اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پاکستان کا ۷۵واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:
انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک برائے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد سے غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔
آزادی کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے، جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔
پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی و تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔
تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک عزیز دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔
۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔
آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
اور یاد رکھو:
وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا، بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا، جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی، ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی، غرض ہراعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔
۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔
قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں؟ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے؟
تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظمؒ کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکّے، جو ان کے گرد جمع ہوگئے تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات کی گرفت میں ملک و قوم زبوں حال ہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔
آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔
پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں، پارٹی خواہ کوئی بھی ہو۔ سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا اہم حصہ ہیں۔
دستور موجود ہے مگر کبھی فوج کے ہاتھوں او ر کبھی سول حکمرانوں کے ہاتھوں اس کا بڑا حصہ عملاً معطل رہا ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔
ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔
ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا، مگر جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔
معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے نشیب و فراز کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع موضوع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق تک کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔
ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۷۵برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر، اور کبھی ’روشن خیال جدیدیت‘ کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو جنرل ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے، اور ساری خرابیوں کی جڑ، اس کا ملک کے اجتماعی معاملات میں کردار ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے سات عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔
انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔
اس ہمہ گیر بگاڑ کے تین بڑے تشویش ناک پہلو ہیں:
یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے، اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن، ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا، اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔
یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۷۵سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
صورتِ حال کا بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط)۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں: ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے
سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔
اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔
قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔
خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔
اس کے لیے ایک طرف امریکا کے اعلان کردہ دبائو سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی جامع نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔ ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بُعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔
یہ وہ بنیادی نکات ہیں، جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