'’الفاوومن‘ اور’ سپر وومن‘ جیسے افسانوی اور فلمی کردار، پیسہ بٹورنے کی خاطر پاپولر فیمنزم، کارپوریٹ کلچر اور فیشن انڈسٹری میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا آلۂ کار بننے والی خواتین، دولت اور شہرت تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اپنی حیثیت، فطرت اور نسوانی شناخت کھو دیتی ہیں۔
جانوروں کا مطالعہ کرنے والے محققین اعلیٰ درجے کے جانوروں کے لیے ’الفا‘ یعنی فعال اور برتر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ جانوروں کی کچھ انواع میں نر اور مادہ مل کر شاہانہ کردار اداکرتے ہیں جس کو '’الفا جوڑی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
’ الفا‘ جانوروں کو عام طور پر کھانے پینے اور دیگر مطلوبہ اشیا و سرگرمیوں تک ترجیحی بنیاد پر رسائی حاصل ہوتی ہے۔ جانوروں کی کچھ انواع میں ’الفا‘ حیثیت مستقل نہیں ہوتی بلکہ 'جو جیتا وہی اسکندر کے مصداق، مستقل طور پر جاری لڑائیوں میں غالب آنے والے کو ہی یہ عہدہ ملتا ہے۔ وہ طاقت ور جانور جو ان لڑائیوں کے آغا ز میں ہی اپنے سے زیادہ قوی جانور کی الفا حیثیت تسلیم کرلیتے ہیں انھیں دوسری پوزیشن (سیکنڈ ان کمانڈ، وزیر) مل جاتی ہے۔ جنھیں حیوانی معاشروںمیں نچلی ذات کے ’بیٹا جانور‘ (Beta)کا نام دیا جاتا ہے۔
الفا مرد کیا ہوتا ہے؟
انسانوں کے وہ معاشرے اور تہذیبیں جووحی الٰہی سے ہدایت لینے کے بجائے انسان کےاختیار، ارادے اور خواہشات سے تشکیل پاتی ہیں، ان کے اصول اور اقدار بھی حیوانوں کی طرح جبلّتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں '’الفا مرد‘ معاشرتی درجہ بندی میں سب سے اوپر ہوتے ہیں جن کے پاس زیادہ دولت، جسمانی قوت، دھونس، دھمکی، غلبہ اور سیاسی طاقت ہوتی ہے۔ الفا مردوں کو ’مرد کا بچہ‘ (رئیل مین) بھی کہا جاتا ہے اور ان کے مقابلے میں دیگر کمزور، مطیع اور محکوم حیثیت کے لوگ '’بیٹا مرد‘ کہلاتے ہیں۔ الفا مردوں کے لیے نکاح یا قانونی تعلق کی کوئی قید نہیں ہوتی، جب کہ بیٹا مرد عموماً اپنی بیوی کے ساتھ ہی زندگی گزارتے ہیں اور انھیں عام طور پر '’بھلے مانس‘ (Nice Guy') بھی کہا جاتا ہے۔
ان معاشروں، تہذیبوں اور ثقافتوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کے مطابق مردانگی کی کثیر الجہتی اقسام میں تمیزکرنے کا ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ وہ صنف ِ مخالف کے لیے کس قدر جاذبیت اور دل کشی رکھتا ہے۔ خواتین صرف ان جارح مردوں کو ترجیح دیتی ہیں، جو اپنی جارحیت، تشدد اور غلبے کا استعمال گھر سے باہر کے مرد وں اور حریفوں پر کرتےہوں اور اپنی قائدانہ صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کو ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے والے ہوں۔ لیکن اگر اس کے غلبے اور جارحیت کا رُخ خاتون خانہ کی جانب ہو تو ایسے مرد کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔
’الفا‘ عورت کیا ہوتی ہے؟
