پہلا، انتظامی ڈھانچے کے اختیارات، قانونی طاقت اور مالیاتی ذرائع مقامی حکومتوں کے ذریعے نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں، تاکہ دیہات، قصبوں اور شہروں میں رہنے والے عوام تک زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیے جانے والے ’آرڈی ننس ۲۰۲۱ء‘ میں تھوڑی سی ترمیم کرکے نافذ کیا جائے۔ حقائق کی جانچ سے پتا چلتا ہے کہ لوگ ٹیکس ،فیس اور دیگر واجبات ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، بشرطیکہ حاصل شدہ رقم کو اپنی مقامی حکومت کے زیر استعمال دیکھیں۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ، پشاور ، کوئٹہ اور اسلام آباد پراپرٹی ٹیکس سے خاطر خواہ وسائل اکٹھے کرسکتے ہیں۔ یہ وسائل بڑھتی ہوئی شہری ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں ۔
دوسرا، چھوٹے اور درمیانے کھیتوں کی پیداوار بڑھا کر زرعی اشیا کی درآمدات کا متبادل حاصل کیا جاسکتاہے ۔ اس کے علاوہ تیار شدہ مصنوعات کی برآمد، ٹکنالوجی میں درمیانے درجے کی جدت اور روایتی مصنوعات کے بجائے پیداوار میں تیز نمو (growth) اور جدت (Innovation) رکھنے والی صنعتوں کی طرف پیش رفت کی جائے۔ عالمی مارکیٹ میں ایسی ہی صحت مند مسابقت کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ اس کے لیے سامان لانے اور لے جانے کی لاگت میں کمی، ’ایک ہی کھڑکی سے سب کام‘ ، گلوبل ویلو سلسلے کے ساتھ ہم آہنگی ، خصوصی اکنامک زون میں برآمدی مصنوعات کی تیاری پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، معیار میں بہتری اور جدت، مہارت اور فنی تربیت اور برانڈ کا حصول اور پھیلائو ضروری ہے۔ عالمی برآمدات میں پاکستان کا شیئر۱ء۰ سے بڑھ کر ۵ء۰ تک پہنچنا چاہیے۔
تیسرا، ودہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس ، سپر ٹیکس ، کم از کم ٹیکس اور دیگر ناہموار ٹیکس ختم کرکے منظم شعبہ جات اورٹیکس دہندگان پر بوجھ کم کریں ۔ اس کے علاوہ ٹیکس آڈٹ اور ٹیکس اپیل اور ٹیکس کوڈ کے طریق کار کو سہل اور تیز بنایا جائے ۔ ایسا کرنے والے ٹیکس دہندگان کو ڈرانے دھمکانے کی روایت کا خاتمہ کیا جائے ۔ ٹیکس کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے اور صوبوں سے غیر ٹیکس محصولات میں بہتر ی لاتے ہوئے انھیں جی ڈی پی کے کم از کم چار فی صد تک لایا جائے ۔
چوتھا، جی ڈی پی کے تناسب سے قرض کی شرح کو۸۰ فی صد سے کم کر کے ۶۰ فی صد تک لایا جائے ۔ اس کے لیے پیداوار میں اضافہ اور اخراجات میں کمی اور ریاست کے کاروباری اداروں کو قرضے یا گرانٹ دینے کی پالیسی بدلنی ہوگی ۔ حکومت کا ایک اکائونٹ ہو۔ گورنمنٹ سکیورٹیز کی بنیاد نان بنک اداروں کے بجائے بینک پر ہو۔ بیرونی دنیا سے آنے والی رقوم قرض کی صورت کم سے کم ہوں ۔ اس کے بجائے برآمدات اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے سے تجارتی خسارہ کم ہوجائے گا اور رعایتی، کمرشل اور مختصر مدت کے قرضے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ کثیر گروہی بندوبست پر بھروسا بیرونی قرضوں کے اوسط بوجھ کو کم کردے گا۔
پانچویں، نجی شعبے کے قرضے کو جی ڈی پی کے تناسب سے جنوبی ایشیا میں موازنہ کی سطح تک بڑھانے کے لیے بنکاری نظام کی ترغیب دیں۔ طویل مدت کے ساتھ بڑے منصوبوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے قرض کیپٹل مارکیٹوں کو تیار کیا جائے ۔ ایکویٹی مارکیٹ فلوٹیشن لاگت کو مؤثر اور آسان بنایا جائے۔ پرائیویٹ ایکویٹی، وینچر کپیٹل، دونوں اسٹارٹ اپس کے ساتھ ساتھ توسیعی کاروباری اداروں کے لیے اینجل فنڈز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ زراعت، کم لاگت کے مکانات اور ایس ایم ای کی مالیاتی سکت کو بہتر بنایا جائے ۔
