غیرت یا عزت کے نام پر ہونے والا قتل کسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کا قتل ہوتا ہے، جو عموماً اسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ ایسا قتل کرنے والے فرد یا افراد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ مقتول کی کوئی حرکت، خاندان کی بے عزتی یا شرمندگی کا باعث بنی، یا اس نے خاندانی روایات سے بغاوت کی ہے۔ اس قتل کی عام طور پر جو وجوہ بتائی جاتی ہیں، ان میں طلاق، علیحدگی، جبری شادی سے انکار، خاندان سے باہر شادی کی خواہش، ناجائز جنسی تعلقات، ہم جنسیت، عصمت دری یا جنسی حملے کا نشانہ بننا وغیرہ شامل ہیں۔
مرد اور عورت دونوں ہی غیر ت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرتے ہیں اوراس کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ جب اس جرم کا ارتکاب کوئی عورت کرتی ہے اور شکار مرد ہوتا ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی، لیکن جب کسی مرد مجرم کے ہاتھوں کوئی عورت متاثر ہوتی ہے تو فیمنسٹ تنظیموں کی طرف سےالزام لگایا جاتا ہے کہ ’’یہ صنفی امتیاز کا نتیجہ ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ سب مرد ظالم ہوتے ہیں اور نہ سب عورتیں مظلوم۔ کچھ شقی القلب افرد ان مسائل کا سبب بنتے ہیں اور وہ دونوں اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ شاید یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مردوں میں ایسے افراد کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے افراد عورتوں میں پائے ہی نہیں جاتے۔مثلاً ۲۰۱۱ء میں کراچی میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کی لاش کے سیکڑوں ٹکڑے کرکے سالن میں پکا کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کی۔ ۲۰۱۸ء میں متحدہ عرب امارات میں ایک خاتون نے اپنے بوائے فرینڈ کو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے ایک عرب پکوان میں پکا کر گھر کے قریب ورکرز کو کھلا یا۔ اسی طرح ۲۱ نومبر ۲۰۲۱ء کو بہاولنگر میں بیوی نے اپنے شوہر کو قتل کرکے لاش چھت پر لٹکا دی۔ ۲۲نومبر ۲۰۲۱ءکو جے پور، راجستھان میں ایک گرل فرینڈ نےلڑکے کو نشہ آور کھانا کھلایا اور اس کے بے ہوش ہونے کے بعد چھری سے اس کے اعضاء کاٹ ڈالے۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۲۱ء کو کراچی صدر میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑے کے دوران اس کے سر پر لوہے کا راڈ مار کر زخمی کیا، پھر اس کے ہاتھ کاٹ کر کھڑکی سے باہر روڈ پر پھینک دیئے۔ پھر اس نے خاوندکو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے مختلف کمروں میں چھپادئے۔ اسی طرح کے اور کئی واقعات بھی وقتاً فوقتاً اخبارات میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
غیرت کے نام پر صرف پاکستان یا مسلم دنیا ہی میں قتل نہیں ہوتے بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (UNPF: ۱۹۶۹ء) کے ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کم ازکم ۵ہزار خواتین سالانہ غیر ت و ناموس کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ، افریقہ یا جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں بنگلہ دیش، برطانیہ، برازیل، ایکواڈور، مصر، بھارت، اسرائیل، اٹلی، اردن، پاکستان، مراکش، سویڈن، ترکی، یوگنڈا، ایران، عراق، شام، کویت، لبنان، فلسطین، یمن، افغانستان، یورپ کے کئی ممالک مثلاً البانیا، بلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، ناروے، سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا میں تقریبا ً پچاس سے زائد ممالک میں ہوتی ہیں۔
کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا جیسے ممالک بھی ان وارداتوں سے محفوظ نہیں، لیکن ان ممالک میں غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کا صحیح ریکارڈ بتانا آسان نہیں کیونکہ وہاں عام قتل اور غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل میں واضح تمیز نہیں کی جاتی، اور عام طور پر حکام اس کا الگ ریکارڈ نہیں رکھتے۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مجموعی اعداد و شمار سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ وہاں ہرسیکنڈ میں ایک عورت کو پیٹا جاتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی سرجن جنرل نے ۱۵ سے ۴۴ سال کی خواتین کی جسمانی چوٹوں کی بڑی وجہ ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز کی طرف سے مارپیٹ کو قرار دیا۔ اسی طرح امریکا میں بے گھر بچوں اور خواتین میں سے ۵۰ فی صد گھریلو تشدد کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ سٹی یونی ورسٹی، نیویارک کے کالج آف کریمنل جسٹس کے پروفیسر رک کرٹس کی ایک تحقیق کے مطابق: ’’امریکا میں ہر سال ۲۳ سے ۲۷ خواتین کا قتل غیر ت کے نام پر ہوتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ جہیز کے نام پر بھی قتل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر وینڈی براؤن کا کہنا ہے کہ ’’لاطینی امریکا میں اسی جرم کو Crime of Passion (جذباتی جرم)کہا جاتا ہے جس کے وہی محرکات ہوتے ہیں جو بھارت میں جہیز کے محرکات ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ہندستان میں وقوع پذیر ہونے والے اس نوعیت کے واقعات میں گذشتہ برسوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وہاں ان جرائم کی تعداد ۴ہزار۸سو۳۴ تھی، جب کہ ۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۸ہزار۳ سو ۸۳ ہو گئی۔ حکومتِ ہند نے جہیز کےلین دین پر پابندی لگا دی اور قاتلوں کو مجرم قرار دیا جانے لگا مگر ان اقدامات کے باوجود ان جرائم کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔
عزّت، ناموس، غیرت اور شرمندگی کے تصورات اور انھیں تشدد اور قتل کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان محض کسی ایک ثقافت یا کلچر سے نسبت نہیں رکھتا بلکہ دنیا کی تقریباً تمام ثقافتوں میں یہ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح کے واقعات کےثبوت نہ صرف اقوام عالم کی تاریخ بلکہ لٹریچر سے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ میں، زنا کے الزام میں، ہنری ہشتم کی پانچویں بیوی کا سرقلم کر دیا گیا تھا۔ تمام بادشاہوں اور سورمائوں کے اعزازات کی بنیاد بھی عزت، ناموس اور غیرت ہی ہوتی تھی۔ شیکسپیئر کے کردار ڈیسڈمونا کو بے وفائی کے الزامات کے تحت ہلاک کیا گیا تھا۔ رومیو اور جولیٹ نے ایک قدیم خاندانی جھگڑے کو غیر ت کے نام پر تلاش کیا تھا۔
لاطینی امریکی معاشروں میں بھی اسی طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ پیرو کے ابتدائی ادوار میں، ان کے قانون کے تحت شوہروں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو زنا کے ارتکاب کی سزا کے طور پر اس وقت تک بھوکا رکھیں، جب تک ان کی جان نہ نکل جائے۔ میکسیکو میں اسی جرم کی سزا کے طور پر عورتوں کا گلا دبا کر انھیں مارا جاتا تھا۔ غیرت کے اسی تصور پر کئی جنگوں میں سب سے مشہور ’ٹروجن جنگ‘ ہے، جس کے آغاز کی وجہ ہیلن کی ناموس تھی۔
اسی طرح کی صورت حال پاکستان کے تعزیراتی ضابطے میں بھی پائی جاتی ہے، جو نوآبادیاتی ہندستان پربرطانیہ کی حکمرانی کے لیے برطانیہ سے درآمد کردہ ضابطہ ۱۸۶۰ء کے چربے پر مبنی ہے۔ اور اس قانون کے تحت ’’اگر کوئی شخص شدید اور اچانک اشتعال انگیزی کی وجہ سے اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے تو اسے نرم سزا دی جائے گی‘‘۔
ان کے برعکس پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۰ء میں اس قانون میں اصلاح کرنے کے لیے کہا کہ ’’اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اشتعال انگیزی، خواہ وہ کتنی ہی سنگین اور اچانک کیوں نہ ہو وہ قتل کے جرم کی شدت کو کم نہیں کر سکتی اور نہ نرمی کا جواز بن سکتی ہے‘‘ لیکن اس کے باوجود انگریز قانون سے متاثر بہت سے جج آج بھی غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کے سلسلے میں قاتل کو نرم سزا سناتے ہوئے مذکورہ برطانوی قانون کا حوالہ دیتے اور اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
۱۹۴۸ء میں نائیجیریا میں برطانوی راج کے دوران، شرعی عدالت میں ایک مقدمہ لایا گیا، جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے آشنا کو قتل کر دیا تھا۔ شرعی عدالت نے مجرم کو سزائے موت سنا دی، مگر آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ برطانوی عدالت عظمیٰ نے شرعی عدالت کے اس فیصلہ کو نامنظور قرار دیتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ یہ ’’جرم برائے محبت‘‘ ہے، لہٰذا مجرم کو سزائے موت نہ دی جائے۔ یعنی شرعی عدالت اس ’جرم برائے محبت‘ سے بالکل متاثر نہ ہوئی، البتہ برطانوی عدالت عظمیٰ اس سے ضرور متاثر ہوئی چنانچہ شرعی عدالت کی تجویز کردہ سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جاسکا۔
یورپ و امریکا کے سیاسی و مالیاتی اداروں کے دبائو اور حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے زیراثر حکومت پاکستان نے غیر ت کے نام پرقتل کے جرائم پر پہلے سے موجود قوانین میں کئی تبدیلیاں کیں۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۴ء کو پاکستان نے ایک ایسا قانون نافذ کیا، جس کے تحت غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کے سلسلے میں سات سال قید کی سزا اور انتہائی مقدمات میں سزائے موت کی سزا دی گئی۔ حقوقِ نسواں کی تنظیمیں اس سے خوش نہیں تھیں،کیونکہ اس قانون کے تحت اس بات کی اجازت تھی کہ مقتول کے ورثا قاتل سے صلح کرلیں، اور معاوضہ (خون بہا) لے کر معاف کردیں۔ چونکہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کا مجرم اور مقتول عموماً ایک خاندان کے اندر ہی ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ تر معاملات میں صلح ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۶ء میں ’پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ میں فوجداری ترمیم کی گئی، اور صلح کے اصول کو سرے سے ختم ہی کر دیا گیا۔
اس قانون میں عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر اغوا کرنے یا شادی کے لیے آمادہ کرنے کی صورت میں عمر قید اور جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی۔ اسی قانون میں تیسری ترمیم ۲۰۱۱ء میں کی گئی، جس میں عورت کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنے کے حوالے سے مزید سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ خواتین کے تحفظ کے نام پر ’پنجاب پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ ۲۰۱۶ء‘ منظور کیا گیا جس میں خواتین کو تشدد کے خلاف تحفظ، وکالت کے اخراجات، امداد اور بحالی کا مؤثر نظام (یعنی میکے کا متبادل حکومتی نظام ) قائم کیا گیا۔ غیر ت کے نام پر جرائم سے متعلق ترمیمی ایکٹ ۲۰۱۶ء منظور کرتے ہوئے اس جرم کو اسٹیٹ کے خلاف جرم قرار دیا،اور فریقین کے درمیان معاوضہ دے کر صلح کرنے کا قصہ ہی ختم کر دیا اور اس قانون کو اسلامی قانون قصاص و دیت کی عملداری سے بالکل باہر کر دیا گیا، لیکن حقوق نسواں کے ادارے اور فیمنسٹ تنظیمیں اس پر بھی مطمئن نہ ہوسکیں۔
ان تنظیموں کے نزدیک قانونی اصلاحات تو ہو گئی ہیں، لیکن عوام اس جرم کے خلاف نفرت اور مذمت کااظہار نہیں کرتے۔ جب تک عوام ان جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لہٰذا، اس مسئلے کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ان تنظیموں نے مہمات شروع کر دیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے میڈیا پر بڑے منظم انداز سے ایسے ڈرامے اور فلمیں دکھائی جا رہی ہیں، جن کا موضوع صرف عشق و محبت، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، محرمات کے ساتھ جنسی تعلقات، جذباتی، ہیجانی اور جنسی ارتکاز ہیں۔ تعلیمی اداروں کا آزاد ماحول اس عمل کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔
عدالتیں اور قانون ساز ادارے بھی اس ایجنڈے سے متاثر نظر آتےہیں۔ ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ افراد خانہ کی طرف سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے معمولی رکاوٹ و مزاحمت کا امکان بھی باقی نہ رہے۔ اور اگر کسی غیر اخلاقی حرکت پر کوئی بزرگ سرزنش کی بھی جرأت کر بیٹھے تو وہ المناک سزائوں کا مستحق قرار پائے۔ یعنی قانون کی نظر میں بے راہ روی اختیار کرنے والے تو معصوم تصور ہوں اور ان پر معمولی روک ٹوک کرنے والوں پر عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کڑی گرفت ہو۔ زنا کا مقدمہ اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اب یہ ایس پی اورعدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر درج ہی نہیں ہوپاتا، لیکن اس کے مقابلے میں بچیوں پراہل خانہ کی طرف سے معمولی مزاحمت یا روک ٹوک کا مقدمہ فوراً درج ہو جاتا ہے۔
'پہلے فیمنسٹ تحریک کے ایکٹوسٹ ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ غیرت کے نام پر قتل، رشتہ داروں کی طرف سے تشدد اور جنسی پارٹنرکے ساتھ جرائم ایک ہی نوعیت کے جرائم ہیں، لیکن اب جنسی تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد حقوقِ نسواں کے فعال علَم برداروں نے اپنے سابقہ موقف پر بالکل منافقانہ خاموشی اختیارکر لی۔ اب وہ اس جرم کو غیرت کے نام پر ہونے والا جرم نہیں کہتے۔ وہ معصوم خواتین جنھوں نے حقوقِ نسواں تحریک کے لیے جدوجہد کی اوراس ثقافت کواپنانے میں اپنا خاندان اورسب کچھ دائو پر لگایا، انھیں بالکل اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان خواتین کو اب نہ صرف جان کا خطرہ ہے بلکہ وہ ہر روزجنسی تشدد کا بھی سامنا کرتی ہیں۔ (دی نیشنل پوسٹ، ۲۹؍اگست ۲۰۲۱ء)
باربرا کے نے جس منافقت کا ذکر یورپ اور امریکا کی حقوقِ نسواں تنظیموں کے حوالے سے کیا ہے، اس سے زیادہ گھمبیر صورتِ حال پاکستان میں ہے۔ یہاں کی حقوقِ نسواں لیڈران، بیورو کریسی اورکچھ ممبران پارلیمنٹ، روشن خیالی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے کے فنڈز آپس میں بانٹ لیتے ہیں اور آئے روز نئے قوانین بنا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ انھوں نے آقائوں کے ایجنڈے پر کام مکمل کر لیا۔ یہ قانون سازی اسلام، نظریۂ پاکستان، آئین اور قومی ضروریات و تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتی، بلکہ عجلت میں تیار کیے گئے پلندے امریکی قوانین کےچربے ہوتے ہیں۔ ان قوانین میں جس ’سماجی انقلاب اور تبدیلی‘ کی نوید سنائی جاتی ہے عملی طور پر وہ پاکستانی معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتی۔
پاکستانی معاشرہ علاقائی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ مجموعی طورپر اسلامی روایات سے بھی نسبت رکھتا ہے۔ یہاں رہنے والے غیر مسلم بھی روایتی معاشرتی اقدار کے حامی ہیں۔ حقوق نسواں تنظیموں کے پُرکشش نعروں سے متاثر ہونے والی بے خبر ماڈرن خواتین روایات سے بغاوت کرکےاپنے لئے کئی مشکلات پیدا کر لیتی ہیں۔ وہ جب بھی کوئی انتہائی قدم اٹھاتی ہیں تو ان کے خاندان کے لوگ روایتی معاشرتی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ دوسری طرف فیمنسٹ لیڈر بھی اس وقت تک ان کی مدد نہیں کرتے جب تک ان کے نام پر کچھ فنڈز ملنے کی توقع نہ ہو۔ ایسی صورت حال میں وہ بیچاری خواتین قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شیلٹر ہومز کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ پرورش کرنے والے والدین اور خاندان کے جان نچھاور کرنے والے پیاروں کو چھوڑ کر، اپنے آپ کو پولیس کے کرپٹ افراد اورمافیا کے حوالے کرنا کس قدر نادانی ہے!
