نومبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

ملازمت، گھر اور ماں!

وحید مراد | نومبر۲۰۲۰ | سماجیات

Responsive image Responsive image

مشہورفرانسیسی فلسفی میشل فوکو (م: ۱۹۸۴ء) کے مطابق:’’جدید انسان سترھویں صدی کی پیداوار ہے۔ قبل ازیں اس قسم کے انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہیں تھا‘‘۔ مغرب کے بقول: ’تحریک تنویر‘ (Enlightened Movement) سے قبل مغرب میں بھی انسان خدا کا بندہ تھا اور اس کا مقصد حیات اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکادینا تھا۔ اسی طرح انسانی زندگی کا مقصد محض دنیاوی زندگی کو پُرلطف بنانا نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور دوسرے انسانوں کے لیے ہمدردی کی خاطر ایثار کرنا بھی تھا۔ وہ انسان یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ یہ زندگی اس کو کسی حق کے طور پر دی گئی ہے کہ وہ اسے جس طرح چاہے گزارے۔ لیکن ’جدید انسان‘ خود کو آزاد تصور کرتے ہوئے زندگی کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسے اپنے ہر ارادے اور خواہش کو پورا کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ مگر یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک مادی ترقی نہ ہو، اور مادی ترقی ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے خواہشات کی زیادہ سے زیادہ تکمیل ممکن ہے۔ہر ارادے اور خواہش کی تکمیل کے لیے جس سرمائے کی ضرورت ہے اس کا حصول صرف مادی ترقی کی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔

ترقی کی اس جدوجہد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ اب عورت اس بات پر قناعت نہیں کرسکتی کہ صرف مرد ہی کما کر لائے اورخاندان کی ضروریات پوری کرے۔ آج کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ اسے بھی مرد کی طرح آزادی اور مساوات کے اظہار کے لیے ذاتی سرمایہ اور ملکیت چاہیے۔ اس لیے اب دنیا کے ہر علاقے اور ملک میں خواتین کے لیے گھر سے باہر ملازمت (Job)کرنا قابلِ قبول ہوچکا ہے کہ جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہ تھا۔ اس لیے اب ’اچھی اور سچی ماں‘ (Real Mother) کا روایتی تصور بھی تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی جگہ ’ذمہ دار ماں‘ (Intensive Mother)کا تصور آگیا ہے۔ ذمہ دار ماں کے لیے بچوں کی پرورش، نگرانی اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دینا ضروری نہیں۔ وہ جاب میں مصروف ہو تویہ کام کسی دوسرے فرد یا ادارے کے ذریعے بھی کروا سکتی ہے، یا پھر بہت سے خوش حال ممالک میں ان کی پرورش کی ذمہ داری ریاست لے لیتی ہے۔

ماں کے مذکورہ کردار میں تبدیلی کے باجود دنیا بھر میں بالغوں کی ایک بڑی تعداد، یعنی ۲۷ فی صد خواتین اور ۲۹ فی صد مردوں کی یہ خواہش ہے کہ’’ عورتوں کو ملازمت کے بجائے گھر میں رہنا چاہیے اور بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کرنی چاہیے‘‘۔ اس سوچ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں مذہبی خیالات، تہذیبی روایات اوربچوں کی دیکھ بھال کے عملی مسائل شامل ہیں۔ مثال کے طور پر آج مادیت و جدیدیت کے ’امام ملک‘ امریکا میں ملازمت پیشہ عورت کے بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کالج کی تعلیم سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ۶۰ فی صد امریکی والدین کے مطابق انھیں گھر کے پاس، بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے قابل اعتماد ذرائع میسر نہیں ہیں اور کام کرنے والی خواتین کے لیے بچوں کی دیکھ بھال ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

