فروری ۲۰۲۱

فہرست مضامین

’رواداری‘ کیا ہے، اور کیا نہیں!

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | فروری ۲۰۲۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

اگر ایک ہی شے کو ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں معاً سچے ہوں۔ اگر ایک ہی فعل کو ایک بُرا کہتا ہے اور دوسرا اچھا، ایک اس سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کا حکم دیتا ہے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ دونوں کی رائے صحیح ہو، دونوں برحق ہوں اور دونوں امر و نہی کا کھلا ہوا اختلاف رکھنے کے باوجود اپنے حکم میں درست ہوں۔ جو شخص ایسے متضاد اقوال کی تصدیق کرتا ہے اور ایسے متضاد احکام کو برحق قرار دیتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوگا۔ یا تو وہ سب کو خوش کرنا چاہتا ہے، یا اس نے اس مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا اور بے سوچے سمجھے رائے ظاہر کر دی۔ بہرحال دونوں صورتیں عقل اور صداقت کے خلاف ہیں اور کسی دانش مند اور حق پسند انسان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ کسی وجہ سے بھی مختلف الخیال لوگوں کی تصدیق کرے۔

رواداری یا منافقت

عموماً لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینا ’رواداری‘ ہے۔ حالانکہ یہ دراصل ’رواداری‘ نہیں، عین منافقت ہے۔ ’رواداری‘ کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ ’آپ سب حضرات برحق ہیں‘، تو اس منافقانہ اظہار رائے کو کسی طرح ’رواداری‘ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

رواداری کے حوالے سے اسلام کا نقطۂ   نظر

صحیح رواداری وہ ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ:

  • وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ۝۰۠ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ  ۝ (انعام۶:۱۰۸) یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر جن دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہو، کیونکہ اس کے جواب میں نادانی کے ساتھ ناحق یہ خدا کو گالیاں دیں گے۔ ہم نے تو اسی طرح ہر قوم کے لیے اس کے اپنے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر ان سب کو اپنے پروردگار کی طرف واپس جانا ہے۔ وہاں ان کا پروردگار انھیں بتا دے گا کہ انھوں نے کیسے عمل کیے ہیں۔
  • وَالَّذِيْنَ لَا يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ   ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا  ۝ (الفرقان۲۵:۷۲)  خدا کے نیک بندے وہ ہیں جو جھوٹ پر گواہ نہیں بنتے۔(۱) اور جب کسی نامناسب فعل کے پاس سے گزرتے ہیں تو خودداری کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
  • قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ  لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ  وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ  وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ  لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ  (الکٰفرون۱۰۹: ۱-۶) اے محمدؐ! ان سے کہہ دو کہ ’اے کافرو! نہ میں ان معبودوں کو پوجتا ہوں جن کو تم پوجتے ہو اور نہ تم اس معبود کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں۔ اور آیندہ بھی نہ میں ان معبودوں کو پوجنے والا ہوں جن کو تم نے پوجا ہے اور نہ تم اس معبود کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین‘۔
  • لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ   ۝۰ۣۙ  (البقر ہ۲:۲۵۶) دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔
  • وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّيِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ ۝  وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۡسَلٰمٌ عَلَيْكُمْ۝۰ۡلَا نَبْتَغِي الْجٰہِلِيْنَ ۝ (القصص ۲۸: ۵۴-۵۵) اوربدی کو نیکی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب کوئی نامناسب بات سنتے ہیں تو اس سے درگزر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں سے کچھ غرض نہیں رکھتے۔
  • فَلِذٰلِكَ فَادْعُ۝۰ۚ وَاسْتَقِمْ كَـمَآ اُمِرْتَ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِـعْ اَہْوَاۗءَہُمْ۝۰ۚ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنْ كِتٰبٍ۝۰ۚ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ اَللہُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۭ لَا حُجَّۃَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ۝۰ۭ اَللہُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا۝۰ۚ وَاِلَيْہِ الْمَصِيْرُ  ۝ (الشُوریٰ۴۲:۱۵) پس، تم ان کو حق کی دعوت دو اور اپنے مسلک پر جمے رہو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے اور ان کی خواہشات کی ہرگز پیروی نہ کرو اور کہو کہ’ اللہ نے جو کتاب اتاری ہے اس پر میں ایمان لایا ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے، ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی حجت نہیں۔ اللہ ہم سب کو قیامت میں جمع کرے گا اور اسی کی طرف واپس جانا ہے‘۔
  • اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۭ (النحل۱۶:۱۲۵)اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پند و نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے مباحثہ کرو۔