حقوقِ نسواں کی لیڈران کے جھانسے میں آنے والی یہ نادان خواتین سمجھتی ہیں کہ وومن ایمپاورمنٹ یا ’خواتین کی خود اختیاریت‘ کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین، قوانین نافذ کرنے والے ادارے اورفیمنسٹ تنظیمیں ان کی آزادی کے محافظ ہیں۔ یہ ادارے شایدانھیں سابقہ خاوندوں اور خاندان کے بزرگوں کی کارروائی سے تو بچا لیتے ہیں، لیکن ان اہلکاروں کی طرف سے ہونے والے بے رحمانہ سلوک سےانھیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ پولیس افسران کی سفاکی اور فیمنسٹ لیڈران کی بے حسی دیکھ کر انھیں اپنے رشتہ داروں کی یاد بری طرح ستانے لگتی ہے۔ ان خواتین کے دردبھرے خطوط اور ای میلز جب اداروں تک پہنچتے ہیں تو پاکستانی فیمنسٹ تنظیموں سے جواب طلبی ہوتی ہے۔ یہ جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ آپ کے حکم کے مطابق قوانین بنوا دیئے گئے ہیں، ا ن پر عمل درآمد کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں لیکن عوام ان پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ اس پر حکم آتا ہے کہ ’کچھ اور کرو‘۔ چنانچہ کچھ نئے قوانین بنائے جاتے ہیں، فنڈز کی بندربانٹ ہوتی ہےاور یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے:پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کو نہ روک سکنے کی سب سےبڑی وجہ پاکستان کا بدعنوان سیاسی نظام ہے۔ سیاسی، انتظامی، تحقیقاتی اور عدالتی ادارے اس حوالے سے ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے اور مجرموں کو سزائیں دلانے کے سلسلے میں بُری طرح ناکام ہیں اور موجودہ سیاسی، انتظامی اور عدالتی نظام کی ناکامی کی وجہ سے ایک بحران کی کیفیت ہے، جس میں شہری مجبور ہو کر روایتی قبائلی نظام، جرگہ اور دوسرے متبادل ماڈلز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
جو سادہ لوح خواتین این جی اوز کو خواتین کے حقوق کی ضامن سجھتی ہیں وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سول سوسائٹی، کرپٹ حکومتی عہدے داروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز (حصے دار)کے بدعنوان عناصر پرمشتمل بدعنوانی کی ایک مثلث بن چکی ہے، جو ’انسانی حقوق‘ اور ’خواتین کے حقوق‘ کے نام پر ایک معاشرتی دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے۔ این جی اوز فنڈز کے استعمال کی اصل معلومات ظاہر نہیں کرتیں اور جو معلومات ان کی ویب سائٹس پر جاری کی جاتی ہیں وہ گمراہ کن ہوتی ہیں۔ ان اُمور سے متعلقہ پاکستانی حکام جان بوجھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس طرح ملی بھگت سے یہ عطیات دینے والوں کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پیشہ ورانہ مالی شماریاتی خدمات سے منسوب عالمی تنظیم KPMG انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق این جی اوز کی دھوکا دہی سے متعلق ۷۷ فی صد تحقیقات کبھی عوامی سطح پر نہیں پہنچتیں اور ۵۴ فی صد تحقیقات کے بارے میں تو داخلی طور پر بھی اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔
حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے وسیع لٹریچر اور بیانات کے تناظر میں عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب صرف روایتی مذہبی رجحانات رکھنے والے غیر تعلیم یافتہ لوگ ہی کرتے ہیں، لیکن جولائی ۲۰۰۸ء میں ترکی کے کرد علاقہ، اناطولیہ میں غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ڈیکل یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس جرم کا تعلق صرف جاگیردارانہ معاشرتی ڈھانچے سے نہیں بلکہ اس میں ایسے مجرم بھی ہیں جو بہت پڑھے لکھے اور یونی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور ان میں سے ۶۰ فی صد وہ لوگ ہیں جنھوں نے کم ازکم ہائی اسکول یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔
حقوقِ نسواں کی تنظیمیں عام طور پر الزام لگاتی ہیں کہ مسلم ممالک میں ہونے والے یہ واقعات وہاں کے نرم قوانین کی وجہ سے ہیں۔ خاص طور پر مراکش، کویت، لبنان، شام، یمن، عمان اور متحدہ عرب امارات کے قوانین اس حوالے سے بہت نرم ہیں اور وہ مجرم کو معمولی سزا یا جرمانہ وغیرہ تک ہی محدود ہیں، لیکن ان قوانین کی وجہ سے مسلمانوں یا اسلام کو مورد الزام ٹھیرانا قطعی طور پر درست نہیں کیونکہ ان علاقوں میں جابرانہ حکومتیں بھی استعمار کی طرف سے مسلط کی گئی ہیں اور قوانین بھی استعمار کے ہی دیئے ہوئے ’تحفے‘ ہیں اور ان قوانین کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بارے میں اسلامی شرعی قانون کا موقف بہت واضح ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے:’’اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اوراس کے آشنا کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر قتل کیا تو اس کو قتل ہی مانا جائے گا اور مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک قاتل کو دی جاتی ہے‘‘۔ اس اصول کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر قائم ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ آپؐ نے جواب دیا کہ وہ شخص اپنی بیوی کو قتل نہیں کر سکتا اور مزید یہ کہ کسی کو بھی اس وقت تک قابل سزا نہیں ٹھیرایا جاسکتا جب تک چار گواہ نہ پیش کیے جائیں جنھوں نے اس گھنائونے فعل کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھا ہو۔
قرآن مجید ان افراد کے لیے بھی ایک عملی طریقہ پیش کرتا ہے، جن کو اپنے شوہر یا بیوی پر بے وفائی کا شک ہوتا ہے یا پھر وہ ان کو رنگے ہاتھوں دھوکا دیتے ہوئے پکڑ لیتے ہیں، مگر کوئی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کا بتایا ہوا طریقہ یہ ہے کہ ایسا جوڑا جج کے سامنے پیش ہو۔ الزام لگانے والا پانچ دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اس نے جو الزام لگایا ہے وہ درست ہے۔ اگر ملزم میاں یا بیوی بھی پانچ دفعہ اللہ کی قسم کھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلا دے تو طلاق واقع ہوجائے گی اور کوئی فرد بھی قابل سزا نہیں ٹھیرایا جائے گا۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے قدیم وجدید علما کا ان تعلیمات کی تعبیر و تشریح پر کوئی اختلاف نہیں۔
انیسویں صدی کے مشہور یمنی فقیہہ امام شوکانی تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ’’جو مرد عورتوں پر غیرت کے نام پر تشدد کرتے ہیں، وہ سزائے موت کے مستحق ہیں‘‘ اور وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس قتل کے بدلے میں ملنے والی سزائوں میں سختی نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کی زندگی تباہی کا شکار ہو جاتی ہے‘‘۔ تمام بڑے علما خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبۂ فکر سے ہو، اسی موقف کے قائل ہیں۔
’ فیمی نزم‘ کی دوسری لہر (second wave) کو متاثر کرنے والی مشہور فرانسیسی لیڈر سیمون دی بووار نے کہا تھا کہ ‘ایک عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ سماجی و معاشرتی تشکیل سے اسےعورت بنا دیا جاتا ہے‘۔ دی بووار کے اس جملےسے یہ تصور ابھرا کہ ’جینڈر اسٹڈیز‘ میں صنف کی اصطلاح کو ’’مردو زن کی معاشرتی اور ثقافتی تشکیل‘‘ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، نہ کہ اس مکمل مرد یا عورت کے تصور کے لیے جس کی بنیاد فطری اور حیاتیاتی جنس پر ہے۔ صنف کے اس نئے تصور کی ترویج وتبلیغ کے لیے ۲۰ویں صدی کے ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں حقوقِ نسواں کی تحریک اورفیمنسٹ اسکالروں نے مروجہ تاریخی تصورات میں تبدیلی کا پروگرام بنایا۔ ان کے خیال میں مردو زن کی خصوصیات کے بارے میں صدیوں سے رائج تصورات کو ہدف تنقید بنا کر ان پر سوال اٹھانا اور از سر نو جائزہ لیاجانا ضروری تھا۔ بعد ازاں جب حقوقِ نسواں کے ساتھ ساتھ ہم جنس زدگان اور لزبئین کے حقوق کی بات شروع ہوئی تو فیمنسٹ اسکالروں نے سوچا کہ ’اصناف کا نظریہ‘ کالج اور یونی ورسٹی کےنصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اس غرض سے جینڈر اسٹڈیز اور ویمن اسٹڈیز کےشعبہ جات قائم کیے گئے اور کئی کورسز متعارف کرائے گئے۔
’ فیمی نزم‘ کے جن مفروضات، تصورات و نظریات کا مطالعہ ان کورسز میں کرایا جاتا ہے، ان میں فیمنسٹ تھیوری، سٹینڈ پوائنٹ تھیوری (standpoint theory)، کثیر الثقافتی (multiculturalism)، معاشرتی انصاف (social justice)، بائیو پالیٹیکس (bio-politics)، عبوری حدود سے بلند فیمی نزم (transnational feminism)، چہار رُخی (intersectionality ) مادیت وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اصناف کے درمیان طاقت، شناخت، نسل، جنسی رجحان، سماجی و معاشی طبقات، قومیت، عدم مساوات، معاشرتی اصول اور معذوری کے تعلقات کو مطالعے کا موضوع بنائے جانے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ ان شعبہ جات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ’’یہاں صنف کی معاشرتی و ثقافتی تشکیل کا جائزہ لیتے ہوئے، استحقاق، مراعات اور ظلم و جبر کےنظام کا مطالعہ کیا جاتا ہے‘‘۔
انسانی سماجی زندگی اور صنفین کے درمیان جبر اور ظلم کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے، لیکن ان اسباب و محرکات کا تعین ایک بہت پیچیدہ اور غیرہموار عمل ہے۔ ویمن اسٹڈیز اور جینڈراسٹڈیز کے مضامین میں طالب علموں کو صرف یہ سکھانا کہ ’’دنیا کو ظلم کی عینک سے کس طرح دیکھنا چاہیے؟‘‘ یہ صرف خطرناک ہی نہیں بلکہ خود ایک ظالمانہ فعل ہے۔ اس سے زیادہ ظلم کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی کہ پروفیسر صاحبان ہر سبق کا مطلب صرف یہ بتا رہے ہوں کہ ’’آپ بحیثیت عورت ایک مظلوم (Victim) ہیں‘‘۔
ٹونی ارکسنن اپنے ایک مضمون بعنوان: ’میں نے ویمن اسٹڈیز کلاس میں کیا سیکھا؟‘ میں لکھتی ہیں کہ فیمنسٹ ماہرین جو موقف اور استدلال تخلیق کر رہے ہیں، وہ سیاسی پروپیگنڈے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ کسی صنف کو بھی بااختیار بنانے میں ناکام ثابت ہوگا۔ پدرسری نظام کی تھیوری میں بتایا جاتا ہے کہ خواتین پر مردوں کا ادارہ جاتی کنٹرول اور حکومت ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہر قسم کا ظلم و جبر روا رکھا جاتا ہے۔ لیکن فیمنسٹ اسکالروں کے اپنے حلقوں کے بہت سے لوگ مثلاً کیٹ ملٹ ظلم اور جبر کو صرف صنفی امتیازات کے ساتھ ہی وابستہ نہیں سمجھتی۔ کمبرلی کرینشا نے بھی اس تصور کو چیلنج کیا کہ ’’جبر اور ظلم کا واحد محور صنفی امتیاز ہوتا ہے‘‘۔ اس نے صنفی امتیا ز کے بجائے ظلم و ستم کا محور’نسل پرستی‘ کو قرار دیا۔ ویمن اسٹڈیز میں یہ بات ہرگز نہیں بتائی جاتی کہ ظلم و جبر، تاریخ میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ فیمنسٹ ماہرین، ظلم کی تلاش کا کام سائنسی مطالعے کے طور پر نہیں کرنا چاہتے کہ یہ جہاں کہیں نظر آئے اس کی نشان دہی کی جائے بلکہ وہ ہر قسم کے ظلم کو صرف ایک خاص جگہ پر دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ دعو یٰ کیا گیاتھا کہ ’’ہم ان تمام امور پرطالب علموں کو کھل کر اظہار خیال کا موقع فراہم کریں گے، جو ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو کر پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں، مثلاً رضامندی اور جبر کا تعلق، عصمت دری، مانع حمل و اسقاطِ حمل کے ذرائع وغیرہ‘‘۔
’’ دوسری بات یہ ہےکہ یونی ورسٹی انتظامیہ اور قوانین ایک استاد کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کلاس روم میں ذاتی جنسی تجربات اور تعلقات کو موضوع بحث بنائے کیونکہ یہ بحث جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزمات کا دروازہ کھولتی ہے۔ جنسی ہراسانی کی تعریف میں اس زبانی طرزِ عمل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، جو کسی فرد کے لیے ناگواری اور ناپسندیدگی کا باعث ہو۔ جنسی ہراسانی کی یہ تعریف اتنی وسیع ہے کہ جنسی نوعیت کے کسی ذاتی موضوع پر بحث کو ناممکن بنادیتی ہے۔
جب طالب علموں کے درمیان جنسی خیالات کو علمی طورپر چیلنج کرنے، انھیں وسعت نظری سکھانے کی بات آتی ہے،تو ویمن اسٹڈیز کے اساتذہ کی سخت حوصلہ شکنی کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس لیے اساتذہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ نظریاتی بحث میں وقت گزاریں اور کسی عملی پہلو سے پرہیز کریں۔ جب طالب علموں نے صنفی سیاست، فیمنسٹ تحریک سے سیکھنی ہے، جنسی تعلقات ومعاملات میں معاشرے کے غالب رویوں سے متاثر ہونا ہے اور ویمن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں اس پر کوئی بات نہیں کرنی، تو ان شعبہ جات کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟
ویمن اسٹڈیز کی تعلیم کا ارتکاز صرف ’سیکس ازم‘ اور صنفی تعصب پر ہے۔ ’فیمی نزم‘ میں کام کرنے والی ’’خواتین نہ عام خواتین کی نمایندگی کرتی ہیں اور نہ قومی اور عالمی جذبات و احساسات کی۔ اکیڈیمک فیمنسٹ ماہرین یہ سوچتی ہیں کہ ان کے معصوم اورکتابی کیڑے نما شوہر ہی دنیا بھر میں پائی جانی والی مردانگی کا مثالی نمونہ ہیں۔ جینڈر اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ میں خدمات پیش کرنے والے لوگ منظم اجارہ داری (Cartel) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ یونی ورسٹیوں میں خواتین فیکلٹی ممبرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میں مستند اساتذہ کا وجود ہی نہیں۔ چند چیئرز پر جو ماہرین تعلیم براجمان ہیں، ان کے زیر نگرانی کیمپس ’نرسری اسکول‘ کا سماں پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے طالب علموں کی مثال انکوبیٹر سے پیدا ہونے والے بطخ کے بچوں کی سی ہے، جو ویکیوم کلینر کو بھی دیکھ کر اپنی ماں تصور کرنے لگتے ہیں‘‘۔
کمیل پالیہ کا دعویٰ ہے کہ ویمن اسٹڈیز میں پڑھانے والوں کی اکثریت اناڑی، لکیر کے فقیر، خوشامدی، یوٹوپیائی، رونے رلانے ،شکوے شکایتیں کرنے اورخفیہ ایجنسی کے کارندوں کی طرح ہوتی ہے۔ اعتدال پسند اور معقول فیمنسٹ اسکالر اس پاپولر فیمی نزم سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، اور وہ اس فاشزم کے سامنے خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ویمن اسٹڈیز سےفیض یاب ہونے والے،اکثر ایک دلدل میں پھنسنے والے افراد ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اکیڈیمک فیمنسٹ ماہرین سے مراد ڈھیٹ، خاموش اور ہاں میں ہاں ملانےوالے مردوں اور بڑبڑانے والی عورتوں کا عجیب و غریب گٹھ جوڑ ہے۔ جب اس گروہ کو ویمن اسٹڈیز کے لیے نصاب کی ضرورت پیش آئی تو راتوں رات انھوں نے اختلافات، تعصبات اور الزامات کی توپیں ایجاد کر لیں۔ معاصر خواتین اہلِ قلم کے ناموں کو زبردستی اس حلقے کے ساتھ نتھی کیا گیا اور یونی ورسٹی کی اچھی طالبات کو زبردستی، بہلا پھسلا کر اس میں شامل کیا گیا۔
’’ان شعبہ جات کے گریجویٹس کو کوئی جاب دینے کو تیار نہیں۔ اس لیے ان پر وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ طالب علموں کے داخلے نہ ہونے کے برابر ہیں اور خواہ مخواہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ان شعبہ جات پر ضائع ہورہا ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہنگری کی حکومت اس بات کی قائل ہے کہ’’ مغربی یورپ میں مذہبی اور روایتی معاشرہ زوال پذیر ہے۔ وہاں اب خاندان، کنبہ، وطن اور قوم جیسی بنیادی اقدار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ اور اس سارے عمل میں فیمنسٹ تحریک کی صنفی مساوات اور جنسی انحراف نے تمام معمولات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مغربی یورپ کے نوآبادیاتی ذہن رکھنے والے ممالک چاہتے ہیں کہ مشرقی یورپ میں بھی وہی صورتِ حال پیدا ہو‘‘۔
اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں فیڈز پارٹی (Fidesz Party) کے بانی رہنما لیزلا کوویر (Laszlo Kover) نے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ ’’ہم، صنف کا جنون اور پاگل پن نہیں پالنا چاہتے۔ ہم اپنے ملک ہنگری کو مردوں سے نفرت کرنے والی خواتین کی آماج گاہ نہیں بنانا چاہتے۔ ہم ایسے مرد نہیں چاہتے جو اپنی مردانگی سے دست بردار ہو کر پوری زندگی عورتوں کے خوف کے سائے میں رہتے ہوئے، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ ہم ایسے والدین نہیں چاہتے، جو خاندان اور بچوں کو اپنی نفسانی و جنسی خواہشات اور عیاشی کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ سمجھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کی بیٹیاں اس بات کو سمجھیں کہ انسان کی ذات اس وقت مکمل ہوتی ہے، جب اس کی شادی ہو، اس کا گھر بسے، اس کے بچے، پوتے، پوتیاں ہوں، وہ اپنی زندگی خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی گزارے اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے رواں دواں رہے‘‘۔
اسی طرح جون ۲۰۲۰ء میں رومانیہ میں بھی ایک قانون کے ذریعے تعلیمی اداروں کو صنفی شناخت پر مبنی نظریات اور رائے کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کے تحت صنفی تصور کو حیاتیاتی جنسی تصور سے الگ مانا جاتا ہے۔ رومانیہ اور ہنگری کے ان اقدامات کے خلاف انسانی حقوق کے گروپوں نے بہت واویلا کیا کہ ان ممالک کے یہ اقدامات انھیں قرون وسطیٰ میں پہنچا دیں گے۔
اٹلی میں جب صنفی امتیاز کے حوالے سے اسکولوں میں ایک سوال نامہ پُر کرانے کی تجویز پیش ہوئی تو کئی سیاسی جماعتوں نے اسے صنفی تعصب قرار دیتے ہوئے اس کی کھلی مذمت کی، اور ایک اخبار Daily La Verita نے اسے صنفی پاگل پن کا نظریہ قرار دیا۔ اس کے بعد اٹلی کے وزیرتعلیم کو یہ سوالنامہ واپس لینا پڑا۔ اگست ۲۰۱۸ میں بلغاریہ میں اسکولوں میں صنفی مساوات کے بارے میں یونیسکو کے ایک پروجیکٹ پر وزارت تعلیم نے پابندی عائد کر دی۔
یورپ کے وہ ممالک جہاں انگریزی زبان نہیں بولی جاتی، وہ صنف،جینڈر کی اصطلاحات کو مغربی یورپ کی تخلیق کردہ سازش تصور کرتے ہوئے اس سےنفرت کرتے ہیں، کیونکہ ان کی اپنی زبانوں میں یہ اجنبی تصورات موجود نہیں۔ پولینڈ میں ان اصطلاحات کو غیر ملکی اور درآمد شدہ تصور کیا جاتا ہے۔ وارسا یونی ورسٹی کے پروفیسر اگنسز کگراف کا کہنا ہے کہ ’’یہ لفظ غیر ملکی ہے اور اس کا مقصد مقامی ثقافت میں زہر گھولنا ہے‘‘۔ ۲۰۰۰ء کے عشرے سے ویٹی کن صنفی نظریہ کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے اور اس خیال کو رد کرتا ہے کہ اصناف کی تشکیل معاشرتی عوامل اور قوتیں کرتی ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں پوپ فرانسس نے اس نظریے کو نوآبادیاتی نظام کا حیلہ قرار دیا۔ پولینڈمیں ایک پارٹی کے رہنما کینزنسکی نے صنفی نظریے کو خاندان اور بچوں پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔
پروفیسر اسٹرومیا نے مزید کہا کہ ’’فزکس اور دیگر سائنسز میں مردوں کا کام زیادہ ہے۔ آج تک فزکس میں خواتین نے صرف تین نوبل انعام جیتےہیں اور مردوں نے ۲۰۷‘‘۔[۲]
