ویسے تو خطہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں سبھی مہینے بہت سی خونیں یادیں لے کر وارد ہوتے ہیں، مگر ۷۳ سال قبل اکتوبر کا مہینہ بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لے کرآیا، کہ اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ہے۔ برصغیر میں جب دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آکر آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے کا آغاز کر رہی تھیں، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد اس خطے کے باسیوں کو بھی راحت ملے گی، مگر قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ کچھ اپنے لیڈروں کے خود غرض اور عاقبت نااندیش فیصلوں، اور کچھ قوم کی نادانی اور ان بے لگام اور احتساب سے بالاتر لیڈروں کے پیچھے پالتو جانوروں کی طرح چلنے کی روش نے کشمیری قوم پر آزمایش اور ابتلا کا ایک ایسا دور شروع کیا، جو آج ایک بدترین مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
جب بھارت اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھے، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔ کئی بر س قبل جب دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے دی ٹائمز لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ءکی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس نسل کشی میں ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سبھی کا یہی سوال تھا، کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام اخبارات سے کیسے یکسر غائب ہے ؟ کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دے کر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر جلد ہی اس پر مباحثے کو دبادیا گیا۔
جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ ۱۹۴۱ میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی۳۲ لاکھ اور ہندؤوں کی آبادی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں ۹۳فی صد جب کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی۔ اگر ان علاقوں کو، جو تقسیم کے بعد آزادکشمیر کا حصہ بنے، انھیں شمار نہ کیا جائے تو موجودہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۷۷ء۱ فی صد تھی۔ ۱۹۶۱ءکی مردم شماری میں مسلم آبادی گھٹ کر۶۸ء۲۹ فی صد رہ گئی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثر یتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں کے خطے میں مسلم آباد ی کا تناسب ۳۳ء۴۵ فی صدہے۔
جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ء کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ ان کے بقول: ’’ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقے میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی‘‘۔ وہ کہتے تھے: ’’اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کے لیے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجا کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے‘‘۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’بالکل اس طرح‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔بقول وید بھسین، مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر اڑا ہوا تھا۔ جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر جموں و کشمیر انتظامیہ کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، تو انھوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا: 'ہم نے کئی بار ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا، مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے یا کہتے تھے کہ ’’جموں کے مسلمانوں نے ان کوکبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا تھا‘‘۔ ان کو شکوہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے برعکس ۱۹۳۸ء میں جب انھوں نے مسلم کانفرنس سے کنارہ کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تو جموں کے مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں چودھری غلام عباس کا دامن تھامے رکھا۔ محقق خالد بشیر لکھتے ہیں: مسلم کش فسادات کا سلسلہ کشمیر میں قبائلی پٹھانوں کے داخل ہونے سے قبل ہی شروع کردیا گیا تھا۔ اس لیے متعصب مؤرخین اور تاریخ سے نابلد اور عاقبت نااندیش صحافیوں کا یہ کہنا کہ ’’وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے، درست بات نہیں ہے، کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں‘‘۔