یہی وہ ’رواداری‘ ہے، جو ایک حق پرست، صداقت پسند اور سلیم الطبع انسان اختیار کرسکتا ہے۔ وہ جس مسلک کو صحیح سمجھتا ہے اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے گا، اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار و اعلان کرے گا، دوسروں کو اس عقیدے کی طرف دعوت بھی دےگا، مگر کسی کی دل آزاری نہ کرے گا، کسی سے بدکلامی نہ کرے گا، کسی کے معتقدات پر حملہ نہ کرے گا، کسی کی عبادات اور اعمال میں مزاحمت نہ کرے گا، کسی کو زبردستی اپنے مسلک پر لانے کی کوشش نہ کرے گا۔ باقی رہا حق کو حق جانتے ہوئے حق نہ کہنا، یا باطل کو باطل سمجھتے ہوئے حق کہہ دینا، تو یہ ہرگز کسی سچے انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اور خصوصاً لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنا تو نہایت مکروہ قسم کی خوشامد ہے۔ ایسی خوشامد نہ صرف اخلاقی حیثیت سے ذلیل ہے بلکہ اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوتی جس کے لیے انسان اپنے آپ کو اس پست منزل تک گراتا ہے۔ قرآن کا صاف اور سچا فیصلہ ہے کہ:

  • وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۝۰ۭ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۝۰ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ  ۝ (البقرہ۲:۱۲۰) یہود اور نصاریٰ تجھ سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تو ان کی ملت کا پیرو نہ بن جائے گا۔ صاف کہہ دے کہ اللہ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، ورنہ اگر تو نے اس علم کے بعد جو تیرے پاس آیا ہے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو کوئی حامی و مددگار تجھ کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔

کیا تمام مذاہب برحق ہیں؟

’جھوٹی رواداری‘ کا اظہار تو خیر سیاسی اغراض کے لیے کیا جاتا ہے اور اس دَور میں یہ ’جائز‘ ہے۔ کیونکہ مغربی ارباب ریاست کی کوششوں سے مدت ہوئی کہ اخلاق اور سیاست کے درمیان مفارقت کرا دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کے قابل ان ’محققین‘ کا حال ہے، جو عقل کو سوچنے اور فکر کو حرکت کرنے کی زحمت دیئے بغیر اپنی مذہبی تحقیقات کا یہ عجیب نظریہ ظاہر فرمایا کرتے ہیں کہ ’’تمام مذاہب برحق ہیں‘‘۔ یہ جملہ اکثر ان لوگوں کی زبان سے سنا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ’ہم کوئی  بات زبان سے نہیں نکالتے اور نہ تسلیم کرتے ہیں جب تک کہ اس کو میزانِ عقل میں تول نہ لیں‘۔ لیکن میزانِ عقل کا حال یہ ہے کہ وہ ان کی اس تحقیقِ انیق کو پرِ کاہ کے برابر بھی وزن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ جن مختلف مذاہب کو معاً برحق ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے، ان کے اصول میں سیاہ اور سفید کا کھلا ہوا فرق موجود ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ’خدا ایک ہے‘۔ دوسرا کہتا ہے ’دو ہیں‘۔ تیسرا کہتا ہے ’تین ہیں‘۔ چوتھا کہتا ہے ’بہت سی قوتیں خدائی میں شریک ہیں‘۔ پانچویں کی تعلیم میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچوں سچے ہوں؟

ایک انسان کو خدائی کے مقام میں لے جاتا ہے۔ دوسرا خدا کو کھینچ کر انسانوں کے بیچ میں اتار لاتا ہے۔ تیسرا انسان کو عبد اور خدا کو معبود قرار دیتا ہے۔ چوتھا عبد اور معبود دونوں کے تخیل سے خالی ہے۔ کیا صداقت میں ان چاروں کے لیے اجتماع کی گنجایش نکل سکتی ہے؟ ایک نجات کو صرف عمل پر موقوف رکھتا ہے۔ دوسرا نجات کے لیے صرف ایمان کو کافی سمجھتا ہے۔ تیسرا ایمان اور عمل دونوں کو نجات کے لیے شرط قرار دیتا ہے۔ کیا یہ تینوں بیک وقت صحیح ہوسکتے ہیں؟ ایک نجات کی راہ دنیا اور اس کی زندگی سے باہر نکالتا ہے۔ دوسرے کے نزدیک نجات کا راستہ دنیا اور اس کی زندگی کے اندر سے گزرتا ہے۔ کیا یہ دونوں راستے یکساں درست ہوسکتے ہیں؟ ایسے متضاد امور کو صداقت کی سند عطا کرنے والی شے کا نام اگر عقل ہے تو پھر جمع بین الاضداد کو محال قرار دینے والی شے کا نام کچھ اور ہونا چاہیے۔