اس بیان کے فوری بعد انھیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ ان کے خلاف ۱۶۰۰ سائنس دانوں نے ایک پٹیشن میں لکھا کہ ’’پروفیسر اسٹرومیا کے دلائل فیمنسٹ اخلاقیات کے تحت قابلِ مذمت ہیں اور سفید فام خواتین سائنس دانوں کی صلاحیتوں پر سوال اٹھانے کا عمل شرمناک فعل ہے‘‘۔ پروفیسر اسٹرومیا نے تو صرف اعداد و شمار اور حوالہ جات سے متعلق کہا کہ ’’فزکس میں خواتین کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا اور صنف سے قطع نظر میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن ان کے خلاف فیمنسٹ لابیز کی طرف سے جو رد عمل ظاہر کیا گیا وہ سراسر تعصب، ، ناانصافی، جنسی فاشزم، سائنس دشمنی اور ا س امتیازی عقیدے پر مبنی تھا کہ ’’ہر شعبے میں میرٹ کو مد نظر رکھے بغیر لازمی طور پر ۵۰ فی صد خواتین کوشامل کیا جانا چاہیے اور اس عمل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دینا چاہیے‘‘۔
فیمنسٹ ماہرین، فیمی نزم کو ’سائنس‘ ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حیلے آزما رہےہیں اور بلند بانگ دعوے کررہے ہیں لیکن فیمی نزم نہ سائنس ہے اور نہ سوشل سائنس سے اس کا کوئی واسطہ ہے۔ یہ تعصب پر مبنی عقائد کا ایک نظام ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ ایک آئیڈیالوجی تو کہہ سکتے ہیں، لیکن اس کا شمار علوم میں نہیں ہوتا کیونکہ علم میں تحقیق، مشاہدات اور ثبوتوں سے پہلے دعوے نہیں کیے جاتے۔ علم کےحصول میں سوال اس طرح اٹھائے جاتے ہیں کہ ان کے جوابات تلاش کیے جاسکیں، بجائے اس کے کہ پہلے سے موجود جوابات کو سوالوں کے ساتھ فٹ کیا جائے۔ علم میں مفروضوں کو ثبوتوں کے ذریعے پرکھا جاتا ہے اور اگر یہ ثبوتوں کے مطابق پورے اتریں تو انھیں عارضی طور پر قبول کیا جاتا ہے ورنہ مسترد کر دیا جاتا ہے۔
لیکن فیمنسٹ آئیڈیالوجی تو چند اقدار کےساتھ ایک مذہب اور عقیدے کی طرح چمٹی ہوئی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ جس قدر (Value)کی وہ حمایت کرتے ہیں وہ زیادہ اہم ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر قدر کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر کبھی آزادی اور مساوات میں مطابقت نہ ہو اور دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوجائیں تو پھر ایک کے بڑھنے کا مطلب دوسرے کی کمی ہوگی اور پھر دونوں میں سے ایک کا انتخاب دوسرے کی قیمت پر کرنا پڑے گا۔ ایک کو اپنانے کے لیے دوسرے کی قربانی دینی پڑے گی۔ اسی صورتِ حال میں اپنی پسند کی قدر پر ضد کرنے والوں کا سائنس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، انھیں فیمنسٹ عقائد کے متعصب بریگیڈ ہی کہا جائے گا۔
_______________
حواشی
۱- پاکستان بھی ’ترقی کی اس دوڑ‘ میں پیچھے نہیں ہے:l ۹ یونی ورسٹیاں بی ایس ’جینڈر اسٹڈیز‘ کرا رہی ہیں ، جن میں شامل ہیں: اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، فاطمہ جناح یونی ورسٹی لاہور، فاطمہ جناح یونی ورسٹی راولپنڈی، یونی ورسٹی آف پشاور، ویمن یونی ورسٹی صوابی، یونی ورسٹی آف سندھ، شاہ عبداللطیف یونی ورسٹی خیرپورl دو یونی ورسٹیوں میں بی ایس ’لبرل اسٹڈیز‘ کا شعبہ ہے، جن میں بیکن ہاؤس یونی ورسٹی، لاہور اور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور شامل ہیں۔ lکراچی یونی ورسٹی ’ویمن اسٹڈیز‘ کے عنوان سے ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ’جینڈر اینڈ ویمن اسٹڈیز‘ اور لاہور کالج فار ویمن یونی ورسٹی’جینڈر اینڈ ڈویلپمنٹ‘ میں داخلہ دیتی ہے۔ (بشکریہ Eduvision :ادارہ)
۲- مغرب میں عورت کے ’خلاف تعصب‘ نہیں بیان کیا جاتا اور ’شانہ بشانہ‘ کا درس دیا جاتا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق حسب ذیل چار خواتین نے فزکس کے ’نوبیل پرائز‘ لیے: lپولینڈ/فرانس کی میری سلومیا کیوری (م: ۱۹۳۴ء) نے ۱۹۰۳ء میں، lامریکا کی ماریہ جیوپرٹ مایر (م: ۱۹۷۲ء) نے ۱۹۶۳ء میں lکینیڈا کی رونا تھیواسٹریکلنڈ (پ:۱۹۵۹ء) نے ۲۰۱۸ء میں lامریکا کی اینڈریا میاگز (پ: ۱۹۶۵ء) نے ۲۰۲۰ء میں۔ ادارہ
'’الفاوومن‘ اور’ سپر وومن‘ جیسے افسانوی اور فلمی کردار، پیسہ بٹورنے کی خاطر پاپولر فیمنزم، کارپوریٹ کلچر اور فیشن انڈسٹری میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا آلۂ کار بننے والی خواتین، دولت اور شہرت تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اپنی حیثیت، فطرت اور نسوانی شناخت کھو دیتی ہیں۔
’ الفا‘ جانوروں کو عام طور پر کھانے پینے اور دیگر مطلوبہ اشیا و سرگرمیوں تک ترجیحی بنیاد پر رسائی حاصل ہوتی ہے۔ جانوروں کی کچھ انواع میں ’الفا‘ حیثیت مستقل نہیں ہوتی بلکہ 'جو جیتا وہی اسکندر کے مصداق، مستقل طور پر جاری لڑائیوں میں غالب آنے والے کو ہی یہ عہدہ ملتا ہے۔ وہ طاقت ور جانور جو ان لڑائیوں کے آغا ز میں ہی اپنے سے زیادہ قوی جانور کی الفا حیثیت تسلیم کرلیتے ہیں انھیں دوسری پوزیشن (سیکنڈ ان کمانڈ، وزیر) مل جاتی ہے۔ جنھیں حیوانی معاشروںمیں نچلی ذات کے ’بیٹا جانور‘ (Beta)کا نام دیا جاتا ہے۔
اس لیے ’ 'الفاوومن‘ کا اصل وجود حقیقی زندگی میں نہیں بلکہ قصے، کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ افسانوی نثر میں دکھایا جاتا ہے کہ الفا خواتین کی زندگی کا اصل محور 'کامیابی کا حصول ہےاور باقی سب چیزیں ثانوی ہیں۔ وہ رشتوں کا جنوں نہیں پالتیں، ہر چیز پر غالب رہنا چاہتی ہیں۔ کہانیوں میں ’الفاگرل‘ کا '’الفامین‘ کے ساتھ رشک، حسد اور مقابلہ تو دکھایا جاتا ہے، لیکن ان کی آپس میں شادی نہیں دکھائی جاتی۔ ناول نگار فے ویلڈن (Fay Weldon) الفا فیمیل کو کارپوریشن چلاتے ہوئے دکھاتی ہے، مگر گھر یلو دائرہ جہاں وہ ’سپرمین‘ سے مختلف نظر آسکتی ہے، وہ اس کو بالکل نظرانداز کردیتی ہے۔
ناول، افسانے اور فلم میں ’الفا وومن‘ اور '’سپر وومن‘ دو الگ کردار ہیں۔ ’سپروومن‘ کردار کی عورت ہر کام کرتی ہے۔ وہ اچھی بیوی ہونےاوراچھی کمائی کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ لیکن ’الفا وومن‘ کا گھریلو کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ ان کاموں کے لیے کسی اور کوملازم رکھتی ہے۔ اسے شادی شدہ عورت کے رُوپ میں نہیں دکھایا جاتا، لیکن وہ شادی کی خواہش ضرور رکھتی ہے۔ وہ الفا مردوں کو حقارت سے دیکھتی ہے اور وہ اس سے گھبراتے بھی ہیں۔ اس لیے تنہائی اس کا مقدر ہوتی ہے (ہو سکتا ہے یہ کردار عورت کو تنہا کرنے کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہو؟)۔
’الفا عورت‘ کا کردار شاید ہاتھیوں کی زندگی سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا ہو؟ ہاتھیوں کے جنگلی معاشرے کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں ہتھنی کا کردار غالب نظر آتا ہے۔ لیکن فیمنسٹ ڈسکورس میں جس طرح افلاطونی ’مدرسری نظام‘ دکھایا جاتا ہے۔ اس کا ہاتھیوں کے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رہے، ہاتھیوں کے معاشرے کی قیادت بزرگ ہتھنی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی مضبوط مادہ ہوتی ہے، جسے ’دانش مند اور مہربان‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کمال یہ ہے کہ وہ اپنے غول کے ارکان کو مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے اور نر ہاتھیوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھتی ہے، جتنا مادہ ہاتھیوں کا۔ و ہ اپنی قیادت اور طاقت سے دھونس نہیں جماتی اور نہ لطف اُٹھاتی ہے بلکہ اس میں سب کو شریک کرتی ہے اور اپنےہاتھی معاشرے کے فروغ کے لیے اَن تھک محنت کرتی ہے۔ وہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ اپنی جسمانی قوت کو مثبت مقاصد کے لیے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ ماہرین حیوانات کے مطابق بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے، وہ ہر وقت سب سے جڑی ہوتی ہے۔ وہ فیمنزم کے ’الفا گرل‘ ماڈل کی طرح نہیں ہوتی کہ شادی اور بچوں سے دُور بھاگے، بلکہ اس کےلیے اس اہم عہدے پر برقرار رہنے کے لیے زچگی کے عمل سے گزرنالازمی شرط ہے۔ وہ زچگی پر نہ کوئی سمجھوتہ کرتی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھیوں کے معاشرے کا کوئی بھی رکن اس پر تصنع، غیر فطری عمل، جعل سازی یا مقابلہ کرنے کا الزام نہیں لگاتا۔ تمام نر ہاتھی اسے دل و جان سے چاہتے اور اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔
الفا عورت، فیمنزم اور فیشن انڈسٹری میں
’الفاگرل‘ماڈل کوفیشن انڈسٹری اورپاپولر فیمنزم کے بے ہودہ جنسی نعروں کے ذریعے پروموٹ کرنےکا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر سارہ بنیٹ ویزرنے لکھا ہے: ’’ہم کسی آئیڈیالوجی کو لطیفوں، چٹکلوں اور نعروں کی شکل میں مقبول عام بنا دیتے ہیں تو وہ سننے یا دیکھنے والے کو وقتی طور پر تو راغب کرتے ہیں، لیکن پھر فوراً اس کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سطحی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ پیسے بٹورنے کا دھندہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تبدیلی کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ یوٹیوب کی ایک سیریز Girls Who Code کی ایک ڈاکومینٹری GTFO کی مثال دیتی ہیں جس میں ایک لڑکی، مردوں کا مذاق اڑاتے ہوئے، انھیں پاگل قرار دیتی اور متعدد تضحیک آمیز اور فحش جملے کہتی ہے۔
پروفیسر سارہ مزید کہتی ہیں: ’’پاپولر فیمنزم اور فیشن انڈسٹری کے گٹھ جوڑ میں عورتوں کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا، جہاں خواتین کی بے توقیری ہے وہاں یہ انسانیت اور تہذیبی اقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔
ثقافتی ماہرین کے مطابق برطانیہ میں مردوں کا عورتوں کا رُوپ دھارنا اور عورتوں کا مردانہ خصوصیات اور اقدار کی نمایش کرنا عام بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی معاشرے میں ’الفا خاتون‘ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ ملکہ الزبتھ اول ایک زبردست رہنما، بہت قابل اور اسٹائلش خاتون تھیں، لیکن انھیں مرد رہنمائوں جیسا نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ان پر ’الفا خاتون‘ کا لیبل لگانا درست بات نہیں اور یہی معاملہ موجودہ ملکہ الزبتھ کا ہے۔
نیکولا ہارلک (Nicola Horlick) برطانیہ میں اعلیٰ مالیاتی حیثیت اور سیاسی مقام و مرتبے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں میڈیا نے انھیں '’سپر خاتون‘ کا خطاب دیا۔ پچھلے سال، ایک روز اپنے گھر سے باہر نکلی ہی تھیں کہ ایک ڈاکو نے انھیں لوٹنے کی غرض سے گھیر لیا۔ ہارلک کے پاس حفاظت کے لیے ذاتی پستول موجود تھا،لیکن گھبراہٹ میں وہ اسے استعمال نہ کر پائیں اورڈاکو نے ان کے سر پر چوٹ ماردی۔ ضرب کھانے کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اورڈاکو کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ہارلک نے کہا: کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ 'میڈیا مجھے ’سپر خاتون‘ کہتا ہے، لیکن میں اپنے چھے بچوں کو سنبھالنے سے قاصر ہوں، اس کے لیے مجھے دوسروں کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ نچلے طبقے کی کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جو ملازمت کے ساتھ اپنے بچوں کو خود سنبھالتی ہیں۔ میرے ساتھ نوکروں کے علاوہ بچوں کی نانی بھی ہے جو ہروقت ان کا خیال رکھتی ہے۔ ہارلک نے مزید بتایا کہ ’’مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ’سپرخاتون‘ خودانحصاری کے کس مقام پر فائز ہوتی ہے، لیکن اگر میرے ساتھ ماں، نانی اور شوہر کی طرف سے دیا گیا اعتماد اور دعائیں نہ ہوتیں تو میں شاید ڈاکو کا مقابلہ نہ کر پاتی‘‘ ۔
ایک دانش ور خاتون، خواتین کے سامنے سوال اُٹھاتی ہے:
lجدید تہذیب و تمدن کی تشکیل کس کے خون پسینے سے ہوئی، مرد یا عورت؟lعورت، جب مرد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے توگویا وہ اپنے ہی تحفظ، آرام و آسایش کے دائرے کووسیع کرتی ہے۔lتحریک و ترغیب ہی جبری زنا کی بنیادی وجوہ ہیں، اور آپ بھی اس جرم میں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ lہم جنسیت کا ایجنڈا وسعت اختیار کر رہا ہے۔
کامیل اینا پالیا (Camille Anna Paglia: پ ۱۹۴۷ء)،ایک مشہور فیمی نسٹ نقاد اور یونی ورسٹی آف پنسلوینیا، امریکا میں آرٹس کی پروفیسر ہیں۔ وہ فیمی نزم اینڈ پوسٹ اسٹرکچرل ازم کے ساتھ ساتھ جدیدامریکی ثقافت کے بہت سے پہلوئوں، مثلاً وژول آرٹس، موسیقی، فلمی تاریخ وغیرہ کا گہرا تنقیدی جائزہ لیتی ہیں اوران موضوعات پر متعدد معرکہ آرا کتب کی مصنفہ ہیں۔
۲۰۰۵ء میں فارن پالیسی جرنل کی طرف سے دنیا کے سو عظیم عوامی دانش وروں کی لسٹ میں پروفیسر پالیا کا نام شامل کیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں نیویارک ٹائمز نے ان کے بارے میں لکھا کہ کئی عشروں سے جاری ثقافتی جنگوں کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والے لوگ بھی پالیا کو ضرور جانتے ہیں‘‘۔ پالیا کی تنقید انتہائی مؤثر، دلائل بہت واضح، لطیف اور نتائج دھماکا خیز ہوتے ہیں۔ وہ دیگرنقادوں کی طرح تجریدی اور پیچیدہ اسلوب اختیار کرکے اصل حقائق سے راہ فرار اختیار نہیں کرتیں۔ اسی طرح فیمی نسٹ نقاد ڈاکٹر ایلین شوالٹر (Elaine Showalter، پ:۱۹۴۱ء) کہتی ہیں: ’’ہم عصر فیمی نسٹ اسکالرز، لیڈران، عوامی شخصیات، مصنّفین، اور کارکنان کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے میں پالیا منفرد حیثیت کی مالک ہیں‘‘۔ فیمی نسٹ ماہرین بھی پالیا پر تنقید کے خوب نشتر چلاتے ہیں۔ کچھ ماہرین نے ان کی کتاب Sexual Personae (جنسی شخصیت)کو: ’’فیمی نزم کے خلاف جنگ اور اس کے بنیادی مفروضات پر کھلا حملہ قرار دیا‘‘۔
پروفیسر پالیا بتاتی ہیں کہ نیویارک اسٹیٹ یونی ورسٹی میں وومن اسٹڈیز پروگرام کےبانی ممبران نے جب اس بات سے انکار کیا کہ ہارمونز کا انسانی طرز عمل اور رویوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو ان کے ساتھ جھگڑا ہوتے ہوتے رہا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ عجیب ستم ظریقی ہے کہ لبرل اسکالر، گلوبل وارمنگ کے ایشو پر تواتنے جذباتی ہیں کہ انھیں سائنسی ثبوتوں کی پروا نہیں، لیکن مرد و عورت کے جنسی امتیازات کوحیاتیات کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود بھی تسلیم نہیں کرتے ‘‘۔ ۱۹۷۹ء میں ایسے ہی ایک مسئلے پر فیمی نسٹ ماہرین تعلیم کے ساتھ گرم مباحثے بالآخر پالیا کے استعفیٰ پر منتج ہوئے۔
پالیا کہتی ہیں کہ ’’ایک جملے کی خاطر اگر مجھے اپنا پورا کیرئیر بھی دائو پر لگانا پڑے تو مَیں اس کے لیے تیار ہوں اور وہ جملہ یہ ہے کہ ’’خدا… اگر انسانی تخیل بھی ہے تو انسان کے تخیلات میں سے یہ سب سے بڑا تخیل ہے‘‘۔ وہ مذہب کے آفاقی کردار کو بہت فروغ دیتی ہیں لیکن خود کوئی عملی مذہبی خاتون نہیں۔ وہ مذہب کو اس کے عالم گیر اصولوں اور علامتوں کی حیثیت سے دیکھتی ہیں۔
امریکی معاشرہ ،فیمی نسٹ تحریک کے اس قدر زیر اثر ہے کہ مختلف ادارے اس کے موقف، مطالبات اور مفروضات کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سات مختلف ناشروں نے پالیا کی کتاب Sexual Personae، کی اشاعت سے انکار کردیا۔ بالآخر جب یہ ییل یونی ورسٹی پریس(YUP) سے شائع ہوئی تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔ اسے دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں ساتویں نمبر کا اعزاز ملا۔ اس کتاب میں پالیا کا استدلال یہ ہے کہ ’’انسانی فطرت موروثی طور پر جنسیت کے حوالے سےایک خطرناک پہلو رکھتی ہے۔ مذہب، تہذیب، ثقافت، خاندان اور شادی کے بندھن کے ذریعے اس قوت پر قابوپانے کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔
پالیا نہ صرف مضبوط مردوں کا دفاع کرتی ہے بلکہ مردانگی کےجشن بھی مناتی ہیں۔ اس کا استدلال ہے کہ ’’جدید معاشی ترقی اورسائنٹفک تمدن کی تشکیل میں مردوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ ہرچند کہ آج عورتیں بھی اس میں برابر کی حصہ دار بن گئی ہیں، لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ اس تہذیب و تمدن کی خالق نہیں۔ جدید تمدن کی تعمیر میں جو پہاڑ توڑے گئے، جنگل و درخت کاٹے گئے، سرنگیں کھودی گئیں، ناہموار جگہوں پر بلڈوزر چلائے گئے، وہ سب کام مردوں کے ہاتھوں سے انجام پائے ۔ تمام سڑکیں، پل، کنکریٹ و اینٹوں کی عمارتیں، کارخانے، دفاتر اور پلازے مردوں نے تعمیر کیے۔ ریلوے لائنیں اور بجلی کی تاریں بچھائی گئیں، پول لگائے گئے، وسیع پیمانے پر معاشی پیداوار اور اس کی تقسیم کے نیٹ ورک تعمیر ہوئے، الغرض تمام خطرناک اور مشکل کاموں میں صرف مردانگی کام آئی، اس میں نسوانی طاقت کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں تھا‘‘۔
پھر وہ لکھتی ہیں: ’’جدید تمدن کی تعمیر کے مشکل مراحل طے ہونے کے بعد جب خوب صورت، دل کش، ٹھنڈے و گرم، تمام سہولتوں سے آراستہ دفاترکی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھنے کا وقت آیا، تو خواتین کو بھی نتیجہ خیز کردار مل گیا اور مردوں نے اسے خوش گوار مسکراہٹ اور کھلے دل سے قبول کیا۔ یہ کوئی داستان، قصہ یاکہانی نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ یا تو اس حقیقت ِ حال کا صاف انکار کر دیا جائے یا پھر اس میں کام آنے والی مردانگی کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے اس کا جشن منایا جائے۔ یہ جشن صرف مردوں کے لیے نہیں، عورتوں کو بھی مردوں کے شانے کے ساتھ شانہ ملا کر اس میں شریک ہونا چاہیے۔ جب عورت، مرد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، تو وہ اپنے تحفظ، آرام و آسائش کے دائرے کی ہی توسیع کر رہی ہوتی ہے۔ اگر عورتیں تعلیم یافتہ ہونے کے بعد مرودں کے ساتھ محبت سے پیش آنے کے بجائے انھیں صرف طعنے اور کوسنے دیں گی یا ان کی مذمت کریں گی یا انھیں ایک جانور اور درندے کے سے رُوپ میں پیش کریں گی، تو آنے والی نسل کے مردوں کے پاس محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی کیا ترغیب ہوگی؟‘‘
وہ اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتی ہیں کہ’’ یہ کائنات مرد اور عورت سے مل کر بنی ہے۔ اس میں آسمان مرد ہے اور زمین عورت۔ زمین کو کھاد باہر سے ملتی ہے اور وہ فصل اپنے پیٹ کے اندر سے پیدا کرتی ہے۔ کسان کی پیداواری علامت کا ارتکاز باہر کی طرف ہے اور وہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ کھیتی کی پیداواری علامت کا ارتکاز اندر کی جانب ہے، اس لیے وہ پوشیدہ ہے۔ اول الذکر ہم آہنگی و نظم و ضبط رکھنے والا، مضبوط، طاقت ور اورسخت گیر کردار کا حامل ہے۔ مؤخر الذکر زرخیز، لبھانے والی، مسحور کرنے والی، افراتفری کا شکار، مخفی قوت رکھنے والی اور آکاس بیل کی طرح لپٹنے اور طفیلی کردار کی حامل ہے۔ مذکر سیدھی لائن میں ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے اور مؤنث گول دائرے کی شکل میں چکر کاٹتی ہے اور اس کا آغاز اور انجام ایک ہی مقام پر ہوتا ہے۔
