مغرب کی استعماری طاقتوں نے جب شرق اوسط، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر سیاسی اور فوجی طاقت کے ذریعےقبضہ کیا تو انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ مسلمانوں کو ان کی مضبوط دینی اور تہذیبی روایات کی وجہ سے مستقل طور پر غلام بنانا آسان نہیں۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں میں خوئے غلامی پیدا کرنے کے لیے ان کی تہذیب، ثقافت، زبان اور نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ برصغیر میں ۱۸۳۵ء میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نافذ کیا گیا، لیکن درحقیقت اس کا مقصد مغربی اقدار اور تہذیب کے لیے راستہ ہموار کرتے ہوئے اسلامی اقدار کو مسخ کرنا، لادینیت کو فروغ دینا اورایسے افراد تیار کرنا تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندستانی ہوں، لیکن اپنی سیرت، اخلاق، سوچ، افکار اور نظریات کے حوالے سے مغربی تہذیب کے ترجمان ہوں۔ اس کے علاوہ اس نظام تعلیم کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ برصغیر کے لوگوں کومغربی تہذیب سے مرعوب کرکے، یورپی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ کھپت کے لیے اس خطے کو ایک وسیع مارکیٹ کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اس نئے نظام تعلیم کے تحت پرائمری وثانوی تعلیمی ادارے، کالج، یونی ورسٹیاں قائم کی گئیں اور بعد ازاں تعلیم کو مفت اور لازمی بھی قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں صدیوں سے قائم مساجد، مدارس اور خانقاہوں کی سرکاری امداد بند کرکےانھیں مفلوج کر دیا گیا۔ جن جائیدادوں سے ان مدارس کی معاونت ہوتی تھی انھیں ضبط کرلیا گیا اور صرف چند مدارس باقی بچے جن کے مہتمم بہت سخت جان ثابت ہوئے۔ تعلیم کے میدان میں علی گڑھ تحریک کےساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء اور جامعہ ملیہ جیسی تحریکیں بھی اٹھیں، لیکن یہ ادارے تعلیم کے نام پر آنے والے مغربی تہذیب و اقدار کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس جدید مغربی تعلیم سے نہ صرف مسلمانوں کا تعلیمی معیار پست ہوا بلکہ ان کا روایتی، دینی ذوق اور تخلیقی صلاحیتیں بھی مفقود ہوگئیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دینی عقائد و روایات، تہذیبی و ثقافتی اقدار اور ملکی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم تشکیل دینے کے بجائے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو ہی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنا لیا گیا۔ اس نظام تعلیم کے زیر اثر آج ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے، جو بظاہر تعلیم یافتہ ہے لیکن ذہنی طور پر مغرب کی غلام ہے۔ انھیں اپنے دین اورتہذیب کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ علم نہیں، جو اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان کے چند اسباق میں پڑھایا جاتا ہے لیکن وہ مغربی تہذیب کی تمام خرافات کی نقالی کا علم رکھتے ہیں۔ وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسلام اور پاکستان کے وفادار بننے کی بجائےسیکولر نظریات و ثقافت کے علَم بردار اور مغرب کے وفادار بن جاتے ہیں۔
ہم صرف قابل ڈاکٹروں، انجینیروں، سائنس دانوں اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین ہی کو تیار نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہے، جو محب وطن ہوں اور قومی و ملّی تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ اس کے بغیر قومی، ملّی، اور دینی مقاصد و ضروریات کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
ہمارے ملک کی باگ ڈور ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے، جو مغرب کی پیروی میں ہماری نصابی کتب میں موجود دینی تعلیمات پر نت نئے سوالات اٹھاتا رہتاہے۔ مثلاً مذہب دور رفتہ کی یادگار ہے، آج کے دور میں چودہ سو سال پہلےکا نظا م نہیں چل سکتا، مادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کو بھی اپنایا جائے، مذہب جدید تمدنی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی ساری تعلیم و تربیت بھی چونکہ مغربی اداروں میں ہوتی ہے اس لیے وہ بھی پاکستان میں مغربی تہذیب و ثقافت ہی کی ترویج کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی سیاست میں صرف وہی لوگ اقتدار کے سرچشموں پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں جو مغرب کے وفادار ہوں۔ ان مغرب زدہ حکمرانوں نے بے شمار این جی اوز کو یہاں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو نسوانی اور انسانی حقوق کے نام پر معاشرتی بگاڑکا مشن سرانجام دے رہے ہیں۔
