معلوم انسانی معاشروں میں حق و باطل ، طہارت و خباثت ، حیا اور فحاشی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے، جتنا انسان کا وجود ۔ ابلیسیت کی پہلی فتح، اوّلین انسانی جوڑے کو لباس سے محروم کرنا تھا۔اس کا دوسرا کارنامہ پہلے انسانی خاندان میں قتل جیسے گھناؤنے فعل پر ابھارنا اور اسے تکمیل تک پہنچانا تھا۔
اس کے بعد یہی ابلیسیت ان تمام تاریخی واقعات میں کار فرما نظر آتی ہے، جو انسانی تاریخ کے عبرت ناک واقعات کہےجاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اصحاب سبت کا طرزِ عمل، جنھوں نے حیلے بہانے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اخلاقی اور الہامی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔ اسی معاشرے کے بعض افراد ان ہدایات کے باوجود بے تعلق رہے، ظلم و زیادتی سے صرفِ نظر کیا اور خاموش رہے حالانکہ یہ افراد نمازیں پڑھتے تھے ، تورات کی تلاوت بھی کرتے تھے اور اپنے یوم عبادت، یعنی ’سبت ‘ کی شدت سے پابندی بھی کرتے تھے، مگر ان کی تمام عبادت اورخلوص پوری آبادی کو تباہی سے نہ بچا سکا۔ اور وہ باغی افراد جو حدود کو پامال کرنے اور اپنے ربّ کی اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والے تھے، وہ اپنے ساتھ ان پاک باز افراد کو بھی لے ڈوبے جو مصلحت کے پیش نظر اپنی چونچیں پروں کے نیچے چھپائے رکھنے اورنام نہاد ’غیرجانب داری‘ اختیار کرنا ہی اپنا تقویٰ سمجھتے تھے۔
تاریخ کے ایسے ناقابلِ تردید واقعات کا ذکر کرنے کے بعد مستند ترین الہامی کتاب قرآنِ عظیم ان پر ایک جامع تبصرہ کرتی ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۲ (الحشر ۵۹:۲) ___یعنی اے وہ لوگو،جو اپنے آپ کو دانش مند، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور زمینی حقائق سے آگاہ سمجھتے ہو، ان ناقابلِ تردید تاریخی شواہد پر غور کرو اور سوچو تم کس رخ پر جارہے ہو ۔ تمھیں خبر نہیں کہ تم ایک قعرمذلت کے کنارے کھڑے ہو اور نہیں جانتے کہ تمھارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
ملک عزیز میں جب سے نام نہاد ’روشن خیالی‘ یا ’لبرل ازم‘ کے زیرعنوان معیشت، تعلیم، قانون ، معاشرت اورا بلاغ کو مشرف بہ ’مشرف‘ کیا گیا ہے اور آزادیِ رائے کے نام پر فحاشی اور عریانی کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ خود کو فخریہ ’لبرل‘ کہنے والے پاکستانی چینلوں پر اشتہاروں کی شکل میں اور ہندستانی اور مغربی پروگراموں کے ذریعے معاشرے کو فحاشی ، عریانی اور جنسیت کا عادی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی زوال کی آخری حد کو بھی پار کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک بہت بڑا ہوش مند اور باشعور طبقہ چیخ اُٹھا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ: ’’بےغیرتی اور بےشرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ’پیمرا‘ کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اخلاقی حدوں کو پار کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو سزا دینی چاہیے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہرسطح پر فحاشی برپا کرنے والوں اور قومی شاہراہ پر معصوم بچوں کے سامنے ایک شرمناک فعل اور سر عام درندگی و دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف محض ایک قرارداد ، ایک جلوس ، ایک دھواں دار تقریر یا فقط بددُعا کافی ہے؟ اور کیا کسی زندہ قوم کا ضمیر ایسے گھناؤنے واقعات کو ماضی میں دفن ہونے دے سکتا ہے؟ اور کیا صرف چند باشعور افراد کا مہذب انداز میں سنگین جرائم کی مذمت کر دینا ایسے واقعات کو روک سکتا ہے ؟
