڈیا کے گروپ میں پاکستان کے اہم ٹی وی چینلز کے نمایندے اور صحافی حضرات محمود جان بابر، فدا عدیل ،رسول داوڑ، سدھیر آفریدی،یوسف علی ،شمیم شاہد اور عالمگیر آفریدی موجود تھے۔ افغان مہاجرین کے مسائل پر بریگیڈیر ریٹائرڈ محمد یو نس ،کاشف اعظم، اور الخدمت فائونڈیشن کے نائب صدر ڈاکٹر سمیع اللہ جان نے نمایندگی کی۔
کانفرنس کے آخری سیشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شبیر احمد خان اور ممتاز عالم مولانا محمد اسماعیل نے خطاب کیا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت ہوٹل کے بامیان ہال میں ہمارا پروگرام ہورہا تھا، اسی وقت ہو ٹل کے قندھار ہال میں ایک بڑا تجارتی پروگرام حکومت کی زیرنگرانی جاری تھا، جس کے مہمان خصوصی افغانستان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر تھے، جن کے ہمراہ دیگر افغان وزراء بھی شریک تھے۔ اس پروگرام کا موضوع تھاــ: ’’افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات‘‘۔ جس میں کابل میںموجود تمام بیرونی ممالک بشمول پاکستان، ہندستان، چین، روس اور عرب و یورپی ممالک کے سرمایہ کار اور عالمی کمپنیوں کے نمایندے سیکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ امارت اسلامی،افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال کو بدلنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے ۔ (جاری)