جنگ اور فساد کا سب سے زیادہ خمیازہ خواتین اور بچوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، تاہم ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تین برس کے عرصے میں جموں و کشمیر کے بچوں میں دماغی اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ ’فورم فار ہیومن رائٹس آن جموں و کشمیر ، جس کے سربراہان دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) اجیت پرکاش شا اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشنا پلیے ہیں، انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ ، خطے میں نابالغوں کو بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر ریاست کے باہر دُور دراز جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے، اور حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس فورم کے اراکین جن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی سابق جج صاحبان کے علاوہ سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ، بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک، جنرل ایچ ایس پناگ، میجر جنرل اشوک مہتہ، تاریخ دان رام چندر گوہا اور کئی دیگر باوقارافراد شامل ہیں، کشمیر میں نابالغ افراد ، خاص طور پر بچوں کی ابتر ہوتی صورت حال پر چیخ اُٹھے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’خطے میں بچوں کے لیے قائم کی گئی عدالت، جس کو ’جیوئنایل [Juvenile] جسٹس بورڈ،[ JJB: بچوں کو انصاف فراہم کرنے والا بورڈ] کا نام دیا گیا ہے، یا تو معطل ہے یا سیکورٹی اداروں کے سامنے بے بس ہے‘‘۔ ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جب ’’جے جے بی کی ایک ممبر صفیہ رحیم نے ایک زیر حراست بچے کی ضمانت کی عرضی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ، پولیس کو نوٹس جاری کیے، تو پولیس نے ایسے کسی بھی بچے کی موجودگی سے انکار کردیا۔ مگر پھر خاصے لیت و لعل کے بعد ۳۰ دن گزار کر اس کو جے جے بی کے سامنے پیش کیا۔ رہا کرنے کے بجائے ضمانت کی عرضی کے بعد اس پر باضابط ایف آئی آر درج کی گئی۔ ا ن مؤثر افراد کا کہنا ہے کہ: ’’خطے میں صرف ’جیوئنایل جسٹس ایکٹ‘ [۲۰۱۵ء]کی دھجیاں ہی نہیں اڑائی جارہی ہیں، بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات، جن کے مطابق کسی نابالغ کو زیر حراست نہیں رکھا جاسکتا، ان کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں شوپیان کے ۱۴سالہ آفتاب (نام تبدیل کیا گیا ہے) کا ذکر کیا گیا ہے، جس کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے پہلے پولیس اسٹیشن میں کئی روز رکھا گیا اور پھر سیکڑوں کلومیٹر دُور اتر پردیش کے وارانسی شہر کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ دوسرے مقدمے میں ایک اور نابالغ سلمان کو حراست میں لیا گیا، اگرچہ عدالت، یعنی جے جے بی نے اس کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کیے، مگر رہا ہوتے ہی اس کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
مؤثر افراد کے اس فورم کے مطابق کئی مقدمات میں پولیس نے ان نابالغ افراد کی عمریں غلط درج کی تھیں، اور ان کی عمریں ثابت کرنے کی ذمہ داری والدین اور ان بچوں پر ڈالی ہوئی تھی۔ عموماً اگر عدالت Ossification،یعنی ہڈیوں کی تشکیل سے عمر کا تعین کرنے کا حکم صادر کرتی ہے، تو اس میں میـڈیکل سائنس کی رو سے دو سال کی کمی و بیشی کا مارجن ہوتا ہے۔ دیگر خطوں میں پولیس یا عدالتیں عمر میں کمی کو تسلیم کرتی ہیں، مگر کشمیر میں پولیس عمر میں اضافے کو تسلیم کرکے ان بچوں کو بالغ مان کر ان کی حراست میں توسیع کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان بچوں کی ایک بڑی تعداد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ دسویں جماعت کے عفان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’اس کو دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے خلاف ایک پُرامن جلوس میں شرکت کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ گو کہ ۱۵دن کے بعد اس کے والدین اس کو رہائی دلانے میں کامیاب تو ہوئے، مگر اس دوران وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا ہے اور اکثر بدن میں درد کی شکایت کرتا رہتا ہے‘‘۔ اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کس طرح ۱۸ماہ سے کم عمر کے دودھ پیتے بچے بھی پیلٹ گن کے چھروں کا شکار ہوگئے؟ آخر اس عمر کے بچے کیسے جلوس یا کسی احتجاج کا حصہ تھے کہ جس کی وجہ سے ان کو یہ سبق سکھانا پڑا؟‘‘ فورم کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ’’کم از کم گیارہ ایسے بچوں کے بارے میں ان کو معلومات ملی ہیں، جو پیلٹ گن کی وجہ سے عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں۔ اگر صرف حراست میں لینا یا پیلٹ گن سے نشانہ بنانا کافی نہیں تھا، تو نئی صورت حا ل میں اب بچوں کو گاؤں یا کسی آبادی میں تلاشی کی مہم کے دوران آگے رکھ کر آپریشن کیا جاتا ہے، جس سے ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو دفعہ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے سے قبل ہی خطے میں بچوں کے سلسلے میں تسلی بخش صورت حال نہیں تھی۔ وانی گام کے سولہ سالہ حازم کا ذکر کرتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’وہ اپنے والدین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ عسکریت پسندوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان پاس ہی جھڑپ شروع ہوگئی۔ جب سبھی اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ جگہ چلے گئے، تو والدین کو معلوم ہوا کہ حازم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اگلے روز کھیت میں اس کی لاش ملی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’بچوں میں عسکریت اختیار کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے لیے شہری زندگی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ ۱۵سالہ کاشف ،جس کو ۸؍اپریل ۲۰۲۱ء کے ایک معرکہ میں ہلاک کیا گیا، اس نے ۲۰مارچ ۲۰۲۱ء کو عسکریت اختیار کی تھی۔ اسی طرح ۱۴سالہ گلزار کو جب ہلاک کیا گیا، وہ صرف چار روز قبل اپنا گھر چھوڑ کر مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ گو کہ حکومتی حلقوں نے ان مؤثر افراد کو بتایا:’’عسکریت کو پاکستان سے شہہ ملتی ہے، مگر اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر اینکروں کے ذریعے چلائی جارہی شر انگیز مہم سے ان بچوں کے اذہان متاثر ہوتے ہیں اور وہ غصے اور بے بسی کا شکار ہوکر عسکریت اختیار کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹروں نے یہ رپورٹ مرتب کرنے والے دانش وروں کو بتایا کہ ’’خطے میں۹۴ فی صد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں‘‘۔کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ ’’جنوبی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی سے بچوں میں ذہنی تناؤ، غصہ، چڑچڑاپن، ڈراؤنے خواب اور صدمے کی کیفیت جیسی شکایات عام ہوگئی ہیں‘‘۔ اسی طرح انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ اور نیورو سائنسز کے حوالے سے بتایا گیا: ’’خطے میں نشہ آور ادویات کے استعمال میں ۱۵۰۰گنا کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیر میں ڈراپ آوٹ ریٹ ۱۷ فی صد تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور کئی اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد طالب علموں سے زیادہ ہے‘‘۔ رپورٹ کے آخر میں جے جے بی کو مزید اختیارات دینے اور ہائی کورٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً تفتیشی ٹیموں کو حراستی مراکز میں بھیج کر وہاں بچوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔
یہ ۲۰۱۰ء کی بات ہے کہ جب کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے ، تو کیلاش سیتیارتھی ، جن کو بعد میں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ’حقوق اطفال‘ پر نوبیل انعام سے نوازا گیا،کے ایک لیکچر میں ، میںنے شرکت کی۔ لیکچر کے اختتام پر جب میں نے ان کی توجہ کشمیر میں بچوں پر ہونے والے ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ، تو وہ کنی کترا گئے اور اس کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر اپنا دامن چھڑا لیا۔ انھی دنوں اخبارات میں تصاویر چھپی تھیں کہ کس طرح پولیس کے سپاہی تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحانی مراکز میں پرچے حل کرانے کے لیے لارہے تھے۔ ذرائع ابلاغ میں ہاہاکار مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے ان بچوں کی رہائی کے، پولیس نے ان فوٹو گرافروں کی خوب خبر لی جنھوں نے یہ تصویریں لی تھیں۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حقوقِ اطفال کے لیے سرگرم کارکن جہاں پوری دنیا میں بچوں کو حقوق دلانے میں سرگرم ہیں، وہیں کشمیر میں ان مظالم کی پردہ پوشی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک عشرہ قبل ہالینڈ کے ایک نوبیل انعام یافتہ عالم گیر نیٹ ورک نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقے ہیں، ان میں کشمیر میںبچوں کے خلاف تشدد اور عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات کی صورت حال نہایت تشویش ناک ہے ۔ ہالینڈ کے ادارے (تاسیس: ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء - Medecins Sans Frontieres - MSF) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا تھاکہ ’’وادی میں دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہےاور اس کا شکار خصوصاً بچے ہورہے ہیں‘‘۔ بلاشبہہ انصاف او ر توجہ کے منتظر ہیں، کشمیر کے بچے اور بچیاں! شایدکوئی ان معزز اور مؤثر افراد کی رپورٹ اور ان کی سفارشات پر کان دھرے۔