ان این جی اوز نے بیوروکریسی اورسیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر میڈیا کی آزادی پر کام کیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغرب کی کئی خرافات کو ہمارے معاشرے میں فروغ دیا۔ مغربی رہنمائی میں کام کرنے والا میڈیا نہ صرف ڈس انفارمیشن کے ذریے معاشرے میں انتشار پیدا کرتا ہے، بلکہ صوبائیت، لسانیت اور قومیت کا زہر گھولتا ہے، اور اخلاق باختہ ڈراموں، فلموں، کارٹون، ماڈلنگ اور اشتہارات کے ذریعے نوجوان نسل کے اخلاق کا جنازہ نکال رہا ہے۔ میڈیا ہماری نئی نسل کو کشمیری، فلسطینی اور افغانی بھائیوں کے دُکھ درد میں شریک ہونے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے انھیں ناچ گانے میں مست رکھتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے فوراً بعد۲۰۰۷ء میں ان این جی اوز نے حدود آرڈی ننس کے خلاف مہم چلائی، اسلامی سزائوں کو غیر انسانی قرار دیا اور خواتین کے حقوق کے نام پر ایسی قانون سازی کروائی جو مادر پدر آزادی کے لیے راستہ ہموار کر رہی ہے۔
میڈیا اور خواتین کی آزادی کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات کو خارج کرنے کے کام میں بھی تیزی لائی گئی۔ ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کی ایک این جی او 'ایس ڈی پی آئی نے پاکستان کے نصاب کے جائزے پر مبنی ایک ریسرچ پیپر متعارف کروایا۔ مقتدر حلقوں میں اس این جی او کا اس قدر اثر و رسوخ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اس ریسرچ پیپر و رپورٹ کے مندرجات کی صداقت چیک کیے بغیر اس کو درست مان لیا۔اس رپورٹ میں پاکستان میں پہلے سے موجود نصابی کتب کو ہدف تنقید بنایا گیاحالانکہ ان کے مؤلفین بھی زیادہ تر لبرل اور سیکولر حضرات ہی تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ایک ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نصابی کتب ہیں۔ اس لیے ٹیکسٹ بک بورڈ اور وزارت تعلیم کے نصابی ونگ کو ختم کردینا چاہیے___اور یہ کہ معاشرے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی وجہ محض مذہبی مدارس ہی نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے اور ٹیکسٹ بک بورڈ بھی ہیں‘‘۔
اس رپورٹ میں پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے پر تنقید کی گئی اور سوال اٹھایا گیا اور یہ مفروضہ پیش کیا کہ اس سے غیر مسلم پاکستانی عدم تحفظ کا شکار ہوتےہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اسلامیات لازمی کےعلاوہ دیگر لازمی درسی کتب میں قرآن مجید کی آیات کیوں شامل کی گئیں؟ اس رپورٹ کے مصنّفین نے اس بات پر رنجیدگی کا اظہار کیا کہ ملک کے دفاع کو شہری کا اولین فرض کیوں کہا جاتا ہے اور محمد بن قاسم ، عزیز بھٹی، راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید وغیرہ کے نام درسی کتب میں کیوں شامل ہیں؟ دفاعی اخراجات اور جدید ہتھیاروں کی تحصیل کا جواز کیوں پیش کیا گیا؟
اس رپورٹ میں خواتین کے چادر اوڑھنے اور معقول لباس زیب تن کرنے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا اور ہوم اکنامکس کالجوں کے قیام کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے خواتین کے لیے مخصوص شعبوں میں جانے کے راستے رُک جاتے ہیں، جس سے مردوں کی برتری قائم رہتی ہے۔ اس رپورٹ میں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ القاب اور صیغوں پر بھی اعتراض کیا گیا۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر منیر الدین چغتائی نے کہا تھا کہ یہ نظریۂ پاکستان اور پاکستان کے وجود کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ ہمارے نام نہاد مفکرین کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی نصاب تعلیم سے ایسی تمام چیزیں نکال دی جائیں، جو ہمارے نظریۂ حیات کی بنیاد اور جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔
دل چسپ یا عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کو اپنے ملک کاتعلیمی نصاب تبدیل اور اپ ڈیٹ کرنے میں اتنی دل چسپی نہیں جتنی بین الاقوامی اداروں کو ہے۔ ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بے شمار منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام مکمل طورپر ان کی نگرانی میں چلا یا جائے۔ یوایس ایڈ کے منصوبوں میں اساتذہ و منتظمین کی تربیت، تعلیمی وظائف، ریسرچ اسکالروں کی مالی امداد، بالغ طلبہ و طالبات کی غیر ملکی سیر و سیاحت اور کئی دیگر پروگرام شامل ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹوں میں بھی پاکستان کا نصاب تعلیم خصوصی نشانے پر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں خدمت بجا لانے کے لیے مقامی این جی اوز ہر وقت تیار ہوتی ہیں۔
اس کمیشن کی ۲۰۱۶ء کی رپورٹ اور سفارشات میں کہا گیا کہ ’’پاکستان کی نصابی کتب میں جنگوں اور جنگی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ، سلطان محمود غزنوی کا ۱۷مرتبہ سندھ پر حملہ فخریہ انداز سے نصابی کتب میں کیوں شامل ہے؟تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے ناچ گانا اور شادی بیاہ کی رسومات کو دکھانے کے بجائے جنگوں کو کیوں پیش کیا جارہا ہے؟ اس رپورٹ کے لیے ایک مقامی این جی او ’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن‘ نے تحقیق کرکے سفارشات تیار کی تھیں۔ ا س این جی او نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان میں اسلامی عقیدے پر اصرار کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان میں اسلام کو شناخت کی اعلیٰ ترین خاصیت کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ یہ سفارشات بھی پیش کی گئیں کہ نصابی کتب میں مذہبی آزادی واقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی باتیں اور عقیدے کی تعلیم کے بجائے غیرجانب دار باتیں شامل کی جانی چاہییں اور اسلام ہی درست مذہب ہے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اس فائونڈیشن کے سرکردہ لوگوں نے حکومتی وزیروں، گورنروں اور بااثر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔
پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے امریکا اور یورپ کے دبائو پر تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اور جس کے تحت قرآنی آیات کو نصاب سے نکالا گیا تھا وہ ابھی رُکا نہیں بلکہ خطرناک حد تک آگے بڑھ چکا ہے، بلکہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کابینہ سے منظور ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ وفاقی وزیرتعلیم نے ۲۰۲۱ء سے یکساں قومی نصاب کا ملک بھر میں نفاذ اور ان بنیادی نکات کا اعلان کیا ہے، جن پر یکساں قومی نصاب تعلیم تشکیل دیا جا رہا ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی کوئی قانون نہیں بلکہ تعلیم کے فروغ کے لیے رہنما خطوط اور ایک فریم ورک ہے، جس کی روشنی میں نصاب تعلیم، عملی منصوبہ اور قوانین وضع کیے جائیں گے۔
پاکستان میں مغربی ممالک کے فنڈز پر چلنے والی این جی اوز اور لبرل حلقوں کواس نئی تعلیمی پالیسی سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ جس نصاب تعلیم کو وہ سیکولر خطوط پر استوار کر چکے ہیں اس میں اب تبدیلی لانا مشکل ہوگا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی متعارف کروانے کے بعد صوبہ پنجاب (جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے) کے تمام بورڈز میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کےنصاب میں مطالعہ پاکستان کی جو کتب پڑھائی جا رہی ہیں، وہ فیمنسٹ ماہرین کی تیار کردہ ہیں۔
فیمنسٹ ماہرین نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی دونوں کتب میں ’تحفظ نسواں‘ کے عنوان سے ایک باب شامل کیا ہے۔ ان کتب میں حقوقِ نسواں، عورتوں کی آزادی، خودمختاری اور مساوات کے مغربی تصورات کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ یعنی ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ مذہب عہد رفتہ کی یادگار ہے، آج کی جدید تمدنی ترقی ومعاشرت میں رکاوٹ ہے اوردوسری طرف اسی مذہب کے متون سے عورت کی اس آزادی اور خودمختاری کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو وہ مذہب سے بغاوت کے نتیجے میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
