غیرت یا عزت کے نام پر ہونے والا قتل کسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کا قتل ہوتا ہے، جو عموماً اسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ ایسا قتل کرنے والے فرد یا افراد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ مقتول کی کوئی حرکت، خاندان کی بے عزتی یا شرمندگی کا باعث بنی، یا اس نے خاندانی روایات سے بغاوت کی ہے۔ اس قتل کی عام طور پر جو وجوہ بتائی جاتی ہیں، ان میں طلاق، علیحدگی، جبری شادی سے انکار، خاندان سے باہر شادی کی خواہش، ناجائز جنسی تعلقات، ہم جنسیت، عصمت دری یا جنسی حملے کا نشانہ بننا وغیرہ شامل ہیں۔
مرد اور عورت دونوں ہی غیر ت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرتے ہیں اوراس کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ جب اس جرم کا ارتکاب کوئی عورت کرتی ہے اور شکار مرد ہوتا ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی، لیکن جب کسی مرد مجرم کے ہاتھوں کوئی عورت متاثر ہوتی ہے تو فیمنسٹ تنظیموں کی طرف سےالزام لگایا جاتا ہے کہ ’’یہ صنفی امتیاز کا نتیجہ ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ سب مرد ظالم ہوتے ہیں اور نہ سب عورتیں مظلوم۔ کچھ شقی القلب افرد ان مسائل کا سبب بنتے ہیں اور وہ دونوں اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ شاید یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مردوں میں ایسے افراد کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے افراد عورتوں میں پائے ہی نہیں جاتے۔مثلاً ۲۰۱۱ء میں کراچی میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کی لاش کے سیکڑوں ٹکڑے کرکے سالن میں پکا کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کی۔ ۲۰۱۸ء میں متحدہ عرب امارات میں ایک خاتون نے اپنے بوائے فرینڈ کو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے ایک عرب پکوان میں پکا کر گھر کے قریب ورکرز کو کھلا یا۔ اسی طرح ۲۱ نومبر ۲۰۲۱ء کو بہاولنگر میں بیوی نے اپنے شوہر کو قتل کرکے لاش چھت پر لٹکا دی۔ ۲۲نومبر ۲۰۲۱ءکو جے پور، راجستھان میں ایک گرل فرینڈ نےلڑکے کو نشہ آور کھانا کھلایا اور اس کے بے ہوش ہونے کے بعد چھری سے اس کے اعضاء کاٹ ڈالے۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۲۱ء کو کراچی صدر میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑے کے دوران اس کے سر پر لوہے کا راڈ مار کر زخمی کیا، پھر اس کے ہاتھ کاٹ کر کھڑکی سے باہر روڈ پر پھینک دیئے۔ پھر اس نے خاوندکو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے مختلف کمروں میں چھپادئے۔ اسی طرح کے اور کئی واقعات بھی وقتاً فوقتاً اخبارات میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
غیرت کے نام پر صرف پاکستان یا مسلم دنیا ہی میں قتل نہیں ہوتے بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (UNPF: ۱۹۶۹ء) کے ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کم ازکم ۵ہزار خواتین سالانہ غیر ت و ناموس کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ، افریقہ یا جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں بنگلہ دیش، برطانیہ، برازیل، ایکواڈور، مصر، بھارت، اسرائیل، اٹلی، اردن، پاکستان، مراکش، سویڈن، ترکی، یوگنڈا، ایران، عراق، شام، کویت، لبنان، فلسطین، یمن، افغانستان، یورپ کے کئی ممالک مثلاً البانیا، بلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، ناروے، سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا میں تقریبا ً پچاس سے زائد ممالک میں ہوتی ہیں۔
کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا جیسے ممالک بھی ان وارداتوں سے محفوظ نہیں، لیکن ان ممالک میں غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کا صحیح ریکارڈ بتانا آسان نہیں کیونکہ وہاں عام قتل اور غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل میں واضح تمیز نہیں کی جاتی، اور عام طور پر حکام اس کا الگ ریکارڈ نہیں رکھتے۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مجموعی اعداد و شمار سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ وہاں ہرسیکنڈ میں ایک عورت کو پیٹا جاتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی سرجن جنرل نے ۱۵ سے ۴۴ سال کی خواتین کی جسمانی چوٹوں کی بڑی وجہ ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز کی طرف سے مارپیٹ کو قرار دیا۔ اسی طرح امریکا میں بے گھر بچوں اور خواتین میں سے ۵۰ فی صد گھریلو تشدد کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ سٹی یونی ورسٹی، نیویارک کے کالج آف کریمنل جسٹس کے پروفیسر رک کرٹس کی ایک تحقیق کے مطابق: ’’امریکا میں ہر سال ۲۳ سے ۲۷ خواتین کا قتل غیر ت کے نام پر ہوتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ جہیز کے نام پر بھی قتل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر وینڈی براؤن کا کہنا ہے کہ ’’لاطینی امریکا میں اسی جرم کو Crime of Passion (جذباتی جرم)کہا جاتا ہے جس کے وہی محرکات ہوتے ہیں جو بھارت میں جہیز کے محرکات ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ہندستان میں وقوع پذیر ہونے والے اس نوعیت کے واقعات میں گذشتہ برسوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وہاں ان جرائم کی تعداد ۴ہزار۸سو۳۴ تھی، جب کہ ۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۸ہزار۳ سو ۸۳ ہو گئی۔ حکومتِ ہند نے جہیز کےلین دین پر پابندی لگا دی اور قاتلوں کو مجرم قرار دیا جانے لگا مگر ان اقدامات کے باوجود ان جرائم کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔
عزّت، ناموس، غیرت اور شرمندگی کے تصورات اور انھیں تشدد اور قتل کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان محض کسی ایک ثقافت یا کلچر سے نسبت نہیں رکھتا بلکہ دنیا کی تقریباً تمام ثقافتوں میں یہ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح کے واقعات کےثبوت نہ صرف اقوام عالم کی تاریخ بلکہ لٹریچر سے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ میں، زنا کے الزام میں، ہنری ہشتم کی پانچویں بیوی کا سرقلم کر دیا گیا تھا۔ تمام بادشاہوں اور سورمائوں کے اعزازات کی بنیاد بھی عزت، ناموس اور غیرت ہی ہوتی تھی۔ شیکسپیئر کے کردار ڈیسڈمونا کو بے وفائی کے الزامات کے تحت ہلاک کیا گیا تھا۔ رومیو اور جولیٹ نے ایک قدیم خاندانی جھگڑے کو غیر ت کے نام پر تلاش کیا تھا۔
لاطینی امریکی معاشروں میں بھی اسی طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ پیرو کے ابتدائی ادوار میں، ان کے قانون کے تحت شوہروں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو زنا کے ارتکاب کی سزا کے طور پر اس وقت تک بھوکا رکھیں، جب تک ان کی جان نہ نکل جائے۔ میکسیکو میں اسی جرم کی سزا کے طور پر عورتوں کا گلا دبا کر انھیں مارا جاتا تھا۔ غیرت کے اسی تصور پر کئی جنگوں میں سب سے مشہور ’ٹروجن جنگ‘ ہے، جس کے آغاز کی وجہ ہیلن کی ناموس تھی۔
اسی طرح کی صورت حال پاکستان کے تعزیراتی ضابطے میں بھی پائی جاتی ہے، جو نوآبادیاتی ہندستان پربرطانیہ کی حکمرانی کے لیے برطانیہ سے درآمد کردہ ضابطہ ۱۸۶۰ء کے چربے پر مبنی ہے۔ اور اس قانون کے تحت ’’اگر کوئی شخص شدید اور اچانک اشتعال انگیزی کی وجہ سے اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے تو اسے نرم سزا دی جائے گی‘‘۔