تہذیبوں اور معاشروں کے مطالعات میں ’الفا مرد‘ کے لیے بہت حوالے موجود ہیں اور اس کا اطلاق ایک ایسے آدمی پر ہوتا ہے جوجسمانی قابلیت، اعلیٰ کامیابیوں کے حصول، کشش، دھونس اور دوسروں کو اپنی مرضی کے مطابق جھکانے والے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ’الفا عورت‘ کیا چیز ہے؟ کیا اس کا کوئی حقیقی وجود ہے یا یہ ایک خیالی اور فلمی کردار ہے؟ کاروباری کلچر میں اگر الفاگرل ماڈل کو الفامرد کے ماڈل پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا وجود شاید کسی کمپنی کے بورڈ آف گورنرز کے ارکان میں تو نظر آئے، جہاں وہ اپنے کاروباری عزائم کی تکمیل میں تحکمانہ لہجے میں رعب جھاڑتی ہوئی نظر آئے گی، لیکن معاشرے میں چلتے پھرتے کردار کی شکل میں یہ شاید ہی نظر آئے۔ کام کی جگہوں پر نظر آنے والی نمایاں خواتین بھی دبائو ڈالنے والے دبنگ کردار کی حامل نہیں ہوتیں، اس لیے عملاً بہت کم خواتین جاب میں اعلیٰ مقام تک پہنچ پاتی ہیں۔
اس لیے ’ 'الفاوومن‘ کا اصل وجود حقیقی زندگی میں نہیں بلکہ قصے، کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ افسانوی نثر میں دکھایا جاتا ہے کہ الفا خواتین کی زندگی کا اصل محور 'کامیابی کا حصول ہےاور باقی سب چیزیں ثانوی ہیں۔ وہ رشتوں کا جنوں نہیں پالتیں، ہر چیز پر غالب رہنا چاہتی ہیں۔ کہانیوں میں ’الفاگرل‘ کا '’الفامین‘ کے ساتھ رشک، حسد اور مقابلہ تو دکھایا جاتا ہے، لیکن ان کی آپس میں شادی نہیں دکھائی جاتی۔ ناول نگار فے ویلڈن (Fay Weldon) الفا فیمیل کو کارپوریشن چلاتے ہوئے دکھاتی ہے، مگر گھر یلو دائرہ جہاں وہ ’سپرمین‘ سے مختلف نظر آسکتی ہے، وہ اس کو بالکل نظرانداز کردیتی ہے۔
ناول، افسانے اور فلم میں ’الفا وومن‘ اور '’سپر وومن‘ دو الگ کردار ہیں۔ ’سپروومن‘ کردار کی عورت ہر کام کرتی ہے۔ وہ اچھی بیوی ہونےاوراچھی کمائی کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ لیکن ’الفا وومن‘ کا گھریلو کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ ان کاموں کے لیے کسی اور کوملازم رکھتی ہے۔ اسے شادی شدہ عورت کے رُوپ میں نہیں دکھایا جاتا، لیکن وہ شادی کی خواہش ضرور رکھتی ہے۔ وہ الفا مردوں کو حقارت سے دیکھتی ہے اور وہ اس سے گھبراتے بھی ہیں۔ اس لیے تنہائی اس کا مقدر ہوتی ہے (ہو سکتا ہے یہ کردار عورت کو تنہا کرنے کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہو؟)۔
’الفا عورت‘ کا کردار امریکی فلموں میں بھی دکھایا جاتا رہاہے، لیکن یہاں بھی یہ کردار خواتین کی اصل صفات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ کردار درحقیقت عورت کے رُوپ میں’الفا مرد‘ کی خصوصیات ہی کا حامل ہوتا ہے اور اس کو عموماً ایسےعفریت اور ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جو بہت ہوشیار، سفاک، خود غرض اور جنس کا رسیا ہوتا ہے۔ ہالی ووڈ موویز میں ’الفا عورت باس‘ کو مطلب کی رانی، ڈریگن لیڈی، لڑاکا عورتوں کے گینگ کی ملکہ [یعنی پھولن دیوی] اور مردوں کو اپنے اشاروں پر نچانے والی خاتون کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ تاہم، ساراہ ڈنانت(Sarah Dunant) کے مطابق ہالی ووڈ سے باہران ’الفاخواتین‘ کو ’سپر انسانی مخلوق‘ کے بجائے غیر انسانی وجود تصور کیا جاتا ہے۔