جورڈن پیٹرسن کی طرح پالیا کا خیال ہے کہ مرد مظلوم ہیں۔ مرد، مراعات کی پروا کیے بغیر سخت مقابلے کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اور اُف کیے بغیر اپنے وابستگان کو بھی زندگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو کھلانے پلانے، انھیں گھر اور تحفظ فراہم کرنے کی خاطر، مرد اپنا جسم اور جذبات قربان کرتے ہیں لیکن یہ کتنا سفاک تضاد ہے کہ حقوقِ نسواں کے کسی بیانیے میں ان کی تکالیف اور کارناموں کا کوئی ذکر تک موجود نہیں۔ اس بیانیے میں مردوں کو صرف جابر، ظالم اور استحصال کرنے والے بدمست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خواتین مظلوم کیسے ہوسکتی ہیں؟ انھیں تو ہر جگہ مراعات اور خصوصی رعایت اور مقام حاصل ہوتا ہے۔ اگر ان کی سہولیات میں کوئی کمی ہو تو وہ مختلف فیشنوں کے ذریعے اپنے لباس، بالوں، چہرے کے خوب صورت رُوپ دھارتے ہوئے، مردوں کے دل میں جگہ بناکر مراعات حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن تفریحی (فلمی) صنعت سے باہر کاروباریا عملی دُنیا میں مرد، لمبے بالوں، میک اپ، مور جیسے رنگین لباس اور مخملی سوٹ کے ذریعے کوئی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ ترقی کی سب منازل ان تھک محنت کے بل بوتے پر ہی طےکرتے ہیں، جب کہ رنگ و نزاکت انھیں کہیں خصوصی مقام نہیں دیتے‘‘۔
پروفیسر پالیا کے خیال میں 'جنسی سرگرمی، آمادگی اورتحریک و ترغیب ہی ریپ کی بنیادی وجوہ ہیں۔ معروف ماہرین نفسیات رینڈی تھورن ہیل (۱۹۴۴ء) اور کریگ ٹی پالمر بھی اپنے تحقیق و تجزیہ میں اس خیال کی توثیق کرتے ہیں‘‘۔ پالیا فیمی نسٹ خواتین کو اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ ’’خواتین، مردوں سے لڑنے جھگڑنے کی پارٹی لائن کی اندھا دھند پیروی کرنے کے بجائے اپنی عزّت و عصمت کی حفاظتی معلومات حاصل کریں تاکہ انھیں کوئی خطرہ لاحق نہ ہو‘‘۔
وہ کام کی جگہوں پر خواتین کو زیادہ سنجیدہ نہ لیے جانے کی وجہ ان کے لباس اور گیٹ اپ کو قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب آپ کام کی جگہ پر برہنہ ٹانگوں اور پنسل ہیل جوتوں کے اُوپر شارٹ اسکرٹ زیب تن کرتے ہوئے یہ کہہ رہی ہوں گی کہ میری جنسیت ہی میری طاقت ہے، تو آپ کی دیگر صلاحیتوں کی قدر کون جانے گا؟‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’مجھے بھی سیکسی لباس پسند ہے اورمیرا مطلب یہ نہیں کہ آپ پر کشش لباس پہننا چھوڑ دیں، مگر میرا کہنا ہےکہ اپنے آپ کو خوب صورت زیور کے طور پر پیش کرکے دیگر صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوایا جا سکتا‘‘۔
یونی ورسٹی کیمپسوں (یا مخلوط تعلیمی اداروں) میں جنسی حملوں کے بارے میں پالیا کہتی ہیں کہ مردوں کی یہ فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ جنسی تجربے کی تلاش میں ہوتے ہیں اور خواتین کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟۔ اگر انڈر گریجوئیٹس کی کسی پارٹی میں سب لڑکیاں، لڑکے نشے کی حالت میں ہوں۔ اس پارٹی میں شریک کسی لڑکی سے کوئی نوجوان یہ پوچھے کہ کیا آپ میرے کمرے میں جانا پسند کریں گی اور اگر نشے کی بے خودی میں لڑکی کا جواب ’ہاں‘ میں ہوتو یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ بے راہ روی کے لیے رضامند ہے‘‘۔
پالیا، فیمی نزم کے اندھے معیار کو مسترد کرتی ہیں اور انھیں اسقاط حمل کے ان استعماری اثرات پر سخت تشویش ہے، جن کی وجہ سے بدکاری کو الگ شناخت دے کر ایک فرقہ بنا دیا گیا۔ وہ ہم جنسیت کے فکروعمل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ’ایک ایسا سیاسی ایجنڈا‘ قرار دیتی ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کی خاطر وسعت اختیار کر رہا ہے۔ انھوں نے ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ہم جنس زدگان کی شناخت اور ’صنف و جنس کی سیاست‘(Gender Politics) کو چیلنج کیا تھا اور آج تک اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
پالیا کا استدلال ہے کہ ’’جنس کی متعصب اور دقیانوسی تعریف کے ذریعے خواتین کے کردار اور خودمختاری کا تعین کسی طور درست نہیں۔ اس کا مطلب ان غریب خواتین کی خوداعتمادی اور عزت نفس کو نقصان پہنچانا ہے، جو سلیبرٹیوں کی طرح امیر، مشہور اور پُرکشش نہیں، یا جوفیمی نسٹ گروہ میں شامل نہیں ہو سکتیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ غریب اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تربیت و رہنمائی ہو، تاکہ انھیں اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہو سکے‘‘۔
وہ اپنی کتاب Provocations (فتنہ انگیزی)میں حیاتیات کے مطابق صنف کی وضاحت کرتے ہوئے ،مردانگی کے کچھ روایتی اصولوں کا دفاع کرتی ہیں۔ وہ یونی ورسٹی نصاب میں مذہبی مرکزیت کو فروغ دینے پر زور دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ محض معاشرتی اتفاق ہوتا ہے۔ کسی خاص خطے میں پایا جانے والا نظریاتی اتفاق رائے ہر عہد میں بدلتا رہتا ہے، اس لیے اسے تمام انسانوں کا عام فہم تصور نہیں کہا جا سکتا‘‘۔
وومن اسٹڈیز اور جینڈر پالیٹکس پر تنقید کرتے ہوئے پالیا کہتی ہیں کہ ’’وومن اسٹڈیز کے مضامین ایسے گروہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو پہلے سے آرام دہ اور پُرسکون ماحول میں رہنے کا عادی ہے۔ اس گروہ کی سیاست رومانوی، جذباتی اورزبانی جمع خرچ پر مبنی ہے اور ہر روز تبدیل ہونے والے رجحانات کے ساتھ فیشن کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ یہ خواتین کاایک ایسا مراعات یافتہ طبقہ ہے جو اپنے ضمیر پر مراعات کے بوجھ کو تو محسوس کرتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس ندامت و شرمندگی اور محروم طبقات کو گلے لگانے سے دُور بھاگتا ہے‘‘۔
’’ وومن اسٹڈیز کی تعلیم کا ارتکا ز صرف ’سیکس ازم‘ (جنس زدگی) اور صنفی تعصب پر ہے۔ فیمی نزم ایجنڈے پر کام کرنے والی خواتین، نہ تو عام خواتین کی نمایندگی کرتی ہیں اور نہ قومی اور عالمی جذبات و احساسات ہی کی ۔ اکیڈیمک فیمی نسٹ ماہرین یہ سوچتی ہیں کہ ان کے معصوم اور کتابی کیڑے نما شوہر ہی دنیا بھر میں پائی جانی والی مردانگی کا مثالی نمونہ ہیں۔ فیمی نسٹ ماہرین کا یہ مسلسل دعویٰ ہے کہ تاریخ مردوں نے رقم کی اور اس میں عورت ہر جگہ مظلوم نظر آتی ہے کیونکہ ذہین اور تخلیقی صلاحیتیں رکھنی والے عورتوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ عصری فیمی نزم کی یہ بنیاد ابتدا سے ہی ایک جذباتی وہم اور بے بنیاد مفروضے پر مبنی ہے‘‘۔
پھر یہ کہ ’’جینڈر اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ میں خدمات پیش کرنے والے لوگ منظم اجارہ داری (Cartel) پر مشتمل ہوتے ہیں۔اس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ یونی ورسٹیوں میں خواتین فیکلٹی ممبرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے ۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میں بائیں بازو کے مستند لوگوں کا وجود ہی نہیں، لیکن بوژوا چیئرز پر ہر جگہ ماہرین تعلیم براجمان ہیں اور ان کے زیر نگرانی کیمپس 'نرسری اسکول کا سماں پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے طالب علموں کی مثال انکوبیٹر سے پیدا ہونے والے مرغی کے بچوں کی سی ہے، جو ویکیوم کلینر کو بھی دیکھ کر اپنی ماں تصور کرتے ہیں‘‘۔
پروفیسر پالیا کا دعویٰ ہے کہ ’’وومن اسٹڈیز پڑھانے والوں کی اکثریت بے ہودہ، اناڑی، لکیر کے فقیر، خوشامدی، تصوراتی، رونے رلانے ،شکوے شکایتیں کرنے والے، پارٹی کے کارکنوں اور خفیہ ایجنسی کے کارندوں کی طرح ہوتی ہے۔ اعتدال پسند اور معقول فیمی نسٹ اسکالر اس پاپولر فیمی نزم سے اب پیچھے ہٹ گئے ہیں، اوروہ ’امن پسند‘ جرمنوں کی طرح بدمست فاشزم کے سامنے خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جتنی بھی عظیم خواتین اسکالرز پیدا ہوئیں وہ سب مردانہ کلاسیکی روایت کے دانش ورانہ نظم و ضبط کا نتیجہ ہیں، نہ کہ موجودہ ’فیمی نزم‘ کا ۔ یہ ’پاپولر فیمی نزم‘ تو خواہشات اور جذبات سے مغلوب، معافی تلافی کرنے والی آیا ہے جس سے اوّل درجے کی کوئی تخلیق سامنے نہیں آئی‘‘۔
پالیا کا مشورہ ہے کہ ’’جدید نوجوان خواتین کے لیے ۱۹۶۰ کے عشرے کی متحرک خواتین کاکردارایک نمونہ ہے۔ 'آپ بھی اس بات میں برابر کی ذمہ دار ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتے ہیں۔ آپ کوہر وقت یہ راگ نہیں الاپنا چاہیے کہ ’میں اس طرح ہوں کیونکہ میرے والدین اور خاندان نے مجھے اس طرح بنایا ہے‘۔ ’میں ایسی ہوں کیونکہ میرے شوہر نے مجھے اس طرح بننے پر مجبور کیا ہے‘۔ ہاں، ہم ان حادثات اورممکنات کے ذریعے ہی بنتے ہیں، جو آئے روز ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں، لیکن اگر یہ سب کچھ آپ کو قبول نہیں تو پھر ہر طرح کی ذمہ داری آپ کو قبول کرنی ہوگی۔ کیا آپ اپنی سب چیزوں کی ذمہ داری اپنے سرلینے کو تیار ہیں؟‘‘
پھروہ لکھتی ہیں: ’’ایک عورت وہی رہتی ہے جو وہ ہوتی ہے،جب کہ ایک مرد کومرد بننا ہوتا ہے۔ مردانگی خطرناک اور انوکھی چیز ہے۔ یہ کردار، نسوانی سطح سے اوپر اٹھنے، جدوجہد ومشقت کرنے، جرأت و حوصلہ سے کام لینے، ذمہ داری اور عہد نبھانے، اپنے آپ کو قربان کرنے اور خطرات مول لینے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کردار کی تصدیق صرف دوسرے 'رجال ہی کر سکتے ہیں‘‘۔
مغرب کی استعماری طاقتوں نے جب شرق اوسط، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر سیاسی اور فوجی طاقت کے ذریعےقبضہ کیا تو انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ مسلمانوں کو ان کی مضبوط دینی اور تہذیبی روایات کی وجہ سے مستقل طور پر غلام بنانا آسان نہیں۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں میں خوئے غلامی پیدا کرنے کے لیے ان کی تہذیب، ثقافت، زبان اور نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ برصغیر میں ۱۸۳۵ء میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نافذ کیا گیا، لیکن درحقیقت اس کا مقصد مغربی اقدار اور تہذیب کے لیے راستہ ہموار کرتے ہوئے اسلامی اقدار کو مسخ کرنا، لادینیت کو فروغ دینا اورایسے افراد تیار کرنا تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندستانی ہوں، لیکن اپنی سیرت، اخلاق، سوچ، افکار اور نظریات کے حوالے سے مغربی تہذیب کے ترجمان ہوں۔ اس کے علاوہ اس نظام تعلیم کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ برصغیر کے لوگوں کومغربی تہذیب سے مرعوب کرکے، یورپی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ کھپت کے لیے اس خطے کو ایک وسیع مارکیٹ کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اس نئے نظام تعلیم کے تحت پرائمری وثانوی تعلیمی ادارے، کالج، یونی ورسٹیاں قائم کی گئیں اور بعد ازاں تعلیم کو مفت اور لازمی بھی قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں صدیوں سے قائم مساجد، مدارس اور خانقاہوں کی سرکاری امداد بند کرکےانھیں مفلوج کر دیا گیا۔ جن جائیدادوں سے ان مدارس کی معاونت ہوتی تھی انھیں ضبط کرلیا گیا اور صرف چند مدارس باقی بچے جن کے مہتمم بہت سخت جان ثابت ہوئے۔ تعلیم کے میدان میں علی گڑھ تحریک کےساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء اور جامعہ ملیہ جیسی تحریکیں بھی اٹھیں، لیکن یہ ادارے تعلیم کے نام پر آنے والے مغربی تہذیب و اقدار کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس جدید مغربی تعلیم سے نہ صرف مسلمانوں کا تعلیمی معیار پست ہوا بلکہ ان کا روایتی، دینی ذوق اور تخلیقی صلاحیتیں بھی مفقود ہوگئیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دینی عقائد و روایات، تہذیبی و ثقافتی اقدار اور ملکی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم تشکیل دینے کے بجائے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو ہی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنا لیا گیا۔ اس نظام تعلیم کے زیر اثر آج ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے، جو بظاہر تعلیم یافتہ ہے لیکن ذہنی طور پر مغرب کی غلام ہے۔ انھیں اپنے دین اورتہذیب کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ علم نہیں، جو اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان کے چند اسباق میں پڑھایا جاتا ہے لیکن وہ مغربی تہذیب کی تمام خرافات کی نقالی کا علم رکھتے ہیں۔ وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسلام اور پاکستان کے وفادار بننے کی بجائےسیکولر نظریات و ثقافت کے علَم بردار اور مغرب کے وفادار بن جاتے ہیں۔
ہم صرف قابل ڈاکٹروں، انجینیروں، سائنس دانوں اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین ہی کو تیار نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہے، جو محب وطن ہوں اور قومی و ملّی تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ اس کے بغیر قومی، ملّی، اور دینی مقاصد و ضروریات کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
ہمارے ملک کی باگ ڈور ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے، جو مغرب کی پیروی میں ہماری نصابی کتب میں موجود دینی تعلیمات پر نت نئے سوالات اٹھاتا رہتاہے۔ مثلاً مذہب دور رفتہ کی یادگار ہے، آج کے دور میں چودہ سو سال پہلےکا نظا م نہیں چل سکتا، مادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کو بھی اپنایا جائے، مذہب جدید تمدنی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی ساری تعلیم و تربیت بھی چونکہ مغربی اداروں میں ہوتی ہے اس لیے وہ بھی پاکستان میں مغربی تہذیب و ثقافت ہی کی ترویج کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی سیاست میں صرف وہی لوگ اقتدار کے سرچشموں پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں جو مغرب کے وفادار ہوں۔ ان مغرب زدہ حکمرانوں نے بے شمار این جی اوز کو یہاں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو نسوانی اور انسانی حقوق کے نام پر معاشرتی بگاڑکا مشن سرانجام دے رہے ہیں۔
ان این جی اوز نے بیوروکریسی اورسیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر میڈیا کی آزادی پر کام کیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغرب کی کئی خرافات کو ہمارے معاشرے میں فروغ دیا۔ مغربی رہنمائی میں کام کرنے والا میڈیا نہ صرف ڈس انفارمیشن کے ذریے معاشرے میں انتشار پیدا کرتا ہے، بلکہ صوبائیت، لسانیت اور قومیت کا زہر گھولتا ہے، اور اخلاق باختہ ڈراموں، فلموں، کارٹون، ماڈلنگ اور اشتہارات کے ذریعے نوجوان نسل کے اخلاق کا جنازہ نکال رہا ہے۔ میڈیا ہماری نئی نسل کو کشمیری، فلسطینی اور افغانی بھائیوں کے دُکھ درد میں شریک ہونے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے انھیں ناچ گانے میں مست رکھتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے فوراً بعد۲۰۰۷ء میں ان این جی اوز نے حدود آرڈی ننس کے خلاف مہم چلائی، اسلامی سزائوں کو غیر انسانی قرار دیا اور خواتین کے حقوق کے نام پر ایسی قانون سازی کروائی جو مادر پدر آزادی کے لیے راستہ ہموار کر رہی ہے۔
میڈیا اور خواتین کی آزادی کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات کو خارج کرنے کے کام میں بھی تیزی لائی گئی۔ ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کی ایک این جی او 'ایس ڈی پی آئی نے پاکستان کے نصاب کے جائزے پر مبنی ایک ریسرچ پیپر متعارف کروایا۔ مقتدر حلقوں میں اس این جی او کا اس قدر اثر و رسوخ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اس ریسرچ پیپر و رپورٹ کے مندرجات کی صداقت چیک کیے بغیر اس کو درست مان لیا۔اس رپورٹ میں پاکستان میں پہلے سے موجود نصابی کتب کو ہدف تنقید بنایا گیاحالانکہ ان کے مؤلفین بھی زیادہ تر لبرل اور سیکولر حضرات ہی تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ایک ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نصابی کتب ہیں۔ اس لیے ٹیکسٹ بک بورڈ اور وزارت تعلیم کے نصابی ونگ کو ختم کردینا چاہیے___اور یہ کہ معاشرے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی وجہ محض مذہبی مدارس ہی نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے اور ٹیکسٹ بک بورڈ بھی ہیں‘‘۔
اس رپورٹ میں پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے پر تنقید کی گئی اور سوال اٹھایا گیا اور یہ مفروضہ پیش کیا کہ اس سے غیر مسلم پاکستانی عدم تحفظ کا شکار ہوتےہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اسلامیات لازمی کےعلاوہ دیگر لازمی درسی کتب میں قرآن مجید کی آیات کیوں شامل کی گئیں؟ اس رپورٹ کے مصنّفین نے اس بات پر رنجیدگی کا اظہار کیا کہ ملک کے دفاع کو شہری کا اولین فرض کیوں کہا جاتا ہے اور محمد بن قاسم ، عزیز بھٹی، راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید وغیرہ کے نام درسی کتب میں کیوں شامل ہیں؟ دفاعی اخراجات اور جدید ہتھیاروں کی تحصیل کا جواز کیوں پیش کیا گیا؟
اس رپورٹ میں خواتین کے چادر اوڑھنے اور معقول لباس زیب تن کرنے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا اور ہوم اکنامکس کالجوں کے قیام کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے خواتین کے لیے مخصوص شعبوں میں جانے کے راستے رُک جاتے ہیں، جس سے مردوں کی برتری قائم رہتی ہے۔ اس رپورٹ میں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ القاب اور صیغوں پر بھی اعتراض کیا گیا۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر منیر الدین چغتائی نے کہا تھا کہ یہ نظریۂ پاکستان اور پاکستان کے وجود کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ ہمارے نام نہاد مفکرین کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی نصاب تعلیم سے ایسی تمام چیزیں نکال دی جائیں، جو ہمارے نظریۂ حیات کی بنیاد اور جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔
دل چسپ یا عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کو اپنے ملک کاتعلیمی نصاب تبدیل اور اپ ڈیٹ کرنے میں اتنی دل چسپی نہیں جتنی بین الاقوامی اداروں کو ہے۔ ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بے شمار منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام مکمل طورپر ان کی نگرانی میں چلا یا جائے۔ یوایس ایڈ کے منصوبوں میں اساتذہ و منتظمین کی تربیت، تعلیمی وظائف، ریسرچ اسکالروں کی مالی امداد، بالغ طلبہ و طالبات کی غیر ملکی سیر و سیاحت اور کئی دیگر پروگرام شامل ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹوں میں بھی پاکستان کا نصاب تعلیم خصوصی نشانے پر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں خدمت بجا لانے کے لیے مقامی این جی اوز ہر وقت تیار ہوتی ہیں۔
