؍اپریل ۲۰۲۲ءکو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد، باقی مدت کے لیے شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے درمیان مبارک باد کے برقی پیغامات کے بعد باضابط خطوط کا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں لیڈروں نے پُرامن اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقا ت پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ایسا پُرامن اور بااعتماد اشتراک نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لیے پُر عزم ہے‘‘۔ اس سے قبل نریندرا مودی نے اپنے خط میں اُمید ظاہر کی کہ ’’پاکستان کے نئے حکمران بھارت کے مرکزی ایشو، یعنی دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے میں مدد کریں گے‘‘۔ خطوط کے ان تبادلوں کو نئی دہلی کے حکومتی حلقے ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ چندر شیکھر ، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی سمیت بھارت کے سبھی وزرائے اعظم کے دلوں میں نواز شریف کے لیے ہمیشہ ایک نرم گوشہ رہا ہے، جس کا میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کا دورہ کرنے والا ایک پاکستانی وفد گجرال صاحب سے ملا، تو انھوں نے نواز شریف کو برطرف اور قید کرنے پر ان کو خوب سنائیں اور ناراضی کا اظہار کیا۔
واجپائی نے بھی ایک بار بتایا تھا کہ ’’۱۹۹۸ءمیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل سبکدوش وزیر اعظم گجرال نے مجھ کو بتایا تھا کہ ’’پاکستان میں شریف حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں‘‘۔ ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان کے جوابی طور پر جوہری دھماکوں کے بعد گجرال کے اسی یقین نے واجپائی کو لاہور بس سے سفر کرنے کی ترغیب دی۔سنڈے آبزرور کے چیف ایڈیٹر محمدسعید ملک، گجرال اور نواز شریف کی نیویارک میں ۱۹۹۷ء میں ملاقات کے وقت بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔انھوں نے اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ــ’’ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر جہاز میں ہم صحافیوں نے گجرال صاحب سے اس ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ایک مطالبہ جو نواز شریف صاحب نے نہایت ہی زورو شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت دوبئی کے راستے ان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو‘‘۔اس جواب کا سننا تھا کہ کسی بھی صحافی نے بھارتی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر کوئی مزید سوال پوچھنے کی زحمت نہیںکی، جب کہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے‘‘۔
خود نریندرا مودی نے بھی کئی بار نوا ز شریف کی تعریفیں کرتے ہوئے بتایا کہ ’’۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں میری بطور وزیراعظم ہند کی حلف برداری کی تقریب میںشرکت کرکے نوازشریف نے اعتماد سازی میں پہل قدمی کی‘‘۔ بلکہ بعد میں ۲۰۱۵ء میں روسی شہر اوفا میں ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا، تو اس میں پہلی باربھارت اور پاکستان کی کسی دستاویز سے ’کشمیر‘ غائب تھا۔ نواز شریف نے اپنے وفد کو بتایا تھا کہ ’’نریندرا مودی کو سکون دینا ضروری ہے، تاکہ پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد ان کو پاکستان کے ایشوز پر عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی جائے‘‘ ۔ اوفا کے علاوہ اسی سال دونوں لیڈروں نے پیرس میں اور پھر لاہور میں بھی ملاقاتیں کیں۔
اس کے برعکس، بھارتی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی سے خائف رہتے ہیں، اگرچہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ نے کانگریس حکومت کے دور میں سونیا گاندھی اور ان کی فیملی کے ساتھ سماجی تعلقات بڑھانے کی بہت کوششیں بھی کی تھیں۔ ’بھٹو،زرداری خاندان‘ اپنے آپ کو ایک طرح سے بھارت کی’ نہرو،گاندھی فیملی‘ کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہے۔ مگر بھارت میں کوئی بھی سیاسی رہنما، اپنے دفترخارجہ اور دفاعی اداروں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی تعلق قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب معاملہ پاکستان سے متعلق ہو۔
دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت کے دوران بے نظیربھٹو کو بھارت کے حوالے سے کبھی معاف نہیں کیا ہے۔ وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا پاکستان کے دورے پر آئے بھارتی خارجہ سیکرٹری جے این ڈکشت کو ملاقات کے لیے وقت نہ دینا اور پھر ۱۹۹۵ء میں نئی دہلی کے سارک چوٹی مذاکرات میں پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی عدم شمولیت ایسے گہرے زخم ہیں، جن کے لیے بھارتی قومی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرپا رہے ہیں۔ بے نظیر نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے صدر فاروق لغار ی کو نئی دہلی بھیجا اور انھوں نے پاکستانی سفارت خانے میں حریت لیڈروں کو مدعو کرکے ان سے ملاقات کی، اس طرح بھارت پاکستان مذاکرات سے قبل کشمیر کے لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنے کی داغ بیل ڈالنے کا جرأت آمیز قدم اُٹھایا۔
۲۰۰۷ء میں ’انڈیا ٹوڈے سمٹ‘ کے موقعے پر جب بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات کی، تو ذرائع کے مطابق انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’آمریت کے خلاف پیپلزپارٹی کی جدوجہد اور بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا ہے، جب کہ بھارت خود دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے‘‘۔ بعد میں اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے میں نے سوال کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’پیپلز پارٹی، حزبِ اختلاف میں ہو؟ تو بھارت سے خوب پینگیں بڑھاتی ہے، مگر اقتدارمیں آکر بھارت مخالف ایجنڈے کو ہوا دیتی ہے اور پھر چونکہ اس کا فوج کے ساتھ تنائو رہتا ہے، اسی لیے پیش رفت بھی نہیں کرپاتی ہے‘‘۔
خیر، پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں برابر کی شریک ہے۔ مسلم لیگ کا بھارت میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کو کشمیری عوام کی مشکلات آسان کرنے کے لیے استعمال کریں، تو بہت اچھا ہوگا۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل ’فکر مند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group)نے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے، جس میں لوگ آپس میں سرگوشی تک کرنے سے بھی گھبراتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’کشمیر اس وقت جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ءاورآرتھر کوسٹلر کے ناول Darkness At Noonکی عملی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔ ایک دانشور نے سرینگر میںاس گروپ کو بتایا کہ ’’کشمیر کی نئی نسل کے سامنے بھارتی جمہوریت کے گن گنوانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے‘‘۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات روز بروز مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب معاشرے میں پھیلا دی گئی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا‘‘۔
اگرچہ بھارتی سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز کشمیر میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۰ سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے ساتھی مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ ’’وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں ، بشمول حریت کانفرنس کو خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں‘‘۔ ایک جہاندیدہ سیاستدا ن نے اس وفد کو بتایا کہ ’’ہم کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ کیفیت کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گی، بتانامشکل ہے‘‘۔
کشمیری پنڈتوں پر بنائی گئی زمینی حقائق کے بالکل برعکس فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بارے میں وادیٔ کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کہنا تھا کہ ’’اس فلم سے ان کو فائدہ کے بجائے اُلٹا نقصا ن ہورہا ہے۔ اس فلم کے آنے کے بعد وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں‘‘۔ بھارت نواز سیاستدانوں نے وفد کو بتایا کہ وہ کشمیر میں غیر محفوظ تو تھے ہی، اب اس فلم کی وجہ سے بھارت میں بھی غیر محفوظ ہوکر نہ ادھر کے رہے ہیں، نہ ادھر کے۔ کیونکہ اس فلم میں ۱۹۹۰ءمیںکشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکتوں کے لیے ان کو بھی ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے اور ان کے خلاف ہندو طبقے میں نفرت پھیلائی گئی ہے‘‘۔ اس فلم سے کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لانے کے حکومتی منصوبے پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت [مئی ۲۰۰۴ء- مئی ۲۰۱۴ء] کی کوششوں سے تقریباً دس ہزار کشمیری پنڈت واپس وادیٔ کشمیر میں بسنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس فلم نے مقامی کشمیری مسلمانوں کو ایک دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ ۱۹۹۰ءکے جو زخم مندمل ہوچکے تھے، اس نے ان کو دوبارہ ہرا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق نئی دہلی کے ارباب حل و عقد، اقتدار کے لیے ہرحد پار کر سکتے ہیں ، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔
