۱۳مارچ ۲۰۲۱ء کو افغان رہنما گلبدین حکمت یار نے منصورہ میں پشتو میں خطاب کیا اور پروفیسر محمدابراہیم صاحب نے رواں اُردو ترجمہ کیا۔ اس سے قبل ہم ترجمان کے شماروں(جون،اکتوبر۲۰۲۰ء) میں افغان طالبان کا موقف شائع کرچکے ہیں۔ یہ خطاب حبیب الرحمٰن چترالی صاحب (اسلام آباد) نے قلم بند کیا۔ (ادارہ)
میں بہت عرصے بعد ان حالات میں پاکستان کے دورے پر ہوں کہ ہم ایک اور جنگ سے دوچار ہیں، جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ہمارا دشمن افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوگا۔ ہمارے بزرگ اور ساتھی جان و مال کی لازوال قربانی دے کر اور سروں کے نذرانے پیش کرکے امر ہوگئے۔ آج وہ موجود نہیں، مگر ان شاء اللہ اُن کے ارمان ضرور پورے ہوں گے اور اُمت مسلمہ کو عروج نصیب ہوگا۔
قرآنِ عظیم میں واضح حکم موجود ہے کہ جہاد سے جی چُرانا جرمِ عظیم ہے اور اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ جہاد کے راستے پر چلنے والے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہم اُن نتائج اور اس راستے کے مسافر ہیں۔ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳سال کے اندر حجاز پر غلبہ حاصل کرلیا اور پھر چند ہی برسوں میں اسلامی سرحدات کی حدود روم اور فارس تک پہنچ گئیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اسلامی ریاست کی سرحدیں مشرق میں ہندستان اور چین و ترکستان اور شمال میں ہسپانیہ اور جنوب میں یمن تک اور مغرب میں مراکش تک پہنچ گئیں۔ اسی دوران مسلمانوں کو علم کے میدان میں بھی برتری حاصل ہوگئی۔ سیاسی اور مذہبی رہنمائی بھی مسلمانوںکے ہاتھ میں آگئی اور عسکری فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کا کوئی مدمقابل نہ رہا، یوں مکمل تہذیبی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔
تاریخ انسا نی میں ایسی اُمت کی مثال نہیں ملتی کہ اقتصادی میدان میں بھی وہ خوش حالی کی زندگی ایسی گزارنے لگے کہ زکوٰۃ دینے والے افراد کی تلاش میں ہوتے تھے اور زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا، یعنی ہرطرف خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ ہزاروں قومیں، قبائل اور اُمتیں اُمت مسلمہ میں جذب ہوگئیں۔ وہ آپس میں جڑے ہوئے انسان تھے اور اُن کے اندر کوئی اجنبیت نہ تھی۔ یہ مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ گھروں، بستیوں اور مملکتوں پر مجاہدین کے پرچم لہراتے تھے اور مجاہدین ہی دُنیا کی قیادت کر رہے تھے یعنی، حافظ بھی مجاہد اور عالم بھی مجاہد۔ اُن کے لیے دُنیا ایک میدانِ جہاد تھا اور ہر کوئی منزل کی طرف پیش قدمی میں مصروف تھا۔ وہ دین کو دُنیا کے حصول کا وسیلہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ فرقہ واریت میں مبتلا نہ تھے بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ مسجد کا امام بھی ریاست کا امام ہوتا تھا، یعنی ہرمسجد اور ہربستی حرب گاہ اور جنگی مورچہ تھا۔ گھراور مسجد ایک ہی مقصد کا عنوان تھے۔ ان میں کوئی تضاد اور ٹکرائو نہیں تھا۔یوں ہمارا دورِ عروج تاریخ کے اَوراق پر پھیلاہوا تھا: تہذیب بھی ہماری اورتمدن بھی ہمارا اور دُنیاپر حاوی عالمی نظام بھی اُمت مسلمہ کا۔ اس میں ہمارا حریف کوئی نہ تھا جو سیاسی، عسکری اور اقتصادی میدان میں ہمیں چیلنج کرسکے۔
اب سے ایک سو سال پہلے یہ عظیم سلطنت ہم سے چھن گئی اور ایک عالمی جنگ کے نتیجے میں خلافت کے حصے بخرے کیے گئے۔ یہ عظیم سائبان ہم سے چھین لیا گیا اور وہ بھی ہمیں شکست دے کر نہیں، بلکہ ایک سازش کے ذریعے ہم سے چھین لیا گیا۔ اس سازش میں اندر اور باہر کے دشمن ملےہوئے تھے اور اندرونِ خانہ منافقین نے دشمنوں کا ساتھ دیا اور اُن کے دست و بازو بن گئے۔ یہ اُمت مسلمہ کا ایک المیہ ہے کہ دشمن اسلام پرغالب نہیں آسکتا، تو وہ آستین کے سانپوں کو پالتا ہے۔ اسی لیے خلافت کے خاتمہ کے لیے ترکوں اور عربوں کو لڑایا گیا۔ شیعوں اور سنیوں کو لڑایا گیا۔ آج وہ عظیم اُمت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔سامراجی قوتوں نے اس طرح اُمت کو تقسیم کر دیا اور مختلف چھوٹے چھوٹے ممالک وجود میں آگئے۔ پھر اُن پر حکمرانی کے لیے سیاسی حاکم اور فوجی جرنیل بٹھا دیئے گئے۔ ہمارے بازار، اُن کی تجارتی کمپنیوں کی مارکیٹ بن گئے۔ ہماری معدنیات اور خام قدرتی وسائل اُن کی خوش حالی و استحکام اور اُلٹا ہم پر حکمرانی کا ذریعہ بن گئے۔ یوں براہِ راست یا بالواسطہ انداز سے داخلی اور خارجی سیاست مکمل طور پر اُن کے ہاتھوں میں چلی گئی اور مسلم ممالک پر پھر جنگیں مسلط کی گئیں،تا کہ وہ آپس میں لڑبھڑ کر اپنی مادی، افرادی، عسکری اور سیاسی قوت سے محروم ہوجائیں۔ اِن تمام جنگوں میں مسلمان ہی کشتۂ اجل بنے۔ ہجرتیں ہوئیں اور آج بھی ۹۵ فی صد مہاجرین دُنیا میں مسلمانوں پر ہی مشتمل ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اُن کے ہاتھ میںہے۔ یہ دونوں مغرب کی طاقت کا ذریعہ ہیں۔ فساد پھیلاتے ہیں، نوجوانوں کوگمراہ کرتے ہیں اور اُمت کو بے راہ روی کے راستے پہ لگائے ہوئے ہیں۔ان کے شکارافراد اپنے شان دارماضی سے کٹے ہوئے پتنگ ہیں۔