اس کمیشن کی ۲۰۱۶ء کی رپورٹ اور سفارشات میں کہا گیا کہ ’’پاکستان کی نصابی کتب میں جنگوں اور جنگی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ، سلطان محمود غزنوی کا ۱۷مرتبہ سندھ پر حملہ فخریہ انداز سے نصابی کتب میں کیوں شامل ہے؟تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے ناچ گانا اور شادی بیاہ کی رسومات کو دکھانے کے بجائے جنگوں کو کیوں پیش کیا جارہا ہے؟ اس رپورٹ کے لیے ایک مقامی این جی او ’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن‘ نے تحقیق کرکے سفارشات تیار کی تھیں۔ ا س این جی او نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان میں اسلامی عقیدے پر اصرار کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان میں اسلام کو شناخت کی اعلیٰ ترین خاصیت کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ یہ سفارشات بھی پیش کی گئیں کہ نصابی کتب میں مذہبی آزادی واقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی باتیں اور عقیدے کی تعلیم کے بجائے غیرجانب دار باتیں شامل کی جانی چاہییں اور اسلام ہی درست مذہب ہے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اس فائونڈیشن کے سرکردہ لوگوں نے حکومتی وزیروں، گورنروں اور بااثر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔
پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے امریکا اور یورپ کے دبائو پر تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اور جس کے تحت قرآنی آیات کو نصاب سے نکالا گیا تھا وہ ابھی رُکا نہیں بلکہ خطرناک حد تک آگے بڑھ چکا ہے، بلکہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کابینہ سے منظور ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ وفاقی وزیرتعلیم نے ۲۰۲۱ء سے یکساں قومی نصاب کا ملک بھر میں نفاذ اور ان بنیادی نکات کا اعلان کیا ہے، جن پر یکساں قومی نصاب تعلیم تشکیل دیا جا رہا ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی کوئی قانون نہیں بلکہ تعلیم کے فروغ کے لیے رہنما خطوط اور ایک فریم ورک ہے، جس کی روشنی میں نصاب تعلیم، عملی منصوبہ اور قوانین وضع کیے جائیں گے۔
پاکستان میں مغربی ممالک کے فنڈز پر چلنے والی این جی اوز اور لبرل حلقوں کواس نئی تعلیمی پالیسی سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ جس نصاب تعلیم کو وہ سیکولر خطوط پر استوار کر چکے ہیں اس میں اب تبدیلی لانا مشکل ہوگا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی متعارف کروانے کے بعد صوبہ پنجاب (جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے) کے تمام بورڈز میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کےنصاب میں مطالعہ پاکستان کی جو کتب پڑھائی جا رہی ہیں، وہ فیمنسٹ ماہرین کی تیار کردہ ہیں۔
فیمنسٹ ماہرین نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی دونوں کتب میں ’تحفظ نسواں‘ کے عنوان سے ایک باب شامل کیا ہے۔ ان کتب میں حقوقِ نسواں، عورتوں کی آزادی، خودمختاری اور مساوات کے مغربی تصورات کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ یعنی ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ مذہب عہد رفتہ کی یادگار ہے، آج کی جدید تمدنی ترقی ومعاشرت میں رکاوٹ ہے اوردوسری طرف اسی مذہب کے متون سے عورت کی اس آزادی اور خودمختاری کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو وہ مذہب سے بغاوت کے نتیجے میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
مرد و عورت کے صنفی کردار کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جدید غیرمذہبی معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے سماجی تعلقات زیادہ مضبوط ہوتےہیں اور عورتوں کو برابرکے مواقع ملتے ہیں،جب کہ مذہبی معاشروں میں یکساں سہولتیں میسر نہیں ہوتیں۔ مذہبی معاشروں پر تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان میں صنفی کردار کا تعین کرتے وقت عورت پر کچھ مخصوص کام تھوپ دیے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے کام سرانجام نہیں دے سکتی حالانکہ مرد اور عورت یکساں طور پر ہر کام کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں، مثلاً کھانا پکانا، صفائی کرنا، بچوں کی دیکھ بھال کرنااورگاڑی چلانا وغیرہ۔ مذہب کے زیر اثر صنفی کردار سازی کے ذریعے مرد اور عورت کو مخصوص معاشرتی کردار نبھانے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، مثلاً لڑکے کو بیٹ یا ہاکی دو، لڑکی کو گڑیا، لڑکا باہر کےکام کرے، لڑکی گھر داری کرے وغیرہ اور اس عمل میں لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ صنفی کردار کے تعین میں مذہب اور مذہبی اداروں کے علاوہ والدین، خاندان، گھر، محلہ، معاشرہ، اسکول، تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، کام کی جگہ، ریاست، حکومت اور سیاسی ادارے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے طلبہ و طالبات کو یہ تاثر دیا گیا کہ جب تک ان تمام اداروں سے مذہبی تعلیمات اورروائیتی اقدار کی بیخ کنی نہ کی جائے اس وقت تک ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
اسی باب میں شادی اور نکاح کے موضوع پر بتایا گیا کہ مذہبی معاشروں میں مرد اور عورت کو شادی کے سلسلے میں فیصلہ کن اختیار نہیں دیا جاتا۔ عموماً مرد کے اس آزادانہ فیصلے کو تو تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن عورتوں پر کئی پابندیاں عائد ہیں۔ ایک طرف قرآن و سنت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ والدین بچوں اور بچیوں کا نکاح ان کی رضامندی سے کریں اور دوسری طرف ان مغربی تصورات کی وکالت کی گئی ہے، جو مغرب میں خاندانی نظام کا خاتمہ کر چکے ہیں۔
مغرب میں فیمنسٹ تحریک کا سارا زور اس بات پر ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان خلیج پیدا کی جائے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر عورتوں کو مردوں سے نفرت کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ جو مرد، تہذیبی اقدار، ثقافت اور معاشرت پر قائم رہنے پر مصر ہیں، ان کے اس رویے کو 'زہریلی مردانگی '(Toxic Masculinity ) کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجاب بورڈ کی انٹر میڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں بھی اسی اصطلاح کو استعمال کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ ’زہریلی مردانگی‘ مردانہ برتری کا منفی رجحان ہے جس کے تحت خواتین کو مردانہ بالادستی کا احساس دلا کر ان پر جارحیت، رعب اور دبدبہ سے نظم و ضبط قائم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مردانہ برتری کے اظہار کو چونکہ معاشرہ اور مذہب تقویت دیتا ہے، اس لیے خواتین بھی اس پر یقین کر لیتی ہیں اور یہ عمل خواتین کے اکیلے سفر کرنے، حصولِ تعلیم، ملازمت کرنے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر اسلامی متون کا سہارا لیا گیا اور حضرت شعیبؑ کی بیٹیوں اور حضرت موسٰی کا قصہ اور کئی احادیث مبارکہ پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام مرد و زن کی مساوات کا درس دیتا ہے جنھوں نے مختلف شعبوں میں کامیابیاں سمیٹیں، انھیں مذکورہ باب میں طالبات کے لیے آئیڈیل قرار دیا گیا ہے۔
میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی دونوں کتب کے مذکورہ باب میں قومی و پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۰ء، جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ۲۰۱۰، کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ۲۰۱۵ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ۲۰۱۶ء کو تمام تفصیلات کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ ان قوانین کو منظور کروانے میں این جی اوز، فیمنسٹ تنظیموں اور مغرب کے سیاسی و مالی اداروں کا خاص کردار تھا۔ اس لیے طالب علموں کو ان کارناموں سے روشناس کروانا ضروری سمجھا گیا۔ طلبہ و طالبات کو بتایا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد، دنیا کے تمام پسماندہ معاشروں کا مسئلہ ہے کیونکہ مرد، خواتین کو کم تر سمجھتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین سے امتیازی سلوک، بدسلوکی، گھر میں خاوند کا ناروا رویہ،اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں والدین کی تنگ نظری وغیرہ خواتین کے لیے عام عمل ہیں۔
ان ابواب میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ عورتوں کے خلاف ہونے والی جنسی ہراسمنٹ، جنسی پیش رفت، جنسی بد سلوکی، جنسی حملہ، چھیڑ چھاڑ، برہنہ تصاویر و ویڈیوز کی اشاعت اور دیگر تمام جنسی جرائم کا آغاز مغرب میں ہوا۔ آج بھی امریکا کے ایک قومی سروے کے مطابق وہاں ہر پانچ خواتین میں سے ایک کے ساتھ اس کی زندگی میں کم ازکم ایک بار زنا یا اقدام زنا کا واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔
مطالعہ پاکستان کی ان کتب میں طالبات کو اس بات سے آگاہ کرنا بھی ضروری خیال کیا گیا ہے کہ اگر خواتین اپنی آزادی میں کوئی رکاوٹ محسوس کریں تو پنجاب کے تمام اضلاع میں موجود دارالامان کی ’مفت ہیلپ لائن‘ پر رابطہ کر سکتی ہیں اور ’عارضی پناہ گاہ‘ کے لیے درخواست بھی کر سکتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے مجرموں سے تحفظ کے لیے ایک حفاظتی حکم نامہ بھی حاصل کر سکتی ہیں، جس کو یقینی بنانے کے لیے عدالت مجرموں کو جی ایس پی ٹریکنگ بریسلٹ پہنا دے گی، جس کے بعدوہ اس عورت سے دُور رہنے پر مجبور ہوں گے۔ مجرم جب بریسلٹ اتارے گا تو مرکز انسداد تشدد برائے خواتین کو خود کار طریقے سے اطلاع مل جائے گی اور اس کے نتیجے میں مجرم کو چھے ماہ اضافی قید ہوگی۔ اگر عورت کی جان، عزّت اور وقار کو مزید خطرات لاحق ہوں تو مجرم کو گھر سے جانے کا حکم دیا جائے گا مگر عورت کو گھر سے نہیں نکالا جا سکتا۔ عدالت مجرم کو یہ حکم بھی دے سکتی ہے کہ وہ متاثرہ عورت کے مقدمے، روزگار، طبی اخراجات وغیرہ برداشت کرے۔ اور آخر میں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ تمام عورتوں، معاشرے اورریاست کو چاہیے کہ بدنامی کی وجہ سے اختیار کی جانے والی خاموشی کو ترک کریں اور کھلے عام عورتوں کی آزادی اور خودمختاری پر گفتگو کریں۔
آپ ذرا غور کریں کہ لبرل، آزاد خیال اور فیمنسٹ ماہرین کو نصابی کتب میں: قرآنی آیات، 'ملک کادفاع شہریوں کا اولین فرض ' اور اور راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید جیسے ہیروز کے ناموں کی شمولیت پر اعتراض تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ موضوعات تو دینی ماہرین، ملٹری ہسٹری، اکنامکس آف وار اورملٹری اسٹیڈیز کے ہیں، انھیں چھوٹے لیول کی درسی کتب میں شامل کرنے کا کیا جواز ہے؟ اب انھی ماہرین کو جینڈر اسٹڈیز، ایم اے اور ایم فل سوشیالوجی میں پڑھائے جانے والے فیمنزم کے نظریات اور فلسفیانہ تصورات کو ان چھوٹے لیول کی کتابوں میں داخل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی سنجیدگی سے سوچنا گوارا نہیں کیا کہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۰ء، جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ۲۰۲۰ء، کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ ۲۰۱۵ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ۲۰۱۶ء میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات ان موضوعات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
مغربی یورپ اور شمالی امریکا و کینیڈا، جہاں کے تمام تعلیمی ادارے فیمنسٹ تحریک کے کنٹرول میں ہیں، وہاں بھی یہ نظریات یونی ورسٹی لیول سے نیچے نصاب کا حصہ نہیں ہیں۔ وہاں یہ نظریات سوشل سائنسز یا وومن اسٹیڈیز و جینڈر اسٹڈیز کے گریجویٹ و انڈر گریجویٹ لیول کےمضامین میں شامل ہیں، لیکن دیگر مضامین پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ان کا مطالعہ لازمی نہیں۔ وہاں کے بہت سے ماہرین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انڈر گریجویٹ لیول کے سوشل سائنسز کے طالب علموں کو یہ تھیوریز بتا کر ان کا ذہن کیوں خراب کیا جا رہا ہے؟ طالب علموں کو یہ سکھانا کہ دنیا کو ظلم کی عینک سے کس طرح دیکھنا چاہیے، یہ صرف خطرناک ہی نہیں بلکہ خود ایک ظالمانہ فعل ہے۔ اس سے زیادہ ظلم کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ پروفیسرز حضرات آپ کو سوشیالوجی کے ہر سبق کا مطلب صرف یہ بتا رہے ہوں کہ آپ بحیثیت عورت ایک ’شکار‘ ہیں۔
یورپ اور امریکا کے ماہرین جن نظریات و تجربات کی حقیقت سمجھنے کے بعد انھیں عذاب قرار دے رہے ہیں، ہمارے مقامی لبرل و فیمنسٹ ماہرین، وہی تجربات دہرا کر اپنی قوم کو عذاب میں مبتلا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ ان تجربات سے شاید پاکستان اور اسلام کے دشمن تو خوش ہو جائیں لیکن ہماری مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور صحافتی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی پر آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمارے یہ ماہرین اس بات سے صرف نظر کیوںکر رہے ہیں کہ مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں جہاں جہاں فیمنسٹ تحریک کے زیراثر، کچھ عشرے پہلےقانون سازی ہوئی، وہاں سنگین قسم کی معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ اس قانون سازی کے تحت ہر شعبۂ زندگی میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ اہمیت اوراولیت دے دی گئی۔ ان کے خانگی قوانین میں شادی و طلاق کے امتیازی قوانین، بچوں کی حوالگی کے وقت عورت کی حمایت، عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیا دہ لمبی سزائیں، عورتوں کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ تعلیمی وظائف، عورتوں کی بیماریوں پر زیادہ فنڈز اور مردوں کی بیماریوں پر کم فنڈز مختص کرنے، عورتوں کےکہنے پر مردوں کو جبراً ناجائز بچوں کا والد قرار دینے، مردوں پر تشدد اور ریپ کے الزامات لگانے، تعلیمی امتیازات اور کئی دوسرے امتیازات شامل ہیں۔
ان امتیازی قوانین سے سفید فام مردوں میں ’مردانگی کا بحران‘ پیدا ہو گیا ہے۔ نتیجتاً وہ بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ عمل اب 'مردوں کےحقوق کی تحریک 'کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آپ غور کریں کہ جب کسی ملک اور قوم کے تمام مرد اور عورتیں اپنے اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے تو کون کس کو حقوق دے گا؟ دونوں اصناف ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوںگی تو آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت کون کرے گا؟ اس طرح توخاندانی نظام کی تباہی سے انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ نسائی حقوق کے ماہرین اور مردوں کے حقوق کے ماہرین یہ بات سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ایک صنف کے حقوق کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے دوسری صنف پر مرتب ہونے والے اثرات کو جانے اور سمجھے بغیر آپ جو کام بھی کریں گے، کبھی انسانیت پر اس کے مثبت اور دیرپا اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔
حکومت پاکستان اور وزارت تعلیم سے گزارش ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں اعلان کردہ نکات اور رہنما اصولوں کی روشنی میں تمام صوبوں کے نصاب تعلیم کو فوری پر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے اور اس میں سے لبرل، سیکولر اور فیمنسٹ نظریات کے حامل مواد کو خارج کیا جائے۔ حکومت اس عہد کی پابندی کرے کہ وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق یہاں کے عوام کو انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق بسر کرنے کی سہولیات بہم پہنچائے گی، اور بین الاقوامی سطح پر ایسا کوئی معاہدہ نہ کرے گی، جو اسلام اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہو۔
عصرحاضرکے پاور اسٹرکچر میں عسکری، معاشی اور علمی طاقت کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی طاقت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ روایتی جنگیں مخصوص اوقات اور مقامات پر لڑی جاتی تھیں، لیکن آج کے دور کی جنگیں ہر وقت اور ہر مقام پر لڑی جا رہی ہیں۔ ان جنگوں میں سائنس و ٹکنالوجی کے علاوہ میڈیا بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عسکری طاقت جہاں انسانوں کا وجود مٹانے کے لیے استعمال ہورہی ہے وہاں میڈیا کی طاقت کو انسانوں کے اذہان اور اعتقاد کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے نظریات اور خیالات تبدیل کرنے کے لیے میڈیا ایک ایسی جنگ مسلط کرتا ہے، جس کی حقیقت کو جاننا بہت مشکل، لیکن بہت ضروری ہے۔
پچھلے چند عشروں میں مغربی میڈیا نے شناخت کے خلاف ایک ایسی جنگ چھیڑی ہے، جس کے متاثرین میں صرف دین اسلام کے پیروکار ہیں۔ اسلام دشمنی میں بڑے پیمانے پر ہیجان اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ، میڈیا ایک ذریعے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ میڈیا پر جرائم اور دہشت گردی کی رپورٹنگ کرتے وقت اسلامی اصطلاحات کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ایک منفی تاثر پیدا ہو۔ ان اصطلاحات کو دینی و مذہبی سیاق و سباق سے ہٹا کر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے اصل معنی و مفہوم پس منظر میں چلے جائیں اور میڈیا کے ذریعے تخلیق کردہ نئے معنی مقبول ہو جائیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے خلاف خوف پھیلانے کے لیے، میڈیا پر جو گمراہ کن بیان بازی اورغلط بیانی کی جاتی ہے اسے عرف عام میں ’اسلاموفوبیا‘ کہتے ہیں۔
اسلام کے اندر کئی مکاتب فکر، متنوع آبادیاںاور بے شمار ثقافتوں کے حامل افراد و گروہ موجود ہیں،جنھیں بنیادی عقائد اور ایمان کے حوالے سے تو ایک امت مسلمہ کہا جا سکتا ہے، لیکن ہرحوالے سے انھیں ایک عمومی شناخت کے اندر نہیں لایا جا سکتا۔ دنیا کے کسی اصول کے تحت بھی کسی ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کے اعمال کے ذمہ دار دیگر تمام افراد قرار نہیں دیے جاسکتے۔ لیکن اسلام کے تمام پیروکاروں کو ایک عمومی شناخت دیتے ہوئے، میڈیا جب کسی فرد یا چند افراد کے اعمال کا ذمہ دار پوری امت کو ٹھیراتا ہے تو یہ تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ملزم کی مذہبی شناخت پر بھی حملہ ہوتاہے۔
مثال کے طور پر نیویارک میں نائن الیون حملے کے چھے ماہ کے اندر مغربی میڈیا میں شائع ہونےوالے تمام مضامین اورخبروں میں حملہ آوروں کی شناخت مسلم کے طور پر بتائی گئی۔ اس عمل سے میڈیا نےاپنے وسائل اور اثر ورسوخ کی وسعت کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے تنوع اور امتیازات کو نظر انداز کرکے چند افراد کے جرم کو پوری امت مسلمہ کے سر پر ڈال دیا گیا۔ اس ’جنرلائزیشن‘ یا ’عمومیت‘ سے دانستہ طور پر متعدد منفی نتائج پیدا کیے گئے، لیکن ان میں سے سب سے اہم منفی نتیجہ ’اسلاموفوبیا‘ ہی ہے۔