مذاہب میں اشتراک کی حقیقت

مذاہب میں جو تصورات مشترک نظر آتے ہیں، افسوس ہے کہ سطحی نظر رکھنے والے ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اور محض سطح پر نگاہ ڈال کر چند غلط مقدمات کو غلط طریقے سے ترتیب دے کر غلط نتائج نکال لیتے ہیں۔ حالانکہ دراصل یہ اشتراک ایک اہم حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ پتہ دیتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام مذاہب ایک ہی اصل سے نکلے ہیں۔ ان تمام تصورات اور تعلیمات کا مبدأ ایک ہے۔ کوئی ایک ذریعۂ علم ہے جس نے انسان کو مختلف ممالک، مختلف اوقات اور مختلف زبانوں میں، ان مشترک صداقتوں سے روشناس کیا۔ کوئی ایک بصیرت ہے جو مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے اور سیکڑوں ہزاروں برس کا فصل رکھنے والے لوگوں کو حاصل ہوئی، اور اس بصیرت سے وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے نتائج تک پہنچے۔ لیکن مذاہب جب اپنی اصل اور اپنے مبدأ سے دُور ہوگئے تو ان میں کچھ خارجی تصورات اور اجنبی معتقدات و تعلیمات نے راہ پالی، اور چونکہ یہ بعد والی چیزیں اس مشترک مبدأ اور مشترک بصیرت سے ماخوذ نہ تھیں، بلکہ مختلف طبائع، مختلف رجحانات اور مختلف علمی و عقلی مراتب رکھنے والے انسانوں کی طبع زاد تھیں، اس لیے انھوں نے ان مشترک بنیادوں پر جو عمارتیں تعمیر کیں، وہ اپنے نقشوں اور اپنی وضع و ہیئت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔

پس، حق اور صدق کا اگر حکم لگایا جاسکتا ہے تو اس اصل مشترک پر لگایا جا سکتا ہے جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے نہ کہ ان مختلف تفصیلی صورتوں اور ہئیتوں پر، جن میں موجودہ مذاہب پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ حق ایک جنس بسیط ہے، اس کے افراد میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ہم سیاہ اور سپید، سرخ اور سبز پر لفظ ’رنگ‘ کا اطلاق یکسانی کے ساتھ کرتے ہیں، اس طرح خدا ایک ہے اور خدا دو ہیں اور خدا کروڑوں ہیں کے مختلف احکام پر لفظ ’حق‘ کا اطلاق نہیں کرسکتے۔

یہ بات کہ تمام مذاہب کی اصل ایک ہے، اور ایک صداقت ہے جو مختلف قوموں پر مختلف زمانوں میں ظاہر کی گئی، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کتاب میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہر قوم میں خدا کے رسول اور پیغامبر آئے ہیں: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا  (النحل۱۶:۳۶)۔ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ  ۝  (فاطر۳۵:۲۴)۔یہ تمام انبیاء و رُسُل ایک سرچشمے سے صداقت کا پیغام حاصل کرتے تھے:جَآئُ وْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ ۝ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۴)۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا، اور وہ یہ تھا: اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ  ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’خدا کی بندگی کرو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو‘‘۔سب پر خدا کی طرف سے ایک ہی وحی آئی تھی:

  • وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ۝ (انبیاء۲۱:۲۵) اے محمدؐ! تم سے پہلے ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس کی طرف یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، لہٰذا تم میری بندگی کرو۔

ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ ہم پیش کر رہے ہیں، وہ ہماری اپنی عقل و فکر کا نتیجہ ہے، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے:

  • وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۝ وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا ط   (ابراہیم۱۴:۱۱-۱۲) ہم یہ قدرت نہیں رکھتے کہ خدا کے اذن کے بغیر کوئی حجت لاسکیں۔ جو ایمان لانے والے ہیں وہ تو خدا ہی پر بھروسا رکھتے ہیں اور ہم کیوں نہ خدا پر بھروسا رکھیں،جب کہ اسی نے ہم کو ہدایت بخشی ہے۔

