بین الاقوامی قانون میں کسی ریاست کو تسلیم کرنے میں چند چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن افغانستان کا مسئلہ ایک نئی ریاست کی تشکیل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی سے ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ تاہم، یہاں حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
اس ضمن میں تین چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں: ایک یہ کہ جو بھی ریاست موجود ہو، اس کا پوری سرزمین پر مؤثر قبضہ (effective control ) ہو۔ دوسرا یہ کہ وہاں کوئی آبادی موجود ہو، اس حکومت کو عوام کی تائید حاصل ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ حکومت کام کرنے کے قابل بھی ہو۔ جب کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو بین الاقوامی قانون میں انھی چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
عام حالات میں تو حکومتیں پُرامن طریقے سے تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ لیکن جہاں خانہ جنگی ہو یا اس ملک کے لوگ بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں جیساکہ افغانستان میں تھا، تو پھر ایسے سوالات اُٹھتے ہیں جیساکہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو یہ سوال پیدا ہوا: ’افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے؟‘ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا، جب ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت بنی تو صرف تین ممالک نے اس کو تسلیم کیا تھا، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان شامل تھے۔ طالبان کی حکومت نے اس وقت بھی تقریباً پانچ سال پورے کیے،مگر اس کے باوجود دُنیا نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اقوام متحدہ میں بھی ان کو نمایندگی نہیں دی گئی۔ لیکن اُس زمانے میں بھی امریکا اور دوسرے ممالک سے طالبان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوتے اورمعاملات چلتے رہتے تھے۔
کسی حکومت کو تسلیم کرنے میں یہ بات اہم ہوتی ہے کہ Defacto (فی الواقع) ہے، یا Dejure (حقیقی)۔ Defacto (فی الواقع) کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا جاتا، لیکن اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔Dejure (حقیقی)کا مطلب ہے کہ قانونی طور پر کسی حکومت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ دُنیا نے طالبان کی حکومت کو حقیقت میں تسلیم نہیں کیا، لیکن فی الواقع تمام ممالک ان سے رابطہ بھی کر رہے ہیں، مل بھی رہے ہیں اور کابل میں بہت سے ممالک کے سفارت خانے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکا سمیت بہت سے دیگر ممالک ان سے رابطے میں ہیں۔خود طالبان حکومت سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا کے لیے افغانستان میں رابطے کے لیے طالبان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں اصل چیز قومی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات دیکھیں تو نتائج اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ پچھلی صدی سے افغانستان میں گریٹ گیم چلتی رہی ہے، اور یہ گریٹ گیم ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ گریٹ گیم امریکا،برطانیہ اور روس کے درمیان تھی، لیکن اب یہ کھیل امریکا اور چین کے درمیان کھیلا جارہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اسی تزویراتی کش مکش کا حصہ ہے۔ پھر اس گریٹ گیم کا حصہ تین اہم ممالک پاکستان، ایران اور بھارت بھی ہیں۔
پاکستان سے ایک اہم سفارتی غلطی ہوئی ہے۔ جب ہم طالبان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کریں اور ان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بن سکیں۔ اسی کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ایک معاہدہ بھی طے پایا۔ اس موقعے پر حکومت پاکستان کو کچھ چیزیں طے کرنی اور طے کرانی چاہییں تھیں، جب کہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ افغانستان میں جلد یا بدیر طالبان کی حکومت بننے والی ہے۔ چاہے وہ خانہ جنگی سے آئے یا پُرامن طریقے سے!