ان کے برعکس پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۰ء میں اس قانون میں اصلاح کرنے کے لیے کہا کہ ’’اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اشتعال انگیزی، خواہ وہ کتنی ہی سنگین اور اچانک کیوں نہ ہو وہ قتل کے جرم کی شدت کو کم نہیں کر سکتی اور نہ نرمی کا جواز بن سکتی ہے‘‘ لیکن اس کے باوجود انگریز قانون سے متاثر بہت سے جج آج بھی غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کے سلسلے میں قاتل کو نرم سزا سناتے ہوئے مذکورہ برطانوی قانون کا حوالہ دیتے اور اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
۱۹۴۸ء میں نائیجیریا میں برطانوی راج کے دوران، شرعی عدالت میں ایک مقدمہ لایا گیا، جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے آشنا کو قتل کر دیا تھا۔ شرعی عدالت نے مجرم کو سزائے موت سنا دی، مگر آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ برطانوی عدالت عظمیٰ نے شرعی عدالت کے اس فیصلہ کو نامنظور قرار دیتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ یہ ’’جرم برائے محبت‘‘ ہے، لہٰذا مجرم کو سزائے موت نہ دی جائے۔ یعنی شرعی عدالت اس ’جرم برائے محبت‘ سے بالکل متاثر نہ ہوئی، البتہ برطانوی عدالت عظمیٰ اس سے ضرور متاثر ہوئی چنانچہ شرعی عدالت کی تجویز کردہ سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جاسکا۔
یورپ و امریکا کے سیاسی و مالیاتی اداروں کے دبائو اور حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے زیراثر حکومت پاکستان نے غیر ت کے نام پرقتل کے جرائم پر پہلے سے موجود قوانین میں کئی تبدیلیاں کیں۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۴ء کو پاکستان نے ایک ایسا قانون نافذ کیا، جس کے تحت غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کے سلسلے میں سات سال قید کی سزا اور انتہائی مقدمات میں سزائے موت کی سزا دی گئی۔ حقوقِ نسواں کی تنظیمیں اس سے خوش نہیں تھیں،کیونکہ اس قانون کے تحت اس بات کی اجازت تھی کہ مقتول کے ورثا قاتل سے صلح کرلیں، اور معاوضہ (خون بہا) لے کر معاف کردیں۔ چونکہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کا مجرم اور مقتول عموماً ایک خاندان کے اندر ہی ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ تر معاملات میں صلح ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۶ء میں ’پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ میں فوجداری ترمیم کی گئی، اور صلح کے اصول کو سرے سے ختم ہی کر دیا گیا۔
اس قانون میں عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر اغوا کرنے یا شادی کے لیے آمادہ کرنے کی صورت میں عمر قید اور جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی۔ اسی قانون میں تیسری ترمیم ۲۰۱۱ء میں کی گئی، جس میں عورت کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنے کے حوالے سے مزید سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ خواتین کے تحفظ کے نام پر ’پنجاب پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ ۲۰۱۶ء‘ منظور کیا گیا جس میں خواتین کو تشدد کے خلاف تحفظ، وکالت کے اخراجات، امداد اور بحالی کا مؤثر نظام (یعنی میکے کا متبادل حکومتی نظام ) قائم کیا گیا۔ غیر ت کے نام پر جرائم سے متعلق ترمیمی ایکٹ ۲۰۱۶ء منظور کرتے ہوئے اس جرم کو اسٹیٹ کے خلاف جرم قرار دیا،اور فریقین کے درمیان معاوضہ دے کر صلح کرنے کا قصہ ہی ختم کر دیا اور اس قانون کو اسلامی قانون قصاص و دیت کی عملداری سے بالکل باہر کر دیا گیا، لیکن حقوق نسواں کے ادارے اور فیمنسٹ تنظیمیں اس پر بھی مطمئن نہ ہوسکیں۔
ان تنظیموں کے نزدیک قانونی اصلاحات تو ہو گئی ہیں، لیکن عوام اس جرم کے خلاف نفرت اور مذمت کااظہار نہیں کرتے۔ جب تک عوام ان جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لہٰذا، اس مسئلے کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ان تنظیموں نے مہمات شروع کر دیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے میڈیا پر بڑے منظم انداز سے ایسے ڈرامے اور فلمیں دکھائی جا رہی ہیں، جن کا موضوع صرف عشق و محبت، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، محرمات کے ساتھ جنسی تعلقات، جذباتی، ہیجانی اور جنسی ارتکاز ہیں۔ تعلیمی اداروں کا آزاد ماحول اس عمل کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔
عدالتیں اور قانون ساز ادارے بھی اس ایجنڈے سے متاثر نظر آتےہیں۔ ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ افراد خانہ کی طرف سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے معمولی رکاوٹ و مزاحمت کا امکان بھی باقی نہ رہے۔ اور اگر کسی غیر اخلاقی حرکت پر کوئی بزرگ سرزنش کی بھی جرأت کر بیٹھے تو وہ المناک سزائوں کا مستحق قرار پائے۔ یعنی قانون کی نظر میں بے راہ روی اختیار کرنے والے تو معصوم تصور ہوں اور ان پر معمولی روک ٹوک کرنے والوں پر عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کڑی گرفت ہو۔ زنا کا مقدمہ اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اب یہ ایس پی اورعدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر درج ہی نہیں ہوپاتا، لیکن اس کے مقابلے میں بچیوں پراہل خانہ کی طرف سے معمولی مزاحمت یا روک ٹوک کا مقدمہ فوراً درج ہو جاتا ہے۔
'پہلے فیمنسٹ تحریک کے ایکٹوسٹ ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ غیرت کے نام پر قتل، رشتہ داروں کی طرف سے تشدد اور جنسی پارٹنرکے ساتھ جرائم ایک ہی نوعیت کے جرائم ہیں، لیکن اب جنسی تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد حقوقِ نسواں کے فعال علَم برداروں نے اپنے سابقہ موقف پر بالکل منافقانہ خاموشی اختیارکر لی۔ اب وہ اس جرم کو غیرت کے نام پر ہونے والا جرم نہیں کہتے۔ وہ معصوم خواتین جنھوں نے حقوقِ نسواں تحریک کے لیے جدوجہد کی اوراس ثقافت کواپنانے میں اپنا خاندان اورسب کچھ دائو پر لگایا، انھیں بالکل اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان خواتین کو اب نہ صرف جان کا خطرہ ہے بلکہ وہ ہر روزجنسی تشدد کا بھی سامنا کرتی ہیں۔ (دی نیشنل پوسٹ، ۲۹؍اگست ۲۰۲۱ء)
باربرا کے نے جس منافقت کا ذکر یورپ اور امریکا کی حقوقِ نسواں تنظیموں کے حوالے سے کیا ہے، اس سے زیادہ گھمبیر صورتِ حال پاکستان میں ہے۔ یہاں کی حقوقِ نسواں لیڈران، بیورو کریسی اورکچھ ممبران پارلیمنٹ، روشن خیالی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے کے فنڈز آپس میں بانٹ لیتے ہیں اور آئے روز نئے قوانین بنا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ انھوں نے آقائوں کے ایجنڈے پر کام مکمل کر لیا۔ یہ قانون سازی اسلام، نظریۂ پاکستان، آئین اور قومی ضروریات و تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتی، بلکہ عجلت میں تیار کیے گئے پلندے امریکی قوانین کےچربے ہوتے ہیں۔ ان قوانین میں جس ’سماجی انقلاب اور تبدیلی‘ کی نوید سنائی جاتی ہے عملی طور پر وہ پاکستانی معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتی۔
پاکستانی معاشرہ علاقائی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ مجموعی طورپر اسلامی روایات سے بھی نسبت رکھتا ہے۔ یہاں رہنے والے غیر مسلم بھی روایتی معاشرتی اقدار کے حامی ہیں۔ حقوق نسواں تنظیموں کے پُرکشش نعروں سے متاثر ہونے والی بے خبر ماڈرن خواتین روایات سے بغاوت کرکےاپنے لئے کئی مشکلات پیدا کر لیتی ہیں۔ وہ جب بھی کوئی انتہائی قدم اٹھاتی ہیں تو ان کے خاندان کے لوگ روایتی معاشرتی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ دوسری طرف فیمنسٹ لیڈر بھی اس وقت تک ان کی مدد نہیں کرتے جب تک ان کے نام پر کچھ فنڈز ملنے کی توقع نہ ہو۔ ایسی صورت حال میں وہ بیچاری خواتین قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شیلٹر ہومز کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ پرورش کرنے والے والدین اور خاندان کے جان نچھاور کرنے والے پیاروں کو چھوڑ کر، اپنے آپ کو پولیس کے کرپٹ افراد اورمافیا کے حوالے کرنا کس قدر نادانی ہے!