پھر ان میں سے کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم ہماری بندگی کرو، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ خدا پرست بن جائو:

  • مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ  (اٰل عمرٰن۳:۷۹)کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ جب اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا کرے تو وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کے بجائے میرے بندے بن جائو، بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ خدا پرست بنو۔

یہ تھی وہ مشترک تعلیم جو تمام قوموں کو ان کے مذہبی رہنمائوں نے دی تھی۔

مذاہب میں اختلاف کی نوعیت

قرآن مجید کا بیان ہے کہ اوّل اوّل تمام انسان ایک ہی امت تھے، یعنی ایک خالص انسانی فطری حالت (State of Nature)میں تھے اور ان کے پاس خدا کی طرف سے راہِ راست کا علم آیا ہوا تھا۔(۲)  پھر ان میں اختلاف ہوا، اور اختلاف اس وجہ سے ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں نے اپنی حد ِجائز سے گزرنے، اپنے فطری مرتبے سے زیادہ بلند مرتبہ حاصل کرنے، اور اپنے فطری حقوق سے بڑھ کر حقوق قائم کرنے کی کوشش کی۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آنے شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو حق کا صحیح علم دیں، اور ان کے درمیان اجتماعی عدل (Social Justice) قائم کریں۔ تمام انبیاء کا دنیا میں یہی مشن رہا ہے۔ جن لوگوں نے اس مشن کو قبول کیا اور نبی کے دیئے ہوئے علم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی، اور نبی کے بتائے ہوئے قانون کا اتباع کیا، صرف وہی حق پر ہیں اور باقی سب باطل پر ___وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کے اتباع سے انکار کیا، اور وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کی تعلیم کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیا:

  • وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط (یونس ۱۰:۱۹)لوگ دراصل ایک ہی امت تھے، پھر مختلف ہوگئے۔
  • كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۝۰ۣ  فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝۰ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍo (البقرہ۲:۲۱۳) لوگ پہلے ایک ہی امت تھے (پھر جب ان میں اختلاف ہوا) تو اللہ نے نبیوں کو بھیجا جو بشارت دینے والے اور متنبہ کرنے والے تھے، اور ان کے ساتھ برحق کتاب اتاری تاکہ وہ کتاب لوگوں کے درمیان ان معاملات کا فیصلہ کر دے، جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا۔ اور یہ اختلاف جو لوگوں میں ہوا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انھوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کرنی چاہی،(۳) ورنہ اللہ کی طرف سے تو ان کے پاس پہلے ہی واضح ہدایات آچکی تھیں۔ پھر جن لوگوں نے نبیوں اورکتابوں کی بات مان لی، ان کو اللہ نے اس حق کی راہ دکھا دی، جس میں لوگوںکے درمیان اختلاف ہوا تھا اور اللہ جس کو چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت بخشتا ہے۔
  • لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ  (الحدید ۵۷:۲۵)   ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اتاری اور ان کو ترازو(۴) دیا، تاکہ لوگ انصاف کے طریقے پر قائم ہوں، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں زبردست قوت بھی ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی۔
  • فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ۝  وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝  (طٰہٰ ۲۰: ۱۲۳-۱۲۴)پھر جو میری ہدایت پر چلا وہ نہ راہِ راست سے بھٹکے گا اور نہ بدبخت ہوگا۔ اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو دنیا میں اس کی زندگی تنگ ہوگی اور آخرت میں ہم اس کو اندھا اٹھائیں گے۔

یہ ’قرآن کا نظریۂ تاریخ‘ یا ’اخلاقی تعبیر تاریخ‘ (Moral Interpretation of History) ہے، جو تمدنی اختلافات کے معمے کی طرح مذہبی اختلافات کے معمے کو بھی نہایت تشفی بخش طریقے سے حل کر دیتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے پاس خدا کے نبی اسی لیے آتے رہے کہ جس فطری مسلک حیات سے وہ اپنی ’بغاوت‘ کے سبب ہٹ گئی تھیں، اسی کی طرف پھر انھیں لے جائیں اور انھیں حق اور عدل کے طریقے پر قائم کر دیں۔ مگر وہی بغاوت کا جذبہ جو ان کی گمراہی کا اصل سبب تھا، انھیں بار بار ہٹا کر پھر ٹیڑھے راستوں کی طرف لے جاتا رہا۔ پس، جو تھوڑے بہت صحیح تصورات اور اخلاق کے برحق اصول دنیا کی مختلف قوموں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے وہ باقی ماندہ اثرات ہیں، جو اپنی ذاتی قوت کی وجہ سے قوموں کے اذہان اور ان کی زندگی میں جذب ہو کر رہ گئے۔

صرف اسلام دینِ حق ہے!

