تعلیم کیا ہے ؟ وہ عمل جس کے ذریعے ایک نسل اپنی حاصل کردہ معلومات ، تجربات ،عملی مہارتوں اور اپنے عقیدہ واطوار کو نو خیز نسل کی طرف منتقل کرتی ہے۔ پہلے ا س عمل کا زیادہ تر حصہ گھروں کے دائروں میں تکمیل پاتا تھا۔ ماں کی گود اور باپ کے فیضانِ نظر کا مکتب اکتفا کرتا تھا ۔ پھریہ عمل قبیلے یا دیہی کمیونٹی تک وسیع ہو گیا۔ بعد میںجب انسانی معلومات اور تجربات کا پھیلائو بڑھ گیا تو باقاعدہ مکتب ومدرسہ کے ادارے وجود میں آئے۔ اور اب، جب کہ شاخ در شاخ علوم کی پہنائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر شاخ بجاے خود چمن بد اماں ہے، تعلیم کاعمل یونی ورسٹیوں اور جامعات وکلیات کے بھاری بھر کم نظام کا منت کش ہو گیا ہے۔
اسی بنیادی سرمایۂ شعور سے ہر معاشرے کا کلچر بنتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ساری تہذیب تشکیل پاتی ہے ۔اس کلچر یا تہذیب کو تعلیم کے ذریعے ہر نسل دوسری نسل کی طرف بڑی احتیاط اور بڑی سر گرمی سے منتقل کرتی ہے۔ اسی تہذیب کے مطابق اس کی اجتماعیت بنتی ہے۔ اسی کے مطابق اس کا نیشنل ٹائپ بنتا ہے۔ اسی کے مطابق اس کا نظامِ اقدار ، اس کا سلسلۂ اطوار اور اس کا تصور کردار نمودار ہوتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے امتیازی تہذیبی شعور کو آیندہ نسلوں تک پہنچانے میں کوتاہی کرے تو اس کا نتیجہ بجز اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ اخلاف اپنے تہذیبی وجود کو کھو بیٹھیں، اپنا مقصد گم کر دیں ، اپنے تصورِ کردار سے محروم ہو جائیں، اپنے معتقدات کی عمل انگیز روح کو ضائع کر دیں، اور اپنی اجتماعیت کی شکست وریخت کا تماشا کریں۔
پس میں جس تہذیبی نظریۂ تعلیم پر گفتگو کر رہا ہوں ، اس کے لحاظ سے اوّلیت اس امر کو حاصل ہے کہ پورے نظام تعلیم میں اس تہذیبی شعور اور تجربے کو اوّلیت اور غلبہ حاصل ہونا چاہیے جس کے بل پر کوئی قوم قائم ہے اور جس کی تحریک ہی سے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر مزاحم قوتوں کے ہر چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہوتی ہے۔ تہذیبی نظریۂ تعلیم پر غور کرتے ہوئے ہمیں خود اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہمارا امتیازی تہذیبی وجود کیا ہے ، کیسے بنتا ہے اور اس کی بنا کیا ہے ؟
پس ہم ملت اسلامیہ سے وابستہ لوگ کائنات وحیات کا خدا پرستانہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم تمام نظریات وافکار کی آخری کسوٹی علمِ وحی کو مانتے ہیں۔ ہم خدا کے رسولوں کے اسوہ کو انسانی کرداروں کے لیے معیار سمجھتے ہیں۔ ہم حق وباطل اور خیر وشر کی ایک خاص تقسیم کے قائل ہیں۔ ہم پائیدار اخلاقی بنیادوں کے مطابق انسانِ مطلوب کا خاکہ سامنے رکھتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں انسانی مراتب اور رابطوں اور باہمی حقوق وفرائض کا ایک متعین ومخصوص معاشرتی ڈھانچا وقعت رکھتا ہے۔ ہم دولت ومحنت کا تعاون عدل واحسان کے ذریعے قائم کرتے ہیں۔ ہم مرد وزن کے دو طرفہ مساویانہ حقوق کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے ادارے کو مستحکم رکھنے کے لیے مرد کو ادارے کی لیڈر شپ پر فائز کرتے ہیں۔ اسی طرح جنگ وصلح کے حدود ، مجلسی آداب وشعائر، اور ایک مخصوص قسم کا ذوق جمال و زیبائی ہمارے تہذیبی سرمایے کے لازمی اجزا ہیں۔ ہمارے اساسی عقائد کے مطابق جو خدا پرستانہ تہذیب نمودار ہوتی ہے ، اس میں ایک خاص نہج کی ہیئت اجتماعیہ جگہ پا سکتی ہے۔