کینیڈا کے ایک محقق ایڈرینے (رابطہ کار: پالیسی اینڈ کمیونی کیشن، نیشنل فاؤنڈیشن فار فیملی ریسرچ) کے مطابق: ’’آج کل کی معاشی مسابقت کی صورتِ حال میں کینیڈین لوگ، بچوں کی پرورش کے حوالے سے ’ڈے کئیر‘ کو غیر تسلی بخش حل تصور کرتے ہیں اور اگر ان کے پاس مناسب ذرائع موجود ہوں تو وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے حوالے سے والدین میں سے کسی ایک کےگھر پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور عملی طور پر بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ تمام لوگوں کو ان کی پسند کے مطابق معیاری ڈے کیئر سینٹرز مہیا کرے‘‘۔
کینیڈا کی عورتوں کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے کہ جب ان کے ہاں بچے ہوں تو وہ گھر پر رہ کر بچوں کی پرورش کریں، لیکن جوزف مچلسکی کی رپورٹ کے مطابق: ’’کینیڈین معاشرے میں، والدین میں اس بات پر وسیع پیمانے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا کہ جب ان کے ہاں بچے ہوں تو ان کی پرورش کے حوالے سے ان میں سے کسی ایک کو لازمی طور پر گھر پر رہنا چاہیے یا نہیں۔ بہت سی مائیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ بچوں کی اچھی پرورش کے لیے گھر پر رہیں، لیکن بہت سی معاشی اور سماجی ضروریات اور مشکلات کے تحت سب کے لیے ایسا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور انھیں پارٹ ٹائم یا فل ٹائم جاب کرنا ہی پڑتی ہے‘‘۔
چین میں کمیونسٹ حکومت نے ۱۹۷۶ء میں، ماؤزے تنگ کے انتقال کے دوسال بعد ۱۹۷۸ء میں جبری فیملی پلاننگ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد بچے کی پیدایش پر پابندی لگادی تھی۔ پھر چین نے خواتین کی بڑی تعداد کو ملازمت،محنت اور مشقت کی بھٹی میں جھونکتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’’خواتین کو آزادی سے ہم کنار کر دیا گیا ہے‘‘۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فرعونی قانون کے نتیجے میں کروڑوں بچیاں، والدین ہی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتریں، یا پھر معذور بناکر دوسرے بچے کا ’جواز‘ پیدا کرنے کا حوالہ بنیں۔ پھر اسی چین نے ۲۰۱۶ء میں دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے ساتھ ہی مردوں کی چھٹیاں کم کرکے خواتین کی چھٹیاں بڑھا دیں۔ چین میں اب سرکاری طور پر حاملہ عورتیں ۱۹۰ دن تک کی چھٹیاں مع تنخواہ لے سکتی ہیں۔ چونکہ پرائیویٹ کمپنیاں یہ سب سہولیات مہیا نہیں کر سکتیں، اس لیے اب وہ خواتین کو مردوں کی نسبت ملازمت میں ترجیح نہیں دیتیں اور یوں چین کی افرادی قوت میں عورتوں کی تعداد بھی مسلسل کم ہورہی ہے، لیکن چین اس بات کو ’عورتوں کی آزادی کے خلاف قدم‘ قرار نہیں دیتا۔
۲۰۱۶ء- ۲۰۱۷ء میں چین کے سرکاری میڈیا نے ’گھر واپس آنے والی خواتین‘ کی خوبیوں کے حوالے سے ایک عوامی آگہی کی مہم چلائی، جس میں بتایا گیا کہ’’ خواتین کا گھر میں رہنا نہ صرف بچوں کی افزایش، نشوونما، تعلیم و تربیت کے لیے مفید ہے بلکہ خاندان کے استحکام کا بھی باعث ہے اور پورے معاشرے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔ اسی مہم کے دوران پوسٹرز کے ذریعے بتایا گیا: ’’اچھی ماں بننا خواتین کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔
امریکا میں صنفی مساوات، تعلیم، روزگار اور سیاست میں قابل ذکر ترقی کے باوجود، مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین گھروں میں رہتی ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک جنھوں نے صنفی برابری کو خاص طور پر فروغ دیا ہے، ان میں بھی اگرچہ خواتین کی لیبر فورس بڑھی ہے لیکن پھر بھی مردوں کے مقابلے میں یہ تعداد کم ہے۔ بچوں کی پیدایش کے بعد ماؤں کی ایک بہت بڑی تعداد ملازمت سے دست بردار ہو جاتی ہے یا پارٹ ٹائم ملازمت کو ترجیح دیتی ہے۔ ’معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم‘ (OECD) کے ممبر ممالک (یعنی آسٹریا، بیلجیم، چیک، ڈنمارک، اسٹونیا،فن لینڈ، برطانیہ، اٹلی، سویزرلینڈ، سویڈن وغیرہ) میں جزوقتی کام کرنے والی خواتین کی تعداد ۲۶ فی صد ہے،جب کہ جزوقتی ملازمت کرنے والوں مردوں کی تعداد صرف ۷فی صد سے بھی کم ہے۔