اس کے بعد قرآن جو دعویٰ پیش کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس ’’اسلام‘‘ کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ وہی ’اصل دین‘ ہے، جس کو ابتدا سے تمام قوموں میں تمام انبیا علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوئی نرالا پیغام لے کر نہیں آئے ہیں، جو پہلے کبھی پیش نہ کیا گیا ہو: قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ(احقاف۴۶:۹) ’’اے نبیؐ! ان سے کہہ دوکہ میں کوئی نرالا پیغامبر نہیں ہوں‘‘، بلکہ آپ کا پیغام وہی ہے جو ہر نبی نے ہر قوم تک ہر زمانے میں پہنچایا ہے: اِنَّـآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ ج (النساء۴:۱۶۳ ) ’’ہم نے تمھاری طرف وہی پیغام وحی کیا ہے جو نوحؑ اور ان کے بعد کے نبیوں ؑ پر وحی کیا تھا‘‘۔

اس پیغام سے عرب، مصر، ایران، ہندستان، چین، جاپان، امریکا، یورپ، افریقا، غرض کوئی سرزمین محروم نہیں رکھی گئی۔ سب جگہ اللہ کے رسولؑ، اللہ کی کتابیں لے کر آئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ بدھ، کرشن، رام، کنفیوشس، زردشت، مانی، سقراط، فیثاغورث وغیرہم انھی رسولوں میں سے ہوں۔  لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اور ان دوسرے پیشوائوں میں فرق یہ ہے کہ ان کی اصل تعلیمات تولوگوں کے اختلافات میں گم ہوگئیں، مگر آنحضرتؐ نے جو کچھ پیش فرمایا وہ اصلی شکل میں محفوظ ہے۔

پس، حقیقت یہ ہے کہ ’اسلام‘ مذاہب میں سے ایک مذہب نہیں ہے بلکہ نوع انسانی کا اصل مذہب یہی ہے، اور باقی سب مذاہب اسی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ مذاہب میں جو کچھ ’حق‘ اور ’صدق‘ پایا جاتا ہے، وہ اسی اصل اسلام کا بچا کھچا اثر ہے جو سب کے ہاں آیا تھا اور اختلافات میں گم کر دیا گیا۔ جس مذہب میں اس باقی ماندہ حق کی مقدار جتنی زیادہ ہے، اس میں اتنا ہی زیادہ ’اسلام‘ موجود ہے۔ رہے وہ اختلافات جو اصل ’اسلام‘ کے خلاف ہیں، تو یہ سب یقیناً باطل ہیں اور ان پر ’حق‘ کا حکم لگانا صریح ظلم ہے۔

بجائے اس کے کہ ہم اس جھوٹی رواداری کا مظاہرہ کریں، ہمیں تو اپنے تمام انسانی بھائیوں سے یہ کہنا چاہیے کہ ’’دوستو، براہ کرم تعصب اور تنگ نظری کو چھوڑ دو اور حق و باطل کی آمیزشوں پر جمے رہنے کے بجائے اس چیز کو قبول کرو، جو خالص اور بے آمیز حق ہے۔ حق کسی نسل یا قوم یا ملک کی موروثی جائیداد نہیں ہے، بلکہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ یہ میراث خداوند عالم کی طرف سے سب ملکوں اور قوموں اور نسلوں کو بانٹی گئی تھی۔ دوسروں نے اسے اگر گم کردیا اور اس کے ساتھ مخلوقات پرستی کے، ظلم و ناانصافی کے اور بے جا امتیازات کے زہر ملا لیے تو یہ ایک بدقسمتی تھی۔ ہماری اور تمھاری سب کی بدقسمتی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ تم اس بدقسمتی کے ساتھ خواہ مخواہ چمٹے رہو صرف اس وجہ سے کہ تمھارے آبا و اجداد اس غلطی کے مرتکب ہوگئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس میراث کو پاکر جوں کا توں پہنچا دیا اور اس کے اندر کسی مخلوق پرستی کا، کسی ظالمانہ اور غیر منصفانہ رسم و رواج کا اور کسی قسم کے بے جا امتیازات کا زہر شامل نہ ہوسکا، تو یہ ایک خوش قسمتی ہے، ہماری اور تمھاری اور سب نوع انسانی کی خوش قسمتی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو اور اس سے فائدہ اٹھانے میں صرف اس لیے تامل نہ کرو کہ خدا کی یہ نعمت ایک عرب کے ذریعے سے تمھیں مل رہی ہے۔ حق تو اسی طرح کی عالمگیر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جس طرح ہوا، پانی اور روشنی اس کی عالم گیر نعمتیں ہیں۔ پھر اگر ہوا سے تم محض اس لیے ناک بند نہیں کرلیتے ہو کہ وہ مشرق سے آرہی ہے، پانی کو تم اپنے حلق سے اتارنے میں صرف اس بنا پر تامل نہیں کرتے ہو کہ اس کا چشمہ فلاں سرزمین میں واقع ہے، اور روشنی سے فائدہ اٹھانے میں تم کو صرف اس وجہ سے کوئی تامل نہیں ہوتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے چراغ سے نکل رہی ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ خالص حق کی جو نعمت تم کو محمدؐ عربی کے ذریعے سے مل رہی ہے اس کو لینے میں تم صرف اس لیے تامل کرو کہ اس کا پیش کرنے والا تمھاری سرزمین میں پیدا نہیں ہوا ہے‘۔[جون۱۹۳۴ء]