مرد و عورت کے صنفی کردار کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جدید غیرمذہبی معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے سماجی تعلقات زیادہ مضبوط ہوتےہیں اور عورتوں کو برابرکے مواقع ملتے ہیں،جب کہ مذہبی معاشروں میں یکساں سہولتیں میسر نہیں ہوتیں۔ مذہبی معاشروں پر تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان میں صنفی کردار کا تعین کرتے وقت عورت پر کچھ مخصوص کام تھوپ دیے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے کام سرانجام نہیں دے سکتی حالانکہ مرد اور عورت یکساں طور پر ہر کام کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں، مثلاً کھانا پکانا، صفائی کرنا، بچوں کی دیکھ بھال کرنااورگاڑی چلانا وغیرہ۔ مذہب کے زیر اثر صنفی کردار سازی کے ذریعے مرد اور عورت کو مخصوص معاشرتی کردار نبھانے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، مثلاً لڑکے کو بیٹ یا ہاکی دو، لڑکی کو گڑیا، لڑکا باہر کےکام کرے، لڑکی گھر داری کرے وغیرہ اور اس عمل میں لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ صنفی کردار کے تعین میں مذہب اور مذہبی اداروں کے علاوہ والدین، خاندان، گھر، محلہ، معاشرہ، اسکول، تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، کام کی جگہ، ریاست، حکومت اور سیاسی ادارے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے طلبہ و طالبات کو یہ تاثر دیا گیا کہ جب تک ان تمام اداروں سے مذہبی تعلیمات اورروائیتی اقدار کی بیخ کنی نہ کی جائے اس وقت تک ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
اسی باب میں شادی اور نکاح کے موضوع پر بتایا گیا کہ مذہبی معاشروں میں مرد اور عورت کو شادی کے سلسلے میں فیصلہ کن اختیار نہیں دیا جاتا۔ عموماً مرد کے اس آزادانہ فیصلے کو تو تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن عورتوں پر کئی پابندیاں عائد ہیں۔ ایک طرف قرآن و سنت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ والدین بچوں اور بچیوں کا نکاح ان کی رضامندی سے کریں اور دوسری طرف ان مغربی تصورات کی وکالت کی گئی ہے، جو مغرب میں خاندانی نظام کا خاتمہ کر چکے ہیں۔
مغرب میں فیمنسٹ تحریک کا سارا زور اس بات پر ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان خلیج پیدا کی جائے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر عورتوں کو مردوں سے نفرت کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ جو مرد، تہذیبی اقدار، ثقافت اور معاشرت پر قائم رہنے پر مصر ہیں، ان کے اس رویے کو 'زہریلی مردانگی '(Toxic Masculinity ) کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجاب بورڈ کی انٹر میڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں بھی اسی اصطلاح کو استعمال کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ ’زہریلی مردانگی‘ مردانہ برتری کا منفی رجحان ہے جس کے تحت خواتین کو مردانہ بالادستی کا احساس دلا کر ان پر جارحیت، رعب اور دبدبہ سے نظم و ضبط قائم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مردانہ برتری کے اظہار کو چونکہ معاشرہ اور مذہب تقویت دیتا ہے، اس لیے خواتین بھی اس پر یقین کر لیتی ہیں اور یہ عمل خواتین کے اکیلے سفر کرنے، حصولِ تعلیم، ملازمت کرنے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر اسلامی متون کا سہارا لیا گیا اور حضرت شعیبؑ کی بیٹیوں اور حضرت موسٰی کا قصہ اور کئی احادیث مبارکہ پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام مرد و زن کی مساوات کا درس دیتا ہے جنھوں نے مختلف شعبوں میں کامیابیاں سمیٹیں، انھیں مذکورہ باب میں طالبات کے لیے آئیڈیل قرار دیا گیا ہے۔
میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی دونوں کتب کے مذکورہ باب میں قومی و پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۰ء، جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ۲۰۱۰، کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ۲۰۱۵ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ۲۰۱۶ء کو تمام تفصیلات کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ ان قوانین کو منظور کروانے میں این جی اوز، فیمنسٹ تنظیموں اور مغرب کے سیاسی و مالی اداروں کا خاص کردار تھا۔ اس لیے طالب علموں کو ان کارناموں سے روشناس کروانا ضروری سمجھا گیا۔ طلبہ و طالبات کو بتایا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد، دنیا کے تمام پسماندہ معاشروں کا مسئلہ ہے کیونکہ مرد، خواتین کو کم تر سمجھتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین سے امتیازی سلوک، بدسلوکی، گھر میں خاوند کا ناروا رویہ،اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں والدین کی تنگ نظری وغیرہ خواتین کے لیے عام عمل ہیں۔
ان ابواب میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ عورتوں کے خلاف ہونے والی جنسی ہراسمنٹ، جنسی پیش رفت، جنسی بد سلوکی، جنسی حملہ، چھیڑ چھاڑ، برہنہ تصاویر و ویڈیوز کی اشاعت اور دیگر تمام جنسی جرائم کا آغاز مغرب میں ہوا۔ آج بھی امریکا کے ایک قومی سروے کے مطابق وہاں ہر پانچ خواتین میں سے ایک کے ساتھ اس کی زندگی میں کم ازکم ایک بار زنا یا اقدام زنا کا واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔
مطالعہ پاکستان کی ان کتب میں طالبات کو اس بات سے آگاہ کرنا بھی ضروری خیال کیا گیا ہے کہ اگر خواتین اپنی آزادی میں کوئی رکاوٹ محسوس کریں تو پنجاب کے تمام اضلاع میں موجود دارالامان کی ’مفت ہیلپ لائن‘ پر رابطہ کر سکتی ہیں اور ’عارضی پناہ گاہ‘ کے لیے درخواست بھی کر سکتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے مجرموں سے تحفظ کے لیے ایک حفاظتی حکم نامہ بھی حاصل کر سکتی ہیں، جس کو یقینی بنانے کے لیے عدالت مجرموں کو جی ایس پی ٹریکنگ بریسلٹ پہنا دے گی، جس کے بعدوہ اس عورت سے دُور رہنے پر مجبور ہوں گے۔ مجرم جب بریسلٹ اتارے گا تو مرکز انسداد تشدد برائے خواتین کو خود کار طریقے سے اطلاع مل جائے گی اور اس کے نتیجے میں مجرم کو چھے ماہ اضافی قید ہوگی۔ اگر عورت کی جان، عزّت اور وقار کو مزید خطرات لاحق ہوں تو مجرم کو گھر سے جانے کا حکم دیا جائے گا مگر عورت کو گھر سے نہیں نکالا جا سکتا۔ عدالت مجرم کو یہ حکم بھی دے سکتی ہے کہ وہ متاثرہ عورت کے مقدمے، روزگار، طبی اخراجات وغیرہ برداشت کرے۔ اور آخر میں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ تمام عورتوں، معاشرے اورریاست کو چاہیے کہ بدنامی کی وجہ سے اختیار کی جانے والی خاموشی کو ترک کریں اور کھلے عام عورتوں کی آزادی اور خودمختاری پر گفتگو کریں۔
آپ ذرا غور کریں کہ لبرل، آزاد خیال اور فیمنسٹ ماہرین کو نصابی کتب میں: قرآنی آیات، 'ملک کادفاع شہریوں کا اولین فرض ' اور اور راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید جیسے ہیروز کے ناموں کی شمولیت پر اعتراض تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ موضوعات تو دینی ماہرین، ملٹری ہسٹری، اکنامکس آف وار اورملٹری اسٹیڈیز کے ہیں، انھیں چھوٹے لیول کی درسی کتب میں شامل کرنے کا کیا جواز ہے؟ اب انھی ماہرین کو جینڈر اسٹڈیز، ایم اے اور ایم فل سوشیالوجی میں پڑھائے جانے والے فیمنزم کے نظریات اور فلسفیانہ تصورات کو ان چھوٹے لیول کی کتابوں میں داخل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی سنجیدگی سے سوچنا گوارا نہیں کیا کہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۰ء، جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ۲۰۲۰ء، کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ ۲۰۱۵ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ۲۰۱۶ء میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات ان موضوعات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