خواتین کی ملازمت کی شرح کا طلاق، علیحدگی اور گھریلو جھگڑوں وغیرہ سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ ان ممالک میں چونکہ ایک بہت بڑی تعداد ان ماؤں کی پائی جاتی ہے، جو Single Mother  (تنہا ماں)ہیں اور گزر بسر کرنے کے لیے محنت مشقت کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے، اس لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد برسرِروزگار ہے۔ ملازمت کرنے والی خواتین میں سے اگر غیر شادی شدہ خواتین اور اکیلی رہنے والی خواتین کو الگ کر دیا جائے تو ان ملازم پیشہ خواتین کی تعداد بہت ہی کم رہ جاتی ہے، جو اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین گھر کے کام اور کنبے کی دیکھ بھال پر مردوں کی بہ نسبت دگنا سے بھی زیادہ وقت گزارتی ہیں اور گھریلو کام کے علاوہ کنبے کے بزرگوں اور بیماروں اور ضرورت مند افراد کی نگہداشت کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں، جب کہ ان فرائض کی بجاآوری سے مردالگ یا لاتعلق رہتے ہیں۔

صنفی مساوات کے قائل خواتین اور خواتین کی خود اختیاریت کے علَم بردار مرد (مرد فیمنسٹ) لیڈر گھر میں رہنے والی ماؤں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو بچے پیدا کرنے کو قابل مذمت فعل سمجھتے ہیں۔ وہ صرف ان عورتوں کو ماڈرن سمجھتے ہیں، جو اپنے کیرئیر پر توجہ دیتی ہیں، مردوں کے مقابلے میں ہر کام کرنے کو تیار ہوتی ہیں، اور اپنی ’آزادی‘ کے حصول کے لیے ذہانت اور قابلیت کا استعمال کرنا جانتی ہیں۔ مثلاً ۱۹۷۵ء میں فرانسیسی حقوقِ نسواں کے علَم بردار سائمن ڈی بوایر نے کہا تھا: ’’کسی بھی عورت کو گھر میں رہنے اور بچوں کی پرورش کا اختیار نہیں دینا چاہیے، کیونکہ اگر عورتوں کو انتخاب کا اختیار دیا جائے تو زیادہ تر اسی بات کا انتخاب کریں گی کہ انھیں گھر پر رہنا ہے‘‘۔
حال ہی میں آسٹریلیا کے معروف ہفت روزے The Sunday Telegraphکی چیف ایڈیٹر سارا لی مارکوانڈنے لکھا ہے: ’’اسکول کی عمر کے بچوں کی ماؤں کا گھر پر رہنا غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ صنفی مساوات تو اسی وقت قائم اور برقرار رہ سکتی ہے، جب خواتین مردوں کی طرح گھر سے باہر کام کریں، پیسے کمائیں اور گھر کے اندر بھی تمام کام کاج شوہر، بیوی مل کر بانٹیں اور مساوی طور پر سرانجام دیں‘‘۔
کچھ ممالک میں فیمی نزم کے مذکورہ خیالات کے زیر اثر خواتین کو لیبر فورس میں شامل ہونے کے لیے ترغیبات دی جاتی ہیں، مثلاً معاشی آزادی، خود انحصاری، بیماری اور معاشی بدحالی سے نمٹنے کا بندوبست اور دیگر مراعات وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کی اکثریت اب بھی گھر پر رہنے یا جز وقتی کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ۲۰۱۵ء میں ہونے والے گیلپ سروے کے مطابق وہ خواتین جن کے بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہیں، ان کی نصف سے زیادہ تعداد گھر سے باہر کام کرنے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ خواتین جن کے بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے زیادہ ہیں ان کی بھی ۴۰ فی صد تعداد گھرکے اندر کردار ادا کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
’فیمی نزم‘ (Feminism)یعنی ’خواتین کی خود اختیاریت‘ کے سب نظریات اور مفروضات کا بنیادی مقصد عورتوں کو انتخاب کی آزادی دینے کی حمایت کرنا ہے۔ مثلاً اجرت کی مساوات اور کیرئیر کےانتخاب کےپیچھے یہ سوچ ہے کہ عورت کے پاس اپنی ملکیت اور وسائل ہوں تاکہ وہ مرد کی مرہون منت نہ ہو اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔ جنسی ہراسانی کے خلاف پالیسی اور سسٹم بنانے کے پیچھے یہ محرک ہے کہ عورت کو جنسی انتخاب میں آزادی ہو اور وہ اپنی مرضی سے جو چاہے جنسی فیصلہ کرے۔ لیکن آزادی کے اسی اصول کے تحت اُن عورتوں کو انتخاب کی آزادی کیوں نہیں دی جا رہی، جو اپنی مرضی سے گھر پر رہنے اور گھر کے کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں؟ ان کو اپنے حقوق سے غافل کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