  _______________

حواشی

(۱)        ہروہ فعل جو حق کے خلاف ہو جھوٹ کی تعریف میں آجاتا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں مشرکانہ اعمال ہوتے ہوں یا جہاں مُلحد انہ خیالات ظاہر کیے جاتے ہوں، یا جہاں فحش اوربے حیائی کا ارتکاب ہوتا ہو، یا جہاں ظلم اورفسق کیا جاتا ہو، وہاںدراصل جھوٹ کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جہاں کسی انسان یا دوسری مخلوق کو خدا بناکر انسان اس کے آگے بندگی کرتا ہو، وہاں بھی جھوٹ کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ یہ جھوٹ کا وسیع مفہوم ہے اوراس جھوٹ کے گواہ نہ بننے سے مراد یہ ہے کہ مومن ایسے مقامات پر قصداً نہ جائے گا کہ ان افعال کو دیکھے اور ان کا شاہد بنے۔

(۲)        یہ نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آج کل کے ’نظریۂ ارتقا‘ اورفلسفۂ تاریخ کے برعکس قرآنِ مجید کا بیان یہ ہے کہ زمین پر نوعِ انسانی کا آغاز جہالت کی تاریکی میں نہیں ہوا بلکہ خداداد علم کی روشنی میں ہوا تھا۔ خدا نے سب سے پہلے انسان، یعنی آدم علیہ السلام کو پیغمبر بنایا تھا اور ان کو الہام کےذریعے سے وہ علم دےدیا تھا جو زمین پر صحیح زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری تھا۔

(۳)        آیت میں قرآن نے لفظ ’بغی‘ استعمال کیا ہے، جس کے معنی اپنی جائز حدسے گزرنے اور زیادتی اورسرکشی کرنے کے ہیں۔ قرآنِ مجید تمام اعتقادی گمراہیوں اوراجتماعی ظلم (Social Injustice) کی بنااس کوقراردیتا ہےکہ بعض انسانوں میں اپنی حد سے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، مثلاً بعض انسان دوسرے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں اور ان سے اپنی بندگی کراتے ہیں۔ بعض خودتو خدا بننے کی ہمت نہیں رکھتے مگر کسی بُت یا خیالی دیوتا یا کسی قبر کے پُجاری یا مجاور بن جاتے ہیں اور ان معبودوں کے واسطے سے لوگوں پر اپنا اقتدار جماتے ہیں۔ بعض مذہبی عہدہ دار بن کر لوگوں کی فلاح و نجات کے ٹھیکے دار بنتے ہیں اور اس طرح برہمنیت اور پاپائیت وجود میں آتی ہے۔ بعض اپنی بہتر مالی حالت سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر معاشی لوٹ کی مختلف صورتیں اختیار کرتے ہیں ۔ غرض یہ کہ انسان کو فطری حالت سے نکال کر اعتقادی اور سماجی حیثیات سے اختلاف میں مبتلاکرنے والی چیز دراصل یہی ’بغی‘ ہے۔

(۴)        ’ترازو‘ سے مراد وہ کمال درجے کا متوازن (Well Balanced) نظامِ اجتماعی ہے، جو شریعت ِ الٰہی کی صورت میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجا گیا تاکہ انسانوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