حقیقت ِحال یہ ہے کہ گھناؤنے اخلاقی جرائم کی خبریں، چاہے وہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انھیں جنسی اذیت پسندوں کے لیے کھلونا بنا کر پیش کرنے پر مبنی ہوں یا ایسے ذلّت آمیز واقعات تصویری شکل میں ہوں، انھیں ابلاغ عامہ کے پلیٹ فارم سے اس طرح پیش کرنا جیسے یہ کوئی ’تفریحی خبر‘ ہو، بذاتِ خود ایک الم ناک رویہ ہے۔ پھر اس کی اشاعت میں سبقت لے جانے کو اپنی فنی عظمت اور کامیابی کی علامت قرار دینا ،ایک بیمار ذہن اور ایک مُردہ ضمیر کی مثال ہے ۔ برائی کو برائی کہنا، ایمان کا تقاضا ہے، لیکن برائی کی اشاعت کو اس حد تک مشتہر کرنا کہ وہ معمول کی خبروں کی طرح ایک واقعہ بن جائے، اپنی جگہ اس جرم کی سنگینی سے کم نہیں ہے۔
ایسے جرائم کے سدباب کے لیے جو قوانین موجود ہیں، انھیں پوری قوت سے شفافیت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ان کے نفاذ میں جو کمی ہے یا الجھاؤ ہے، اسے دُور کیا جائے ۔ تفتیش اور فراہمی انصاف کے عمل کو فعال بنایا جائے۔
شرعی سزاؤں کا نفاذ، جو جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے، ان پر بے جا معذرت خواہی کا رویہ ترک کیا جائے۔ یاد رکھا جائے کہ مغربی تہذیب کی ہمدردی مجرم سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور مظلوم کے لیے داد رسی کے امکانات تنگ دلی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام عدل کا راستہ اپناتا ہے۔ کسی کو بے جا سزا کا شکار ہونے نہیں دیتا اور مظلوم کی دادرسی میں کوئی مداہنت نہیں برتتا۔اسلامی شریعت نے جن سزاؤں کو عام لوگوں کے سامنے نافذ کرنے کی ہدایت دی ہے، انھیں سرعام ہی نافذ ہونا چاہیے۔
اس مناسبت سے ابدی شریعت کی ہدایات کو شعوری طور پر معاشرے میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مزید جو اقدامات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں ان کی طرف اختصار سے اشارہ کیا جارہا ہے۔
اہلِ اسلام کے اخلاقی نظام کی بنیاد حیا پر ہے ۔یعنی ایک فرد وہ مرد ہو یا عورت، وہ تمام ایسے مواقع سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے، جن میں بے حیائی کا امکان پایا جاتا ہو ۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فقط نظر ی (تھیوریٹی کل)بات نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ہر اخلاقی حکم کے ساتھ اس کی عملی شکل اور ماپنے کا پیمانہ بھی فراہم کرتا ہے، تاکہ فلسفے کی جگہ عملیت غالب آجائے۔
حیا کے ماپنے کا پہلا پیمانہ اور معیار ایک فرد کا اپنی بینائی یا بصارت کا استعمال بھی ہے۔ ایک آنکھ قدرت کے وہ بے شمار مناظر (مثلاً دریا کا پُرسکون کنارہ ، کسی آبشارکے بلندی سے گرنے کا منظر ، کسی ندی کے پانی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں ارتعاش بکھیرنےکی آواز ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے مسحور کن مناظر) دیکھتی ہے، تو انسان کے ذہن میں مسرت، لذت اور سکون کے جو احساسات جنم لیتے ہیں اور لطف ملتا ہے، وہ شاید بہت سے مادی لذت کے مواقع سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ا س کے مقابلے میں اگر وہی آنکھ ٹی وی کی سکرین پر ایک نیم عریاں حوا کی بیٹی کو بچوں کے لیے چاکلیٹ، بسکٹ کی پیش کش کرتی نظر آتی ہےتو وہ چاکلیٹ سے زیادہ اپنے جسم کوایک پُرکشش اور گناہ کی طرف راغب کرنے والی شے بنا کر پیش کرتی ہے، جو نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی مہذب اخلاقی ضابطے سے میل نہیں کھاتی۔
