پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہواہے۔ اس پر سیّد علی شاہ گیلانی کے پاکستان میں نمایندے کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ’’اس سے کشمیری جدوجہد کو کافی نقصان پہنچےگا‘‘۔ اس کے بعد پاکستان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے منسوب ٹویٹر پیغام میں کہا گیا کہ ’’اس معاہدے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو لوگ اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوتوا کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کے بارے اس دانش وری پر کیا کہا جائے، یہ بہت عجیب بات کہی گئی ہے۔ شہریارآفریدی صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کیا بات کہنے کی ہے اور کن الفاظ میں کہنے کی ہے اور کیا بات کہنے کی نہیں۔
یہ ٹویٹ چونکہ گیلانی صاحب کے پریس ریلیز کے فوراً بعد آیا تھا، اس لیے پریس نے، خاص طور پر کشمیر اور بھارت کے اخبارات نے اسی پیرایے میں لیا کہ کشمیر کمیٹی نے گیلانی صاحب کی رائے کو مسترد کیا ہے۔ تاہم، کشمیر کمیٹی کی طرف سے فوراً وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جو حیثیت ہے، اس کا اندازہ بیرونِ کشمیر رہنے والے نہیں لگاسکتے۔ اہلِ جموں و کشمیر ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ایک دن کی کمائی نہیں۔ اس میں عشرے لگتے ہیں۔گیلانی صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت اور زندگی دے، انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس طرح سے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف کھڑے چلے آرہے ہیں، یہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے ساتھ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مردو زن کھڑے رہے ہیں اورآج بھی کھڑے ہیں۔وہ سب بھارت کی جبرواستبداد کی پالیسی کے خلاف عزم و ہمت کی مثال ہیں۔
اگرچہ فائربندی معاہدے پرمعاملہ فہمی ۲۰۰۳ء سے چل رہی تھی۔ اس وقت تک تو یہ چیزیں ٹھیک تھیں، لیکن شاید آج یوں جلدبازی میں ٹھیک نہیں کہ آج معاملات نہایت تباہ کن صورتِ حال کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔
بنیادی طور پردیکھنا ہوگا کہ یہ initiative [پہلا قدم]کہاں سے آیا ہے؟ ہم نے دیا، یا بھارت کی طرف سے آیا؟ بلاشبہہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک ہوں، لیکن کشمیر کے تنازعے کو حل کیے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔
دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں چین اور امریکا کا کیا کردار تھا؟ بھارت کو بھی اس وقت ایک راستہ چاہیے تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ سفارتی مذاکرات میں اردگرد کی صورتِ حال کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے وقت کے لحاظ سے یہ قدم درست نہیں لگتا۔ سیّدعلی گیلانی صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ کشمیری خواہ مقبوضہ کشمیر سے ہوں یا آزاد کشمیر سے، یہ انھی کی قربانیوںکا نتیجہ ہے کہ آج تک کشمیر کا تنازعہ زندہ ہے۔ اگر کشمیری قربانیاں نہ دیتے تو یہ معاملہ کب کا ختم ہوچکاہوتا۔
یہ کہنا کہ’ ’ہم نے یہ کشمیریوں کے مفاد میں کیا ہے‘‘۔ چلیے ایک محدود حد تک یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن سفارت کاری میں پیش رفت، اقدام اور عہدوپیمان کے لیے وقت کا انتخاب(timing) بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ وقت کا صحیح تعین نہیں کرتے تو آپ مذاکرات سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرپاتے۔مگر دوسرا فریق اپنے حساب سے اس وقت کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ یہ معلوم تاریخ کا سنگین اور تلخ باب ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دوطرفہ مذاکرات میں اُلجھایا ہے اور ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔
کنٹرول لائن پر فائربندی کے معاہدے کی تجدید کے بعد کچھ ہمارے اور بہت سے بھارتی چینلوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ (break through) ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسی خوش فہمی کا اظہار کرنے والوں میں یہاں سے بھی متعدد معتبر لوگ شامل ہیں۔ سچ پوچھیں تو خوش فہمی، غلط فہمی یا عجلت پسندی پر مشتمل یہ طرزِ بیان پریشان کن ہے۔ مذاکرات کے طریق کار کو دیکھ کر بظاہر لگتا ہے کہ ہم اصولی بنیادوں سے ہٹ رہے ہیں۔