پروفیسر رضا اصلان نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ جب آپ لوگ ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد کے مذہب کی بات کرتےہیں تو ان مسلمانوں کو ایک ہی برش سے رنگتے ہیں جو بہت آسان کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب نہ پُرامن ہوتا ہے اور نہ پُر تشدد۔ یہ سب تو کسی فرد یا چند افراد کا ذاتی فعل اور رویہ ہوتا ہے، جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوسکتے ہیں۔ جس طرح کسی عیسائی، یہودی، ہندو یا بدھ مذہب کے ماننے والوں کے کسی فعل کا ذمہ دار ان کا مذہب نہیں، اسی طرح کسی مسلمان کے فعل کا ذمہ دار بھی اس کا مذہب نہیں ہو سکتا۔ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ہر نظریہ اور عقیدہ کے ماننے والے کرتے ہیں، تاہم میڈیا مذہبی پس منظر کا ڈھول صرف اس وقت پیٹتا ہے، جب کوئی ملزم یا مجرم مسلمان ہوتا ہے۔ اگر یہی شخص کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا ہو تو اس کی مذہبی شناخت نہیں بتائی جاتی اور نہ اس پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ مثلاً دسمبر ۲۰۱۴ء میں امریکا کے سینڈی ہوک اسکول، نیو ٹاؤن میں حملہ آور سفید فام کیتھولک عیسائی تھا اور اس نے ۲۰ بچوں کو قتل کیا تھا لیکن میڈیا نے اس کی مذہبی شناخت اور پس منظر پر کوئی سوال نہیں اٹھایا‘‘۔
مغربی میڈیا کے تعصب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اس غلط فہمی کو تو پھیلا تا ہے کہ مسلمان حملہ آور ہیں، جن کا شکار دیگر لوگ ہیں۔ لیکن یہی میڈیا کبھی یہ نہیں بتاتا کہ کسی حملے کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ مثلاً جس روزپیرس میں داعش نے تخریبی کارروائی کی، اسی روز بیروت میں بھی ایک بم دھماکے میں ۴۳؍ افراد جاں بحق ہوئے جو تمام مسلمان تھے۔ بیروت کے واقعہ کا تذکرہ تو میڈیا میں کیا گیا لیکن اس کی تشہیر کی وہ سطح نہیں تھی جو پیرس میں ہونے والے المیے کی تھی۔ دوسری بات یہ کہ پیرس کے حملوں میں بار بار یہ بتایا جا رہا تھا کہ ’’حملہ آور، مذہب اسلام کے پیروکار تھے‘‘ لیکن بیروت کے مرنے والوں کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ بھی اسلام کے ماننے والے تھے۔ میڈیا رپورٹس میں غیر مسلموں کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے، لیکن مسلمانوں کے احترام کو نہیں۔ یہ رویہ’ اسلاموفوبیا ‘کے پھیلاؤ میں مدد فراہم کرتا ہے۔
نائن الیون کے بعد فورٹ ہڈ شوٹنگ، متعدد ائیرپورٹس پر دھماکے اور بوسٹن میراتھون بمبنگ، فرانس کے چارلی ہیبڈو حملے وغیرہ جیسے واقعات کو ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ توجہ ملی۔ یہاں مشتبہ افراد کی شناخت مسلمان کے طور پر بتائی گئی ،حالانکہ ملزمان کی مذہبی شناخت اور پس منظر کو اُجاگر کرنا خبر کا تقاضا نہیں تھا۔ اگر مذہبی شناخت کو بیان کرنا خبر کے لیے ضروری ہوتا تو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گرد ی میں بھی ان کی مذہبی شناخت بتائی جاتی لیکن ایسا ہرگز نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص جان دے کر دہشت گردی کی کارروائی کو روکنے کی کوشش کرے تو اس کی شناخت بھی نہیں بتائی جاتی، جیسے ۶جنوری ۲۰۱۴ءکو پاکستان کے ابراہیم زئی اسکول میں جب ایک خودکش بمبار نے اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی، تو پندرہ سال کے ایک طالب علم اعتزاز حسن بنگش نے دیکھتے ہی اس پر چھلانگ لگا دی۔ اعتزاز حسن کی جان کی قربانی سے سیکڑوں طالب علموں کی جانیں محفوظ رہیں۔ میڈیا کو چاہیے تھا کہ اعتزاز حسن کا مذہبی پس منظر بیان کرتا اور بتاتا کہ اسلام کے ایک پیروکار نے جان دے کر خود کش بمبار کے دھماکے کی وسیع تباہی کو کیسے ناکام بنایا۔ لیکن مغربی میڈیا نے اس کی مذہبی شناخت کا اظہار تو درکنار اس کی قربانی کا اعتراف کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس سے میڈیا کا تعصب واضح ہوتا ہے کہ وہ صرف ان واقعات کو ہی اُجاگر کرتا ہے ،جو اس کے پروپیگنڈے کی حمایت اور ’اسلاموفوبیا‘ کے لیے دلیل کے طورپر پیش ہو سکتے ہیں۔
اسلام سے وابستہ امور کی میڈیا کوریج، اس صدی کے آغاز سے ہی مقدارو معیار کےلحاظ سے، ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکا کے زیر قیادت ’وار آن ٹیرر‘ (دہشت گردی کے خلاف جنگ) کےدوران پوری دنیا میں سب سے زیادہ پھیلایاجانے والا گمراہ کن تصور یہ ہے کہ ’’امت مسلمہ انسانیت کی ایک باغی جماعت ہے۔ مسلمان ہونے کا لازمی مطلب عسکریت پسند یا دہشت گرد ہونا ہے، کیونکہ مذہب اسلام دہشت گردی کی نمایندگی کرتا ہے‘‘۔
مغرب سمیت دنیا بھر میں اس موضوع پر ہونے والی تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسلام سے متعلق خبروں کی اشاعت و تشہیر (coverage) کے دوران استعمال کی جانے والی اسلامی اصطلاحات کی، ابلاغی اداروں کی تعبیر سے اسکالراور مذہبی ماہرین اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب ان اصطلاحات کو ان کے اصل مفہوم کی پروا کیے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ اصطلاحات اپنے اصل معنی کھو کر میڈیا کی تعبیر کا رُوپ دھار لیتی ہیں، اور لوگ اصل مفہوم پر غور کیے بغیر میڈیا کے تخلیق کردہ مطالب کو درست مان لیتے ہیں۔
ان محققین کا استدلال ہے کہ اسلام سے متعلق اصطلاحات کو منفی معنوں میں بیان کرنے سے مسلمانوں کے بارے میں ایک تعصب اور نفرت ابھارنے کا عمل تقویت پاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد میڈیا نے اسلام سے متعلق خبروں پر جن مختلف اصطلاحات کوتخلیق کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ توجہ دی ہے، ان میں ’اسلامی دہشت گردی‘، ’اسلامی جنونیت‘، ’مسلم انتہا پسندی‘ اور ’سیاسی اسلام‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اسلام کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کے رجحان کے ساتھ جب کسی خبر کی تفصیل میں اس قسم کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں، تو وہ میڈیا کے متن کا ایک حصہ بن جاتی ہیں۔ اور ان کی غلط تعبیر پیش کرنے کے نتیجے میں میڈیا، اسلام کے بارے میں گمراہ کن تصورات اور ایک منفی منظر کشی کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
بہت سی تحقیقات میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دی جانے والی خبروں میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے، وہ بھی زیادہ تر مسخ شدہ ہوتی ہے۔ یہ تحقیقات زیادہ تر امریکا، برطانیہ اور یورپی میڈیا کے بارے میں کی گئی ہیں۔ سلطان(۲۰۱۶ء) نے ایک تحقیق میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ مغرب میں پایا جانے والا ایسا بے شمار مواد دستیاب ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ حقائق کو مسخ شدہ انداز سے پیش کرکے اسلام کی منفی تصویر کشی کی گئی ہے۔ میڈیا نے جو نظریات اور خیالات اسلام سے منسوب کیے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کاحصہ معلوم ہوتے ہیں۔
سمیع اور مالمیر(۲۰۱۷ء) نے ایک تحقیق میں یہ مطالعہ پیش کیا ہے کہ امریکی میڈیا میں ۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک جو نیوز اسٹوریز شائع ہوئیں، ان میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں لکھے گئے ۶ لاکھ ۷۰ہزار الفاظ میں اسلام اور مسلمانوں کو ’بنیاد پرست‘ اور ’عسکریت پسند‘ پیش کرتے ہوئے ان نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا کہ ’اسلام اور مسلمان تشددپسند‘ ہوتے ہیں۔
بیکر، گیبریلاٹوس اور میکنیری (۲۰۱۳ء) نے برطانیہ میں۱۹۹۸ء سے لے کر ۲۰۰۹ء تک شائع ہونے والے ساڑھے چودہ کروڑ الفاظ پر مشتمل مختلف مضامین کا تجزیہ کیا، جن میں قومی و نسلی شناخت، مختلف ثقافتی و مذہبی امور، کمیونٹیز، گروہوں اور تنازعات کے بارے میں متضاد خیالات و تصورات پر مبنی حوالہ جات تھے۔ مسلم دنیا اور مسلم معاشروں اور مغرب کے درمیان پائے جانے والے امتیازات و اختلافات کو اسلام اور مغرب کے تصادم کے طورپر پیش کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ’’ یہ 'ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں اور بڑے تصادم کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کی جو شکل پیش کی گئی، اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ’’مسلمان دہشت گردوں کے لیے ہمدردری اور نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ معاشی طورپر پس ماندہ اور قدامت پسند ہیں‘‘۔ ان مضامین میں مسلمانوں کو جس طرح پیش کیا گیا، اسے پڑھنے کے بعد مسلم معاشروں اور مسلمانوں میں یقینی طورپر جذباتی تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔
سعید(۲۰۰۷ء) نے ایک تحقیق میں استدلال کیا کہ ’’برطانوی میڈیا میں مسلمان شہریوں کو غیر ملکی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘‘۔ میڈیا کی اس غلط بیانی کا تعلق ’اسلاموفوبیا‘ سے ہے، جس کی جڑیں ثقافتی اختلافات میں ہیں۔ اس تحقیق نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ’’مغرب میں اگر کوئی غیر مسلم تشدد کرتا ہوا نظر آئے، تو اسے ’گھریلو تشدد‘ قرار دے کر انفرادی مسائل اور پریشانی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جب کہ یہی تشدد اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے وقوع پذیر ہو، تو اسے اسلامی اور عالمی دہشت گردی کے گروپوں سے جوڑا جاتا ہے۔ اس طرح کی متعصبانہ رپورٹنگ سے میڈیا ویورز کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور اسلام کے بارے میں گمراہ کن خیالات کی اشاعت کو فروغ ملتا ہے‘‘۔
اسلام سے متعلق سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات ’اسلام پسند‘،’قدامت پسند‘، ’جنگ جو‘ ، ’انتہا پسندی‘، ’دہشت گردی‘، ’تشدد‘ اور’عسکریت پسندی‘ ہیں۔ ان میں ’اسلام پسند‘ کی اصطلاح 'دہشت گردی کے مترادف ہے اور ’دہشت گردی‘ کے تناظر میں لکھے گئے تمام مضامین میں اس کو اسی مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جون ۲۰۱۸ء کو بی بی سی کی ایک رپورٹ میں اصل خبر کا یہ نتیجہ اخذ کرکے بتایا گیا کہ ’’ سیکورٹی اداروں کی توقع ہے کہ اسلام پسند دہشت گردی کا خطرہ اب بھی برقرار ہے اور کم از کم دو مزید برسوں تک اس کی شدت کی سطح برقرار رہے گی‘‘ (دہشت گردی کی حکمت عملی، ۲۰۱۸ء،ص۳)۔ اسی طرح روزنامہ دی گارڈین ،لندن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ایک عالمی انتہا پسند تحریک جو اَب بھی جاری ہے، اس سے دنیا کو خطرات لاحق رہیں گے‘‘ ( برک ۲۰۱۹ء، ص۱)۔ ان رپورٹوں کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں ’اسلام پسند‘ کا لفظ 'دہشت گرد کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ ۳جون۲۰۱۸ء کو دی گارڈین نے ایک خبر دی کہ ’’برطانیہ کو اسلام پسندوں کی اسلامی دہشت گردی سے سخت خطرے کا سامنا ہے‘‘ (پریس ایسوسی ایشن، ۲۰۱۸ء، ص۱) یعنی ’’اسلام، امن کے لیے خطرہ ہے‘‘۔
ایک اور مسئلہ ’اللہ اکبر‘ کی اصطلاح کو نامناسب ہدف بنانے کا بھی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں یہ مقدس الفاظ ہیں، جب کہ مغربی میڈیا اس اصطلاح کو ایک ایسے نعرے کے طورپر پیش کرتا ہے، جسے دہشت گردی کی کارروائی کرنے والے لوگ اپنے ہدف سے نفرت کے اظہار کےطورپر لگاتے ہیں۔ مقدس الفاظ کو نفرت کے اظہار کے طورپر پیش کرنا ایک شدید غلط فہمی اور گمراہی کا نتیجہ ہے۔ مثلاً الجزیرہ نے ایک چینی سیاسی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’انھوں نے جہادمیں شہادت اور جنت کے حصول کے وقت نفرت انگیز الفاظ اونچی زبان میں دہرائے‘‘ (China Says 2019, p.3)۔
جیکبسن(۲۰۱۲ء) نے ایک تحقیق میں استدلال کیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے صرف باہر سے حملے نہیں کیے جا تے بلکہ مسلمانوں کے معاشروں اور مسلمان ناموں والوں کے ہاتھوں بھی حملے کرائے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی غرض سے مسلمانوں میں سے ہی کچھ ایسےلوگ تیار کیے گئے ہیں جو مغرب کی ایما پر اپنے آپ کو ’اعتدال پسند‘، ’جدید‘ یا ’لبرل‘ مسلمان کہتے ہیں۔ ان اصطلاحات کے استعمال کا مقصد بالواسطہ طور پر عوام کو یہ باور کرانا ہوتاہے کہ اسلام کا ایک ورژن جدید اور اعتدال پسند ہے اور اس کے علاوہ پورا اسلام ’’انتہاپسند اور دہشت گرد ہے‘‘۔ ان اصطلاحات سے دنیا بھر کے غیر مسلم عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ’’اعتدال پسند مسلمان اچھے، مغرب نواز اور جنگ میں مغرب کا ساتھ دینے والے ہیں،جب کہ دیگر سب مسلمان ہمارے دشمن ہیں اوران سے جنگ کرکے انھیں ختم کرنا جائز اورقانونی عمل ہے‘‘۔
اسلام کو پس ماندہ اور جدید و قدیم تصورات میں منقسم مذہب ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا، مسلم خواتین کو دو باہم متحارب گروہوں میں پیش کرتا ہے۔ مسلم خواتین کے ایک گروہ کوانتہائی پس ماندہ، مردوں کے ظلم و ستم کا شکار اور دوسرے گروہ کو انتہائی مضبوط، مردوں کی برابری اور مقابلہ کرنے والی ’فیمنسٹ وومنز‘ (خود اختیاریت پسند مسلم خواتین) کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس طرح مغربی میڈیا اسلامی عقائد اور تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے مسلم عورت کی ’مظلومیت‘ کا رونا روتا ہے اور انھیں بغاوت پر اکساتے ہوئے اپنی حمایت اورمدد کا یقین دلاتا ہے۔
مغرب، مسلم خواتین کی سماجی آزادی و خود مختاری کو مذہب سے آزادی کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئےاس مقصد کے حصول کے لیے جدید، لبرل مسلم مردصحافیوں، دانش وروں اور سیاست دانوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔ اسلامی اقدار پر عمل کرنے والی خواتین کی کردارکشی اور ان سے امتیازی سلوک کرنے کی غرض سے مغربی میڈیا ان کے لیے جو اصطلاحات استعمال کرتا ہے، جن میں مردوں سےپٹنے والیاں، گالیاں کھانے والیاں، پردے والیاں، نفرت کا شکار عورتیں، آزادی سے بے پروا عورتیں، حقوق سے نابلد خواتین اور انتہا پسند مسلم خواتین وغیرہ شامل ہیں۔
محمد جنید غوری (۲۰۱۹ء) نے اپنے تحقیقی پراجیکٹ میں آسٹریلیا کے اخبارات کے ایک سال (۲۰۱۶-۲۰۱۷ء) کے اداریوں کے نمونے جمع کیے۔ اس مطالعےکے بعد ڈاکٹر غوری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’آسٹریلیا کے صرف ایک مشہور اخباردی ایج' کے اداریوں میں مسلمانوں کے خلاف سال بھر میں جس نفرت کا اظہار کیا گیا، اتنی نفرت کا اظہارشاید کسی میڈیا نے نہیں کیا ہوگا۔ اس اخبار کے اداریے ' اسلامی ریاست پر ہتھوڑا چلایا جائے، اور دیگر اداریوں میں مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کے اظہار کے لیے جو اصطلاحات استعمال کیں وہ یہ ہیں:
اسلامی شیطانی ریاست، نام نہاد خلافت، جہادی جعلی دعوے، اسلامی ریاست کے جنگجو، جہادی بھرتی، ناقابلِ برداشت جہادی، بنیاد پرست اسلامی طریقے، مذہبی غلامی، نام نہاد مذہبی آدرش، اسلامی خوف، عالمی اسلامی غم و غصہ، غیر منصفانہ متحرک لوگ، عالمی غم و غصے کے امین، مشتبہ اسلامی برادری، خونخوار اسلامی لاشیں، نفرت انگیز اسلامی مبلغین، اسلامی جہادی تارکین وطن، ہولناک اسلامی تبلیغی نفرت، انسانی حقوق کے دشمن، عالمی اسلامی بحران، خود ساختہ مسلم ائمہ، جہادی ملاؤں کا ٹولہ، بنیاد پرست پیغام رساں، مذہبی دعوؤں کے برے اعمال، مجرمانہ اسلامی عقیدے، مسلم ہجوم، فریب خوردہ مسلم، جنونی بوڑھے مسلمان، قرون وسطیٰ کے باسی، بدنظمی کے اسلامی مراکز (مساجد)، موت کے اسلامی گلے، آبائی اسلام پسند گروہ، بھڑک اٹھنے والے مسلم جہادی، اسلامی بھرتی زون، اسلامی شورش پسند، جنونی بندوق بردار، اسلامی جہادی لعنت وغیرہ۔
سان اور سبلی(۲۰۱۸ء) نے اس بات پر تحقیق کی کہ مذہبی تعلیمات کو فلموں میں کس طرح پیش کیا جاتا ہے؟ اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ کچھ فلموں میں مذہبی تعلیمات، عبادات، اخلاقی اقدار، بزرگوں اور والدین کے ساتھ حُسن سلوک وغیرہ کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا تاکہ معاشرے کی ان مثبت خطوط پر تربیت کی جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی تحقیق میں برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۶ء تک شائع ہونے والے ۸لاکھ مضامین اور مراسلوں کا مطالعہ بھی کیا گیا، جن میں مذہبی تعلیمات کو معاشرے کے مفاد میں مثبت انداز سے پیش کیا گیا تھا۔ اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ’’اگر میڈیا چاہے تو دیگر مذاہب کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی متوازن تصویر پیش کرکے اسلامی تعلیمات کو بھی سوسائٹی کے مفاد میں استعمال کر سکتا ہے، لیکن اسلاموفوبیا سے متاثر میڈیا ہاؤسز کی اکثریت ایسا نہیں کرتی‘‘۔
اسلام سے متعلق اصطلاحات کو غلط رنگ اور منفی معنوں میں پیش کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری صحافیوں پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس یا کسی اور ادارے پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ خبر کا متن نیوز روم میں تیار ہوتا ہے اور اس کی زبان اور بیان کے ذمہ دار صحافی اور میڈیا ہاوس ہوتے ہیں (اور صحافی اپنے آپ کو ایک مقدس اورسوال و جواب سے بالاتر مخلوق کے طور پر پیش کرکے، دوسروں کا منہ بند کردیتے ہیں )۔ ان اصطلاحات کو غلط رنگ دینے کا فیصلہ صحافیوں، ایڈیٹر اور میڈیا مالکان کا ہوتا ہے۔ خبر کی اشاعت سے قبل کے تشکیلی، تکمیلی، اوراشاعتی عمل میں کئی ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں۔ خبروں اور مضامین کے متن لکھے جاتے ہیں، پھر پروف ریڈنگ ہوتی ہے، ان میں اضافہ اور ترامیم ہوتی ہیں اور پھر ایڈیٹر کی منظوری کے بعد ان کی اشاعت ہوتی ہے۔
کئی عشروں سے اسلام کے بارے میں ایک عمومی نفرت و حقارت پھیلانے اور خبروں کی سرخیوں میں اسلام کے لیے ’انتہاپسند‘ اور ’ریڈیکل مذہب‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ مغرب کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ اگر یہ سوچاسمجھا منصوبہ نہ ہوتا تو ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ جیسی اصطلاحات کو پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھ اضافی طور پر اسلام کا اسم صفت لگاکر کیا مقاصد حاصل کرنا پیش نظر ہیں؟
میڈیا لٹریچر پر کام کرنے والے بہت سے غیر جانب دار محققین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خبریں محض کسی عنوان پر حقائق پھیلانے کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ عوام کو آگاہ رکھنے کی ایک ایسی خدمت ہے، جس سے عوام کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کی تربیت بھی دی جا سکتی ہے۔ لیکن مغرب یا سیکولر مسلم ملکوں اور حلقوں کے ہاتھوں میڈیا نے انفارمیشن کے نام پر ڈس انفارمیشن کا طوق ہمارے گلے میں ڈال رکھاہے۔ جو لوگ معلومات اور تعلیم و تربیت کے لیے صرف میڈیا پر انحصار کرتے ہیں، ان کوآج کے ماحول میں گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مگریہاںپر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورتِ حال کو جوں کا توں قبول کرلیاجائے یا اس کی بہتری کی کوششیں کی جائیں؟