’ حیا‘ کے احیا کا مطلب یہ ہے کہ ہماری درسی کتب ہوں یا کلاس روم میں معلم اور معلمہ کا تدریسی کام، یا گھر میں ماں باپ اور بچوں کا لباس ہو ، حیا پیش نظررہنا چاہیے۔ ایک کم اثاثے والے فرد کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی اس کی تلقین ہے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۰ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۲۷۳ۧ (البقرہ۲:۲۷۳)خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم اُن کے چہروں سے اُن کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگےوہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہےگا۔
گویا حیا محض جسم کے بعض اعضا کا چھپانا ہی نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ عمل ہے۔ اظہار زینت اور جسمانی خوب صورتی کو چھپانے کی شکل میں حیا کے حکم پر عمل کرنے کو ایک عقل کا اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے۔ انسان کا عمل ہی اجر کا پیمانہ ہے۔جب تک حیا کا احیا گھر ، مدرسے، تعلیم گاہ، معاشرے کے کاروبار اور ریاستی ایوانوں میں نہیں ہو گا،ہوس کی خوف ناکی اور ابلیسیت کی جارحیت میں کمی نہیں ہو سکتی ۔اس کے لیے اگر ریاست نااہل ہو تو پھر معاشرہ خود بہت سے اقدامات کر سکتا ہے ۔
جب کسی معاشرے میں برائی ، فحاشی ، عریانیت ، جنسیت پرستی اور خصوصاً خواتین کے جسم کو معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا عمل ( Sex-Exploitation) معمول بن جائے، تو پھر معاشرے کا اجتماعی ضمیر بھی غفلت کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسے بروقت جھنجھوڑ کر جگا دیا جائے تو پھر وہ فحاشی اور عریانیت کے خلاف نہ صرف کمر بستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اسے جڑ سے اُکھاڑ کر چھوڑتا ہے۔ اب یہ کام معاشرے کے افراد کا ہے ۔ اساتذہ ، تاجر، وکیل ، طبیب،انجینیر اور وہ لوگ جو معاشرے میں ایک قابلِ لحاظ مقام رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر برائی کے خاتمے کے لیے، اپنے سیاسی اور مسلکی اختلاف سے بلند ہو کر اپنی اولاد اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر فحاشی ، عریانی کے خلاف ایک زنجیر بن جائیں اور پوری قوت سے برائی کو پسپا کر دیں ۔اس میں ابلاغ عامہ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ باشعور شہری اجتماعی طور پر فحاشی و عریانی کے خلاف اپنے عزم کے اظہار کے لیے ملک گیر پیمانے پر صرف تین دن کے لیے اپنے گھروں اور دفاتر میں جہاں کہیں بھی ہوں، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے پروگراموں کو مکمل طور پر دیکھنا بند کر دیں تو تین دنوں ہی میں ابلاغ عامہ کے سوداگروں کو معلوم ہو جائے گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، یہ ایک قابلِ عمل چیز ہے ۔لیکن اس طرح کی ’پُرامن مزاحمت‘ صرف اس وقت ممکن ہے، جب ملک کے نوجوان کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنے تعمیری اثرات کا جو دعویٰ پیش کرتے ہیں، اس کا عملی ثبوت دیں۔ وہ میدان میں نکل کر، گلی گلی یہ پیغام دیں اور مساجد سے اعلان کروا کر یہ پیغام ہر فرد تک پہنچا دیں، خواہ شہروں میں رہتا ہو یا دیہات میں، اور نیکی کے سفیر بن کر بغیر کسی توڑ پھوڑ یا مطالبات کی سیاست کے، خود لوگوں تک پہنچ کر ان سے بھلائی ، نرمی ، محبت سے بات کریں، اور انھیں سمجھائیں کہ ہم ایسا کیوںکر رہے ہیں ؟
گذشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اچھے بھلے اور بظاہر ثقہ افراد بھی اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ طویل اور مختصر پیغامات پڑھنے اور بغیر کسی تصدیق کے انھیں انجانے افراد تک پہنچانے کا نامعقول فریضہ انجام دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے جس تیزی کے ساتھ افراد کے طرزِ حیات اور طرزِ فکر کو متاثر کیا ہے، اس کے مثبت اور تعمیری پہلو کے اعتراف کے باوجود اس کا نفسیاتی اور معاشرتی تجزیہ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کا استعمال ایک ایسے مقصد کے لیے جس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے ہمارے خیال میں غور طلب ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات کی صورت میں قوم کو یہ بات سمجھائی جائے کہ جب تک وہ خود نہیں جاگے گی، اس کے نام نہاد سیاسی رہنما یا حکومت کوئی پیش قدمی نہیں کرے گی۔ فحاشی اور قوم کو بے غیرت بنانے کے عمل کے خلاف جہاد میں بلاتفریق مسلک و مذہب پوری قوم کو جگانے اور ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوان اور دیگر افراد اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت نہیں، صرف اپنی لگن اور مقصد سے وابستگی کی بنا پر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک قابلِ عمل کام ہے ۔ایک دستوری حق ہے اور یہ کسی تشدد کے بغیر کیا جا سکتا ہے ۔
اس مہم میں اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ قومی سطح پر ملک کے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات ایک دن فحاشی، عریانی اور جنسیت کے خلاف یومِ احتجاج منائیں۔ طلبہ و طالبات خود الگ الگ مختلف سرگرمیاں ترتیب دیں۔ یہ خطبات بھی ہو سکتے ہیں ، تقریری مقابلے اور پوسٹرز کے مقابلے بھی۔ غرض وہ تمام ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعے ملک ِ عزیز میں اس احتجاج کا وزن محسوس ہو۔
نوجوان نسل نفسیاتی طور پر اس احساسِ کمتری میں مبتلا کر دی گئی ہے جس کا مظہر مغربی جنسیت زدہ طرزِ تہذیب ہے۔ اس میں لباس اتنا چست ہوتا ہے کہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دِقت کا باعث بنتا ہے ۔ قمیص کا چاک بڑھتے بڑھتے کمر تک پہنچنے کے بعد غائب ہوتا نظر آتا ہے یا قمیص بنیان کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ سب تقلید اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی مغربی رقاصہ یا مغرب کا کوئی پیشہ ور میراثی اور گویّا سٹیج پر اپنے مخصوص لباس میں نظر آتا ہے ۔یہ نفسیاتی اور ذہنی غلامی ہے، جسے دُور کرنے کے لیے یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے مابین سنجیدہ مکالمے کرنے کی ضرورت ہے۔ مکالموں کے ساتھ مضامین بھی لکھے جائیں، تاکہ آیندہ نسل کو یہ احساس ہو کہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر بھونڈی نقالی میں مبتلا ہو کر اپنی اقدار کو ترک کررہی ہے اور جنسیت کا شکار ہو رہی ہے۔
