اپریل ۲۰۲۱

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اپریل ۲۰۲۱ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

نور محمد عباسی ، اسلام آباد

مارچ کا شمارہ متعدد مقالات سے مالا مال ہے۔ ’’پاکستان کا نظریاتی وجود اور تقاضے‘‘ پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا مقالہ وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے جہاں ایک طرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو اُجاگر کیا ہے، وہیں پاکستان کے عملی مسائل کی نشان دہی بھی کی ہے، خصوصاً پاکستان کے معاشی بحران کے اسباب کو متعین کیا ہے۔ مضمون کے آخر میں انھوں نے جتنے نکات بیان کیے ہیں، ان پر باری باری، ایک ایک جامع مضمون ترجمان میں آنا چاہیے۔


نائلہ گُل ، لندن

جناب سعادت اللہ حسینی کا مضمون: ’’خاندان اور خواتین: اسلام کی نظریاتی قوت‘‘ (مارچ ۲۰۲۱ء) علمی وسعت اور سماجی بحران کی بہترین بحث اور راہِ عمل پر مشتمل یادگار تحریر ہے۔


سعادت اللہ خلیل، کراچی

’اشارات‘ اور سعادت اللہ حسینی صاحب کے مضمون نے فکرونظر کو روشنی عطا کی۔ اسی طرح عبدالہادی احمد صاحب نے پاکستان میں سود کے خاتمے کے لیے مختلف کاوشوں کا ایک نقشہ پیش کیاہے، جو عام قارئین کے لیے معلومات کا ذخیرہ ہے۔ تاہم، یوں لگتا ہے کہ یہ مضمون کئی حوالوں سے مزید تحقیق، تفصیلات اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کوئی ماہر معاشیات اس موضوع پر دادِ تحقیق دےتو قیمتی لوازمہ سامنے آئے گا۔


ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری ، کراچی

حبیب الرحمٰن چترالی صاحب کے مضمون ’’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘‘ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس سے پریشان فکری اور مغرب سے مرعوبیت چھلک رہی ہے۔


ڈاکٹر وقاص احمد ، لاہور

بلاشبہہ ترجمان کے مضامین بلندپایہ اور قیمتی معلومات سے لبریز ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ مارچ کے شمارے میں محترم حبیب الرحمٰن چترالی صاحب کا مضمون ’’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘‘ کئی حوالوں سے پرچے کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مفروضہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ: ’’کورونا عبرانی کا لفظ ہے اور تلمود کی آیت۱۹ میں آیا ہے۔ پھر اس عالمی وبا کو کسی یہودی سازش کا شاخسانہ قرار دے ڈالا گیا ہے۔ اور اس کے لیے عربی، انگریزی ماخذ اور لُغات کا سہارا لیا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اس وائرس کو۱۹ کہیں یا ۲۰ اور کورونا کہیں یا ’مون‘ ،وائرس کی تباہ کاری میں کچھ فرق واقع نہیں ہوگا۔ سائنس دانوں کی سالہا سال تحقیق کے نتیجے میں اس وائرس کی تباہ کاریاں سامنے آئی ہیں جس کے خاتمے کے لیے وہ دن رات کوشاں ہیں۔

[مضمون کی اشاعت کے وقت یہ پہلو سامنے تھا کہ دُنیا بھر میں ، اس بیماری کے حوالے سے کئی مفروضے گردش میں ہیں۔ اس لیے مثال کے طور پر ایک نقطۂ نظر شائع کیا گیا کہ لوگ یوں بھی سوچتے ہیں اور اس کا ’اینٹی تھیسس‘ شائع کرنے کے لیے بھی ترجمان حاضر ہے۔ دوسری رائے سننا کوئی غیر علمی فعل نہیں۔ اگر کوئی بات خلافِ واقعہ ہے تو اس کی معقول دلائل سے تردید کرنی چاہیے۔ ادارہ]


سعید علی ، فیصل آباد

مارچ کے شمارے میں افتخارگیلانی صاحب نے ایک منفرد کشمیری دانش وَر کی سوچ اور خدمات سے متعارف کرایا ہے، جب کہ ہمیشہ کی طرح جناب وحید مراد نے معلومات افزا مضمون لکھ کر ’بے راہ رویٔ نسواں تحریک‘ کی حقیقت سے پردہ ہٹایا ہے۔ کاش! یہ تحریریں عام اخبارات کی بھی زینت بنیں۔


زاہدہ عتیق ، گوجرانوالہ

ہمیشہ کی طرح جناب بشیر جمعہ کا مضمون، زندگی گزارنے کی بہترین ’ٹپس‘ لیے ہوئے ہے۔ پروفیسر وسیم احمد کا مضمون ’دھو پ اور سایہ‘ تذکیر کا دل میں اُترتا پیغام ہے۔ یارا حواری نے اسرائیلی نسل پرست ریاست کی بدباطنی کو بیان کرکے ان دانش وروں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے، جو اسرائیل پر ریجھے جارہے ہیں۔