1. Jacobbsen, S. J (2012) "Analysis of Danish Media Setting and Framing of Muslim, Islam and Racism".
2. Conete, D. (2009) "Women: Strained Stereotypes". Source Link
. Hussain, Tooba "The Media’s Portrayal of Islam, An Analysis of Methods and Implications". Source Link
4. Younes, Zein, Bani (2020) "A Pragmatic Analysis of Islam-related Terminologies in Selected Eastern & Western Mass Media". Source Link
5. Baker, PGabrielatos (2013) "Sketching Muslims: A Corpus Driven Analysis of Representations around the World".
6. Saeed, A (2007) "Media, Racism and Islamophobia: The Representation of Islam and Muslims in the Media".
7. Sultan, K (2016) "Linking Islam with Terrorism: A Review of the Media Framing since 9/11 Global Media Journal
8. Hassan, F. & Sabli (2018) "Islam as a Way of Life: The Representation of Islamic Teaching in Non-Islamic film". Source Link
جدید قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں یورپ میں آسٹریا، برطانیہ، فرانس، ہنگری، روس، پرتگال اور اسپین کی سلطنتیں اور بادشاہتیں قائم تھیں۔ دوسری جانب مسلم دنیا میں خلافت عثمانیہ، ایرانی سلطنت اور ہندستان میں زوال پذیر مغلیہ سلطنت وغیرہ مشہور تھیں اور ان کے علاوہ کئی اور بھی چھوٹی بادشاہتیں موجود تھیں۔ قومی تحریکیں اس تصور پر اٹھیں کہ روایتی سلطنتوں اور باشاہتوں میں ایک خاندان یا نسلی گروہ کا تمام وسائل پر تسلط ہوتا ہے اور ریاست کے وسائل پر وہاں کے عوام کو تصرف کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے برعکس ’’ قومی ریاستیں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں قومی اتحاد کے اصول کے تحت تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی حقوق دیں گی‘‘۔ لیکن قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد ریاستوں میں کمزور علاقوں کے وسائل پر قبضے کی مسابقت شروع ہو گئی۔ اس طرح ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں بے شمار کمزور اقوام کو غلام بنا کر انھیں نوآبادیاتی کالونیوں کی شکل دے دی۔
طاقت ور اقوام میں معاشی مسابقت اور کمزور اقوام پر قبضے کی ہوس، جنگ عظیم اول، دوم کی ہولناک جنگوں کی شکل اختیار کر گئی، جس میں لاکھوں معصوم افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان ہولناک جنگوں کے بعد قومی ریاستوں نے انسانیت کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے والاجدید اسلحہ، جبر، تشدد، دہشت گردی، منافرت، لسانیت، فرقہ واریت، ماحولیاتی آلودگی، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں، مہنگائی، بے روزگاری، جنسی بے راہروی، خاندانی نظام کی تباہی، جرائم، خودکشی، جیلوں میں اذیت ناک ماحول اور انسانیت سوز سزائیں اور درندگی و بہیمیت کے نہ جانے کیا کیا تحفے دیے۔ اس حیوانیت میں سب سے بڑا عذاب انسانوں کو 'بے ریاست (stranded) کرنے کا ہے۔
بے ریاستی کی بنیادی قسم یہ ہے کہ کسی قوم کے افراد سے ان کی ریاست چھین کر انھیں بے ریاست کیا جاتا ہے اور ان کی ریاست پر کوئی دوسری طاقت قبضہ کر لیتی ہے۔ سامراجی دور میں برطانیہ، فرانس، روس اور کئی دیگر طاقت ور ریاستوں نے جب اپنی سرزمین سے باہر اثر و رسوخ بڑھاکر ان نوآبادیاتی علاقوں کی خودمختاری ختم کردی تووہ قومیں بے ریاست ہو گئیں۔ پھر بہت سی قومیں اس وقت بھی بے ریاست ہو گئیں، جب سامراجی طاقتوں نے اپنی بدانتظامی کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں سے بوریا بستر لپیٹا اور اپنے مستقبل کے مفادات کے تحت بہت سی قوموں کے جغرافیے کو کئی ممالک میں تقسیم کر دیا۔ اس طرح کئی اقوام مختلف ممالک کے اندر ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئیں۔
بے ریاستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سامراج نےقبضہ ختم کرتے وقت جان بوجھ کر کچھ چھوٹی ریاستوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تاکہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ سودے بازی کرکے ان پر قبضہ کروایا جا سکے۔ پنجاب مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ ہندستان اور پاکستان میں اس طرح بانٹ دیا گیا کہ پاکستان کے آبی وسائل (یعنی دریائے بیاس، ستلج، راوی مکمل طور پر اور چناب جزوی طور پر) ہندستان کے کنڑول میں رہیں اور بوقت ضرورت ہندستان پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرنے کا حق رکھے۔ ہندستان کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کشمیر، حیدر آباد دکن، جونا گڑھ وغیرہ پر قبضہ کر ے اور کئی دیگر چھوٹی قوموں مثلاً مسلمان، سکھ اور گورکھوں وغیرہ کو خود مختاری نہ دے۔ سلطنت ِعثمانیہ کو کئی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور فلسطینیوں کو اپنے علاقے سے بے دخل کرکے وہاں ایک غیر قانونی ریاست اسرائیل کی شکل میں قائم کر دی گئی۔ اسی طرح سنکیانگ کو چین نے اپنی ریاست میں ضم کرلیا، روہنگیا مسلمان، میانمار کے قبضے میں آگئے، کردوں کو ایران، شام، ترکی اور عراق میں تقسیم کر دیا گیا۔
۱۹۷۱ء میں جب سقوط ڈھاکہ ہوا اور بنگلہ دیش ایک الگ ملک بن گیا تو ۳ سے ۵ لاکھ بہاریوں کو بے ریاست کر دیا گیا جو آج تک کیمپوں میں پناہ گزینوں اور بے وطن پاکستانیوں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا کہ چونکہ بنگلہ دیش، مشرقی پاکستان کی جانشینی ریاست ہے اس لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہاری ہم وطنوں کو اپنی ریاست میں شامل کرے جیسے مغربی پاکستان نے اس خطے میں رہایش پذیر تمام اقوام کو ریاست پاکستان میں شامل کیا، لیکن بنگلہ دیش نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اسی طرح نیپال میں ایک لاکھ سے زیادہ بھوٹانی پناہ گزین ہیں جن کے پاس نہ بھوٹانی شہریت ہے اور نہ نیپال ان کو اپنا شہری تسلیم کرتا ہے۔
بے ریاستی کی ایک بڑی وجہ وہ امتیازی سلوک ہے، جو کچھ ریاستیں اپنے مخصوص شہریوں سے ان کی نسل، رنگ، زبان، مذہب یا ثقافت کی بنیاد پر روا رکھتی ہیں اورجس کی بنیاد پر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں کو ملکی شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمے کے بارے میں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء کو کہا تھا کہ ’’نسل، رنگ، قوم، زبان یا مذہب کی بنیاد پر شہریت سے محروم کرنا اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جو تمام ریاستوں نے کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کو یقینی بنائیں گی‘‘۔ لیکن بہت ساری طاقت ور ریاستیں اقوام متحدہ کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتیں اور اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔
قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل قومیت اور شہریت کے سخت قوانین موجود نہیں تھے۔ اس لیے لوگ دنیا کے کسی بھی خطے میں آسانی سے جا کر رہایش اختیار کرسکتے تھے۔ اس کے باوجود بے شمار ایسی قومیں بھی تھیں جن کی اپنی کوئی الگ ریاست نہیں تھی لیکن پھر بھی انھیں اپنے رہایش پذیر علاقوں میں تمام سہولتوں سے فیض یاب ہونے کی سہولتیں میسر تھیں۔ لیکن اب ایسی پس ماندہ قوموں کو اپنے ہی علاقے میں بے ریاست کرکے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔
بے ریاست شہریوں کی شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور اس وجہ سے انھیں جایداد رکھنے، بنک اکاؤنٹ کھولنے اور بیرونِ ملک سفر کے لیے پاسپورٹ رکھنے جیسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی افراد کو طویل عرصے تک حراست میں رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ کون ہیں اور ان کا تعلق کس خطے سے ہے؟ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ ۲۰لاکھ لوگ ایسے ہیں، جو اپنے ہی علاقے میں اجنبی بن گئے ہیں۔ یہ لوگ جس ملک میں پیدا ہوئے، جہاں پرورش پائی وہی ملک ان سے کسی نسلی یا مذہبی امتیاز کی بنا پر شہریت کی پہچان دینے سے انکار کرتا ہے۔ایسے بنیادی حقوق سے محروم لوگوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔
۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے بے ریاست افراد کے ساتھ کم سے کم معیار کا سلوک قائم کرنے کے لیے ایک کنونشن منظور کیا گیا، جو بے ریاست افراد کو تعلیم، روزگار، رہایش، شناخت، سفری دستاویزات اور انتظامی مدد کا حق دیتا ہے۔ ۱۹۶۱ء میں ایک نیا کنونشن لایا گیا، جس میں شہریت کے لیے ہر بے ریاست فرد کے حقوق یقینی بنانے کے لیے، ایک بین الاقوامی فریم ورک قائم کیا گیا۔ اس کنونشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’اگر والدین نے کوئی دوسری قومیت حاصل نہیں کی تو بچوں کو اسی ملک کی شہریت حاصل ہوگی جس میں وہ پیدا ہوئے ہیں‘‘۔ اسی طرح یہ کنونشن بے ریاستی کی روک تھام کے لیے اہم حفاظتی اقدامات کا تعین بھی کرتا ہے۔ دنیا کے ۶۶ملکوں نے ابھی تک اقوام متحدہ کے ۱۹۵۴ء کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں بے ریاست افراد کے ساتھ برتاؤ کے کم سے کم معیار مقرر کیے گئے ہیں۔ جب کہ صرف ۳۸ ممالک اقوامِ متحدہ کے ۱۹۶۱ءکے کنونشن کے ارکان ہیں، جس میں بے ریاست افراد کی بے وطنی کم کرنے کے لیے قانونی دائرۂ کار کا تعین کیا گیا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار نے اقوام متحدہ کے ان کنونشنوں پر دستخط نہیں کیے۔
یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں کی آمد سے قبل ایشیا میں جغرافیائی سرحدوں کا کوئی واضح تعین نہیں تھا۔ اس وقت علاقائی سطح پر ترک وطن عام تھا کیونکہ خود مختار نوابی ریاستوں کے مابین غیر واضح اور ڈھیلی ڈھالی سرحدیں تھیں۔ قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد اب دنیا میں کوئی ایک چپہ بھی ایسا نہیں ہے، جو کسی ریاست کے قبضے سے باہر ہو اور جہاں کوئی بے ریاست قوم یا گروہ تصرف حاصل کر سکتا ہو۔ جنوبی ایشیا کے ممالک نے انتہائی معمولی یا کسی بھی ترمیم کے بغیر ہی زیادہ تر وہی قوانین اپنا لیے، جو پہلے سے موجود اور نوآبادیاتی طاقتوں کے بنائے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے شہریت سے متعلقہ قوانین کے باعث بھی کئی مسائل پیدا ہوئے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں آج بھی کئی ملین انسانوں کے پاس ایسی قانونی دستاویزات موجود ہی نہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی مقامی شہریت ثابت کر سکیں۔ وہ جنھیں بے وطن قرار دیا جاتا ہے، زیادہ تر ترک وطن یا نقل مکانی کے پس منظر والے ایسے غریب انسان ہیں، جن کی اپنی کوئی زمینیں یا دیگر املاک نہیں۔
بھارت نے آسام میں 'شہریوں کے قومی رجسٹریشن، یا این آر سی کی تازہ فہرست جاری کی ہے، جس میں آسام میں عشروں سے رہنے والے مسلمان شہریوں کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس طرح غیر قانونی اور غیر ملکی قرار دیے جانے والے ۲۰ لاکھ افراد عملی طور پر بے وطن ہو چکے ہیں اور اگر وہ اپیل کرنے کے بعد بھی اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے تو انھیں ملک بدری، گرفتاریوں اور حراست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ستمبر میں اپنے دورۂ آسام کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ان در اندازوں کو اٹھاکر خلیج بنگال میں پھینک دے گی‘‘۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ قانون باہر سے آنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو تو سہولت دیتا ہے لیکن یہ قانون بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے، ان سے 'انتقام ' لیا جائے گا اور 'سرکاری املاک کے ہرجانے کے طور پر ان کی جایداد کی قرقی کی جائے گی۔ اس طرح صدیوں سے آباد مسلمانوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔
بھارت کی موجودہ ہندو انتہاپسند حکومت آسامی مسلمانوں کی طرح کشمیر یوں کو بھی بے وطن کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے وطن کیا۔
بھارت کی طرح میانمار کی فوج نے بھی سخت مظالم ڈھاتے ہوئے چھے لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں وہ رخائن ریاست میں رہایش پذیر تھے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ان مسلمانوں کے گھر بار، گاؤں، مویشی جانور اور کھیت نذر آتش کر دیے گئے ہیں تاکہ وہ ملک میں واپس نہ آئیں۔ وہ روہنگیا مسلمان جو ان مظالم سے بچنے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش جانے کی کوشش کرتے ہیں، میانمار کے حکام سیکورٹی نافذ کرنے کے لیے آپریشن کے نام پر ان شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں اورعورتوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے تعینات سفیر کے مطابق اکتوبر سے لے کر اب تک چھے لاکھ افراد سرحد عبور کر کے میانمار سے بنگلہ دیش داخل ہو چکے ہیں۔ ان روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک ہفتے سے زائد عرصے تک غذا کے بغیر پیدل چلنا پڑا، جس کے بعد بالآخر وہ بنگلہ دیش تک پہنچے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق میانمار کے سیکورٹی اہلکاروں نے جان بوجھ کر روہنگیا پناہ گزینوں کے سرحدی راستے میں بارودی سرنگیں نصب کر دی تھیں، جس سے ان بے خانماں لوگوں کا سفر اور بھی خطرناک ہوگیا تھا۔پھر خود بنگلہ دیشی حکومت نے بھی بے شمارروہنگیا مسلمانوں کو کھلے سمندر میں ڈوبنے اور مرنے پر مجبور کیا۔
ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق ۲۴؍ اگست سے اب تک ۲۸کشتیاں ڈوب چکی ہیں جن میں ۱۸۴؍ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت بحث کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’روہنگیا مسلمانوں کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کریں گے جہاں ۸۰ہزار روہنگیا کو رہنے کی جگہ میسر ہو سکے گی‘‘۔ پناہ گزین کے مطابق رخائن ریاست میں کھانے کی قلت کی وجہ سے ان کو بھاگنا پڑا تھا کیونکہ وہاں موجود کھانے کی دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کیمپوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب خواتین موجود ہیں جو ماں بننے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے ۲۴ہزار خواتین حاملہ ہیں اور ان کے پاس سڑک پر اولاد جنم دینے کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
روہنگیا اور آسامی مسلمانوں کی طرح فلسطینی مسلمان بھی اس وقت پناہ گزینی اور بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ برطانوی سامراج نے جب فرانس اور امریکا کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے، تو یورپ کے لاکھوں یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر لا کر بسایا۔ ان یہودیوں نے سامراج کی پشت پناہی سے اسرائیل کی غیر قانونی ریاست قائم کی، اور اس میں توسیع کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو صدیوں سے رہایش پذیر علاقوں سے بے دخل کرکے بے ریاست کر دیا۔ اس وقت دو لاکھ سے زائد فلسطینی یورپ میں پناہ گزین ہیں اور باقی ماندہ اُردن، لبنان، شام اور غزہ کی پٹی میں بے وطن ہیں۔ جن علاقوں میں فلسطینی رہایش پذیر ہیں، عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ وہاں کے شہری ہیں حالانکہ وہ وہاں پناہ گزیں کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کو ’اوسلو معاہدے‘ کے تحت فلسطینی پاسپورٹ جاری کر دیے گئے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی قانونی حیثیت کو ۲۰۱۸ء میں کسی حد تک تسلیم کیا گیا تھا۔ کچھ ممالک ان کی سفری دستاویزات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی فلسطینی شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا کیونکہ صرف ان شہریوں کی شہریت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی باقاعدہ ریاست کے شہری ہوتے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں ہے۔ یہ ۲۰۱۲ء سے اقوام متحدہ کی محض Nonmember Observer State ہے اور اسے بہت سارے ممالک نے تسلیم نہیں کیا ہے، لہٰذا فلسطینی جہاں بھی رہایش پذیر ہیں بے وطن اور بے ریاست ہیں۔
دنیا کی طاقت ور ریاستوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ کر دیا گیاہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ طاقت ور قوموں کی طرف سے کمزور قوموں کے ساتھ غلامانہ سلوک کیا جارہا ہے اور بین الاقوامی فیصلہ سازی میں اس کی گنجایش موجود ہے۔ جب کوئی طاقت ور ریاست اپنے شہریوں کو حقوق شہریت سے محروم کر دیتی ہے تو خود بخود وہ تمام دیگر قانونی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور جب طاقت ور ریاستیں دیگر کمزور ریاستوں پر دھونس ڈالتی ہیں کہ وہ ان بے ریاست شہریوں کو پناہ گزیں کے طور پر ملک میں نہ گھسنے دیں تو ان لوگوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکا اور دیگر طاقتوں نے جن لوگوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر گوانتاناموبے جیل، برطانیہ کی بل مارش جیل، عراق کی ابوغریب جیل اور افغانستان کی بٹگرام جیل میں ڈال دیا ہے، ان کی حیثیت بھی غلاموں سے بدتر ہے، اور وہ تمام انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
اسی طرح بعض مسلم اور عرب ریاستوں میں ، بیرونِ ملک سے آنے والے ملازمین، وہاں پر ملازم کے طور پر نہیں بلکہ ایک بے زبان غلام کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
شریعت ایک انسان کو جو حقوق عطا کرتی ہے وہ کسی آقا، مالک، حکمران اور ریاست کو چھیننے کا اختیار نہیں ہوتا۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کو کسی بھی اسلامی معاشرے اور علاقے میں وہی حقوق حاصل ہوتے تھے، جو اسے اپنے پیدایشی علاقے میں حاصل ہوتے تھے۔ روایتی حکمران اور ریاستیں جب کسی مجرم کو علاقہ بدر کر دیتی تھیں تووہ اس کے لیے ایک جزوی سزا ہوتی تھی، اور اس سنگین جرم کی سزا کی وجہ سے وہ صرف اپنے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا، باقی دنیا اس کے لیے کھلی ہوتی تھی اور وہ کہیں بھی انسانوں کی طرح زندگی بسر کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر جب یہودیوں کے لیے پورا یورپ مقتل بنا ہوا تھا اوروہاں ان کا جینا حرام کردیا گیا تھا تو انھیں مسلم دُنیا کی آغوش میں پناہ ملی۔ جب اسپین سے ڈھائی لاکھ یہودیوں نے ہجرت کی تو انھیں سلطنت عثمانیہ نے سلونیکا میں آبادکاری کی اجازت دی۔ اور اب احسان فراموش یہودی مقامی فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ہرحربہ استعمال کرکے بھی مطمئن نہیں ہورہے۔