وہ قومیں جو اپنے تشخص کو برباد کرکے دوسروں کے دیے ہوئے اہداف کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتی ہیں، وہ شاہراہ ترقی پر قدم نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ درآمد شدہ اہداف وہ ہوتے ہیں جو بیرونی اقوام اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیتی ہیں ۔اس صدی کے اہداف (Millennium development goals) جن پر ہماری ہر سیاسی حکومت نے بغیر کسی تکلف اور عقل کے استعمال کے آمنا و صدقنا کہہ کر انھیں اختیار کیا ہے، اپنی جگہ وہ بھی فحاشی و عریانیت اور جنسیت کے پھیلاؤ کا ایک سبب ہیں۔
تعلیم کے اہداف ہوں یا معاشرتی صحت کے معیارات، ان میں جنسی تعلیم ، حتیٰ کہ غیرانسانی جنسی تعلق کو ایک قابلِ قبول تصور بنا کر گوناگونی یا تنوع ( Diversity )کی دھوکا دینے والی اصطلاح کے زیرعنوان حکومتی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے ۔یہ جنسیت اور فحاشی کو ’اخلاقی‘مقام دلانے کی ایک کوشش ہے کہ انسانوں میں اس کا پایا جانا اس لیے برا نہیں ہے کہ مغرب نے اس بے راہ روی کو سینے سے لگا لیا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو جس قرض پر ہم پلنے کے عادی ہوچکے ہیں، اس کے حصول میں دِقت ہو گی ۔
ہر اخلاقی برائی کو ’معاشرتی ضرورت‘ کہہ کر ایک اخلاقی عمل بلکہ ایک لبرل اخلاقی عمل قرار دینا، نہ عقل سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ قومی تشخص اور اقدار سے کیوں کہ ایک کافر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک کی بنیاد اور اساس کلمۂ کفر پر ہے ۔ ایک عقل سے عاری شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کا وجود صرف ایک کلمے کی بنیاد پر ہے، کہ یہاں اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہو گا ، نہ بیرونی قرضے اس کی قسمت طے کریں گے ، اور نہ کوئی لبرل اقدار ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی کہ جن کا بہت تذکرہ کیاجاتا ہے۔
گویا ہمارا تشخص اور ہمارا وجود صرف اور صرف نظریۂ پاکستان سے وابستگی کی بنا پر ہے۔ – صرف اورصرف کلمۂ طیبہ اور کلمے کا نظام اس ملک کی بنیاد ہے اور اس ملک میں صرف اسی ربّ کا نظام نافذ ہو گا ، جس سے قوم نے اس ملک کے قیام کے موقعے پر وعدہ کیا تھا ۔یہ ملک اللہ ربّ العزت نے بطور تحفہ اُس قوم کو عطا کیا تھا، جو اپنے تشخص کی تلاش کے لیے سرگرداں تھی ۔ پھر اس قوم نے رنگ ، نسل ، زبان ، صوبائیت کے تمام جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا الله کی بنیاد پر جدوجہد کی۔
سات سال (۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء) کے قلیل عرصے میں برصغیر کے مسلمان ایک امت اور ایک نظریاتی قوم بن کر ابھرے، جنھیں یہ خطۂ زمین عطا ہوا۔یہ خطۂ زمین اللہ ربّ العزت کی جانب سے ہمیں صرف اور صرف اس لیے عطا ہوا ہے کہ یہاں کی تہذیب ، ثقافت ، معیشت، معاشرت ،سیاست ،سب کے سب دائروں میں اللہ کے احکامات اور اس کی شریعت سے رہنمائی لی جائے، اور ابلیسی ہتھکنڈوں سے بچ کر جنسی اور معاشرتی استحصال سے پاک معاشرہ قائم کیا جائے، نیز یہاں شرم ، حیا ، عزّت ، احترام ، عدل اور انصاف کے اصولوں کی فرماں روائی ہو ۔
حیا کے کلچر اور تہذیب کا احیا قابلِ عمل ہے۔ صرف اخلاصِ نیت، شعورِ حیات ، شعورِ منزل اور اپنی ذات ، گھراور معاشرے سے کام کے آغاز کی ضرورت ہے ۔ بعد کے مراحل پر کامیابی دینا اللہ ربّ العزت کی مرضی پر منحصر ہے۔