گذشتہ چار برسوں کے دوران اسلام آباد میں پس پردہ اجلاس ہوتے رہے، جن میں پاکستان نے شرکت کی۔ افغان حکومت کے پارلیمنٹیرین ان اجلاسوں کا حصہ ہوتے تھے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ’’آپ طالبان کو نظر انداز کر رہے ہیں اور طالبان بھی آپ کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اگر طالبان نے آپ کے ساتھ مفاہمت کرلی تو ان کی پوری جدوجہد اور تحریک ختم ہوجائے گی۔ وہ ایک نظریاتی اساس رکھتے ہیں اور وہ اپنی اساس کو کبھی چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کا جو مزاج ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ ’کچھ لو اور دو‘ کی بنیاد پر مصالحت کریں اور پھر ایک قومی حکومت بنائیں، یہ ہو نہیں سکتا‘‘، مگر انھیں یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔
ہمارے دفترخارجہ کے بہت سے دوستوں کا خیال تھا کہ ’’اب ۹۰ کے عشرے والی بات نہیں ہے۔ اب ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں افغان فوج بہت مضبوط ہوگئی ہے، اور بیوروکریسی بھی موجود ہے۔ ایسے حالات نہیں ہیں کہ طالبان آئیں گے اور قبضہ کرلیں گے‘‘۔ مگر ساری دُنیا نے دیکھا کہ ۱۴؍اگست ۲۰۲۱ء کو جب امریکی حمایت سے قائم صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہوئے تو طالبان نے بغیر کسی خون خرابے کے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ابتدا میں پاکستان کو یہ اندازہ کرلینا چاہیے تھا کہ طالبان ہی کو بہرحال حکومت بنانی ہے۔۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء سے پہلے ہم نے جو اقدامات کیے، مثال کے طور پر احمدشاہ مسعود کے بھائی کو ایک ماہ قبل اسلام آباد میں آنے کی دعوت دی اور ان کو اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا، اسی طرح اور بہت سے لوگوں کو بلایا گیا۔ حکومت، دفترخارجہ کے کچھ افراد اور دفاعی حلقے کے صلاح کار پریشان فکری کا شکار تھے۔ حکومت کا خیال تھا کہ اگر ’’ہم شمالی اتحاد یا جسے ’قومی مزاحمتی فوج‘ کہتے ہیں کو رابطے میں لائیں گے تو طالبان پر دبائو بڑھا سکیں گے اور شاید طالبان افغان حکومت سے مفاہمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن غالباً ان سب لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ برادرانہ دبائو کی بھی ایک حد ہے۔ جب یہ دبائو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج کرنے لگے گا تو پھر مؤثر نہیں رہے گا۔
ہمیں چاہیے تھا کہ ہم امریکا سے یہ طے کرلیتے کہ اگر طالبان کی حکومت آگئی، تو ہمیں ان کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے؟ صرف امریکا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی خاص طور پر ہمیں کچھ چیزوں کا تعین پہلے سے کرلینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو طالبان نے حکومت کا کنٹرول سنبھالا تو اسلام آباد میں حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ یہ بالکل اسی طرح معاملہ ہوا ،جو ۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو پاکستان کے ساتھ ہوا تھا، جب بھار ت نے کشمیر پر غیرآئینی اقدامات کیے تو حکومت کو سمجھ نہیں آئی کہ اب ہم کیا کریں؟ حالانکہ وہ بھی غیرمتوقع نہیں تھا، لیکن ہم شاید سوئےرہے اور اس بوکھلاہٹ کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔
۲۰دسمبر ۲۰۲۱ء کو ہم نے او آئی سی کا اجلاس بلایا۔ یہ انسانی تناظر میں ایک اچھی کوشش تھی، کیونکہ اگر افغانستان بحران سے دوچار ہوتا ہے یا معاشی تباہی سے دوچار ہوتا ہے تو مسائل کا سب سے زیادہ تباہ کن بوجھ پاکستان ہی پر آنا ہے۔ ہم ہمسایہ ہیں اور ہماری افغانستان کے ساتھ ۲۶ سوکلومیٹر طویل سرحد ہے۔ افغانستان میں جو بھی صورتِ حال ہے، اس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، افغانستان کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے ساتھ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے چل رہا ہے۔ اُس زمانے میں ہرروز پشاور میں دھماکے ہوتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی کوتاہی سے نہیں سیکھا، اور طالبان کی حکومت کے لیے پیش بندی نہ کی۔ اور نہ یہ جاننا چاہا کہ طالبان کس فکر، کس عزم اور سوچ کے علَم بردار ہیں۔
اگلی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے یہ کہہ کر اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر خود ہی اپنے ہاتھ باندھ لیے کہ ’’ہم علاقائی سوچ کے ذریعے آگے بڑھیں گے‘‘۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے لیے گنجایش بہت کم رہ گئی۔ ڈپلومیسی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی محدود تصور کا پابند کرلیں۔ اس طرح آپ کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے علانیہ یہ کہہ دیا کہ ’’ہم طالبان کی حکومت کو اکیلے تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ بے شک حکومت کو تسلیم نہ کرتے، لیکن علانیہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ہم چیزوں میں کچھ گنجایش رکھتے تو پھر دُنیا بھی یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور یوں وہ بھی آگے بڑھ کر قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں آسکتے تھے۔ ہمارے اس عاجلانہ اور غیرحکیمانہ موقف نے ہمارا اثرورسوخ ختم کردیا اور افغانستان کے مسئلے پر ہماری جو کلیدی پوزیشن ہونی چاہیے تھی وہ ہم نے خودختم کردی۔
