رمضان المبارک کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ماہِ صیام ہے۔ اس ماہ میں مسلمان تسلسل کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں: فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ (البقرہ۲:۱۸۵)’’تم میں سے جو شخص ماہ رمضان کو پائے اس میں روزے رکھے‘‘۔ چنانچہ دنیا کے تمام خطوں میں خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، اہلِ ایمان اس ماہ میں روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح روزہ مسلمانوں کی روحانی پاکیزگی اور تقویٰ و طہارت کا ذریعہ بنتاہے اور عالمی وحدت کا اسلامی شعور عطا کرتاہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن پاک کے نازل ہونے کا مہینہ ہے۔ یوں تو قرآن کریم تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت ۲۳ سال میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ تاہم، اس کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان المبارک میں ہوئی۔ اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے باہر جبل نور کے غارحرا میں گوشہ نشین تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ (البقرہ۲: ۱۸۵)رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت نامہ ہے اور ہدایت اور حق وباطل میں فرق کرنے والے واضح دلائل پر مشتمل ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ،روزہ اور قرآن قیامت کے دن مومن کی شفاعت کریں گے۔ (احمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص، حدیث: ۶۴۵۴)
اسی لیے مسلمان، رمضان المبارک میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ انفرادی طور پر دن اوررات میںکسی بھی وقت حسب سہولت تلاوت کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر رات میں تراویح کی شکل میں قرآن کریم کی تلاوت وسماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ گویا نزول قرآن کا مہینہ قرآن کریم کی حفاظت کا بھی مہینہ ہے۔ مسلمانوں کے کسی محلہ میں جائیے جہاں مسجد ہوگی، وہاں اوّل شب میں تلاوت قرآن کی صدا بلند ہوگی۔ یہ روحانی منظر پوری دنیا کے طول وعرض میں دکھائی دے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری خودلی ہے، کسی انسان پر نہیں ڈالی ہے اور ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (الحجر۱۵:۹)بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اگرچہ توریت وانجیل کو بھی ذکر کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۴۳ۙ (النحل ۱۶:۴۳) اہلِ ذکر، یعنی اہلِ کتاب سے پوچھو اگر تم لوگ نہیں جانتے۔
مگر ’ذکر‘ کی حفاظت سے مراد صرف قرآن کریم کی حفاظت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی قاعدہ کے مطابق نزلنا کا مصدر تنزیل ہے جو باب تفعیل سے آتاہے۔ اس کے معنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف قرآن کریم کی ہے کہ وہ تھوڑا تھوڑا ۲۳ برسوں میں نازل ہوا۔ توریت وانجیل کی یہ خصوصیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ توریت وانجیل میں لفظی اور معنوی تحریف ہوئی۔ عبارتوں میں کمی اور زیادتی کی گئی۔ مدلول اور مصداق بدلے گئے۔ ترجمے اور مفاہیم میں تبدیلی ہوئی۔ لیکن یہ صفت صرف قرآن کریم کی ہے کہ آج تک چودہ سو سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود قرآن میں معمولی ترمیم و اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی آیت، الفاظ اور حروف تک محفوظ رہے۔حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ وہ اپنی شریعت کو قیامت تک باقی رکھے، اس لیے اس نے قرآن کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی‘‘۔ (محمود بن عبداللہ الآلوسی، روح المعانی، جلد۱۲،ص ۴۰۹)
قرآن کریم کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ و ہ عربی زبان میں نازل ہوا۔ عربی زبان کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ تقریباً پندرہ سو سال سے آج تک اس زبان کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو عربی بولی،پڑھی اور سمجھی جاتی تھی وہ آج بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی لسانی بناوٹ اور گرامر میں بہت کم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن کو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے لوگوں نے سنا اور سمجھا، آج بھی اسی طرح لوگ پڑھ اور سمجھ رہے ہیں، جب کہ دوسری زبانوں میں عہد بعہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ہزار سال بعد تو زبانوں کی بنیادی ساخت بدل جاتی ہے ۔ اس عہدکی کتابوں کا مابعد کی نسل کے لیے پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہوجاتاہے۔ اس کو ماہرین زبان ہی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن ہر عہد کے لوگوں کے لیے اعلان کرتا ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۲۲(القمر۵۴:۲۲) ہم نے ذکر کے لیے قرآن کو آسان کردیا ہے تو کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟
قرآن کریم کے محفوظ ہونے کی شہادت وہ مستشرقین بھی دیتے ہیں، جو قرآن کریم کو کلامِ الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کہتے ہیں۔ چنانچہ فلپ کے ہٹی نے لکھا ہے: ’’جدید نقاد اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن کے نسخے ٹھیک اسی نسخے کے مطابق ہیں، جسے زید بن ثابتؓ نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔ اور یہ کہ آج کا قرآن وہی ہے جسے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے پیش کیا تھا‘‘۔(History of the Arabs، ص ۱۲۳)
پٹنہ یونی ورسٹی میں ایک مسلمان پروفیسر عمرہ کے لیے خانہ کعبہ گئے۔ نماز کی صف بندی ہوئی تو ان کے برابر میں ایک لمبا گورا آدمی کھڑا ہوا۔ امام حرم نے تلاوت شروع کی تو وہ آدمی زاروقطار رونے لگا۔ نماز ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب نے اس سے سلام ومصافحہ کیا اور ان کا تعارف حاصل کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں آسٹریلیا کا رہنے والا ہوں۔ میں پہلے پادری تھا، قرآن پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور اب بیت اللہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں توریت وانجیل کا عالم ہوں۔ ان کتابوں میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اصل انجیل تو یہ قرآن کریم ہے کیوں کہ انجیل میں نازل شدہ تعلیمات قرآن پاک میں موجو د ہیں۔ مجھے قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کا اصل پیغام ملتاہے‘‘۔
ایسے حق شناس اہلِ کتاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی موجود تھے، اور انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِـمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۰ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۸۳ (المائدہ ۵:۸۳)جب یہ (نصاریٰ) اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول کریم ؐپر نازل کیاگیا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، کیوں کہ وہ حق کو پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ، ہم ایمان لائے تو ہمارا نام لکھ لیجیے ایمان کی گواہی دینے والوں کے ساتھ۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو پیغامِ ہدایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کو دیا تھا، وہی پیغام قرآن کریم بھی پیش کرتاہے۔ ایمان اور اصولِ دین جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئے، وہی قرآن کریم میں موجود ہیں۔ نجات کی جو شرطیں اور رضائے الٰہی کی جو بشارتیں انجیل میں آئی تھیں، وہی قرآن کریم میں بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ انجیل میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوئی، مگر قرآن اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اصولِ دین کا محافظ ہے۔ تقریباً اسی طرح کا خیال معاصر مستشرق تھامس کلیری نے بھی اپنی کتاب The Essential Koran میں ظاہر کیا ہے، اور قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ کی سیرت اور پیغام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
عیسیٰ ؑ کے لیے انتہائی احترام کے القاب (مثلاً اللہ کا کلمہ اور اللہ کی روح) کا استعمال کرنے کے باوجود قرآن نے اللہ کی وحدانیت کو اصلی حالت میں برقرار رکھا ہے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ ؑ کی بنیادی تعلیمات کی تصدیق بھی کی ہے اور خود قرآن کوگذشتہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کے مصداق اور محافظ کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔(ص۱۸۱-۱۸۹)
نامور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ نے لکھا ہے:’’ جرمنی میں میونخ یونی ورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا: ’’قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے، خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو، جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ ۱۹۳۳ء میں جب مَیں پیرس یونی ورسٹی میں تھا، تو اس ادارے کا تیسرا ڈائرکٹر پریتسل پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں، ان کے فوٹو حاصل کرے۔
اس پروفیسر صاحب نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا، اور عمارت ، کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا، لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافات روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوںمیں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخہ میں ہوگی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہوگی‘‘۔(ڈاکٹر محمد حمیداللہ، خطبات بہاول پور، بیکن بکس،لاہور،ص ۳۲، ۳۳)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اگرچہ خود لی ہے، مگر اہلِ ایمان کو اس کی حفاظت کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس طرح کہ مسلمان روزانہ اس کی تلاوت کریں، اسے خود یاد کریں اور اپنے بچوں کو یاد کرائیں۔ پانچ وقت کی نمازوں میں قرآن کی قرأت کریں۔ خوشی اور غم کے مواقع پر قرآن کو پڑھیں اور خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کی تلاوت وتحفیظ کا اہتمام کریں۔ علما اس کی تفسیر کریں، قاری اسے حسین آواز سے مزین کریں۔ کاتب اسے روشن حروف سے لکھیں اور حفاظ اسے اپنے سینوں میں محفوظ کریں۔ قرآن کریم کے حافظ جس کثرت سے پائے جاتے ہیں دنیا کی کسی بھی کتاب کے حافظ اس تعداد کا کروڑواں حصہ بھی نہیں پائے جاتے۔