مشہورفرانسیسی فلسفی میشل فوکو (م: ۱۹۸۴ء) کے مطابق:’’جدید انسان سترھویں صدی کی پیداوار ہے۔ قبل ازیں اس قسم کے انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہیں تھا‘‘۔ مغرب کے بقول: ’تحریک تنویر‘ (Enlightened Movement) سے قبل مغرب میں بھی انسان خدا کا بندہ تھا اور اس کا مقصد حیات اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکادینا تھا۔ اسی طرح انسانی زندگی کا مقصد محض دنیاوی زندگی کو پُرلطف بنانا نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور دوسرے انسانوں کے لیے ہمدردی کی خاطر ایثار کرنا بھی تھا۔ وہ انسان یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ یہ زندگی اس کو کسی حق کے طور پر دی گئی ہے کہ وہ اسے جس طرح چاہے گزارے۔ لیکن ’جدید انسان‘ خود کو آزاد تصور کرتے ہوئے زندگی کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسے اپنے ہر ارادے اور خواہش کو پورا کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ مگر یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک مادی ترقی نہ ہو، اور مادی ترقی ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے خواہشات کی زیادہ سے زیادہ تکمیل ممکن ہے۔ہر ارادے اور خواہش کی تکمیل کے لیے جس سرمائے کی ضرورت ہے اس کا حصول صرف مادی ترقی کی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔
ترقی کی اس جدوجہد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ اب عورت اس بات پر قناعت نہیں کرسکتی کہ صرف مرد ہی کما کر لائے اورخاندان کی ضروریات پوری کرے۔ آج کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ اسے بھی مرد کی طرح آزادی اور مساوات کے اظہار کے لیے ذاتی سرمایہ اور ملکیت چاہیے۔ اس لیے اب دنیا کے ہر علاقے اور ملک میں خواتین کے لیے گھر سے باہر ملازمت (Job)کرنا قابلِ قبول ہوچکا ہے کہ جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہ تھا۔ اس لیے اب ’اچھی اور سچی ماں‘ (Real Mother) کا روایتی تصور بھی تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی جگہ ’ذمہ دار ماں‘ (Intensive Mother)کا تصور آگیا ہے۔ ذمہ دار ماں کے لیے بچوں کی پرورش، نگرانی اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دینا ضروری نہیں۔ وہ جاب میں مصروف ہو تویہ کام کسی دوسرے فرد یا ادارے کے ذریعے بھی کروا سکتی ہے، یا پھر بہت سے خوش حال ممالک میں ان کی پرورش کی ذمہ داری ریاست لے لیتی ہے۔
ماں کے مذکورہ کردار میں تبدیلی کے باجود دنیا بھر میں بالغوں کی ایک بڑی تعداد، یعنی ۲۷ فی صد خواتین اور ۲۹ فی صد مردوں کی یہ خواہش ہے کہ’’ عورتوں کو ملازمت کے بجائے گھر میں رہنا چاہیے اور بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کرنی چاہیے‘‘۔ اس سوچ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں مذہبی خیالات، تہذیبی روایات اوربچوں کی دیکھ بھال کے عملی مسائل شامل ہیں۔ مثال کے طور پر آج مادیت و جدیدیت کے ’امام ملک‘ امریکا میں ملازمت پیشہ عورت کے بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کالج کی تعلیم سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ۶۰ فی صد امریکی والدین کے مطابق انھیں گھر کے پاس، بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے قابل اعتماد ذرائع میسر نہیں ہیں اور کام کرنے والی خواتین کے لیے بچوں کی دیکھ بھال ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
کینیڈا کے ایک محقق ایڈرینے (رابطہ کار: پالیسی اینڈ کمیونی کیشن، نیشنل فاؤنڈیشن فار فیملی ریسرچ) کے مطابق: ’’آج کل کی معاشی مسابقت کی صورتِ حال میں کینیڈین لوگ، بچوں کی پرورش کے حوالے سے ’ڈے کئیر‘ کو غیر تسلی بخش حل تصور کرتے ہیں اور اگر ان کے پاس مناسب ذرائع موجود ہوں تو وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے حوالے سے والدین میں سے کسی ایک کےگھر پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور عملی طور پر بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ تمام لوگوں کو ان کی پسند کے مطابق معیاری ڈے کیئر سینٹرز مہیا کرے‘‘۔
کینیڈا کی عورتوں کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے کہ جب ان کے ہاں بچے ہوں تو وہ گھر پر رہ کر بچوں کی پرورش کریں، لیکن جوزف مچلسکی کی رپورٹ کے مطابق: ’’کینیڈین معاشرے میں، والدین میں اس بات پر وسیع پیمانے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا کہ جب ان کے ہاں بچے ہوں تو ان کی پرورش کے حوالے سے ان میں سے کسی ایک کو لازمی طور پر گھر پر رہنا چاہیے یا نہیں۔ بہت سی مائیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ بچوں کی اچھی پرورش کے لیے گھر پر رہیں، لیکن بہت سی معاشی اور سماجی ضروریات اور مشکلات کے تحت سب کے لیے ایسا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور انھیں پارٹ ٹائم یا فل ٹائم جاب کرنا ہی پڑتی ہے‘‘۔
چین میں کمیونسٹ حکومت نے ۱۹۷۶ء میں، ماؤزے تنگ کے انتقال کے دوسال بعد ۱۹۷۸ء میں جبری فیملی پلاننگ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد بچے کی پیدایش پر پابندی لگادی تھی۔ پھر چین نے خواتین کی بڑی تعداد کو ملازمت،محنت اور مشقت کی بھٹی میں جھونکتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’’خواتین کو آزادی سے ہم کنار کر دیا گیا ہے‘‘۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فرعونی قانون کے نتیجے میں کروڑوں بچیاں، والدین ہی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتریں، یا پھر معذور بناکر دوسرے بچے کا ’جواز‘ پیدا کرنے کا حوالہ بنیں۔ پھر اسی چین نے ۲۰۱۶ء میں دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے ساتھ ہی مردوں کی چھٹیاں کم کرکے خواتین کی چھٹیاں بڑھا دیں۔ چین میں اب سرکاری طور پر حاملہ عورتیں ۱۹۰ دن تک کی چھٹیاں مع تنخواہ لے سکتی ہیں۔ چونکہ پرائیویٹ کمپنیاں یہ سب سہولیات مہیا نہیں کر سکتیں، اس لیے اب وہ خواتین کو مردوں کی نسبت ملازمت میں ترجیح نہیں دیتیں اور یوں چین کی افرادی قوت میں عورتوں کی تعداد بھی مسلسل کم ہورہی ہے، لیکن چین اس بات کو ’عورتوں کی آزادی کے خلاف قدم‘ قرار نہیں دیتا۔
۲۰۱۶ء- ۲۰۱۷ء میں چین کے سرکاری میڈیا نے ’گھر واپس آنے والی خواتین‘ کی خوبیوں کے حوالے سے ایک عوامی آگہی کی مہم چلائی، جس میں بتایا گیا کہ’’ خواتین کا گھر میں رہنا نہ صرف بچوں کی افزایش، نشوونما، تعلیم و تربیت کے لیے مفید ہے بلکہ خاندان کے استحکام کا بھی باعث ہے اور پورے معاشرے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔ اسی مہم کے دوران پوسٹرز کے ذریعے بتایا گیا: ’’اچھی ماں بننا خواتین کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔
امریکا میں صنفی مساوات، تعلیم، روزگار اور سیاست میں قابل ذکر ترقی کے باوجود، مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین گھروں میں رہتی ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک جنھوں نے صنفی برابری کو خاص طور پر فروغ دیا ہے، ان میں بھی اگرچہ خواتین کی لیبر فورس بڑھی ہے لیکن پھر بھی مردوں کے مقابلے میں یہ تعداد کم ہے۔ بچوں کی پیدایش کے بعد ماؤں کی ایک بہت بڑی تعداد ملازمت سے دست بردار ہو جاتی ہے یا پارٹ ٹائم ملازمت کو ترجیح دیتی ہے۔ ’معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم‘ (OECD) کے ممبر ممالک (یعنی آسٹریا، بیلجیم، چیک، ڈنمارک، اسٹونیا،فن لینڈ، برطانیہ، اٹلی، سویزرلینڈ، سویڈن وغیرہ) میں جزوقتی کام کرنے والی خواتین کی تعداد ۲۶ فی صد ہے،جب کہ جزوقتی ملازمت کرنے والوں مردوں کی تعداد صرف ۷فی صد سے بھی کم ہے۔
خواتین کی ملازمت کی شرح کا طلاق، علیحدگی اور گھریلو جھگڑوں وغیرہ سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ ان ممالک میں چونکہ ایک بہت بڑی تعداد ان ماؤں کی پائی جاتی ہے، جو Single Mother (تنہا ماں)ہیں اور گزر بسر کرنے کے لیے محنت مشقت کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے، اس لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد برسرِروزگار ہے۔ ملازمت کرنے والی خواتین میں سے اگر غیر شادی شدہ خواتین اور اکیلی رہنے والی خواتین کو الگ کر دیا جائے تو ان ملازم پیشہ خواتین کی تعداد بہت ہی کم رہ جاتی ہے، جو اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین گھر کے کام اور کنبے کی دیکھ بھال پر مردوں کی بہ نسبت دگنا سے بھی زیادہ وقت گزارتی ہیں اور گھریلو کام کے علاوہ کنبے کے بزرگوں اور بیماروں اور ضرورت مند افراد کی نگہداشت کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں، جب کہ ان فرائض کی بجاآوری سے مردالگ یا لاتعلق رہتے ہیں۔
صنفی مساوات کے قائل خواتین اور خواتین کی خود اختیاریت کے علَم بردار مرد (مرد فیمنسٹ) لیڈر گھر میں رہنے والی ماؤں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو بچے پیدا کرنے کو قابل مذمت فعل سمجھتے ہیں۔ وہ صرف ان عورتوں کو ماڈرن سمجھتے ہیں، جو اپنے کیرئیر پر توجہ دیتی ہیں، مردوں کے مقابلے میں ہر کام کرنے کو تیار ہوتی ہیں، اور اپنی ’آزادی‘ کے حصول کے لیے ذہانت اور قابلیت کا استعمال کرنا جانتی ہیں۔ مثلاً ۱۹۷۵ء میں فرانسیسی حقوقِ نسواں کے علَم بردار سائمن ڈی بوایر نے کہا تھا: ’’کسی بھی عورت کو گھر میں رہنے اور بچوں کی پرورش کا اختیار نہیں دینا چاہیے، کیونکہ اگر عورتوں کو انتخاب کا اختیار دیا جائے تو زیادہ تر اسی بات کا انتخاب کریں گی کہ انھیں گھر پر رہنا ہے‘‘۔
حال ہی میں آسٹریلیا کے معروف ہفت روزے The Sunday Telegraphکی چیف ایڈیٹر سارا لی مارکوانڈنے لکھا ہے: ’’اسکول کی عمر کے بچوں کی ماؤں کا گھر پر رہنا غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ صنفی مساوات تو اسی وقت قائم اور برقرار رہ سکتی ہے، جب خواتین مردوں کی طرح گھر سے باہر کام کریں، پیسے کمائیں اور گھر کے اندر بھی تمام کام کاج شوہر، بیوی مل کر بانٹیں اور مساوی طور پر سرانجام دیں‘‘۔
کچھ ممالک میں فیمی نزم کے مذکورہ خیالات کے زیر اثر خواتین کو لیبر فورس میں شامل ہونے کے لیے ترغیبات دی جاتی ہیں، مثلاً معاشی آزادی، خود انحصاری، بیماری اور معاشی بدحالی سے نمٹنے کا بندوبست اور دیگر مراعات وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کی اکثریت اب بھی گھر پر رہنے یا جز وقتی کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ۲۰۱۵ء میں ہونے والے گیلپ سروے کے مطابق وہ خواتین جن کے بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہیں، ان کی نصف سے زیادہ تعداد گھر سے باہر کام کرنے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ خواتین جن کے بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے زیادہ ہیں ان کی بھی ۴۰ فی صد تعداد گھرکے اندر کردار ادا کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
’فیمی نزم‘ (Feminism)یعنی ’خواتین کی خود اختیاریت‘ کے سب نظریات اور مفروضات کا بنیادی مقصد عورتوں کو انتخاب کی آزادی دینے کی حمایت کرنا ہے۔ مثلاً اجرت کی مساوات اور کیرئیر کےانتخاب کےپیچھے یہ سوچ ہے کہ عورت کے پاس اپنی ملکیت اور وسائل ہوں تاکہ وہ مرد کی مرہون منت نہ ہو اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔ جنسی ہراسانی کے خلاف پالیسی اور سسٹم بنانے کے پیچھے یہ محرک ہے کہ عورت کو جنسی انتخاب میں آزادی ہو اور وہ اپنی مرضی سے جو چاہے جنسی فیصلہ کرے۔ لیکن آزادی کے اسی اصول کے تحت اُن عورتوں کو انتخاب کی آزادی کیوں نہیں دی جا رہی، جو اپنی مرضی سے گھر پر رہنے اور گھر کے کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں؟ ان کو اپنے حقوق سے غافل کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
جب ہم اپنی مرضی سے پیشے اور ملازمت کا انتخاب کرتے ہیں، تو جتنا وقت ہم اس سرگرمی پر لگاتے ہیں وہ وقت ہم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ تو نہیں گزار سکتے ہیں۔ گویا ہم فیملی کو دیے جانے والے وقت کی قربانی دے کر کیرئیر بناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو خاتون گھر سنبھالتی ہے اور بچوں کی پرورش کرتی ہے اور اپنے خاندان کو وقت دیتی ہے، اسے اس وقت کو قربان کرنا پڑتا ہے جو وہ ملازمت یا پیشے پر لگا سکتی تھی۔ وقت کی قربانی تو دونوں صورتوں میں ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ آزادیِ نسواں کی علَم بردار لیڈر ایک طرح سے وقت کی قربانی کو توقابلِ قبول سمجھتی ہیں، لیکن دوسری طرح کی وقت کی قربانی کو قابل قبول نہیں سمجھتیں؟
اگر گھر پر رہنے والی خاتون یہ سمجھتی ہے کہ اس کا یہ فیصلہ اس کے انفرادی صواب دیدی اختیارات کے مطابق ہے، تو پھر اس کے اس انتخاب اور کیرئیر کا انتخاب کرنے والی خاتون کے فیصلے میں کسی بھی قسم کا فرق روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن علَم برداران حقوقِ نسواں اس میں تفریق کرتے ہیں اور بے جا مداخلت کرکے اپنے ہی اصولِ آزادی انتخاب کی نفی کرتے ہیں۔ انھیں یا کسی ریاستی ادارے کو اس وقت تک اس معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا، جب تک کسی خاتون کو گھر پر رہنے اور کیرئیر کا انتخاب نہ کرنے کے معاملے میں دھونس، جبر یا زبردستی کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہو اور اس کی کوئی باقاعدہ شکایت یا تصدیق موجود نہ ہو۔ اگر کسی شکایت کے بغیر لوگوں کے انتخاب اور آگاہی کے بارے میں مفروضوں کی بنیاد پر مداخلت کی جائے گی، تو اسے متعصبانہ رویے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
حالات و واقعات دیکھ کر یہ نظر آتا ہے کہ علَم بردارانِ حقوقِ نسواں اس بات کے معتقد ہیں کہ ایک سچی فیمنسٹ (Feminist) کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاتون ملازمت کرتی ہو، بچے پیدا کرنے میں دل چسپی نہ رکھتی ہو، خاوند، بچوں اور خاندان کی خدمت کرنے کو اپنی توہین سمجھتی ہو، خاوند سے ہر معاملے میں برابری کرنے کے لیے طلاق تک نوبت آتی ہے تو آئے اور گھر کے اجڑنے کی بھی پروا تک نہ کرتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ ہوسکتا ہے ایسی خواتین بھی ہوں، جو مذکورہ تمام منفی باتوں سے نفرت کرتی ہوں، لیکن پھر بھی خواتین کے حقوق کی حمایت کرتی ہوں۔
اسی طرح اگر کوئی حاملہ خاتون ملازمت چھوڑ کر گھر میں اس وقت تک رہنا چاہتی ہو، جب تک کہ اس کا پیدا ہونے والا بچہ سمجھ دار نہ ہوجائے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک وہ دفتر میں کام کر رہی تھی وہ ’فیمنسٹ‘ تھی اور اب گھر میں بیٹھ جانے پر وہ حقوقِ نسواں سے باغی ہوگئی ہے۔ سیاست، انسانی شخصیت اور کردار کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے اور یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔ امریکی ماہر سماجیات پروفیسر کا میل آنا پاغیلا اپنی کتاب Free Women, Free Menمیں لکھتی ہیں: ’’فیمنسٹ ماہرین کے نزدیک افزایش نسل اور تولیدی معاملات کی اہمیت اور احترام صفر سے بھی کم تر اہمیت رکھتا ہے، اور فیمی نزم نے کبھی زندگی میں ماں کے کردار کے ساتھ دیانت داری سے کام نہیں لیا‘‘۔
خواتین کے گھر پر رہنے یا کام کرنے کے حوالے سے بہت سی تحقیقات ہو چکی ہیں۔ جن محققین نے اپنی تحقیقات سے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں گھر پر رہنے کے حق میں دلائل دیے، ان کے مطابق خاتون کے گھر پر رہنے سے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت بہتر انداز سے ہوتی ہے۔ ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دل چسپی اور کارکردگی بہتر ہوتی ہے، بچوں میں تنہائی کا احساس، چڑچڑاپن اور غصے جیسی کیفیات کم ہوتی ہیں اور ایسی خواتین کے گھر اور خاندان میں اطمینان پایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ محققین جو خواتین کے کام کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں، ان کے مطابق خواتین کچھ عرصے کے لیے تو بچوں کی پرورش کے دوران گھر پر وقت گزار سکتی ہیں، لیکن یہ دورانیہ جب بہت طویل ہو جاتا ہے تو خواتین میں دوبارہ کام پر جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تاکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوں، اپنے اکیلے پن اور چڑچڑے پن کو ختم کر سکیں، اور سماجی کردار نبھانے کی خواہش کو پورا کر سکیں۔
سماجی مطالعے کی معروف تحقیقی تنظیم Pew (ریسرچ سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیموگرافک ٹرینڈز) کے مطابق: ۶۰ فی صد امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر والدین میں سے کم از کم ایک فرد، گھر پر بچوں کے ساتھ رہے تو ان کی پرورش اچھی ہوتی ہے، جب کہ ۳۵ فی صد کا کہنا ہے کہ اگر والدین میں سے دونوں کام کرتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح ایرک پی بیٹنگر اور راشل بی بیکر نے ۲۰۱۴ء میں اپنی تحقیق میں بتایا ہے: ’’چھوٹے بچوں سے لے کر ہائی اسکول تک کے وہ بچے جن کی تعلیم و تربیت میں والدین خصوصی دل چسپی لیتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں، ان کی کارکردگی ان بچوں سے زیادہ اچھی ہوتی ہے کہ جن کے والدین ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت نہیں دے پاتے یا اس میں خصوصی دل چسپی نہیں لیتے‘‘۔
مینی سوٹا یونی ورسٹی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ڈیویلپمنٹ نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ’’جن بچوں کی پرورش ’ڈے کئیر سینٹرز‘ میں ہوتی ہے، ان کے غصے اور چڑچڑے پن کی سطح ان بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، جن کی پرورش گھر میں ماں کے ہاتھوں ہوتی ہے‘‘۔
سینٹر فار ٹیلنٹ انوویشن کی ایک تحقیق کے مطابق: امریکا میں تقریباً ۹۰ فی صد ماؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ جب ان کے بچے ذرا بڑے ہوجائیں، تو وہ جزوقتی یا کُل وقتی کچھ نہ کچھ ایسا کام کریں، جس سے انھیں آمدن ہو۔ ۲۰۱۲ء کے گیلپ سروے کے مطابق وہ خواتین جو زیادہ عرصے سے گھر پر ہوتی ہیں ان میں تنہائی، پریشانی، دباؤ اور غصے کے احساسات ان خواتین سے زیادہ ہوتے ہیں جو کام کرتی ہیں۔
جہاں تک تحقیقات کی بات ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات کی روشنی میں مختلف قسم کے نتائج اخذ کرتی رہتی ہیں۔ آپ اگر کسی ایک تحقیق کی تجاویزکے مطابق اپنا کوئی لائحہ عمل بنائیں گے تو اگلے روز ایک ایسی تحقیق آجائے گی، جو اس کے بالکل الٹ تجاویز دے گی۔ بالآخر آپ کو ایسا لائحۂ عمل بنانا پڑے گا، جو آپ کے گھر اور خاندان کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرتا ہو اور جس کو اپنا کر آپ اور آپ کا خاندان زیادہ سے زیادہ خوشی اور سکون حاصل کر سکیں۔ کوئی بھی تحقیق آپ کو یہ معلومات تو دے سکتی ہے کہ اس معاشرے میں بہت سے لوگ کس انداز سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں، لیکن خاص طور پر آپ کے گھر اور خاندان کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں کر سکتیں۔
اپنے گھر اور خاندان کے حوالے سے آپ کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور جب آپ اپنے خاندان کے بہترین مفاد میں کوئی فیصلہ کر لیں تو پھر آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کا یہ فیصلہ کچھ دیگر لوگوں سے مختلف کیوں ہے۔ کیونکہ ہر گھر اور خاندان کی ضروریات، حالات، وسائل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کسی دوسرے گھر اور خاندان کا فیصلہ ہو سکتا ہے ان کے لیے بہترین ہو، لیکن آپ کے لیے مفید نہ ہو۔ اسی طرح آپ کا کوئی فیصلہ آپ کے خاندان کے بہترین مفاد میں ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر گھر اور خاندان کے لیے قابلِ عمل ہو۔