مئی ۲۰۲۲

فہرست مضامین

طلبہ پر مذہبی رجحان کا اثر، ایک جائزہ

آئیلانا ہاروٹز | مئی ۲۰۲۲ | تعلیم و تعلّم

Responsive image Responsive image

بچے کی پیدایش کے بعد اس کے اردگرد کا سماجی ماحول، اس کی تعلیمی کامیابی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین سماجیات نے عشروں اس تحقیق پر صرف کیے ہیں کہ وہ عناصر جو طالب علموں کے اختیار میں نہیں بشمول نسل، دولت اور والدین کا سماجی حوالہ کس طرح سے ان کے تعلیمی مواقع اور کامیابیوںپر اثرانداز ہوتے ہیں؟

سماجی ماحول کا ایک پہلو جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے وہ مذہب ہے۔ مثال کے طور پر امریکا ایک دولت مند مغربی جمہوریت ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا وہاں پر مذہبی ماحول میں پرورش پانے والے نوجوانوں کے تعلیمی نتائج پر یہ چیز اثرانداز ہوتی ہے؟

گذشتہ ۳۰ برس میں سماجی ماہرین اور اقتصادی ماہرین نے متعدد تحقیقی مطالعوں میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ مذہب اور تعلیمی کامیابیوں میں ایک مثبت تعلق ہے۔ اس تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ مذہبی طالب علم، زیادہ بہتر گریڈ حاصل کرتے ہیں۔کم مذہبی رجحان رکھنے والے طالب علموں کی بہ نسبت ان میں سکول جانے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ لیکن ماہرین اس بات پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ ان نتائج کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ کیا مذہب کے اثرات کے نتیجے میں طالب علموں کی کامیابی کا سبب مذہب ہی ہے یا اس میں کچھ اور عناصر کارفرماہیں؟

میری تحقیق یہ ہے کہ طالب علم پر مذہب کا طاقت ور لیکن ملا جلا اثر ہوتا ہے۔ وہ نوجوان جو بہت زیادہ مذہبی ماحول میں پرورش پاتے ہیں اور جنھیں کچھ محققین Abiders (مذہبی طلبہ)بھی کہتے ہیں، وہ اوسط طلبہ کے مقابلے میں زیادہ نمبر (GPAs) حاصل کرتے ہیں اور کالج تک اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ میرے نزدیک مذہبی شدت پسندی سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذہبی عبادات ہفتہ میں کم از کم ایک بار انجام دیتے ہیں، دن میں کم از کم ایک مرتبہ دُعا کرتے ہیں، اور خدا پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ محض مذہبی اعتقاد اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ بچے کا رویہ کیا ہے بلکہ   اس کے لیے کسی مذہبی برادری کا حصہ ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ اُبھرتے ہوئے نوجوان جو بہتر تعلیمی نتائج دیتے ہیں، وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی مذہبی حلقوں سے وابستگی بھی ہوتی ہے۔

وہ مذہبی طلبہ جو شان دار تعلیمی ریکارڈ رکھتے ہیں عموماً معروف کالجوں میں داخلہ لینے کا رجحان کم رکھتے ہیں، بہ نسبت کم مذہبی رجحان رکھنے والے طلبہ کے جو مقابلتاً بہتر سماجی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج ان خصوصیات کی نشان دہی کرتے ہیں، جو مذہبی رجحان رکھنے والے طلبہ کی کامیابی میں معاون ہوتی ہیں۔ نیزان خصوصیات کی نشان دہی ہے، جنھیں اسکولوں کو اپنے طلبہ میں پروان چڑھانا چاہیے۔

کسی بھی مذہب کے پیروکار گہری مذہبی وابستگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن میں نے اپنی کتاب: God, Grades and Graduation: Religion's Surprising Impact on Academic Success میں تحقیق کی بنیاد عیسائیت کو بنایا ہے کیونکہ امریکا میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً ۶۳فی صد امریکیوں کی شناخت عیسائیت ہے۔

زیادہ مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کے مقابلتاً مختلف تعلیمی نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ طلبہ تین اُمور پر توجہ مرکوز کرتے ہیں: سیکنڈری سکول نمبروں کا حصول، کالج کی تعلیم کی تکمیل کو پسند کرنا، اور کالج کا انتخاب۔سب سے پہلے میں نے نیشنل اسٹڈی آف یوتھ اینڈریلجن (NSYR) کے سروے کا جائزہ لیا، جس میں ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۳ء تک ۳ہزار ۲سو ۹۰ نوجوانوں کا جائزہ لیا گیا۔ سب سے پہلے شرکا کی گہری مذہبی وابستگی اور ان کے تعلیمی نتائج کے پیش نظر گروپوں کا تعین کیا گیا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ عموماً مذہبی رجحان کے حاملین کو دیگر طلبہ پر ۱۰ فی صدفوقیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر ورکنگ کلاس کے نوجوان میں ۲۱ فی صد مذہبی طلبہ نے A گریڈ حاصل کیا، اور ان کے مقابلے میں غیرمذہبی رجحان رکھنے والوں میں سے ۹ فی صد نے Aگریڈ حاصل کیا۔