بلاشبہہ پاکستان تنہا افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہماری مخدوش معاشی صورتِ حال، ایف اے ٹی ایف کامعاشی دبائو اور بہت سی مجبوریوں کا ہمیں سامنا ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے سے ہمارے متبادل اور بھی کم ہوگئے ہیں۔ ا س وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ یوکرین کے مسئلے پر زیادہ اور افغانستان کی صورتِ حال پر کم ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے مسائل اور بڑھیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلانے سے افغان بھائیوں کے لیے ہم کچھ فنڈز جمع کرلیں گے، لیکن وہ بھی نہیں ہوپایا، اور نہ ہم اس کے لیے کوئی طریق کار ہی وضع کرسکے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات یاد رکھیے کہ بھارت نے افغانستان سے اپنے ہاتھ کھینچنے نہیں ہیں۔ پچھلے بیس برسوں کے دوران اس نے وہاں بہت سے اثاثے (assets ) بنائے ہیں۔ بھارت اور امریکا کا ایک مشترکہ ہدف یہ ہے کہ وہ اس خطے اور افغانستان کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ امریکا یہاں سے بظاہر چھوڑ کر تو چلاگیا، لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان اسی طرح انگارہ بنا رہے اور پاکستان بھی مسائل سے دوچاررہے۔ صرف بھارت اور امریکا ہی یہ نہیں چاہتے کہ گوادر نہ بنے، سی پیک آپریشن بند ہوجائے، بلکہ ہمارے کچھ قریبی دوست ممالک بھی نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ تعمیر ہو، کہ اس طرح ان کی اپنی بندرگاہوں کے معاملات متاثر ہوجائیں گے۔
اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ افغانستان کے حوالے سے کوئی یک طرفہ فیصلہ کرسکے۔ ہمیں طالبان کو قائل کرنا پڑے گا کہ اگر وہ ایک وسیع تر حکومت نہیں بناسکتے، تو کم از کم ’لویہ جرگہ‘ ہی بلایا جائے تاکہ حکومت کے لیے کوئی قانونی جواز پیدا ہوسکے۔دُنیا طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کررہی۔ ان کا یہ ایک بے تُکا اور غیرمنصفانہ اعتراض ہے کہ ’’طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے‘‘۔ اگر دُنیا کی تاریخ پڑھیں تو بیرونی جارحیت کے خلاف حکومتیں اسی طرح بنتی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ طالبان پشتون اکثریتی نسلی گروہ ہے۔ افغانستان میں ۲۷ فی صد تاجک رہتے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے باقی نسلی گروہوں کو بھی نمایندگی دی ہے، مگر تاجکستان اور ازبکستان کو اس پر پریشانی ہوتی ہے۔ہمیں ان برادر ممالک کی پریشانی کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے دوچیزوں پر طالبان کو کچھ نہ کچھ نرمی دکھانی پڑے گی۔ اگرچہ وہ عبداللہ عبداللہ یا حامد کرزئی کو حکومت میں شامل نہیں کرسکتے، لیکن اپوزیشن کی دوسرے اورتیسرے درجے کی قیادت کو توشامل کیا جاسکتا ہے اور ایسے افراد کو لیا جاسکتاہے جو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج نہ کریں۔دوسرا معاملہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے مواقع کا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اس مسئلے میں کچھ نرمی دکھائی ہے، لیکن اس میں مزید گنجایش پیدا کریں تو مناسب ہوگا۔
ان حالات میں پاکستان پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ آج کل یوکرین کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمارا اس کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں ہے، ہمیں تو افغانستان کی فکر کرنی ہے کہ اس کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، تاکہ یہاں استحکام پیدا ہو۔ البتہ یہ مسئلہ اب راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ اگلے ایک دو سال تک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا، جو اپنی جگہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔
روس اس وقت یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے، لیکن پاکستان، چین اور ایران، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اور طالبان کو اس بات پر تیار کرسکیں کہ وہ کچھ نرمی دکھائیں تو اس طرح معاملات کو کچھ آگے بڑھایا جاسکے گا۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ افغانستان میں ایک طویل مدت کے بعد امن کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اس بار پورے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے۔ ۹۰ء کے عشرے کی طرح کی صورتِ حال نہیں ہے کہ جب طالبان کے پاس مزارشریف اور وادیِ پنج شیرنہیں تھی۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں ہے کہ دُنیا انھیں تسلیم نہ کرے۔
اب تک اقوام متحدہ میں افغانستان کے حوالے سے دو قراردادیں منظورہوئی ہیں۔ ایک ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء کو قرارداد ۲۵۹۳ منظور ہوئی، جب بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا۔ صرف ایک دن پہلے جب اس کی صدارت ختم ہورہی تھی، وہ ایک قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں وہ تمام مطالبات میں شامل ہیں، جو دُنیا کہہ رہی ہے۔ پھر ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء کو ایک اور قرارداد ۲۶۱۵ منظور ہوگئی۔ اس میں بھی اسی قسم کے مطالبات ہیں۔ ان حالات میں سفارتی عمل مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ہرمسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو فعال کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن اگر ہم اہداف متعین کرکے مسلسل کوشش کریں تو کامیابی مل سکتی ہے۔