فلم پروڈیوسر لیزی فرانک کے مطابق کچھ برسوں سے ہالی ووڈ میں بھی ’الفا عورت‘ کے کردار پسند نہیں کیے جاتے بلکہ اس کے بجائے لارا کروفٹ اور ٹرمینٹریکس جیسی ایکشن ہیروئین کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ایکشن ہیروئینز کے کردار بھی ’الفاگرل‘ کردار ہی کی نئی شکل ہیں،جنھیں فلم بینوں کی پسند کے مطابق تخلیق کیا گیا ہے۔ ان میں کچھ مردانہ صفات کے ساتھ ساتھ نسوانی خصوصیات کو بھی بڑھا چڑھا کر دکھا یا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ اپنے دشمن پرغیرانسانی طریقے سے تشدد کرتے ہوئے اسے گولیوں سے بھون رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف انھیں بہت ہی تنگ سوٹ میں (جس میں جلداور لباس کا کوئی فرق واضح نہیں ہوتا) دکھا کر نوجوانوں میں ہیجان انگیز جذبات ابھارے جاتے ہیں اور گاہک بنا کر ان سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔
’الفا عورت‘ کا کردار شاید ہاتھیوں کی زندگی سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا ہو؟ ہاتھیوں کے جنگلی معاشرے کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں ہتھنی کا کردار غالب نظر آتا ہے۔ لیکن فیمنسٹ ڈسکورس میں جس طرح افلاطونی ’مدرسری نظام‘ دکھایا جاتا ہے۔ اس کا ہاتھیوں کے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رہے، ہاتھیوں کے معاشرے کی قیادت بزرگ ہتھنی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی مضبوط مادہ ہوتی ہے، جسے ’دانش مند اور مہربان‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کمال یہ ہے کہ وہ اپنے غول کے ارکان کو مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے اور نر ہاتھیوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھتی ہے، جتنا مادہ ہاتھیوں کا۔ و ہ اپنی قیادت اور طاقت سے دھونس نہیں جماتی اور نہ لطف اُٹھاتی ہے بلکہ اس میں سب کو شریک کرتی ہے اور اپنےہاتھی معاشرے کے فروغ کے لیے اَن تھک محنت کرتی ہے۔ وہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ اپنی جسمانی قوت کو مثبت مقاصد کے لیے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ ماہرین حیوانات کے مطابق بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے، وہ ہر وقت سب سے جڑی ہوتی ہے۔ وہ فیمنزم کے ’الفا گرل‘ ماڈل کی طرح نہیں ہوتی کہ شادی اور بچوں سے دُور بھاگے، بلکہ اس کےلیے اس اہم عہدے پر برقرار رہنے کے لیے زچگی کے عمل سے گزرنالازمی شرط ہے۔ وہ زچگی پر نہ کوئی سمجھوتہ کرتی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھیوں کے معاشرے کا کوئی بھی رکن اس پر تصنع، غیر فطری عمل، جعل سازی یا مقابلہ کرنے کا الزام نہیں لگاتا۔ تمام نر ہاتھی اسے دل و جان سے چاہتے اور اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔
’الفامؤنث‘ کا کردار نہ صرف جانوروں میں ناممکن العمل ہے بلکہ انسانی معاشروں میں بھی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسی کوئی حقیقی ’الفاعورت‘ وجود نہیں رکھتی جو مردانہ صفات کے بغیر اپنی شناخت رکھتی ہو۔ جولیا پیٹن جونز (Julia Peyton Jones) کے مطابق ’الفا مرد‘ ایک مردانہ تصور ہے، لیکن جب اسے خواتین پر لاگو کیا جاتا ہے تو وہ خواتین نہیں رہتیں بلکہ مردانہ صفات کی حامل شخصیت نظر آتی ہیں۔ خواتین مردوں کی طرح طاقت ور ہو سکتی ہیں، لیکن انھیں ’الفا خواتین‘ کہنا بہت محدود کرنے اور ان کی نسائی شناخت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ فطرت نے خواتین کو مختلف قسم کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے نوازا ہے اور وہ اپنی نسوانیت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر خواہش کو بہت زیادہ جارح اورجھگڑالو ہوئے بغیر بھی پورا کر سکتی ہیں۔