اس پس منظر میں نسل، لڑکے اور لڑکیاں، علاقائی فرق اور خاندانی پس منظر شامل ہیں۔ اس سروے کے لیے National Longitudinal Study of Adolescent to Adult Health کے اعداد و شمار کا بھی جائزہ لیا تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کس طرح سے یکساں خاندان سے تعلق رکھنے والے مذہبی نوجوان، کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ہمارے تجزیے کے مطابق زیادہ مذہبی نوجوان اپنے حقیقی بہن بھائیوں کے مقابلے میں ہائی اسکول میں زیادہ نمبر (GPAs )حاصل کرتے ہیں۔

سماجی ماہرین جن میں کرسچین اسمتھ شامل ہیں، ان کا خیال ہے کہ مذہبی رجحان کا بڑھنا نوجوانوں کو پُرخطر رجحانات سے روکتا ہے اور دیگر نوجوانوں سےان کے رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اور قیادت کے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔

اس بات کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے میں نے National Study of Youth and Religions  ( NSYR) کا ازسرنو مطالعہ کیا اور تقریباً ۲۰۰ نوجوانوں کے ۱۰برسوں پر محیط انٹرویوں کا تجزیہ کیا اور انفرادی طور پر ان سے کیے گئے سوالات کا جائزہ لیا۔مذہبی رجحانات کے حامل طالب علموں نے بتایا کہ وہ خدا کی خوشنودی کے لیے مسلسل کوشش کرتے ہیں اور وہ دیانت دار، فرض شناس اور بااصول بننے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ یہ بات گذشتہ تحقیق کی تائید کرتی ہے کہ مذہبیت ان خصوصیات کے ساتھ مثبت طور پر وابستہ ہے۔

اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرض شناسی اور دیانت داری اور دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا جیسی صفات کا تعلیمی کامیابی کے ساتھ کتنا تعلق ہے، اور پھر اس میں اساتذہ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خصوصیات ایسے اسکول کے نظام میں معاون و مددگارہیں، جو ان لوگوں کو انعامات سے نوازتے ہیں، جو اخلاقی و روحانی اصولوں کی پاس داری کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ میں نے یہ بھی جاننا چاہا کہ کالجوں میں ان نوجوانوں کی کیا کارکردگی رہتی ہے؟ اس کے لیے NSYR کے اعداد و شمار کا Naitional Student Clearing House کے ساتھ موازنہ کیا تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کتنے طلبہ نے امتحانات دیئے اور کامیابی حاصل کی۔ مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اوسطاً گریجوایشن کی سند حاصل کرنے کے لیے زیادہ کوشش کی، بہ نسبت غیرمذہبی رجحان کے۔ اس کی ایک وجہ ہائی اسکول میں ان کی کامیابی کالج میں بھی ان کی کامیابی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔معاشی آسودگی سے بھی ان نتائج میں فرق تو پڑتا ہے، لیکن ورکنگ کلاس اور متوسط طبقے کے مذہبی نوجوان گریجوایشن کی سند کے حصول کے لیے ڈیڑ ھ سے دو گنا زیادہ کوشش کرتے ہیں بہ نسبت غیر مذہبی رجحان والوں کے۔

مذہبی رجحان رکھنے والے یا متوسط طبقے کے طلبہ گریجوایشن کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ NSYR اور نیشنل اسٹوڈنٹس کلیرنگ ہائوس کے اعدادد و شمار کے مطابق ایک جائزہ پیش ہے:

غریب طبقہ:       غیرمذہبی   ۱۵ فی صد مذہبی ۱۹ فی صد

محنت کش طبقہ : غیرمذہبی   ۱۶ فی صد مذہبی ۳۲ فی صد

متوسط طبقہ:      غیرمذہبی   ۲۹ فی صد مذہبی ۴۷ فی صد

پروفیشنل کلاس:  غیرمذہبی   ۶۲ فی صد مذہبی ۶۵ فی صد

تعلیمی اداروں میں کامیابی کے جائزے کا ایک اور پہلو کالجوں میں طلبہ کی کامیابی ہے، جس کا عام طور پر طلبہ کی جانب سے کالج کے انتخاب سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ طلبہ جس قدر معیاری تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں، اتنا ہی اپنی سند کے حصول کے لیے زیادہ کوشش کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کے لیے زیادہ تنخواہ کی حامل معیاری ملازمتوں کے حصول کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اوسطاً مذہبی رجحانات کے حامل طالب علم جو Aگریڈ پاتے ہیں اور نسبتاً کم معیاری کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں، ان کا SAT نتیجہ ۱۱۳۵ ہے، جب کہ غیرمذہبی طلبہ کا نتیجہ ۱۱۷۶ ہے۔ ان کے انٹرویو میں مذہبی طالبات باربار والدین کی ذمہ داری، ایثار و خلوص اور خدا کی عبادت کا تذکرہ کرتی ہیں،بالخصوص بالائی متوسط طبقہ خاندانوں کی طالبات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معیاری کالجوں کا انتخاب کم کرتی ہیں اور معروف کالجوں کو اپنا کیریئر بنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی ہیں۔

اصولوں کی پابندی کرنے والے طلبہ بہتر تعلیمی نتائج دیتے ہیں، لیکن ایسا مختلف رجحان رکھنے والے بھی کرسکتے ہیں۔ہماری تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملحد طلبہ متجسس مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ خدا کی خوشنودی کے لیے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے بجائے تنقیدی نقطۂ نظر سے غوروفکر کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس مزاج کی وجہ سے مذہبی رجحان رکھنے والوں کے مقابلے میں معروف یونی ورسٹیوں میں ملحدین کو زیادہ نمایندگی دی جاتی ہے۔