جب ہم اپنی مرضی سے پیشے اور ملازمت کا انتخاب کرتے ہیں، تو جتنا وقت ہم اس سرگرمی پر لگاتے ہیں وہ وقت ہم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ تو نہیں گزار سکتے ہیں۔ گویا ہم فیملی کو دیے جانے والے وقت کی قربانی دے کر کیرئیر بناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو خاتون گھر سنبھالتی ہے اور بچوں کی پرورش کرتی ہے اور اپنے خاندان کو وقت دیتی ہے، اسے اس وقت کو قربان کرنا پڑتا ہے جو وہ ملازمت یا پیشے پر لگا سکتی تھی۔ وقت کی قربانی تو دونوں صورتوں میں ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ آزادیِ نسواں کی علَم بردار لیڈر ایک طرح سے وقت کی قربانی کو توقابلِ قبول سمجھتی ہیں، لیکن دوسری طرح کی وقت کی قربانی کو قابل قبول نہیں سمجھتیں؟
اگر گھر پر رہنے والی خاتون یہ سمجھتی ہے کہ اس کا یہ فیصلہ اس کے انفرادی صواب دیدی اختیارات کے مطابق ہے، تو پھر اس کے اس انتخاب اور کیرئیر کا انتخاب کرنے والی خاتون کے فیصلے میں کسی بھی قسم کا فرق روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن علَم برداران حقوقِ نسواں اس میں تفریق کرتے ہیں اور بے جا مداخلت کرکے اپنے ہی اصولِ آزادی انتخاب کی نفی کرتے ہیں۔ انھیں یا کسی ریاستی ادارے کو اس وقت تک اس معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا، جب تک کسی خاتون کو گھر پر رہنے اور کیرئیر کا انتخاب نہ کرنے کے معاملے میں دھونس، جبر یا زبردستی کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہو اور اس کی کوئی باقاعدہ شکایت یا تصدیق موجود نہ ہو۔ اگر کسی شکایت کے بغیر لوگوں کے انتخاب اور آگاہی کے بارے میں مفروضوں کی بنیاد پر مداخلت کی جائے گی، تو اسے متعصبانہ رویے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
حالات و واقعات دیکھ کر یہ نظر آتا ہے کہ علَم بردارانِ حقوقِ نسواں اس بات کے معتقد ہیں کہ ایک سچی فیمنسٹ (Feminist) کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاتون ملازمت کرتی ہو، بچے پیدا کرنے میں دل چسپی نہ رکھتی ہو، خاوند، بچوں اور خاندان کی خدمت کرنے کو اپنی توہین سمجھتی ہو، خاوند سے ہر معاملے میں برابری کرنے کے لیے طلاق تک نوبت آتی ہے تو آئے اور گھر کے اجڑنے کی بھی پروا تک نہ کرتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ ہوسکتا ہے ایسی خواتین بھی ہوں، جو مذکورہ تمام منفی باتوں سے نفرت کرتی ہوں، لیکن پھر بھی خواتین کے حقوق کی حمایت کرتی ہوں۔
اسی طرح اگر کوئی حاملہ خاتون ملازمت چھوڑ کر گھر میں اس وقت تک رہنا چاہتی ہو، جب تک کہ اس کا پیدا ہونے والا بچہ سمجھ دار نہ ہوجائے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک وہ دفتر میں کام کر رہی تھی وہ ’فیمنسٹ‘ تھی اور اب گھر میں بیٹھ جانے پر وہ حقوقِ نسواں سے باغی ہوگئی ہے۔ سیاست، انسانی شخصیت اور کردار کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے اور یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔ امریکی ماہر سماجیات پروفیسر کا میل آنا پاغیلا اپنی کتاب Free Women, Free Menمیں لکھتی ہیں: ’’فیمنسٹ ماہرین کے نزدیک افزایش نسل اور تولیدی معاملات کی اہمیت اور احترام صفر سے بھی کم تر اہمیت رکھتا ہے، اور فیمی نزم نے کبھی زندگی میں ماں کے کردار کے ساتھ دیانت داری سے کام نہیں لیا‘‘۔