پچھلے سال ایک ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار سیکورٹیز اسٹڈیز کے تحت اسلام آباد میں کشمیر پر ایک سیمی نار ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیرڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ ’’کیا آپ اس بات کی یقین دہانی کروا سکتی ہیں کہ آپ کی حکومت نے بھارت سے مذاکرات کے لیے جوشرائط رکھی ہیں، آپ ان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے؟‘‘ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ان حالات میں ہم بھارت سے مذاکرات کریں کہ جب تک ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے والی صورتِ حال بحال نہ ہوجائے‘‘۔
بعض دانش ور قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب ہمارے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرحدی جنگ بندی معاہدہ ایک محدود معاہدہ ہے۔ مگر دونوں ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی جانب سے جوبیان جاری ہوا ہے، اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاگیا کہ ’’بنیادی اُمور (core issues)پر بھی مذاکرات کریں گے‘‘۔یہ مذاکرات کیسے ہوں گے؟ کون اسے لے کر آگے چلے گا؟ یوں لگتا ہے کہ پس پردہ، یعنی بیک ڈور ڈپلومیسی چینل اس میں شامل ہوں گے۔
بھارت بڑی شاطرانہ چالوں سے ہمیں انھی چیزوں میں اُلجھاتا رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر ہمیں ان بے معنی مذاکرات میں اُلجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن تعلقات بہتر ہونےکی ذمہ داری صرف پاکستان ہی کی تو نہیں ہے۔پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے تعلقات خراب کیوں ہیں؟___ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے۔ جب تک یہ تنازعہ رہے گا، اس وقت تک یہاں پائیدار امن ناممکن ہے۔
پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم اسے بھارت کی شرائط پر حل کرنا چاہتے ہیں یا کچھ تجاویز ہمارے ذہن میں بھی ہیں؟ یا پھر وہ تجاویز صدرجنرل مشرف کے فارمولے کے حساب سےہیں؟ جب تک ہم پوری طرح اس ضمن میں واضح نہیں ہوں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس وقت تک ہم اس بے مقصد مذاکراتی جال میں پھنس کر جموں و کشمیر پر اپنی پوزیشن کو کمزور کرتے رہیں گے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں، وہ سوبار سوچ سمجھ کر کریں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ ہم بھارت سے مذاکرات کے لیے جائیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں کچھ حکمت عملی بنانے والے (Lobbyists) ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ بس جیسے بھی ہو، اب اس مسئلے کو ختم کریں اور بے معنی مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع کریں۔
نریندرا مودی حکومت ہی کی پالیسی کو ہم دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں نہ جانے اتنی بے چینی اور اتنی بے صبری کیوں لاحق ہوئی ہے؟ دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے خطے میں کیا ہورہا ہے؟ دنیابھر میں کیا ہورہا ہے؟ بلاشبہہ دُنیا کا دبائو ہم پر ہوگا۔ حکومت سے ہماری یہی گزارش ہے کہ جلدبازی سے کام نہ لیں۔ بھارت کا جو رویہ اور پالیسی ہے اور اس نے آئین میں بھی جو تبدیلیاں کی ہیں، ان میں خصوصاً آرٹیکل ۳۵-اے، کا خاتمہ تباہ کن ہے۔ ہم شاید اسٹیٹس کو (جوں کا توں) حل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں۔ غالباً اسی لیے گلگت و بلتستان کو بھی عارضی صوبہ بنایا جارہا ہے۔ اس پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموںو کشمیر میں بھی لوگوں کو بجاطور پر اعتراض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارت کاری کے دوران ہرمعاملے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ ہم سب کے لیے ریاست پاکستان کے مفادات مقدم اور اہم ہیں، تاہم چیزوں کو تاریخی اعتبار سے اور آنے والے وقت کے لحاظ سے دیکھنا ازبس ضروری ہے۔