قرآن و حدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتاہے کہ ہرشخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے۔ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہےکہ ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں، ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکر ہے، جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ،یا مالی و بدنی عبادت ملی جُلی ہے، جیسے حج۔اسی بنا پر فقہا [کا] ایک گروہ اسے مالی اوربدنی عبادات دونوں میں جاری کرتا ہے اوردوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیےمخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت مالی عبادت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدئہ کلیہ میں اگر کوئی استثناء کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثناء کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حدتک وہ حکم سے نکلتا ہے۔ اسے عام کرنا میری رائے میں درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی کیونکہ شریعت میں اس کی گنجایش بھی پائی جاتی ہے۔
ایصالِ ثواب کامیت کے لیے نافع ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، تو اس کا سبب دراصل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کی نوعیت محض ایک دُعا کی ہے، یعنی ہم اللہ سے یہ دُعا کرتے ہیں کہ یہ نیک عمل جو ہم نےتیری رضاکےلیے کیا ہے اس کا ثواب فلاں مرحوم کو دیا جائے۔ اس دُعا کی حیثیت ہماری دوسری دُعائوں سے مختلف نہیں ہے۔ اور ہماری سب دُعائیں اللہ کی مرضی پر موقوف ہیں۔ وہ مختار ہے کہ جس دُعا کو چاہے قبول فرمائے اورجسے چاہے قبول نہ فرمائے۔
ایصالِ ثواب ہر ایک کےلیے کیا جاسکتا ہے۔ خواہ متوفی سے کوئی قربت ہو یا نہ ہو، اورخواہ متوفی کا کوئی حصہ آدمی کی تربیت میں ہو یا نہ ہو۔ جس طرح دُعا ہر ایک شخص کے لیے کی جاسکتی ہے، اسی طرح ایصالِ ثواب بھی ہرایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۵، عدد۵، فروری ۱۹۶۱ء، ص۴۷-۴۸)