خواتین کے گھر پر رہنے یا کام کرنے کے حوالے سے بہت سی تحقیقات ہو چکی ہیں۔ جن محققین نے اپنی تحقیقات سے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں گھر پر رہنے کے حق میں دلائل دیے،  ان کے مطابق خاتون کے گھر پر رہنے سے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت بہتر انداز سے ہوتی ہے۔ ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دل چسپی اور کارکردگی بہتر ہوتی ہے، بچوں میں تنہائی کا احساس، چڑچڑاپن اور غصے جیسی کیفیات کم ہوتی ہیں اور ایسی خواتین کے گھر اور خاندان میں اطمینان پایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ محققین جو خواتین کے کام کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں، ان کے مطابق خواتین کچھ عرصے کے لیے تو بچوں کی پرورش کے دوران گھر پر وقت گزار سکتی ہیں، لیکن یہ دورانیہ جب بہت طویل ہو جاتا ہے تو خواتین میں دوبارہ کام پر جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تاکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوں، اپنے اکیلے پن اور چڑچڑے پن کو ختم کر سکیں، اور سماجی کردار نبھانے کی خواہش کو پورا کر سکیں۔
سماجی مطالعے کی معروف تحقیقی تنظیم Pew  (ریسرچ سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیموگرافک ٹرینڈز) کے مطابق: ۶۰ فی صد امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر والدین میں سے کم از کم ایک فرد، گھر پر بچوں کے ساتھ رہے تو ان کی پرورش اچھی ہوتی ہے، جب کہ ۳۵ فی صد کا کہنا ہے کہ اگر والدین میں سے دونوں کام کرتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح ایرک پی بیٹنگر اور راشل بی بیکر نے ۲۰۱۴ء میں اپنی تحقیق میں بتایا ہے: ’’چھوٹے بچوں سے لے کر ہائی اسکول تک کے وہ بچے جن کی تعلیم و تربیت میں والدین خصوصی دل چسپی لیتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں، ان کی کارکردگی ان بچوں سے زیادہ اچھی ہوتی ہے کہ جن کے والدین ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت نہیں دے پاتے یا اس میں خصوصی دل چسپی نہیں لیتے‘‘۔
مینی سوٹا یونی ورسٹی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ڈیویلپمنٹ نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ’’جن بچوں کی پرورش ’ڈے کئیر سینٹرز‘ میں ہوتی ہے، ان کے غصے اور چڑچڑے پن کی سطح ان بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، جن کی پرورش گھر میں ماں کے ہاتھوں ہوتی ہے‘‘۔
سینٹر فار ٹیلنٹ انوویشن کی ایک تحقیق کے مطابق: امریکا میں تقریباً ۹۰ فی صد ماؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ جب ان کے بچے ذرا بڑے ہوجائیں، تو وہ جزوقتی یا کُل وقتی کچھ نہ کچھ ایسا کام کریں، جس سے انھیں آمدن ہو۔ ۲۰۱۲ء کے گیلپ سروے کے مطابق وہ خواتین جو زیادہ عرصے سے گھر پر ہوتی ہیں ان میں تنہائی، پریشانی، دباؤ اور غصے کے احساسات ان خواتین سے زیادہ ہوتے ہیں جو کام کرتی ہیں۔
جہاں تک تحقیقات کی بات ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات کی روشنی میں مختلف قسم کے نتائج اخذ کرتی رہتی ہیں۔ آپ اگر کسی ایک تحقیق کی تجاویزکے مطابق اپنا کوئی لائحہ عمل بنائیں گے تو اگلے روز ایک ایسی تحقیق آجائے گی، جو اس کے بالکل الٹ تجاویز دے گی۔ بالآخر آپ کو ایسا لائحۂ عمل بنانا پڑے گا، جو آپ کے گھر اور خاندان کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرتا ہو اور جس کو اپنا کر آپ اور آپ کا خاندان زیادہ سے زیادہ خوشی اور سکون حاصل کر سکیں۔ کوئی بھی تحقیق آپ کو یہ معلومات تو دے سکتی ہے کہ اس معاشرے میں بہت سے لوگ کس انداز سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں، لیکن خاص طور پر آپ کے گھر اور خاندان کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں کر سکتیں۔
اپنے گھر اور خاندان کے حوالے سے آپ کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور جب آپ اپنے خاندان کے بہترین مفاد میں کوئی فیصلہ کر لیں تو پھر آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کا یہ فیصلہ کچھ دیگر لوگوں سے مختلف کیوں ہے۔ کیونکہ ہر گھر اور خاندان کی ضروریات، حالات، وسائل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کسی دوسرے گھر اور خاندان کا فیصلہ ہو سکتا ہے ان کے لیے بہترین ہو، لیکن آپ کے لیے مفید نہ ہو۔ اسی طرح آپ کا کوئی فیصلہ آپ کے خاندان کے بہترین مفاد میں ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر گھر اور خاندان کے لیے قابلِ عمل ہو۔