الفا عورت، فیمنزم اور فیشن انڈسٹری میں
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’الفاگرل‘ کے خیالی تصور کو فکشن اور فلموں میں استعمال کرنے کے بعد فیمنسٹ ڈسکورس میں کیوں اور کیسے متعارف کرایا گیا؟ فیمنزم اور سرمایہ داری نظام کے گٹھ جوڑ سے اسے کارپوریٹ کلچر اور فیشن انڈسٹری میں لاگو کرنے کی کس طرح کوشش کی جارہی ہے ؟ معاشرے کی عام نوجوان خواتین بلا سوچے سمجھے فیشن کی بھیڑ چال میں اس غیر فطری تصور کو مقبول بناکر، استحصالی طبقے اورمنافع خوروں کے ہاتھ کیوں مضبوط کر رہی ہیں؟
۲۰۱۵ء میں ایک پرچون فروش اُودر وائلڈ نے عورتوں کی ایک ٹی شرٹ متعارف کرائی، جس پر لکھا تھا The Future is Female (مستقبل خواتین کا ہے)۔ یہ ڈیزائن اتنا مقبول ہوا کہ اس کی پہلی کھیپ دو دن کے اندر فروخت ہو گئی۔ اس ڈیزائن میں فیمنسٹ خواتین کے احساسِ برتری کو ’الفاگرل‘ تصور کے اندرسموکر اس خوبی سے پیش کیا گیا کہ راتوں رات یہ ہر لڑکی کی اولین خواہش بن گیا۔ فیمنزم کی سیاسی تاریخ میں اس ٹی شرٹ نے ایسا دھماکا کیا کہ اس کے بعد فیمنسٹ تحریک، حقوق نسواں کی جدوجہد چھوڑ کر پاپولر فیمنزم کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ اب جلسے جلوس کی مشکلا ت اٹھانے، لاٹھیاں کھانے اور کتابیں لکھنے کے بجائے خوب صورت نعروں کے ذریعے فیمنزم کی نئی جدوجہد کا رخ متعین کیا گیا۔ ان نعروں میں My Uterus, My Choice (میری بچہ دانی، میرا انتخاب)۔ Girls just wanna have fun-damental Rights (لڑکیاں صرف تفریحی حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں) وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔
’الفاگرل‘ماڈل کوفیشن انڈسٹری اورپاپولر فیمنزم کے بے ہودہ جنسی نعروں کے ذریعے پروموٹ کرنےکا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر سارہ بنیٹ ویزرنے لکھا ہے: ’’ہم کسی آئیڈیالوجی کو لطیفوں، چٹکلوں اور نعروں کی شکل میں مقبول عام بنا دیتے ہیں تو وہ سننے یا دیکھنے والے کو وقتی طور پر تو راغب کرتے ہیں، لیکن پھر فوراً اس کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سطحی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ پیسے بٹورنے کا دھندہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تبدیلی کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ یوٹیوب کی ایک سیریز Girls Who Code کی ایک ڈاکومینٹری GTFO کی مثال دیتی ہیں جس میں ایک لڑکی، مردوں کا مذاق اڑاتے ہوئے، انھیں پاگل قرار دیتی اور متعدد تضحیک آمیز اور فحش جملے کہتی ہے۔
پروفیسر سارہ مزید کہتی ہیں: ’’پاپولر فیمنزم اور فیشن انڈسٹری کے گٹھ جوڑ میں عورتوں کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا، جہاں خواتین کی بے توقیری ہے وہاں یہ انسانیت اور تہذیبی اقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔
پاپولر فیمنزم اور فیشن انڈسٹری سے متاثر ہو کر مختلف تنظیمیں اور کارپوریشنیں بھی دوسروں پر اثر انداز ہونے، مقصد اور اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرنے والے قائدین کو '’الفا قائد‘ کا نام دیتے ہیں۔ یعنی یہ تصور قصے، کہانیوں، فکشن، فلموں، پاپولر فیمنزم سے ہوتا ہوا کاروباری کلچر میں بھی پہنچ چکا ہے اور یہاں '’الفا لیڈر‘ کی اصطلاح مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ الفا قیادت کے اصل معنی کیا ہیں؟ یہ تو کسی پر واضح نہیں لیکن اسے ادارے کے بلند حوصلہ، آرزومند اور نوجوان سربراہ یا سی ای او کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاروباری کلچر میں ’الفا مرد‘ کو تو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن ’الفا خاتون‘ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ مشکل اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ’الفا مرد‘ اور ’الفا خاتون‘ کی شناخت کی بات ہو۔کاروباری کلچر کی سخت تربیت سے خواتین میں مصنوعی طور پر مردوں کی کچھ خصوصیات تو پیدا کر لی جاتی ہیں، لیکن جب وہ '’الفا خاتون‘ کا رُوپ دھارتی ہیں تو ان میں نسوانی شناخت کہیں نظر نہیں آتی، وہ ایک مرد ہی نظر آتی ہیں۔
مشہور اور بااثرخواتین کیا الفا خواتین ہیں؟
پروفیسر سوزن گرین فیلڈ ایک معروف سائنس دان ہیں اورکئی عہدے رکھنے کے ساتھ ساتھ برطانوی دارالامراء کی ممبر بھی ہیں۔ وہ ہر وقت خوب صورت نظر آنے کے لیے بھی خاصا وقت نکالتی ہیں اور’الفا خاتون‘ بننے کی امیداوار بھی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اگر کوئی خاتون ’الفا‘ اسٹیٹس حاصل کر بھی لے، تو وہ ممکنہ طور پر مردوں کے گروپ میں واحد خاتون ہوتی ہے۔ وہ ایک لیڈر بن سکتی ہے لیکن اس کی خوبیوں میں مردانگی پوری طرح نہیں سما سکتی، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کی نسوانی شناخت میں واضح طور پر کمی ہوجاتی ہے‘‘۔
ثقافتی ماہرین کے مطابق برطانیہ میں مردوں کا عورتوں کا رُوپ دھارنا اور عورتوں کا مردانہ خصوصیات اور اقدار کی نمایش کرنا عام بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی معاشرے میں ’الفا خاتون‘ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ ملکہ الزبتھ اول ایک زبردست رہنما، بہت قابل اور اسٹائلش خاتون تھیں، لیکن انھیں مرد رہنمائوں جیسا نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ان پر ’الفا خاتون‘ کا لیبل لگانا درست بات نہیں اور یہی معاملہ موجودہ ملکہ الزبتھ کا ہے۔
نیکولا ہارلک (Nicola Horlick) برطانیہ میں اعلیٰ مالیاتی حیثیت اور سیاسی مقام و مرتبے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں میڈیا نے انھیں '’سپر خاتون‘ کا خطاب دیا۔ پچھلے سال، ایک روز اپنے گھر سے باہر نکلی ہی تھیں کہ ایک ڈاکو نے انھیں لوٹنے کی غرض سے گھیر لیا۔ ہارلک کے پاس حفاظت کے لیے ذاتی پستول موجود تھا،لیکن گھبراہٹ میں وہ اسے استعمال نہ کر پائیں اورڈاکو نے ان کے سر پر چوٹ ماردی۔ ضرب کھانے کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اورڈاکو کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ہارلک نے کہا: کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ 'میڈیا مجھے ’سپر خاتون‘ کہتا ہے، لیکن میں اپنے چھے بچوں کو سنبھالنے سے قاصر ہوں، اس کے لیے مجھے دوسروں کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ نچلے طبقے کی کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جو ملازمت کے ساتھ اپنے بچوں کو خود سنبھالتی ہیں۔ میرے ساتھ نوکروں کے علاوہ بچوں کی نانی بھی ہے جو ہروقت ان کا خیال رکھتی ہے۔ ہارلک نے مزید بتایا کہ ’’مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ’سپرخاتون‘ خودانحصاری کے کس مقام پر فائز ہوتی ہے، لیکن اگر میرے ساتھ ماں، نانی اور شوہر کی طرف سے دیا گیا اعتماد اور دعائیں نہ ہوتیں تو میں شاید ڈاکو کا مقابلہ نہ کر پاتی‘‘ ۔