ان گذشتہ سو برسوں میں مغرب اپنے مشن میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ہماری نسلیں سیکولر ہوگئیں جو دین اور دُنیا کو الگ الگ اور سیاست کو دین سے جدا سمجھتی ہیں۔تاریخ انبیاء علیہم السلام نے کوئی غیرسیاسی دین نہیں دیکھا۔ [کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ (متفق علیہ) بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے۔ ایک نبی ؑ وفات پاتا تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میرے بعد خلفاء ہوں گے، اور زیادہ تعداد میں ہوں گے]۔
لہٰذا اس دردناک اور المناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں دوبارہ دین کی طرف پلٹنا ہوگا۔ برادری اور اخوت و بھائی چارگی کواپنانا ہوگا۔ فروعی اختلافات کو ترک کرنا ہوگا۔ دوسروں کو کافر بنانے کا سلسلہ دریا بُرد کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم دین کا فہم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر بنائیں؟ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ’کافر سازی‘ تو شوق سے کرتے ہیں مگر فکرمندی سے ’مسلمان سازی‘ نہیں کرتے۔ ہمیں دین اس لیے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے۔ معرفت ِ خدا اور معرفت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ بن جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے دین کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے ضرور اُن کی مدد کی ہے۔
افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جو جنگ زدہ ہے، بدحال اور ناگفتہ بہ ہے، مگر جہاد کی برکتوں سے اللہ نے ان افغانیوں کی بھرپور مدد کی۔ گذشتہ دس عشروں یا ایک صدی کے دوران انھوں نے تین بڑی سامراجی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا۔ وہ برطانیہ جس کا سورج کبھی دُنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس نے طمطراق سے افغانستان پر جارحیت کی اور بار بار شکست کھائی۔آج وہ سلطنت دُنیا کے نقشے میں ایک انگوٹھے میں سما جاتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں تاجِ برطانیہ مشرق میں آسٹریلیا اور مغرب میں امریکا تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور سوویت یونین (کمیونسٹ روس) نے افغانستان پر جارحیت کی۔کیا آج شکست کھانے کے بعد دُنیا کے نقشے میں سوویت یونین نام کی کوئی ریاست وجود رکھتی ہے؟ اب آپ دیکھیں امریکی سربراہی میں ناٹو نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور ہزیمت اُٹھا کر افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۹۵ فی صد اُن کی فوجیں نکل چکی ہیں، پانچ فی صد نکلنے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ سوپرپاور کا دعوے دار امریکا اس جلدی میں ہے کہ افغانستان سے نکل جائے اور اپنی افواج کو باعزّت طریقے سے نکال لے۔
افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے دو بڑے عوامل تھے: ایک افغانستان پر قبضہ اور دوسرا ایک غلام کٹھ پتلی حکومت کی تشکیل۔مگر افغان عوام نے ان دونوں عوامل کو مسترد کر دیا ہے۔اب ترکی اور مسقط میںافغانستان کے مستقبل میں اقتدارکی منتقلی کے مسئلے پر مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان کے ساتھ افغان احزاب سمیت چھے ممالک ان مذاکرات میں شامل ہیں۔ عنقریب ماسکو میں امن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے تاکہ صلح کی بنیاد پر وسیع البنیاد حکومت تشکیل پائے۔ ہم دونوں عالمی کانفرنسوں کی تائید کرتے ہیں۔ افغانستان سے آٹھ آٹھ قائدین اور سیاسی جماعتوں کے نمایندے اِن مذاکرات میں شرکت کریں گے تاکہ افغان عوام کی لازوال قربانیاں رنگ لائیں۔ ان شاء اللہ افغانستان میں اسلامیانِ افغانستان کو کامیابیاں حاصل ہوں گی اور اسلام سربلند ہوگا:
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔
ان شاء اللہ وہ دن بہت جلد آئے گا کہ جب افغانستان کے غیور عوام کی اُمنگوں کے مطابق افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی، اور ایک پُرامن اسلامی مملکت ِافغانستان وجود میں آئےگی۔