اس خطے پر اب ایسی نئی افتاد آن پڑی ہے، کہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں یہ ۳۳فی صد رہ جانے والی مسلم آبادی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ جموں خطے کے مسلم اکثریتی پیر پنچا ل اور چناب ویلی کے علاقوں سے مسلمان آکر جموں شہر اور اس کے آس پاس زمینیں خرید کر بس جاتے ہیں، جو کہ ’لینڈ جہاد ‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے جموں شہر اور اس کے آس پاس آباد ی کا تناسب بگڑ رہا ہے‘‘۔ کیا پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ کے اضلاع جموں خطے کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر ان دُور دراز علاقوں سے تعلیم اور معاش کے لیے لوگ اس خطے کے واحد بڑے شہر جموں وارد ہوتے ہیں، تو اس سے آبادی کا تناسب کیسے بگڑ سکتا ہے؟ دوسال قبل ایک مہم کے تحت جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا۔ حالانکہ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے، لیکن صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا تھا، جہاں وہ پچھلے ۷۰برسوں میں کم ہوتے ہوتے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔اب حال میں یہ افسانہ بیچا جا رہا ہے کہ ’’پچھلے کئی برسوں سے ’جموں و کشمیر روشنی ایکٹ‘ کے تحت زمینوں کے وسیع و عریض قطعے مسلمانوں کے حوالے کیے جارہے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں بے لگام بھارتی ٹی وی چینلوں نے بھی بغیر کسی ثبوت اور دستاویز کے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے۔ برسوں کی عدالتی غلام گرد شوں سے تنگ آکر۲۰۰۱ء میں حکومت نے ’روشنی ایکٹ‘ کو اسمبلی میں پاس کروایا، جس کی رُو سے ۲۰لاکھ کنال کی حکومتی زمین پر لوگوں کے مالکانہ حقوق کو معاوضہ کے عوض تسلیم کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ اس زمین پر ۱۹۹۰ءسے قبل رہ رہے ہوں۔ اس سے حکومت کو ۲۵۰بلین روپے کی رقم کمانے کی امید تھی۔۲۰۰۵ء میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ۱۹۹۰ءسے بڑھا کر یہ مدت ۲۰۰۵ء، اور بعد میں غلام نبی آزاد نے ۲۰۰۷ء کردی۔ معلوم ہوا چونکہ اس کا فائدہ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے ا ٹھایا تھا، اس لیے حکومت ۷۰کروڑ روپے کی رقم ہی اکٹھا کرپائی۔
معروف صحافی مزمل جلیل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس قانون کی رُو سے جموں میں۴۴۹۱۲ کنال زمین تقسیم ہوئی تھی، جس میں محض۱۱۸۰ کنال زمین یعنی۲ء۶۳ فی صد ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ مسلمانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینا تو دُور کی بات، ان کی وقف زمینوں پر بے جا قبضے کر لیے گئے ہیں۔ چند برس قبل جلیل نے جب وقف زمینوں کو ہتھیانے پر تحقیق شروع کی، تو معلوم ہوا کہ نہ صرف فرقہ پرست، بلکہ حکومت کے مقتدر حلقے خود اس خرد برد میں ملوث تھے۔ اس خطے میں۳۱۴۴ کنال وقف زمین غیر قانونی قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان ، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مڑتحصیل میں وقف کونسل کی ۴۶۰کنال زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیا یا ہے اور مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بقیہ زمیں پر آبادی کھڑی کر دی ہے۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطے پر سبھاش نامی ایک شخص نے قبضہ جما لیا ہے۔ تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں ۴۹کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ۶۵کنال زمین پر پولیس نے اپنا ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاری کی ۴۹کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ ’مسلم وقف کونسل‘ کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کررہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو ’عطیہ‘ کردیاہے۔ ’وقف کونسل‘ کی اجازت کے بغیر ہی ۶۰کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔ جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔ تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقے میں وقف کی۹۸کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں ۲۰کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔ تحصیل اکھنور کے مہر جاگیر ۶۵کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی ۳۷کنال زمین ہتھیا لی ہے۔
اگر موجودہ حالات اور کوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ۱۹۴۷ء کے واقعے کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت میں مسلم قائدین سے بھی گزارش ہے کہ کچھ ملّی حمیت کا ثبوت دے کر عمل سے نہ سہی ، کچھ زبانی ہی جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کریں۔ اگر لال سنگھ یا اس طرح کے افراد اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو خون ان گونگے، بہرے، مسلم لیڈروں کی گردنوں پر بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نریند ر مودی کی حکومت ،جو بیرونِ ہند گاندھی جی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگر کروانے کی کوشش کرتی ہے، کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ــ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو، لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ بھارت مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔اگر بھارت جموں و کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا، تو ساری دنیا میں اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ بقول شیخ عبداللہ، گاندھی جی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے، جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