حقوقِ نسواں کی لیڈران کے جھانسے میں آنے والی یہ نادان خواتین سمجھتی ہیں کہ وومن ایمپاورمنٹ یا ’خواتین کی خود اختیاریت‘ کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین، قوانین نافذ کرنے والے ادارے اورفیمنسٹ تنظیمیں ان کی آزادی کے محافظ ہیں۔ یہ ادارے شایدانھیں سابقہ خاوندوں اور خاندان کے بزرگوں کی کارروائی سے تو بچا لیتے ہیں، لیکن ان اہلکاروں کی طرف سے ہونے والے بے رحمانہ سلوک سےانھیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ پولیس افسران کی سفاکی اور فیمنسٹ لیڈران کی بے حسی دیکھ کر انھیں اپنے رشتہ داروں کی یاد بری طرح ستانے لگتی ہے۔ ان خواتین کے دردبھرے خطوط اور ای میلز جب اداروں تک پہنچتے ہیں تو پاکستانی فیمنسٹ تنظیموں سے جواب طلبی ہوتی ہے۔ یہ جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ آپ کے حکم کے مطابق قوانین بنوا دیئے گئے ہیں، ا ن پر عمل درآمد کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں لیکن عوام ان پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ اس پر حکم آتا ہے کہ ’کچھ اور کرو‘۔ چنانچہ کچھ نئے قوانین بنائے جاتے ہیں، فنڈز کی بندربانٹ ہوتی ہےاور یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے:پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کو نہ روک سکنے کی سب سےبڑی وجہ پاکستان کا بدعنوان سیاسی نظام ہے۔ سیاسی، انتظامی، تحقیقاتی اور عدالتی ادارے اس حوالے سے ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے اور مجرموں کو سزائیں دلانے کے سلسلے میں بُری طرح ناکام ہیں اور موجودہ سیاسی، انتظامی اور عدالتی نظام کی ناکامی کی وجہ سے ایک بحران کی کیفیت ہے، جس میں شہری مجبور ہو کر روایتی قبائلی نظام، جرگہ اور دوسرے متبادل ماڈلز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
جو سادہ لوح خواتین این جی اوز کو خواتین کے حقوق کی ضامن سجھتی ہیں وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سول سوسائٹی، کرپٹ حکومتی عہدے داروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز (حصے دار)کے بدعنوان عناصر پرمشتمل بدعنوانی کی ایک مثلث بن چکی ہے، جو ’انسانی حقوق‘ اور ’خواتین کے حقوق‘ کے نام پر ایک معاشرتی دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے۔ این جی اوز فنڈز کے استعمال کی اصل معلومات ظاہر نہیں کرتیں اور جو معلومات ان کی ویب سائٹس پر جاری کی جاتی ہیں وہ گمراہ کن ہوتی ہیں۔ ان اُمور سے متعلقہ پاکستانی حکام جان بوجھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس طرح ملی بھگت سے یہ عطیات دینے والوں کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پیشہ ورانہ مالی شماریاتی خدمات سے منسوب عالمی تنظیم KPMG انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق این جی اوز کی دھوکا دہی سے متعلق ۷۷ فی صد تحقیقات کبھی عوامی سطح پر نہیں پہنچتیں اور ۵۴ فی صد تحقیقات کے بارے میں تو داخلی طور پر بھی اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔
حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے وسیع لٹریچر اور بیانات کے تناظر میں عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب صرف روایتی مذہبی رجحانات رکھنے والے غیر تعلیم یافتہ لوگ ہی کرتے ہیں، لیکن جولائی ۲۰۰۸ء میں ترکی کے کرد علاقہ، اناطولیہ میں غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ڈیکل یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس جرم کا تعلق صرف جاگیردارانہ معاشرتی ڈھانچے سے نہیں بلکہ اس میں ایسے مجرم بھی ہیں جو بہت پڑھے لکھے اور یونی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور ان میں سے ۶۰ فی صد وہ لوگ ہیں جنھوں نے کم ازکم ہائی اسکول یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔
حقوقِ نسواں کی تنظیمیں عام طور پر الزام لگاتی ہیں کہ مسلم ممالک میں ہونے والے یہ واقعات وہاں کے نرم قوانین کی وجہ سے ہیں۔ خاص طور پر مراکش، کویت، لبنان، شام، یمن، عمان اور متحدہ عرب امارات کے قوانین اس حوالے سے بہت نرم ہیں اور وہ مجرم کو معمولی سزا یا جرمانہ وغیرہ تک ہی محدود ہیں، لیکن ان قوانین کی وجہ سے مسلمانوں یا اسلام کو مورد الزام ٹھیرانا قطعی طور پر درست نہیں کیونکہ ان علاقوں میں جابرانہ حکومتیں بھی استعمار کی طرف سے مسلط کی گئی ہیں اور قوانین بھی استعمار کے ہی دیئے ہوئے ’تحفے‘ ہیں اور ان قوانین کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بارے میں اسلامی شرعی قانون کا موقف بہت واضح ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے:’’اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اوراس کے آشنا کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر قتل کیا تو اس کو قتل ہی مانا جائے گا اور مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک قاتل کو دی جاتی ہے‘‘۔ اس اصول کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر قائم ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ آپؐ نے جواب دیا کہ وہ شخص اپنی بیوی کو قتل نہیں کر سکتا اور مزید یہ کہ کسی کو بھی اس وقت تک قابل سزا نہیں ٹھیرایا جاسکتا جب تک چار گواہ نہ پیش کیے جائیں جنھوں نے اس گھنائونے فعل کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھا ہو۔
قرآن مجید ان افراد کے لیے بھی ایک عملی طریقہ پیش کرتا ہے، جن کو اپنے شوہر یا بیوی پر بے وفائی کا شک ہوتا ہے یا پھر وہ ان کو رنگے ہاتھوں دھوکا دیتے ہوئے پکڑ لیتے ہیں، مگر کوئی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کا بتایا ہوا طریقہ یہ ہے کہ ایسا جوڑا جج کے سامنے پیش ہو۔ الزام لگانے والا پانچ دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اس نے جو الزام لگایا ہے وہ درست ہے۔ اگر ملزم میاں یا بیوی بھی پانچ دفعہ اللہ کی قسم کھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلا دے تو طلاق واقع ہوجائے گی اور کوئی فرد بھی قابل سزا نہیں ٹھیرایا جائے گا۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے قدیم وجدید علما کا ان تعلیمات کی تعبیر و تشریح پر کوئی اختلاف نہیں۔
انیسویں صدی کے مشہور یمنی فقیہہ امام شوکانی تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ’’جو مرد عورتوں پر غیرت کے نام پر تشدد کرتے ہیں، وہ سزائے موت کے مستحق ہیں‘‘ اور وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس قتل کے بدلے میں ملنے والی سزائوں میں سختی نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کی زندگی تباہی کا شکار ہو جاتی ہے‘‘۔ تمام بڑے علما خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبۂ فکر سے ہو، اسی موقف کے قائل ہیں۔