ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، یعنی لائن آف کنٹرول پر ۲۰۰۸ء کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر ۲۰۱۹ء میں پلوامہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔ اب ۲۵فروری ۲۰۲۱ءکو جس طرح اچانک بھارت اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کو خاموش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام خوش آیند، مگر حیران کن اور خدشات سے بھرا پڑاہے۔
اس سے قبل بھارت اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلا کرکے چھے ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے سکون کا سانس لیا ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیش تر کسان یاتو نقل مکانی یا بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ، باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی، تنازعے کو کنٹرول (Conflict Management ) کرنے میں کسی حد تک کارگر ہوسکتی ہے اور اگر اسے Conflict Resolution (تنازعہ کو حل کرنے) کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تو ایسے اہتمام دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دبائو پڑتا ہے، تو وہ کسی ایسے اقدام کا اعلان کرکے سبزباغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیںاور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔
ملٹری افسران کی طرف سے فائربندی کے اعلان سے صرف ایک روز قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوا نے دہلی میں ایک سیمی نار کے دوران بڑے اعتماد سے کہا تھا: ’’پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیرمتعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو‘‘۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا پس پردہ کام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔
ایک ما ہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ ’’وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف سے امن کے ہاتھ آگے بڑھائے جائیں‘‘۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم پر ہونے والے آن لائن اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جنھیں وزیر اعظم نریندر مودی نے مخاطب کیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی برسوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انھوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کردی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھرپور سامان بھی مہیا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظرانداز کرکے ، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے اوڑی اور بعد میں ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح بھار ت نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جنوبی ایشیا، یعنی سارک سربراہان مملکت کے ہونے والے اجلاس کا نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے یا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر قطعی طور پر اسلام آباد نہ جائیں۔
پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بھی بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے بھارت کی اس پالیسی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی ایما پر گو کہ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ (مشکوک فہرست)میں رکھا گیا ہے۔ بڑی کوشش کے باوجود اس کو ’بلیک لسٹ‘ (مجرم فہرست)میں دھکیلنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ ابتدا میں جب بھارت نے پورا زور لگاکر ترکی اور ملائیشیا کو اس کے لیے معاف نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت میں آگے بڑھے تھے۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان کی حمایت پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اسی دوران چین کے ساتھ چپقلش کے بعد بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ دومحاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف اگست ۲۰۱۹ءکو جموں و کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پاکستان کی داخلی سیاسی کش مکش اور سفارتی حلقوں کی بے توجہی کے باعث پوری نہیں ہوسکی۔ بھارت کے ان اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دے کراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خوف زدہ تو ہے، مگر تنازعے کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی، اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ ’’وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے‘‘۔ وہ ان ممالک کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اپنا اثر بڑھا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔
ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں ۔ مگر خاص طور پر۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام اب زیا دہ دیر تک اس کیفیت کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۱ء کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم کا آغاز ہے، جو مسئلے کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی، سارک کے سربراہ اجلاس میں اسلام آباد میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ صدر جنرل پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولا کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس اور تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ’’یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے‘‘۔
ہوسکتا ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح نریندرا مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہانی بھی کرانا فی الحال ناممکن نظرآرہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟۲۰۱۴ء کہ جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، انھوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ۷۰سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب ان کی اپنی عمر ۷۰سال سے تجاوز کررہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جب کہ انھوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائر کروایا ہے؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟
نئی دہلی میں اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو بھی الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی چناب میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادیٔ کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر سے الگ کرکے بودھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادیٔ کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ ’’وادیٔ کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۰لاکھ زیادہ ہے‘‘، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ ’’حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کی بنیاد پر ہونی چاہیے‘‘۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی میعاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸لاکھ ۸۸ہزار ۴ سو ۷۵ ہے، جب کہ جموں میں۵۳ لاکھ ۷۸ ہزار ۵سو۳۸ نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ ۲۶ہزار ۲سو ۹۳ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ وادیٔ کشمیر کا رقبہ ۱۵ہزار ۹ سو ۴۸ مربع کلومیٹر ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دُور رہتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کے علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یک جا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیر مٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے میں امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ کیا بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟ امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