چھٹا، اسپیشل ٹکنالوجی زون، آئی ٹی پارک، نیشنل انکیوبیشن سینٹر، ایکسلریٹر اور انٹرپرینیورشپ سینٹر کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی خدمات کے لیے درکار انسانی وسائل کو بہتر بنائیں۔ سرٹیفیکیشن اور ایکریڈٹیشن میں سرمایہ کاری کریں۔ ماہرین تعلیم اور صنعت کے درمیان براہ راست تعلق کے لیے یونی ورسٹی کیمپس کے اندر ٹکنالوجی فرموں کو منتقل کیا جائے۔ یونیورسل سروس کے ذریعے سپیکٹرم نیلامی کا انعقاد،فائیو جی لانے، اجتماعی ملکیت کے ٹاور کی فبرائزیشن، رائٹ آف وے کی سہولت، اسمارٹ فونوں کی مقامی تیاری، انٹرنیٹ کنکشن کی توسیع اور بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع، سندھ کے دیہی اضلاع تک انٹرنیٹ کا دائرہ بڑھایا جائے۔
ساتواں، تمام سرکاری محکموں اور ایجنسیوں کو الیکٹرانک گورننس پلیٹ فارم پر لائیں، جس کے اندر اور باہر مواصلات اور معلومات کے تبادلے، مشترکہ ڈیٹا بیس، تمام کاروباری عملوں کی آٹومیشن اور ڈیجیٹلائزیشن، ادائیگی، تمام سرکاری فارموں کی اَپ لوڈنگ اور معلومات سے بھرے متحرک ڈیٹابیس کے لیے ای آفس کی سہولت ہو۔
آٹھواں، اُبھرتی ہوئی ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری کریں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اداروں اور یونی ورسٹی کے تحقیقی محکموں کی اصلاح کریں تاکہ بین الاقوامی ہم مرتبہ جائزوں اور مقامی مسائل کے حل کی درخواستوں میں شراکت کی بنیاد پر مسابقتی گرانٹس کو کارکردگی پر مبنی بنایا جا سکے۔ ترقی یافتہ ممالک اور چین میں معروف تحقیقی اداروں کے ساتھ باقاعدہ تبادلہ اور تعاون کی فضا قائم کی جائے۔ مڈل اسکول کی سطح سے ہی اسٹیم کورسز شروع کیے جائیں۔ بیرون ملک معروف یونی ورسٹیوں سے اعلیٰ تحقیقات میں تربیت حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ فراہم کیے جائیں۔
نواں، موجودہ تربیتی اور ہنر مندی کے اداروں جیسے ٹیوٹا، اسکلز ڈویلپمنٹ فنڈ اور اسی طرح کے اقدامات کو دوبارہ ترتیب دیں تاکہ ایسے انسانی وسائل تیارکیے جاسکیں جن کی مستقبل میں ملک اور بیرون ملک میں مانگ ہو اور وہ اچھی ملازمتیں حاصل کرسکیں۔
دسواں، خواتین کی ملازمت اور معاشی سرگرمیوں میں حصے کے مواقع کی شرح ۴۰ فی صد تک بڑھائی جائے۔{ FR 660 } کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر لڑکیوں کے لیے وظائف کے حجم کو بڑھانا ضروری ہے۔کام کی جگہ پرڈے کیئر سنٹر کی سہولیات، کام کے لچکدار اوقات اور زچگی کی تنخواہ سمیت چھٹیوں کی سہولت کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبوں میں ہراسگی سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
گیارھواں ، سی ایس ایس کیڈر افسران،نان کیڈر اور سابق کیڈر افسران جو زیادہ تر اپنے متعلقہ شعبوں میں ماہر ہوتے ہیں، کے درمیان مصنوعی تفریق کو ختم کرکے سول سروسز کی تنظیم نو کریں۔ مؤخر الذکر کی بھرتی، تربیت اور کیریئر کی ترقی کو سی ایس ایس کے برابر لایا جا رہا ہے۔ ماہرین کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے ایم پی اور ایس پی ایس ایس کے خصوصی اعلیٰ پے سکیلز میں عہدے قائم کیے جائیں۔ سیکرٹریٹ میں بہت سے عہدے ماہرین کے لیے بھی مختص کیے جائیں۔
بارھواں، قابل تجدید توانائی کی پالیسی اور قومی توانائی کی پالیسی کو لاگو کریں تاکہ شمسی، ہوا، پانی اور جوہری ذرائع سے۶۰ فی صد پیداوار کے ہدف کی طرف بڑھیں اور فوسل ایندھن پر انحصار کم کریں۔ مسابقتی مارکیٹ ماڈل کو متعدد خریداروں اور فروخت کنندگان کے ساتھ کام کرنے کے لیے حکومت کی ملکیت NTDC کے ساتھ وہیلنگ چارجز وصول کرنا۔گیس کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کردیںاور سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی نادرن گیس کمپنی کو الگ کردیں۔