مغربی یورپ اور شمالی امریکا و کینیڈا، جہاں کے تمام تعلیمی ادارے فیمنسٹ تحریک کے کنٹرول میں ہیں، وہاں بھی یہ نظریات یونی ورسٹی لیول سے نیچے نصاب کا حصہ نہیں ہیں۔ وہاں یہ نظریات سوشل سائنسز یا وومن اسٹیڈیز و جینڈر اسٹڈیز کے گریجویٹ و انڈر گریجویٹ لیول کےمضامین میں شامل ہیں، لیکن دیگر مضامین پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ان کا مطالعہ لازمی نہیں۔ وہاں کے بہت سے ماہرین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انڈر گریجویٹ لیول کے سوشل سائنسز کے طالب علموں کو یہ تھیوریز بتا کر ان کا ذہن کیوں خراب کیا جا رہا ہے؟ طالب علموں کو یہ سکھانا کہ دنیا کو ظلم کی عینک سے کس طرح دیکھنا چاہیے، یہ صرف خطرناک ہی نہیں بلکہ خود ایک ظالمانہ فعل ہے۔ اس سے زیادہ ظلم کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ پروفیسرز حضرات آپ کو سوشیالوجی کے ہر سبق کا مطلب صرف یہ بتا رہے ہوں کہ آپ بحیثیت عورت ایک ’شکار‘ ہیں۔
یورپ اور امریکا کے ماہرین جن نظریات و تجربات کی حقیقت سمجھنے کے بعد انھیں عذاب قرار دے رہے ہیں، ہمارے مقامی لبرل و فیمنسٹ ماہرین، وہی تجربات دہرا کر اپنی قوم کو عذاب میں مبتلا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ ان تجربات سے شاید پاکستان اور اسلام کے دشمن تو خوش ہو جائیں لیکن ہماری مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور صحافتی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی پر آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمارے یہ ماہرین اس بات سے صرف نظر کیوںکر رہے ہیں کہ مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں جہاں جہاں فیمنسٹ تحریک کے زیراثر، کچھ عشرے پہلےقانون سازی ہوئی، وہاں سنگین قسم کی معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ اس قانون سازی کے تحت ہر شعبۂ زندگی میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ اہمیت اوراولیت دے دی گئی۔ ان کے خانگی قوانین میں شادی و طلاق کے امتیازی قوانین، بچوں کی حوالگی کے وقت عورت کی حمایت، عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیا دہ لمبی سزائیں، عورتوں کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ تعلیمی وظائف، عورتوں کی بیماریوں پر زیادہ فنڈز اور مردوں کی بیماریوں پر کم فنڈز مختص کرنے، عورتوں کےکہنے پر مردوں کو جبراً ناجائز بچوں کا والد قرار دینے، مردوں پر تشدد اور ریپ کے الزامات لگانے، تعلیمی امتیازات اور کئی دوسرے امتیازات شامل ہیں۔
ان امتیازی قوانین سے سفید فام مردوں میں ’مردانگی کا بحران‘ پیدا ہو گیا ہے۔ نتیجتاً وہ بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ عمل اب 'مردوں کےحقوق کی تحریک 'کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آپ غور کریں کہ جب کسی ملک اور قوم کے تمام مرد اور عورتیں اپنے اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے تو کون کس کو حقوق دے گا؟ دونوں اصناف ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوںگی تو آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت کون کرے گا؟ اس طرح توخاندانی نظام کی تباہی سے انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ نسائی حقوق کے ماہرین اور مردوں کے حقوق کے ماہرین یہ بات سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ایک صنف کے حقوق کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے دوسری صنف پر مرتب ہونے والے اثرات کو جانے اور سمجھے بغیر آپ جو کام بھی کریں گے، کبھی انسانیت پر اس کے مثبت اور دیرپا اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔
حکومت پاکستان اور وزارت تعلیم سے گزارش ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں اعلان کردہ نکات اور رہنما اصولوں کی روشنی میں تمام صوبوں کے نصاب تعلیم کو فوری پر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے اور اس میں سے لبرل، سیکولر اور فیمنسٹ نظریات کے حامل مواد کو خارج کیا جائے۔ حکومت اس عہد کی پابندی کرے کہ وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق یہاں کے عوام کو انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق بسر کرنے کی سہولیات بہم پہنچائے گی، اور بین الاقوامی سطح پر ایسا کوئی معاہدہ نہ کرے گی، جو اسلام اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہو۔