ہم پر مصیبت یہ آئی کہ ایک بیرونی قوم نے ہمیں غلامی میں جکڑ کر نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی مادّہ پرستانہ تہذیب کو ہم پر ٹھونسنے کا عمل جاری رکھا۔ اس عرصے میں ہمارے عقیدے، ہمارے مقصد اور معیارِ انسان مطلوب ، یعنی ہمارے اساسی تہذیبی شعور کو بری طرح تباہ کیا گیا۔ ہمارا پورا نیشنل ٹائپ غارت ہونے لگا۔ ہمارے امتیازی تہذیبی وجود کے تمام اجزا پراگندا ہونے لگے۔ ہمارا تصورِ اجتماعیت نگاہوں سے گم ہونے لگا، اور ہماری ملّی خودی جوتجدید واحیا کے لیے قوتِ محرکہ تھی، تعلیم کے تیزاب میں پڑ کر راکھ ہونے لگی۔ ہمیں اگر بچایا ہے تو قرآن وحدیث کے اس علم نے جو ایک مشعل کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ رہا۔ اور جس سے بہرہ مند کرنے کے لیے ہمارے ان علما ، لیڈروں، ادیبوں، مصنفوں اور صحافیوں نے اپنی محنتیں صرف کیں جو مغربی سامراج کی غلامی کے قفس میں بھی اپنی ایمانی روح کو سلامت رکھ سکے۔
ایک کے بعددوسری اور تیسری تعلیمی پالیسی پچھلی کوششوں سے بہت بہتر ہے، مگر اس کا بھی مطلوب صرف یہ ہے کہ ہر مضمون میں اسلام کے عناصر کو شامل کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب سے مستعار علوم اور افکار اور نصابیات میں جو مادّہ پرستانہ تصورِ کائنات وحیات ، نظریۂ ارتقا کے تحت انسان کا جو حیوانی تصور، نفسیاتی اور تاریخی جبریت کا جو فلسفہ ، اخلاق کا جو افادی نظریہ، ادب، سائنس اور ٹکنالوجی کا جو دیوتائی مرتبہ ، اور تحلیل وتحریم اور قانون سازی میں عوامی جذبات وخواہشات کی برتری کی جو فکر شامل ہے ، اسے تبدیل کیے بغیر آخر یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسان پیدا ہوں جن کا تقاضا اسلام کا تہذیبی نظام کرتا ہے۔
ہمیں تو ایسی یونی ورسٹیاں اور کالج درکار ہیں جن سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان اسلامی انقلاب کے سپاہی بن کر نکلیں ۔ وہ اپنے دین اور اپنے نظریات وتصورات اور اپنی تہذیب کے اطوار واقدار کی برتری کا یقین رکھتے ہوئے دنیا بھر کی اقوام کے سامنے ان کے نقیب بنیں۔ یہ اصل مطلوب اگر حاصل ہو تو علمِ ماحول اور علمِ اشیا کا جو ذخیرہ جہاں سے بھی ملے اَزخود اپنی جگہ پر نصب ہو جائے گا، لیکن اگر تہذیبی شعور اور ملّی خودی ہی زندہ وتوانا نہ ہو تو آپ اس کی کمر سے اگر سائنس یا ٹکنالوجی کی تلوار باندھ بھی دیں تو آخر بقاو ارتقا کا جہاد کیسے عمل میں آجائے گا؟ خالی سائنس اور ٹکنالوجی تو محض بے مقصد خدمت گزار فراہم کرتی ہے جنھیں کسی بھی قوم اور کسی بھی تہذیب کی گاڑی میں قلی بنا کر جوتا جا سکتا ہے۔
آج سے ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمار ا مقصد محض اسلامیات پڑھانے سے پورا نہیں ہوسکتا ، خواہ اسے ہر مضمون میں شامل کر دیا جائے، بلکہ اسلامی نظام تعلیم وہ ہو گا جو غیر اسلامی اور مادّہ پرستانہ تہذیبوں کے افکار ونظریات کے خلاف نوجوانوں کو ایمانی جہاد لڑنے کے قابل بنا سکے اور انھیں اسلام کے مکمل تہذیبی شعور سے مسلح کر سکے۔