۲۰۱۶ء میں اس گروپ کی تشکیل کے بعد ،گروپ کا یہ کشمیر کا دسواں دورہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار ہم واضح طور پر ماحول میں تناؤ اور گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ ’حد بندی کمیشن‘ کی حالیہ رپورٹ سے مذہبی بنیادوں پر دُوریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس ’کمیشن‘ نے حدبندی کے لیے آبادی کو معیار بنایا ہے اور نہ جغرافیہ کو۔اس کا واحد مقصد یہی لگتا ہے کہ کسی طرح ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ اسی لیے ہندو اکثریتی علاقوں کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تو وادیٔ کشمیر کی سیٹیں بڑھ رہی تھیں اور جغرافیہ کے معیار سے جموں کے مسلم اکثریتی پہاڑی علاقوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں آدھا علاقہ وادیٔ کشمیر اور آدھا جموں کے پونچھ ۔راجوری علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہوں گے، جب اننت ناگ اور پونچھ کو ملانے والا مغل روڑ بند ہوتا ہے، تو امیدوار کو ایک خطے سے دوسرے خطے میں انتخابی مہم کے لیے جانے کے لیے اننت ناگ سے بانہال، ڈوڈہ، ادھمپور اور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہی راجوری۔ پونچھ پہنچنا ممکن ہوگا۔ یہ کیسی حد بندی ہے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق: ’’اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ اسی لیے وہ اب کشمیر میں انتخابات کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ لگتا ہے کہ ۲۰۲۲ء کے آواخر میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں پہلی بار ایک ہندو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے اس ’کامیابی‘ کو پورے بھارت میں ’کارنامے‘ کے طور پر بتایا جائے۔ مسلمانوں میں گوجر اور پہاڑی کمیونٹی کو کشمیر ی بولنے والی آبادی سے متنفر کرنے اور ان کو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے لام بند کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ان سے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ گوجر آبادی کوپس ماندہ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اسمبلی میں نشستیں مخصوص ہوگئی ہیں۔ اسی طرح پہاڑی آبادی جو گوجر آبادی کے ساتھ ہی رہتی ہے، مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کو بھی یہ درجہ دیا جائے‘‘۔
وفد نے میڈیا کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’صحافی ان سے ملنے سے کتراتے رہے۔ وہ خوف زدہ تھے،کہ کہیں ان کو بعد میں تختۂ مشق نہ بنایا جائے‘‘۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’[انڈین]آرمی کے ایک جنرل نے ایک سینیر صحافی کو بتایا: ’’ اس سے قبل کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یا آپ سے بات کروں، آپ یہ بتائو کہ اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے ہو یا نہیں؟‘‘ ایک دوسر ے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل پانچ ایم M یعنی: ماسز، مسجد، مولوی، ملی ٹنٹ اور میڈیا کا معاملہ ہے۔ ہم نے مسجد، مولوی اور ماسز (عوام) کو تو کنٹرول کیا ہے۔ اب ملی ٹنٹ اور میڈیا کی باری ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا‘‘۔ میڈیا سے متعلق عوام میں اگر کوئی موہوم سی بھی امید ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ اس وفد کے مطابق کشمیر، میڈیا کو زیر کرنے کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں، جب دیگر بھارتی علاقو ں میںبھی اس کا اطلاق کیا جائے گا‘‘۔
رپورٹ کے مطابق: ’’بھارتی حکومتیں، کشمیر میں وفاداریوں کو جیتنے کے بجائے ان کو مراعات و د ھونس دباؤ کے ذریعے خریدنے پر اصرار کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے بھارتی حکومتیں، کشمیر کو باقی ملک [بھارت]کے ساتھ انضمام کے لیے کوشاں ہوتی تھیں، مگر موجودہ حکومت اس کو ہضم کرنے اور اس کے وجود اور شناخت ہی کو مٹانے کے درپے ہے‘‘۔
اس لیے اگر شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی یہ حکومت اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں عوام کے لیے سانس لینے کی کوئی سبیل مہیا کرتی ہے، تو اس کا یہ قدم تاریخ میں رقم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی مغربی دنیا میں اپنی پارٹی ساکھ کا فائدہ اٹھا کر اگر کسی طرح مودی حکومت کو کشمیری عوام کے وجود اور شناخت کو بچانے پر قائل کرواسکے، تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین کہلوانے کے حقدار ہوں گے۔ ورنہ ان دونوں پارٹیوں کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