ڈیم سٹیلا ریمنگٹن (Dame Stella Rimington) برطانیہ کی ہوم انٹیلی جنس سروس ایم آئی فائیو کی پہلی خاتون سربراہ تھیں۔ انھوں نے اس ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا اور جب وہ ڈائرکٹر جنرل بنیں، تو ان کے لیے یہ اعزاز باعث حیرت تھا کیونکہ انھیں اس کی توقع نہیں تھی۔ انھوں نے کئی کتابیں اور ناول بھی لکھے اور میڈیا میں وہ ’الفا وومن‘ تصور کی جاتی ہیں۔ انھوں نےریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ اس طرح کے عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کی شخصیت اورنقطۂ نظر عام خواتین سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ان کی عام زندگی اور کیرئیر کبھی معمول کے مطابق نہیں چلتے۔ ساری زندگی مردوں کی طرح اور ان کے درمیان ان تھک محنت، عزم، ہمت، اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عورت میں سے نسوانی خصوصیات غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسی خواتین کو اہم اداروں کی سربراہ بننے کے بعد ’الفا مرد‘ تو شاید کہا جا سکتا ہو، لیکن '’الفاوومن‘ کہنا بہت مشکل ہے‘‘۔
امریکا کے ایک فیشن میگزین US Vogue کی ایڈیٹر اینا ونٹور بھی دنیا کی بااثر خاتون سمجھی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اینا ونٹور کو افسانوی کردار اور ’الفاخاتون‘ ظاہر کرتے ہیں،جب کہ وہ انجانے خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ہروقت ڈارک شیشوں کے پیچھے زندگی گزارتی ہیں۔ وہ کسی تصوراتی دنیا کی ’الفا خاتون‘ تو ہو سکتی ہیں، لیکن حقیقی دنیا میں ان کا ایسا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔
مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام و جدید ریاست، سیکولرازم، لبرل ازم، فیمنزم جیسے نظریات اورمیڈیا، فیشن انڈسٹری، کاروباری کارپوریشنوں کے ذریعے پوری دنیا پر ہوس، حرص، دولت اور جنس زدگی کا جابرانہ نظام مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں نوجوان اور پُرکشش خواتین کو کم لباسی اور تیز میک اَپ سے مسلح کرکے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ ترقی اور شہرت کی خواہش مند خواتین ان کے دام میں پھنس کر’الفاخاتون‘ اور’سپر خاتون‘ بننے کا جنون اپنے اُوپر سوار کر لیتی ہیں۔ لیکن خواتین کی اکثریت نہ ان کرداروں کو پسند کرتی ہے اور نہ ایسا بننا چاہتی ہے۔ یہ ادارے خواتین کی انفرادیت اوراحساس برتری کو اس قدر ابھار تے ہیں کہ وہ تضادات کا مرقع بن کر اپنی اصل حیثیت اور فطرت کو بھول جاتی ہیں اور کمال نادانی میں اس بات سے انکار کرنے لگ جاتی ہیں کہ وہ دوسری خواتین کی طرح ہیں۔ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے اور وہ حسرت و پامال زندگی کا نمونہ بن کر زندگی کے بقیہ دن گزارتی ہیں۔