رمضان المبارک میں حفاظ تراویح کی نماز میں قرآن کریم زبانی سناتے ہیں۔ اگر امام سے قرآن کی تلاوت میں غلطی ہوتی ہے تو دوسرا حافظ اسے لقمہ دیتا ہے اور قرآن سنانے والا اپنی غلطی کی اصلاح کرلیتاہے، قطعی بُرا نہیں مانتا بلکہ اسے کارِ ثواب سمجھتاہے۔ اس طرح قرآن کی قرأت صحت کے ساتھ جاری رہتی ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
ہر زمانے میں ایک جم غفیر علماء کا جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے ایسا رہا کہ جس نے قرآن کے علوم ومطالب اور غیرمنقضی عجائب کی حفاظت کی۔ کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرزِ ادا کی، حافظوں نے اس کے الفاظ وعبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر زبر تبدیل نہ ہوسکا۔ کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے، کسی نے آیتیں شمارکیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی، حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کوشمار کرڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی، جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔(تفسیرعثمانی، سورۃ الحجر، آیت ۹)
یحییٰ بن اکثم کا بیان ہے کہ عباسی خلیفہ مامون الرشید [م:۷؍اگست ۸۳۳ء ]نے ایک علمی مجلس بنائی تھی، جس میں تمام مذاہب کے نمایندے شریک ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی مجلس میں ایک یہودی عالم آیا۔ وہ بہت خوش شکل اور خوش لباس تھا اور خوشبو لگائے ہوئے تھا۔ بادشاہ کی مجلس میں اس نے بھی گفتگو کی اور بہت ہی عمدہ گفتگو کی۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو خلیفہ مامون الرشید نے اسے الگ بلایا اور پوچھا کیا تم اسرائیلی ہو؟ اس نے کہا ہاں، میں اسرائیلی ہوں۔ مامون نے کہا کہ تم اسلام قبول کرلو تو تم کو عہدہ اور منصب عطا کروں گا۔ اس نے کہا کہ میرا مذہب وہی ہے جو میرے آباواجداد کا ہے۔یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔
ایک سال کے بعد وہ شخص پھر مامون کی اس مجلس میں شریک ہوا، مگر اب وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ اس دن اس شخص نے اس مجلس میں فقہ کے موضوع پر گفتگو کی اور بہت عالمانہ گفتگو کی۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو خلیفہ مامون نے اسے الگ بلایا اور پوچھا: ’’کیا تم وہی آدمی تو نہیں ہو، جو پچھلے سال اس مجلس میں شریک ہوئے تھے؟‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں میں وہی آدمی ہوں‘‘۔ مامون نے پوچھا : ’’تمھارے مسلمان ہوجانے کا سبب کیاہے؟ ‘‘انھوں نے کہا:’’ جب میں آپ کی مجلس سے واپس گیا تو مجھے خیال آیا کہ موجودہ مذاہب کو آزمایا جائے کہ کون سا مذہب سچا ہے؟ میں خوش نویس ہوں اور اچھی تحریر لکھتا ہوں۔ میں نے توریت کو لیا اور اس کے تین نسخے عمدہ خط میں تیار کیے۔ لیکن میں نے توریت کی عبارتوں میں کچھ کمی بیشی کردی۔ میں ان نسخوں کو لے کر یہودیوں کی عبادت گاہ میں گیا۔ وہاں لوگوں نے توریت کے وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے انجیل کو لیا اور اس کے تین نسخے خوش خط تیار کیے۔ اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کردی۔ پھر ان کو لے کر میں چرچ گیا۔ عیسائیوں نے وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھرمیں نے قرآن کو لیا اور اس کے بھی تین خوب صورت نسخے تیار کیے اور ان میں بھی کمی وزیادتی کردی۔ پھر میں نے ان نسخوں کو وراقوں کے حوالہ کیا (قرآن کی کتابت کرکے ہدیہ کرنے والے لوگ)۔ ان لوگوں نے ا ن میں کمی اور زیادتی پائی تو ان کو پھینک دیا اور کسی نے بھی نہیں خریدا۔ تب میں سمجھ گیا کہ قرآن اللہ کا محفوظ کلام ہے اور میں نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔(ابوعبداللہ محمدبن احمد انصاری، الجامع لاحکام القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، جلد۱۰، ص ۵،۶)
آج بھی دشمنانِ اسلام یہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں، آیتوں اور الفاظ میں ردوبدل کردیں، تاکہ مسلمان گمراہ ہوجائیں۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے ایسے نسخے بھی معاندین نے لوڈ کیے ہیں، جن میں من گھڑٹ سورتیں اور آیتیں موجود ہیں۔ مثلاً ’سورۃ الایمان‘، ’سورۃ المسلمون‘ اور’ سورۃ الوصایا‘ وغیرہ جیسی من گھڑت عربی عبارات۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ قرآن کی سورتیں ہوںگی، مگر درحقیقت یہ قرآن میں تحریف کی شیطانی حرکت ہے۔ الحمدللہ، قرآن اپنی مکمل اور محفوظ شکل میں مسلمانوں کے گھروں میں اور حافظوں کے سینوں میں موجود ہے۔ چنانچہ اس طرح کی ناپاک کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ تاہم، ہر صاحب ِایمان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت اور اس کے فہم کو پھیلانے کی سعادت حاصل کرکے اپنی آخرت کو سنوارے۔